آنحضورﷺ کی سیرت اور الفضل کا کردار

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24؍جولائی 2024ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں شامل اشاعت مکرم فضیل عیاض احمد صاحب کے مضمون میں آنحضورﷺ کی ناموس کی حفاظت اور آپؐ کی سیرت سے دنیا کو روشناس کروانے میں الفضل اخبار کے کردار کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

مسجد نبوی مدینہ منورہ

جس دَور میں ہندوستان بھر میں عیسائیوں اور آریوں کی طرف سے خصوصاً اسلام اور آنحضورﷺ کی ذات اقدس کو نشانہ بنایا جارہا تھا بلکہ ان حملوں کا دفاع کرنے کی بجائے مسلمانوں کے علماء عیسائیت کی آغوش میں جارہے تھے چنانچہ مولوی عمادالدین تب پادری عمادالدین اور عبداللہ، عبداللہ آتھم بن کر گرجوں میں کھڑے ہوکر مسلمانوں کو للکار رہے تھے۔ نہایت دلآزار کتب میں آنحضورﷺ اور ازواج مطہّرات پر رقیق حملے کیے جارہے تھے۔ ایسے میں ایک روح تڑپ کر اور ایک دل گداز ہوکر آگے بڑھا اور ماہی بےآب کی طرح بےچین ہوکر ان حملوں کے آگے چٹان بن کر کھڑا ہوگیا۔ یہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تھے جنہوں نے اپنے قلم معجز رقم سے وہ عظیم الشان لٹریچر پیدا کردیا جس کے بارے میں غیر بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا: ’’ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشّان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے۔ مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہادکرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہوکر اسلام کی طرف سے فرضِ مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادرگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایتِ اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا۔ (اخبار ملّت لاہور۔ ۷؍جنوری۱۹۱۱ء)
خدمتِ دین کی اس روایت کو آپؑ کی اتّباع میں اُن مخلصین نے جاری رکھا جو آپؑ کی قوّتِ قدسیہ اور فیضِ علمی و روحانی سے مستفیض تھے۔ چنانچہ خلافتِ اولیٰ کے بابرکت دَور میں حضرت مسیح موعودؑ کے فرزند دلبند سیّدنا حضرت محمود نے الفضل جاری کرکے خدمت اسلام کا حق ادا کردیا۔ اسلام اور آنحضورﷺ کی ذات گرامی پر ہونے والے حملوں کا دفاع کرنے کے لیے اہل قلم احمدیوں کی وہ جماعت سامنے آئی جو نہ صرف والہانہ محبت، دعا اور جوشِ عشق سے سرشار تھی بلکہ اُن کے ہاتھوں میں وہ قلمی ہتھیار موجود تھے جن کا خمیر عشق محمدمصطفیٰﷺ سے اٹھایا گیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے قلم سے نکلنے والے مضامین نہ صرف عشق محمد مصطفیٰﷺ سے مملو تھے بلکہ اپنے اندر عارفانہ رنگ بھی رکھتے تھے۔
یہ امر بھی نہایت حیرت انگیز ہے کہ سیرۃالنبیﷺ کے حوالے سے الفضل کے مضمون نگاروں میں احمدیوں کے علاوہ مشہور مسلمان قلمکار مثلاً خواجہ حسن نظامی، ہندو قلمکار مثلاً لالہ رام چندجی، آریہ پروفیسر رام دیو اور سکھ قلمکار مثلاً ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی دکھائی دیتے ہیں۔
۱۹۲۸ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ ہائے سیرۃالنبیﷺ منانے کی تحریک فرمائی اور اس کے ساتھ ہی الفضل نے ’’خاتم النبیّین نمبر‘‘ شائع کرنے شروع کیے جن میں اب تک ہزاروں مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ (مضمون نگار نے ۱۹۱۳ء سے ۱۹۶۵ء کے دوران سیرۃالنبیﷺ کے حوالے سے شائع کیے جانے والے مضامین کی فہرست بھی دی ہے۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں