روزنامہ الفضل۔اشاعت کے 98سال
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 9؍ستمبر2024ء)
انگریزی اخبار’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘9؍اکتوبر2011ء کے سنڈے میگزین میں مکرمہ صباامتیاز صاحبہ کا ایک مضمون بعنوان ’’روزنامہ الفضل۔اشاعت کے 98سال‘‘شائع ہوا تھا۔ اس مضمون کا اردو ترجمہ مکرم طارق حیات صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ۱۹۱۳ء میں جماعت احمدیہ کا اخبار ’’روزنامہ الفضل‘‘ ایک ’’ہفت روزہ‘‘ کے طور پر جاری ہوا تھا اور آج تقریباً ایک صدی کا سفر طے کرنے کے بعد بھی یہ اخبار جاری ہے باوجودیکہ اس کو پابندیوں، دھمکیوں اور قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بطور خاص احمدیوں کے لیے بنائے جانے والے قوانین کا شاخسانہ ہیں۔ چنانچہ اس اخبار کے دفتر میں ان قوانین کا اثر بآسانی نظر آتا ہے۔ مثلاً دیگر اشاعتی اداروں میں تو پروف ریڈر واقعاتی اور گرائمر کی اغلاط کی نشاندہی پر مامور ہوتے ہیں مگر یہاں ۱۹۸۴ء سے دیوار پر ایک چارٹ آویزاں ہے جس پر اُن الفاظ کی فہرست درج ہے جو الفضل میں استعمال نہیں ہوسکتے مثلاً مسلم، اذان، مسجد اور تبلیغ وغیرہ۔ ان الفاظ کی جگہ نقطے لگادیے جاتے ہیں اور قاری خود اندازہ لگاتا ہے کہ وہاں کونسا لفظ مناسب ہے۔ اس کے باوجود اخبار کے پرنٹر اور پبلشر پر ایک سو سے زائد مقدمات قائم کیے جاچکے ہیں۔
اگرچہ اخبار صرف ’’احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لیے‘‘ شائع ہوتا ہے اور یہ الفاظ اس کے سرورق پر بھی رقم ہیں مگر اس اخبار پر اعتراض کرنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو صرف اخبار کی پیشانی پر درج نام دیکھ کر ہی غیظ و غضب سے بھر جاتے ہیں۔ چنانچہ قانونی طور پر اس اخبار کی اشاعت متعدد مرتبہ رکوائی جاچکی ہے۔ پہلی بار ۱۹۵۳ء میں الفضل کا پرنٹنگ پریس ایک سال کے لیے سِیل کردیا گیا تھا۔
قومی اخبارات میں احمدیوں کے خلاف مسلسل خبریں شائع کی جاتی ہیں۔ مثلاً صرف ۲۰۱۰ء میں لاہور سے شائع ہونے والے قومی اخبار میں کُل ۱۴۶۸ خبریں شائع ہوئیں لیکن یہی اخبارات جماعت احمدیہ کی طرف سے بھیجی جانے والی تردید کو قیمت وصول کرکے بھی شائع نہیں کرتے۔
موصوفہ مزید لکھتی ہیں کہ دفتر الفضل والوں کی طرف سے مجھے جو اخبار اور کتب دی گئی تھیں اُن کو کارکنان نے ایک خاکی لفافے میں لپیٹ کر اچھی طرح محفوظ کردیا تھا تاکہ مَیں کسی چیکنگ کی صورت میں بچ جاؤں اور مجھے بھی احمدیوں کی طرح ’’گستاخی‘‘ کے الزامات میں دھرنہ لیا جائے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مجھے تو صرف چند گھنٹوں کے لیے ان مطبوعات کو چھپاکر رکھنا تھا جبکہ الفضل کا عملہ اور قارئین تو روزانہ ہی اس امتحان سے گزرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو جلد ختم ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔