سلام – عبدالسلام
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 4؍اگست 2025ء)
جناب ڈاکٹر عادل انجم صاحب نے بوسٹن یونیورسٹی اور فلیچر کالج آف لاء اینڈ ڈپلومیسی سے انٹرنیشنل ریلیشنز اور پبلک پالیسی میں تعلیم حاصل کی۔ آپ معروف یونیورسٹی LUMS کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی یاد میں تحریر کیے گئے آپ کے ایک مضمون کا ترجمہ جناب آر ایس بھٹی کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍مارچ2014ء میں شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 29؍جنوری کا دن بہت سے پاکستانیوں کو یاد نہیں رہے گا یا وہ یاد نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر محمد عبدالسلام کی تاریخ پیدائش ہے۔
تصور کریں 10؍دسمبر1979ء کو سٹاک ہوم کے ایک ہوٹل کے مختلف کمروں میں دنیا کی ذہین ترین شخصیات سویڈن کے بادشاہ سے نوبیل انعام وصول کرنے کے لیے تیار ہورہی ہیں۔ایک کمرے میں گھنی داڑھی والا پاکستانی کالی شیروانی، سفید شلوار اور سنہری کام والا کھسہ پہنے پگڑی باندھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کبھی وہ اس کام میں ماہر تھے مگر اب بھول چکے ہیں اسی لیے پاکستانی سفارت خانے سے ایک باورچی کو بھی مدد کے لیے بلوایا گیا لیکن وہ بھی کچھ زیادہ مدد نہ کرسکا۔ آخر ہمارے ماہر طبیعیات سے جو کچھ خود سے ہوسکتا تھا انہوں نے کیا۔ اُس دن کی فوٹیج میں آپ محسوس کریں گے کہ وہ کچھ زیادہ ٹھیک سے بندھی ہوئی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی وہ سب سے زیادہ شاندار دکھائی دے رہے ہیں۔ کم از کم میری پاکستانی آنکھوں سے تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
اُس رات اردو میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے میزبانوں سے کہا: ’’پاکستان اس کے لیے آپ کا بہت مشکور ہے۔‘‘ انہوں نے اس مجمع میں قرآن کریم کی تلاوت کی اور اس سے بنیادی بات اخذ کرتے ہوئے کہا کہ ’’جتنا بھی ہم گہرائی میں تلاش کرتے جاتے ہیں، اتنا ہی زیادہ ہمارا تجسس بڑھتا جاتا ہے۔‘‘
Gordon Fraser کی حیران کُن بائیوگرافی:
“Cosmic Anger: Abdus Salam – The First Muslim Nobel Scientist”
جب ہم پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ اس شخص کی نہ صرف ہم نے قدر بہت کم کی بلکہ ہم اس کے بارے میں جانتے بھی بہت کم ہیں۔ وہ 1926ء میں ضلع ساہیوال میں پیدا ہوئے۔ ایک استاد کے بیٹے تھے جنہوں نے ان کی پرورش ایک استاد کے طور پر کی۔ چودہ سال کی عمر میں تمام پچھلے ریکارڈ توڑتے ہوئے میٹرک کے امتحان میں پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ سولہ سال کی عمر میں گورنمنٹ کالج میں انہیں ذہین استاد سروادمان چاولہ کی زیرنگرانی ریاضی سے محبت پیدا ہوئی اور ایک دن اُن کے دیے ہوئے ہوم ورک (سری نی واس راما نوجان کی مشہور Quadratic simultaneous equationکو آگے بڑھاتے ہوئے سلام نے ایک زبردست حل پیش کیا۔ یہ ان کا پہلا نصابی مقالہ تھا جو اٹھارہ سال کی عمر میں شائع ہوا۔


ایم اے ریاضی کرنے کے بعد بیس سال کی عمر میں (خوش قسمتی سے) ریلوے کی ملازمت حاصل کرنے میں ناکام ہوئے جس کی وجہ عمر اور نظر کی کمزوری تھی۔ پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے ملنے والے ایک وظیفے کی پیشکش ہوئی تو کیمبرج کے سینٹ جانز کالج میں داخلہ لے لیا۔ نوبیل انعام یافتہ پال ڈیراک نے سلام کے اندر نظریاتی طبیعیات کی شمع روشن کی۔ 1950ء میں سلام نے کیمبرج کا اہم ترین Smith Award حاصل کیا لیکن کم عمر ہونے کی وجہ سے انہیں Ph.D کی ڈگری نہیں دی جاسکتی تھی۔ چنانچہ وہ ایک ریسرچ پوزیشن کی پیشکش کو ردّ کرتے ہوئے 1951ء میں واپس اپنے گھر پاکستان آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ ریاضی کے پروفیسر اور چیئرمین کے طور پر کام شروع کیا۔ تاہم احمدیت کی وجہ سے حسد اور تنگ نظری کا شکار ہوئے تو دو سال بعد واپس کیمبرج چلے گئے اور جاتے ہی کامیابیوں اور مصروفیات کے طوفانوں میں الجھ گئے۔ 1955ء میں اپنی Ph.D مکمل کی 1957ء میں امپیریل کالج میں کام شروع کیا۔ 33 سال کی عمر میں رائل سوسائٹی کے کم عمر ترین فیلو بنے۔ پھر شاندار تخلیقی کاموں میں کامیابیاں سمیٹتے ہوئے 1979ء میں فزکس کے نوبیل انعام (شیلڈن گلیشو اور وائن برگ کے ہمراہ) کے حقدار قرار دیے گئے۔


ملٹی ٹاسکنگ سلام ہمیشہ متحرک رہے۔مختلف ممالک اور عالمی اداروں میں ریسرچ، پالیسی اور انتظامی معاملات تک، مقالے لکھنے سے چندہ جمع کرنے تک، نوجوان سکالرز کی راہنمائی کرنے سے حکومتوں کے سربراہان کو تجاویز دینے تک، عالمی مباحث کو راستہ دکھانے سے لے کر قومی پالیسی بنانے تک سلام ہمیشہ متحرک دکھائی دیے۔ تعصّبات اور مفکرین کی تنگ نظری سے قطع نظر وہ کبھی بھی خود کو پاکستان سے دُور نہیں رکھ سکے۔ 1960ء میں ایوب خان کے سائنسی مشیر رہے۔ نیز پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، سپارکو، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور انٹرنیشنل نتھیاگلی سمرکالج آف فزکس کے بانیوں میں سے ہیں۔ ایک دہائی تک IAEA پاکستان کے وفود کی نمائندگی کی۔ پاکستان کے پہلے نیوکلیئر انرجی پلانٹ اور ناسا کے ساتھ خلائی سہولیات کے حوالے سے طے پانے والے معاہدوں کے روح ورواں تھے۔ عالمی سطح پر وہ تیسری دنیا کی سائنس کی اکیڈمی (TWAS) کے بانی تھے۔ ٹریسٹ اٹلی میں قائم انٹرنیشنل سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس (جو اب سلام کے نام سے موسوم ہوچکا ہے) خاص طور پر اُن کی توانائیوں کا محور بنا۔ یہ سنٹر وہ پاکستان میں قائم کرنا چاہتے تھے لیکن تنگ نظری آڑے آئی۔ 1987ء میں وہ اُس وقت بہت دل گرفتہ ہوئے جب ضیاءالحق کے دور حکومت میں یونیسکو کا ڈائریکٹر جنرل بننے کی پیشکش اُن کے اپنے وطن کی وجہ سے پوری نہ ہوسکی۔

یقیناً اُس غم اور دل شکستگی کا کوئی تصور نہیں کرسکتا جب 7؍ستمبر 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے احمدیہ فرقہ (جس سے عبدالسلام کا تعلق تھا) کو آئینی طور پر غیرمسلم قرار دے دیا۔ اُس دن انہوں نے ڈائری میں لکھا: ’’غیرمسلم قرار … اس کے ساتھ جینا محال ہے۔‘‘ بھٹو کے لیے یہ محض ایک سیاسی چال تھی اور اس کی گہرائی میں ہونے والے ظلم اور تباہی کو اُس نے بہت کم جانا تھا۔ چنانچہ عبدالسلام نے اپنے استعفیٰ میں یہ بھی لکھا: ’’اسلام کسی اسلامی فرقہ کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے فرقہ کے ایمان کا فیصلہ سنائے۔ ایمان بندے اور خالق کے درمیان معاملہ ہے۔‘‘ بھٹو نے سلام کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ سب سیاست ہے، مجھے وقت دو مَیں اسے تبدیل کردوں گا۔ سلام نے بھٹو سے کہا کہ یہ مجھے تحریراً لکھ دو۔ اس پر بھٹو کہنے لگا: مَیں یہ نہیں کرسکتا۔
بھٹو کبھی بھی اس قابل نہیں تھا کہ وہ اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کردے۔ ناانصافی زیادہ خطرناک اور سنجیدہ ہوتی چلی گئی۔ ضیاءالحق کو کم از کم یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے سلام کو نوبیل انعام کی مبارکباد دیتے ہوئے پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’نشان امتیاز‘‘ دیا۔ لیکن وزیراعظم بےنظیر میں یہ اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ وہ سلام کو ملاقات کا وقت دے سکے۔ اگرچہ بعد میں اُس نے سلام کی سترویں سالگرہ کی مبارکباد بھجوائی۔
سلام کے ایمان کا امتحان ہم خدا پر چھوڑتے ہیں۔ ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ قابل شرم خاموشی اور ناشکرے پن کے رویے کو چھوڑ دیں جو ہم نے پاکستان کے اس عظیم فرزند کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔میں یہ بات شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ سلام کی عزت کرتے ہیں وہ تعداد میں دوسرے لوگوں سے زیادہ ہیں۔