ماں باپ، اولاد اور احساس گناہ
(عمر ہارون)
ماں باپ، اولاد اور احساس گناہ
تم کافی دنوں سے یہاں پر چھپے ہوئے تھے۔ میں تمہاری آواز تو نہیں سن سکتی، لیکن تمہاری آہٹ کو محسوس کرسکتی ہوں۔ تم میری جسم کی ایک ایسی پاک روح ہو جو میرے پہلو میں موجود ہے۔ تم میں میری ہی عادات جھلکتی ہیں۔ جب تم اس دنیا میں آؤ گے تو تم بالکل اپنے ماں باپ جیسے ہوگے، اور تمہیں دونوں کا پیار نصیب ہوگا۔
تمہاری بولی مجھے ابھی سمجھ نہیں آتی، کیونکہ میں تمہیں دیکھ تو نہیں سکتی، مگر محسوس کر سکتی ہوں۔ جب تم اس دنیا میں آئے تو تمہاری بولی بالکل الگ تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے تم کسی نئی دنیا سے آئے ہو۔ تمہاری آنکھوں کا کھلنا، دیکھنا، اور تمہارے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں پر پڑی جھریاں، تمہارا چہرہ جو وقت کے لمس سے نرم پڑا ہوا تھا — سب کچھ ایک انمول منظر تھا۔

آہستہ آہستہ ہم نے تمہیں اتنا پیار دیا کہ تم بولنے اور چلنے لگے۔ تم میری امید تھے، جاگے ہوئے خوابوں کی تعبیر۔ میں نے سوچا تھا تم ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنو گے، اور ہم تمہارا مکمل خیال رکھیں گے۔ یہ وہ جذبات ہیں جو ایک ماں کے ہوتے ہیں، اور اسی طرح کے احساسات ایک باپ کے دل میں بھی جنم لیتے ہیں۔
مگر جب یہی جذبات رفتہ رفتہ رشتوں کی ملاوٹ، دوغلا پن اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، تو وہی ماں کے پیروں کی جنت چھن جاتی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، ویسے ہی باپ کے پیروں تلے بھی رحمت ہے۔ کچھ باپ بھی اس جنت کو اپنے کردار سے کما لیتے ہیں۔
ماں باپ کو اپنے بچوں پر مان ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کا خیال رکھیں گے، اور وہ ہمارا۔ مگر جب یہی رشتے بگڑنے لگتے ہیں، تو ماحول بدل جاتا ہے۔ بچے پریشان، نسلیں بے سکون، اور گھروں میں بیماریاں، الجھنیں اور تکالیف پھیل جاتی ہیں۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں رہتا جو اس ذہنی کشمکش سے متاثر نہ ہو — سر کے بالوں سے لے کر پیروں کے ناخنوں تک ہر چیز تھکن اور بوجھ سے بھر جاتی ہے۔
جن لوگوں نے ان حقیقتوں کو سمجھ لیا، وہ نجات پا گئے۔ جنہوں نے نہیں سمجھا، وہ بے شمار بیماریوں، سوچوں اور احساسِ جرم کے بوجھ تلے دب گئے۔ یہی احساسِ گناہ بعد میں نسلوں تک منتقل ہوتا ہے۔
پھر ذہن سوال اٹھاتا ہے:
= کیا ہم اگر والدین کی ہر بات پر عمل نہ کریں تو گناہگار ہیں؟
= کیا اگر ہم اپنی بیوی کو وقت دیں اور ماں باپ سے کچھ دور رہیں تو گناہگار ہو جائیں گے؟
= کیا اگر بیوی اپنے شوہر کی باتیں اپنی ماں کو نہ بتائے یا شوہر اپنی ماں کو سب کچھ نہ بتائے — تو کیا وہ گناہ ہے؟
= کیا اگر والدین اپنی توقعات پوری نہ ہوتے دیکھیں تو ان کے بچوں پر گناہ کا بوجھ آتا ہے؟
یہ سب سوال اس احساسِ جرم کی جڑ ہیں جو انسان کے دل پر بوجھ بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہر شخص اپنے کندھوں پر خیالات اور یادوں کی بوریاں لادے ہوئے ہے۔ اپنی جیبوں میں وہ خط چھپائے ہوئے ہیں جو کبھی پوسٹ ہی نہیں کیے، اپنے دل میں وہ باتیں دفن کی ہوئی ہیں جو کبھی کہی ہی نہیں۔
ہر انسان ایک مکھی کے چھتے کی طرح ہے — چھوٹے چھوٹے خانوں میں بند۔ جب تک وہ اس خانے سے باہر نہیں نکلے گا، نئی زندگی پیدا نہیں ہوگی۔ ماں باپ نے اسے جنم تو دیا ہے، مگر زندگی تب شروع ہوگی جب وہ اس دائرے سے نکل کر اپنے شعور کی روشنی میں قدم رکھے گا۔

یہ دائرہ تب ٹوٹتا ہے جب انسان اپنی شریکِ حیات کے ساتھ دل کھول کر بات کرتا ہے۔ جب دونوں کے درمیان رابطہ باقی رہتا ہے تو جیسے خون کی روانی چلتی رہتی ہے۔
لیکن جب رابطہ ٹوٹ جائے، سپلائی لائن ختم ہو جائے، تو زندگی کا نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
میاں بیوی کا ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے رکھنا روح اور جسم کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ ہاتھ چھوٹ جائے تو جیسے جسم کا کوئی حصہ کٹ جائے، اور بعد میں دوبارہ جوڑنے پر تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح جب دلوں کے رشتے ٹوٹتے ہیں تو دوبارہ جوڑنے کے لیے صبر، درد اور وقت لگتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ احساسِ گناہ کو ختم کیا جائے، احساسِ محرومی کو سمجھا جائے۔ عورت مینوپاز کے عمل سے گزرتی ہے، مرد غم اور خاموشی کے دور میں داخل ہوتا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی نفسیاتی اور جذباتی حالت کو سمجھنا چاہیے۔
بڑھاپے میں بہت سے لوگ اپنے آپ کو اکیلے اور غیر ضروری محسوس کرتے ہیں، مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو اسی عمر میں زندگی سے بھرپور رہتے ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔
یہ بنیاد محبت، بات چیت، اور قربت کی اینٹوں سے بنتی ہے۔
گھر کی بنیاد بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا اگر نیت صاف ہو۔ ہم سب جلدباز ہو چکے ہیں، صبر کم ہو گیا ہے۔
اصل کامیابی تب ہوگی جب ہم رشتوں کی بنیاد جلدی نہیں بلکہ سمجھداری سے بنائیں۔
ورنہ احساسِ گناہ، رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ، اور زندگی کی الجھنیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔
Homeopathic Remedies:
1. Ignatia amara – جذباتی دکھ، رشتوں کے ٹوٹنے کے بعد ذہنی اضطراب کے لیے۔
2. Natrum muriaticum – اندرونی تنہائی، دلی دکھ اور دبے ہوئے احساسات کے لیے۔
3. Aurum metallicum – احساسِ گناہ، خود پر بوجھ محسوس کرنے، اور زندگی سے مایوسی کے لیے۔
4. Phosphoric acid – ذہنی تھکن، خالی پن اور تعلقات کے بوجھ سے ہونے والی کمزوری کے لیے۔
5. Staphysagria – دبے ہوئے غصے، بے بسی، اور رشتوں میں خودداری کے مجروح ہونے پر۔
Bach Flower Remedies:
1. Pine – گناہ اور خود الزام کے احساس سے نجات کے لیے۔
2. Star of Bethlehem – ماضی کے صدمات اور جذباتی زخموں کے علاج کے لیے۔
3. Willow – تلخی، شکایت اور قسمت پر ملال کے احساس کے لیے۔
4. Walnut – زندگی کے تبدیلی والے مراحل (جیسے مینوپاز یا جذباتی بریک) میں تحفظ کے لیے۔
5. Honeysuckle – ماضی سے چمٹے رہنے کے بجائے حال میں جینے کے لیے۔
6. Olive – ذہنی اور جسمانی تھکن کے بعد توانائی کی بحالی کے لیے۔
یہ تحریر دل کی گہرائی سے لکھی گئی ایک بازگشت ہے — احساسات، رشتوں، اور انسان کے اندر کی روشنی کی تلاش کی۔
جب دل کی سپلائی لائن بحال رہتی ہے، تو زندگی کے سارے نظام خود بخود توازن میں آجاتے ہیں۔
نوٹ: ہومیوپیتھی دواؤں کی پوٹینسی ہر کیس کے لحاظ سے مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن Bach flowers کی پوٹینسی ایک ہی ہوتی ہے اور یہ طریقہ علاج 1935ء سے زیراستعمال ہے تاہم بہت سے ہومیوپیتھ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس حوالے سے مزید معلومات کے لئے آپ اپنے علاقہ کے کسی ہومیوپیتھ سے رابطہ کریں یا ہمیں میسیج کرکے مضمون نگار کا فون نمبر بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
