دفتر الفضل کی انمول یادیں

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 22؍نومبر2025ء)
مکرم مرزا محمد اقبال صاحب نے 1990ء تا 1998ء دفتر الفضل میں کام کرنے کی توفیق پائی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں دفتر الفضل کی یادوں کے حوالے سے آپ کا مضمون شامل اشاعت ہے۔

آغا سیف اللہ صاحب اور نسیم سیفی صاحب

مضمون نگار لکھتے ہیں کہ 1990ء کے رمضان میں مکرم حافظ محمد صدیق صاحب تراویح پڑھانے کراچی گئے اُن کی جگہ ایک ماہ کے لیے مجھے عارضی طور پر دفتر الفضل میں بھیجا گیا۔ محترم نورمحمد نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے پروف ریڈنگ کا کام مجھے دیا۔ اس کام کا مجھے پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا تاہم میراکام آپ کو پسند آیا لہٰذا تھوڑے عرصے بعد ہی مجھے اپنے دفترمیں مستقل بلالیا۔ مَیں نے آپ کو بہت ہمدرد، ملنسار اور ماتحتوں سے اچھا سلوک روا رکھنے والا افسر پایا۔ مکرم آغا سیف اللہ صاحب مینیجر تھے۔ مَیں اُنہیں ناصر ہوسٹل جامعہ احمدیہ میں اکٹھے رہنے کی وجہ سے جانتا تھا۔ مکرم سیفی صاحب کے ساتھ اُن کے بڑے دوستانہ اور برادرانہ مراسم تھے۔ مکرم یوسف سہیل شوق صاحب مرحوم نائب ایڈیٹر تھے۔ ایڈیٹوریل سٹاف میں مکرم عبدالمغنی زاہد صاحب، مکرم عبدالستار خاں صاحب مربی سلسلہ ، مکرم سید ظہور احمد شاہ صاحب مرحوم اور مکرم غلام مصطفیٰ صاحب کاپی پیسٹر شامل تھے۔ پروف ریڈنگ میں میرے علاوہ مکرم میاں عبدالمجید صاحب مرحوم تھے جو مکرم میاں عبدالحٔی صاحب مرحوم سابق مربی انڈونیشیا کے چھوٹے بھائی تھے۔ کاتب حضرات مکرم منور احمد صاحب بنگالی، مکرم محمداعظم صاحب لنگاہ، مکرم مظفر احمد صاحب بنگالی، مکرم سید تجمل حسین بخاری صاحب اور مکرم ماسٹر منظور احمد صاحب تھے جو برآمدہ میں صفوں پر بیٹھ کر کتابت کیا کرتے تھے۔ 1993ء میں کمپیوٹر آیا تو اس کے انچارج عبدالباسط صاحب تھے، ان کے ساتھ نصیر احمد صاحب چودھری اور شفیق احمد صاحب کمپوزنگ کا کام کرتے تھے۔

الفضل ربوہ کا عملہ جو اسیران راہ مولیٰ بنا

دفتر کا ماحول بڑا ہی خوشگوار تھا۔ مکرم یوسف سہیل شوق صاحب اور مکرم آغا صاحب کی آپس میں طنزومزاح اور شستہ مذا ق والی نوک جھونک اس ماحول کو مزید خوشگوار بنادیا کرتی تھی۔ یہ دونوں آپس میں بڑے بےتکلّف دوست تھے اورہم نوالہ ہم پیالہ کے مصداق بھائی بنے ہوئے تھے۔
مکرم سیفی صاحب اور مکرم یوسف سہیل شوق صاحب کی راہنمائی اور ذاتی دلچسپی نے مجھے اسی قابل بنا دیا کہ مضمون بھی تحریر کرسکوں۔ چنانچہ قریباً آٹھ سال میں اندازاً 60؍مضامین مختلف موضوعات پر شائع ہوئے۔ مکرم سیفی صاحب کی خواہش تھی کہ ان مضامین کو کتابی شکل دی جائے تو وہ دیباچہ لکھیں۔
ضیاءالحق نے 1984ء میں محض ذاتی مذہبی تعصب و نفرت میں آرڈیننس جاری کیا تو مکرم قاضی منیر احمد صاحب پرنٹر، مکرم آغا سیف اللہ صاحب پبلشر و مینیجر اورمکرم نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر الفضل پر آئے روز پولیس کی طرف سے مختلف مقدمات بنتے رہتے تھے۔ نتیجۃً یہ تینوں گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو جاتے مگر سادہ کپڑوںمیں ملبوس پولیس دفتر اور گھروں پر چھاپے مارتی رہتی اور آخر گرفتار کرلیتی۔ ماہ رمضان تھا جب ان تینوں کو کبھی تھانہ ر بوہ کی چاردیواری میں مقید رکھا جاتا اور کبھی چنیوٹ کی حوالات میں نظربند کردیا جاتا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ بقول اکبر الٰہ آبادی ؎

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

صعوبتیں اور تکالیف برداشت کرنے کے 4؍سال بعد مکرم سیفی صاحب تو 19؍مارچ 1999ء کو وفات پاگئے جبکہ دوسرے دونوں بزرگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
مکرم سیفی صاحب اردو و انگریزی ہر دو زبانوں میں تحریر و تقریر میں پورا ملکہ رکھتے تھے اور فی البدیہہ تقریر کیا کرتے تھے۔ قادرالکلام مقرر اور ایک نامور شاعر بھی تھے۔ پاکستان کی بعض مایہ ناز صحافتی شخصیات گاہے گاہے ادارہ الفضل میں تشریف لاتی رہتی تھیں جیسے منو بھائی صاحب اور مستنصر حسین تارڑ صاحب وغیرہ ۔ آپ نے دونوں زبانوں میں کئی کتب تحریر فرمائیں۔ نائیجیریا میں قیام کے دوران The Truth جاری فرمایا جو آج بھی جاری ہے۔ تقریباًساڑھے دس سال آپ الفضل کے ایڈیٹر رہے۔ باوجود پیرانہ سالی کے اپنے فرائض بڑی محنت کے ساتھ بطریق احسن سر انجام دیتے رہے۔ اس دوران آپ کی اہلیہ محترمہ سکینہ سیفی صاحبہ وفات پاگئیں تو اس صدمہ کو بہت محسوس کیا اور جدائی کا دکھ تھا کہ نتیجۃً دل کے مرض نے آپکڑا اور صرف ڈیڑھ سال بعد خود بھی وفات پاگئے۔
محترم سیفی صاحب کو خود لکھنے اور دوسروں کو ترغیب دلانے کا اس قدر شوق تھا کہ آپ کی وفات سے ایک روز قبل خاکسار عیادت کے لیے حاضر ہوا تو اس آخری ملاقات میں بھی آپ نے مجھے لکھتے رہنے کی تلقین فرمائی۔ الفضل سے آپ کی فراغت 11؍مارچ 1998ء کو ہوئی تھی جس کے بعد مکرم عبدالسمیع خان صاحب نے اس ذمہ داری کو سنبھالا۔ الفضل کے مددگار کارکنان مکرم غلام رسول صاحب اور مکرم منیر احمد صاحب عرف لالہ جی بھی ہمیشہ مجھے یاد رہیں گے۔
30؍ستمبر 1998ء کو ادارہ حدیقۃالمبشرین کا جب اختتام ہوا تو دفتر الفضل سے وکالتِ دیوان تحریک جدید نے مجھے واپس بلالیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں