سیرۃالنبیﷺ کے پُراثر واقعات

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل یکم ستمبر2025ء)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کا آنحضورﷺ کی حیات طیبہ سے متعلق ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍اپریل2014ء میں شامل اشاعت ہے۔
٭…آنحضرتﷺ نے حضرت عائشہؓ سے ایک دن فرمایا کہ مَیں نے تمہارے نکاح سے پہلے تمہیں دو دفعہ خواب میں دیکھا۔ ایک دفعہ تو یوں دیکھا کہ تم ریشم کی ایک چادر میں لپٹی ہوئی ہو اور ایک شخص کہتا ہے کہ یہ آپ کی بی بی ہیں۔ مَیں نے اس کپڑے کو کھولا تو دیکھا کہ تم تھیں۔ اُس وقت مَیں نے یہ تعبیر کی کہ اگر یہی خدا کی مرضی ہے تو پوری ہوکر رہے گی۔
٭…ایک دفعہ حضرت ابن عباسؓ نے لوگوں کو بتایا کہ وہ کالی سی عورت جو سامنے جارہی ہے یہ جنّتی ہے۔ یہ ایک دفعہ آنحضورﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ حضور! مجھےمرگی پڑتی ہے اور مَیں اس بےہوشی میں ننگی ہوجاتی ہوں۔ آپؐ میرے لیے دعا کیجیے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تُو جنت چاہتی ہے تو تُو اس بیماری پر صبر کر ورنہ مَیں تیرے لیے دعا کروں گا کہ خدا تجھے شفا بخشے۔ اُس عورت نے کہا: حضور! اچھا مَیں صبر کروں گی مگر اتنی دعا ضرور کیجیے کہ یہ میرا بدن جو کھل جاتا ہے اور بےپردگی ہوتی ہے یہ نہ ہو۔ آنحضورﷺ نے اُس کے لیے یہ دعا کی۔ اس کے بعد اُسے مرگی کے دورے تو پڑتے ہیں مگر ننگی نہیں ہوتی۔
٭…جب قریش کی طرف سے مسلمانوں کو تکالیف پہنچانے کا سلسلہ بہت بڑھ گیا تو آنحضورﷺ نے اُن کے لیے یہ بددعا فرمائی کہ اے اللہ! ان لوگوں پر یوسفؑ کے زمانے کا سا سات برس کا قحط نازل کر۔ چنانچہ قحط پڑگیا اور بہت آدمی بھوک سے مرگئے اور سڑا ہوا مُردار اور ہڈیاں تک کھاگئے۔ جب قحط کی تکلیف حد سے گزر گئی تو ابوسفیان نے آنحضورﷺ کے پاس آکر کہا کہ اے محمد! آپ تو رشتہ داروں سے نیک سلوک کی ہدایت کرتے رہتے ہیں مگر اب تو آپ کی اپنی قوم قحط سے ہلاک ہوگئی ہے۔ لِلّٰہ خدا سے دعا کیجیے کہ اس مصیبت کو دُور کرے۔ چنانچہ آپؐ نے دعا کی اور وہ قحط دُور ہوگیا۔ اگرچہ تکلیف کے دُور ہوتے ہی قریش پھر شرارتیں کرنے لگے۔
٭…آنحضورﷺ کے مرضِ موت میں ایک دوا تجویز کی گئی۔ جب وہ تیار ہوئی تو اہل بیت نے اسے پلانا چاہا۔ آپؐ اُس وقت غشی کی سی حالت میں تھے مگر اشارے سے منع کرتے تھے کہ مجھے دوا نہ پلاؤ۔ گھر والوں نے کہا کہ دوا سب بیماروں کو بُری ہی لگتی ہے چنانچہ زبردستی آپؐ کے منہ میں ڈال دی گئی۔ جب آپؐ کو ذرا افاقہ ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ جب مَیں نے منع کیا تھا تو تم لوگوں نے مجھے زبردستی دوا کیوں پلائی؟ اچھا وہ دوا لاؤ۔ پھر آپؐ نے اُن سب لوگوں کو جو اس کے پلانے میں شریک تھے وہ دوا پلوائی۔ صرف حضرت عباسؓ بچ گئے کیونکہ وہ پلانے کے وقت موجود نہ تھے۔
٭…ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے آنحضورﷺ کا ہاتھ پکڑکر کہا کہ یارسول اللہ! آپ مجھے سوائے اپنی جان کے ہرچیز سے زیادہ پیارے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: نہیں اے عمر!خدا کی قسم!جب تک مَیں تجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہوں گا تب تک تیرا ایمان کامل نہیں ہوگا۔ حضرت عمرؓ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! بےشک اب آپؐ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہاں اے عمر! اب ایمان کامل ہوگیا۔
٭…حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کبھی کبھی عبادہؓ بن صامت کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اُن کی بیوی کا نام اُمّ حرامؓ تھا۔ ایک دن انہوں نے آنحضرتﷺ کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد جب آپؐ لیٹ گئے تو امّ حرامؓ آپؐ کے سر کو صاف کرنے لگیں۔ آپؐ سو گئے اور جب اُٹھے تو ہنستے ہوئے اُٹھے۔ اُمّ حرامؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! آپؐ کیوں ہنستے ہیں؟ فرمایا: مَیں نے اپنی اُمّت کے لوگوں کو بادشاہوں کی طرح سمندر میں جہازوں پر سوار ہوکر جاتے دیکھا ہے۔ اُمّ حرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ خدا مجھے بھی اُن لوگوں میں سے کردے۔ آپؐ نے دعا کی اور پھر سوگئے۔ جب دوبارہ اُٹھے تو پھر ہنستے ہوئے اُٹھے۔ اُمّ حرامؓ نے کہا کہ یارسول اللہ!اب آپؐ کیوں ہنستے اُٹھے؟ آپؐ نے فرمایا:مَیں نے ایک اَور جماعت کو اپنی اُمّت میں سے دیکھا کہ خدا کے رستہ میں جہاد کررہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے بھی دعا کریں کہ مَیں اُن لوگوں میں شامل ہوں۔ آپؐ نے فرمایا:تم تو پہلے لوگوں میں شامل ہوگی۔ چنانچہ اُمّ حرامؓ حضرت معاویہؓ کے زمانے میں سمندر کے سفر پر گئیں اور جہاز سے اُترتے وقت اپنی سواری کے جانور سے گر کر شہید ہوئیں۔
٭…حضرت رباحؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک جہاد میں تشریف لے گئے۔ لشکر کے اگلے حصے کے افسر خالد بن ولیدؓ تھے۔ ان کا مقابلہ دشمن سے ہوا تو ہلّہ میں ایک عورت بھی ماری گئی۔ آنحضورﷺ تشریف لے آئے تو دیکھ کر ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کہ یہ عورت تو لڑائی نہیں کرتی تھی یہ کیوں قتل کی گئی؟ پھر آپؐ نے ایک آدمی کو لشکر کے اگلے حصے کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ خالد بن ولید کو جاکر کہہ دو کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو ہرگز قتل نہ کیا جائے۔
٭…بدر کی جنگ میں کافروں کی طرف عمیر ابن وہب بھی شریک تھا۔ یہ خود تو بچ کر مکہ آگیا مگر اس کا ایک بیٹا مسلمانوں کی قید میں آگیا۔ ایک روز وہ اپنے ایک سردار صفوان بن امیہ کے ساتھ کعبے کے پاس بیٹھا باتیں کررہا تھا کہ صفوان نے کہا کہ بدر میں اپنے لوگوں کے مارے جانے سے ہماری زندگی تلخ ہوگئی ہے۔ عمیر کہنے لگا کہ بات تو یہی ہے لیکن مجھ پر قرض ہے اور میرے بال بچے ہیں جن کے لیے کوئی گزارہ نہیں، اگر ان دو باتوں کا انتظام ہوجائے تو محمدؐ کے پاس جاکر اُسے قتل کردوں۔ اُس کے پاس جانے کے لیے میرے پاس اچھا بہانہ ہے کہ میرا ایک بیٹا اُن کی قید میں ہے، مَیں کہوں گا کہ مَیں اُسے فدیہ دے کر چھڑانے آیا ہوں۔ صفوان نے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ تمہارا قرضہ میرے ذمے، باقی رہے بال بچے، سو پہلے وہ کھائیں گے پھر میرے بال بچے۔ اس پر معاملہ طے ہوگیا اور صفوان نے عمیر کو سامانِ سفر اور زہر میں بجھی ہوئی ایک تلوار دے دی۔
عمیر مدینہ پہنچ کر مسجد کے سامنے اُترا تو حضرت عمرؓ نے اُس کو دیکھ کر کہا کہ اس کے پاس تلوار بھی ہے، یہی بےایمان بدر کے دن بھی مسلمانوں کی مخبری کرنے آیا تھا۔ آپؓ نے آنحضورﷺ کو عمیر کے آنے کی خبر دی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! اس کے پاس تلوار ہے اور یہ شخص بڑا مکار اور فریبی ہے، اس کا اعتبار نہ کیجیے گا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اچھا، اس کو میرے پاس لے آؤ۔ حضرت عمرؓ اُس کو لے آئے۔ آنحضورﷺ نے پوچھا: اے عمیر! تم یہاں مدینہ میں کیوں آئے ہو؟ اُس نے کہا کہ میرا بیٹا آپ کی قید میں ہے، آپ اُس کا فدیہ لے کر اُسے چھوڑدیں ۔ آپؐ نے پوچھا کہ پھر تم یہ تلوار کیوں ساتھ لائے ہو؟ عمیر نے کہا کہ یہ کم بخت تلوار بدر کے دن ہمارے کس کام آئی تھی جو اَب آئے گی۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: سچ بولو۔ عمیر نے پھر اپنی بات دہرائی تو آنحضورﷺ نے فرمایا: پھر وہ شرطیں کیا تھیں جو تم نے کعبے میں صفوان سے طے کی تھیں؟ یہ سن کر عمیر ڈر گیا اور کہنے لگا کہ مَیں نے تو کوئی شرط اُس سے طے نہیں کی۔آپؐ نے فرمایا کہ تم نے اُس سے میرے قتل کا وعدہ لیا اس شرط پر کہ وہ تمہارے بال بچوں کا خرچ اٹھائے اور تمہارا قرضہ ادا کرے۔ حالانکہ میری حفاظت خدا کرتا ہے۔ عمیر نے بےاختیار ہوکر کہا کہ یا رسول اللہ! مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اُس کے پیغمبر ہیں۔ ان شرائط کی سوائے میرے اور صفوان کے اَور کسی کو خبر نہ تھی۔ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہاں بھیج دیا اور مَیں اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ایمان لے آیا۔ آنحضرتﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ عمیر کو قرآن سکھاؤ اور اس کے بیٹے کو رہا کردو۔ پھر عمیر نے مکہ جانے کی اجازت چاہی تاکہ قریش کو اسلام کی دعوت دیں شاید وہ ہلاکت سے بچ جائیں۔ آپؐ نے اجازت دی اور عمیر مکہ چلے گئے۔
اُدھر صفوان نے عمیر کے مکہ سے جانے کے چند دن بعد لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ لوگو! خوش ہوجاؤ، عنقریب تم ایسی خوشخبری اور فتح کی خبر سنوگے کہ بدر کے واقعہ کو بھول جاؤگے۔ جو کوئی شخص مدینہ سے آتا تھا تو صفوان اُس سے پوچھا کرتا کہ بتاؤ مدینہ میں کوئی حادثہ تو نہیں ہوا۔ ایک روز کسی آنے والے نے بتایا کہ تازہ واقعہ یہ ہے کہ عمیر مسلمان ہوگیا ہے۔ یہ سن کر سب مشرکوں نے عمیرؓ پر لعنت کی اور صفوان نے قسم کھائی کہ وہ کبھی عمیر سے بات نہیں کرے گا۔ اس کے بعد حضرت عمیرؓ بھی مکہ پہنچ گئے اور اُن کی تبلیغ سے کئی لوگ مسلمان ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں