مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع 2010ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

رجسٹر روایات صحابہ سے حضرت اقدس مسیح موعود؈ کے بعض صحابہ کی نہایت دلچسپ اور ایمان افروز روایات کا تذکرہ ۔

ان روایات سے حضرت مسیح موعود؈ کے مقام پر بھی روشنی پڑتی ہے اور ان صحابہ کی پاک فطرت اور دین کی حقیقت اور حضرت مسیح موعود؈ کا مقام جاننے کی جستجو کا بھی پتہ چلتاہے۔

( مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع 2010ء کے موقع پر 3؍اکتوبر2010ء کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب )

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

اس وقت میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کچھ روایات پیش کروں گا جو رجسٹرروایات صحابہ میں سے مَیں نے لی ہیںجن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے مقام پر بھی روشنی پڑتی ہے اور ان صحابہ کی پاک فطرت اور دین کی حقیقت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام جاننے کی جستجو کا بھی پتہ چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی رہنمائی فرمائی اس میں یہ باتیں بھی آئیں گی۔
حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب جو میاں محمد بخش صاحب
گوجرانوالہ کے بیٹے تھے اور جو پیدائشی احمدی تھے، یہ کہتے ہیں کہ لاہور میں حضرت اقدس کا ایک لیکچر ہوا۔ میں بمع والد صاحب کے گیا۔ حضور ایک مکان کے برآمدے میں تقریر کر رہے تھے۔ آگے بڑا صحن تھا جو بالکل بھرا ہوا تھا۔ باہر مخالفین از حد شور مچا رہے تھے اور اندر اینٹیں اور روڑے پھینک رہے تھے۔ لوگوں کو اندر آنے سے روکتے تھے۔ میں اور والد صاحب تقریر سننے کے لئے بیٹھ گئے۔ دورانِ تقریر میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ران پر ہاتھ مارتے تھے اور بعض اوقات ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے۔ میں نے اپنے والد صاحب کو کہا کہ حضرت اقدس اس طرح تقریر کر رہے ہیں جیسے پہلوان کشتی لڑتے ہیں۔ یہ انبیاء کا کام نہیں (یہ اعتراض ان کے دل میں پیدا ہوا)تو والد صاحب نے اس وقت حافظ محمد لکھو کے والے کا یہ شعر پڑھا۔ پنجابی کا شعر ہے ؎
بولن لگے اَڑ کر بولے پٹاں تے ہتھ مارے
(یعنی جب بولتا ہے تو زبردست بولتا ہے اور رانوں پر ہاتھ مار کر بولتا ہے)
تو ان کے والد صاحب کہنے لگے تم جس بات پر اعتراض کر رہے ہو، یہ تو حضور کی صداقت کا نشان ہے۔اس پر میں خاموش ہو گیا اور گھر میں آکر’’احوال الآخرۃ‘‘ میں سے وہ شعر دیکھا۔
بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اعتراض اور وسوسے دل میں پیدا ہو جاتے ہیں ، لیکن جن کو خدا تعالیٰ بچانا چاہتا ہے ان کو فوراً دور کرنے کے انتظام بھی فرما دیتا ہے۔ اب ان کے والد صاحب کو یہ شعر یاد تھا فوراً انہوں نے بیان کر دیا۔ سو یہ سوچنا کہ اس زمانہ کے لوگ کم علم تھے درست نہیں۔ بڑی تحقیق کے بعد وہ لوگ بیعت میں شامل ہوتے تھے۔ یا خوابوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کی تسلی کراتا تھا تووہ لوگ بیعت میں شامل ہوتے تھے۔
پھر حضرت میاں میراں بخش صاحب ولد میاں شرف الدین صاحب، ٹیلر ماسٹر تھے۔یہ روایت کرتے ہیںکہ مَیں جب دکان سے اپنے گھر کی طرف جاتا تھا تو راستے میں اپنے بھائی غلام رسول سے ملا کرتا تھا۔ ان کے ساتھ سلسلے کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ مَیں چونکہ مخالف تھا اس لئے ان کو جھوٹا کہا کرتا تھا لیکن جب گھر آ کر سوچتا تو نفس کہتا کہ کورا اَن پڑھ ہے (بالکل اَن پڑھ ہے) مگر اس کی باتیں لاجواب ہیں۔ ایک دفعہ میرے بھائی نے مجھے کچھ ٹریکٹ دئیے، کچھ لٹریچردیا، پمفلٹ دئیے جو مَیں نے پڑھے۔ ان کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔ اس پر مَیں نے خد اتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا شروع کر دی۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ مَیں اپنی چارپائی سے اُٹھ کر پیشاب کرنے گیا ہوں مگر دیکھتا ہوں کہ باری کھلی ہے( یعنی کھڑکی کھلی ہے۔) مَیں حیران ہوا کہ آج کھڑکی کیوں کھلی ہے۔ مَیں جب باری کی طرف گیا تو دیکھا کہ ایک بزرگ ہاتھ میں کتاب لئے پڑھ رہے تھے۔ مَیں نے سوال کیا کہ یہ کون سی کتاب ہے جو آپ پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ کتاب مرزا صاحب کی ہے اور ہم تمہارے لئے ہی لائے ہیں۔ جب انہوں نے کتاب دی تو مَیں نے کہا کہ یہ تو چھوٹی تختی کی کتاب ہے؟ مَیں نے ان کے ٹریکٹ دیکھے ہیں وہ بڑی تختی کے ہوتے ہیں۔ وہ بزرگ بولے کہ مرزا صاحب نے یہ کتاب چھوٹی تختی کی چھپوائی تھی اس پر میری آنکھ کھل گئی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے خیال کیا کہ شاید مَیں دعا کر کے ان خیالات میں سویا تھا یہ انہی کا اثر ہے۔ مگر جب مَیں ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے اپنے گھر کی طرف آیا تو غلام رسول کی دکان پر ایک شخص بیٹھا ہوا ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ مَیں نے کہا کہ یہ کون سی کتاب ہے جو پڑھ رہے ہو۔ میاں غلام رسول نے اس کے ہاتھ سے یہ کتاب لے کر میرے ہاتھ میں دے دی اور کہا کہ تم جو کتاب مانگتے تھے یہ کتاب آپ کے لئے ہی مَیں لایا ہوں یہ آپ لے لیں۔مَیں نے کتاب کو دیکھ کر کہا کہ کتاب رات خواب میں مجھے مل چکی ہے۔ اس پر مَیں نے ’’ازالہ اوہام‘‘ کے دونوں حصوں کو غور سے پڑھا اور اپنے دل سے سوال کیا کہ کیا اب بھی تمہیں کوئی شک و شبہ باقی ہے؟ میرے دل نے جواب دیا کہ اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں۔ اس لئے مَیں نے بیعت کا خط لکھ دیا۔تو یہ لوگ تھے جن میں سعادت تھی اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت بھی مانگتے تھے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی بھی فرماتا تھا اور یہ نظارے ہمیں آج بھی بہت سی جگہوں پرنظر آتے ہیں ۔
پھر یہی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس بیٹھے تھے تو میری موجودگی میں وہاں ایک عیسائی لڑکا آگیا۔ اس نے ایک کاغذ پر کچھ اعتراضات لکھے ہوئے تھے اور دل میں یہ بات رکھی ہوئی تھی کہ اگر حضرت صاحب نے ان کے اعتراض کا بغیر دیکھنے کے جواب دے دیا تو میں ان کو سچا سمجھوں گا۔ چنانچہ جب حضرت اقدسؑ سیر کو تشریف لے گئے، مَیں بھی ساتھ تھا۔ دورانِ سفر حضرت اقدسؑ نے ایک تقریر کی جو بالکل اس کے جوابات پر مشتمل تھی۔ جب حضورؑ واپس تشریف لائے تو اس لڑکے نے مسجد اقصیٰ میں میری موجودگی میں بیان کیا کہ واقعی میرے سوالات کے جوابات حضور کی تقریر میں آگئے ہیں۔
پھر ایک روایت یہ کرتے ہیںکہ اُس زمانہ میں یہ بات عام مشہور تھی کہ حضرت اقدس کو نعوذ باللہ کوڑھ کی بیماری ہے۔( اور مخالفینِ احمدیت اب تک بھی اس قسم کے بیہودہ اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں)۔ چنانچہ ایک دفعہ مَیں قادیان سے واپس گوجرانوالہ آیا ہی تھا کہ ایک شخص امام الدین نام درزی جسے لوگ اس کے بُرے افعال کی وجہ سے پَھٹکا کہا کرتے تھے، وہ دوڑتے دوڑتے میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ جس کا تو مرید ہے وہ تو کوڑھا ہے۔ اس کے ہاتھ کی انگلیاں گَل چکی ہیں اور وہ ہر وقت برقعہ پہنے رکھتا ہے۔ مَیں نے کہا کہ مَیں ابھی قادیان سے آ رہا ہوں۔ اس شخص کا چہرہ تو ایسا خوبصورت ہے کہ ہر وقت اس پر نُور برستا رہتا ہے۔ تم کو یہ بات کس نے بتائی ہے۔ بہر حال یہ تو مخالفین کا شیوہ ہے اور کوئی دلیل ہاتھ نہیں آتی تو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔
پھر ایک روایت حضرت حکیم عبدالرحمن صاحب ولد حضرت حکیم اللہ دتہ صاحب گوجرانوالہ کی ہے جنہوں نے 1904ء میں بیعت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے والد صاحب کو احمدی پایا ہے۔ میرے والد صاحب تین سو تیرہ صحابہ کی فہرست میں شامل ہیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں نے خواب میں دو جنگلے دیکھے۔ لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آج قیامت کا دن ہے اور تمام مخلوقات اکٹھی ہو رہی ہے۔ یہ سن کر میں بھی جنگلے کی طرف گیا ۔ دروازے میں داخل ہوا تو بعض لوگوں نے کہا کہ پہلے بائیں طرف جاؤ۔ جو بھی ادھر سے ہو کر آئے گا اسے دائیں طرف جانے کی اجازت مل سکتی ہے۔ مَیں اسی طرف گیا تو دیکھا حضرت مرزا صاحب کا دربار لگا ہوا ہے اور بے شمار مخلوق پاس موجود ہے۔ مَیں نے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد مجھے اجازت دی گئی کہ اب آپ دائیں طرف جا سکتے ہیں۔ مَیں بڑا خوش ہوا پھر نیند سے بیدار ہو گیا۔
یہ اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں ایک مولوی علاؤالدین صاحب ہوا کرتے تھے۔ ان کی یہاں قریب ہی ایک مسجد بھی ہے۔ میرے والد صاحب ان کے پاس پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن عشاء کے وقت وضو کرتے کرتے میرے والد صاحب نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب آج کل آسمان سے تارے بہت ٹوٹتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ امام مہدی آنے والا ہے۔ آسمان پر اس کی آمد کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ چند دن بعد مَیں نے حضرت اقدس کا ذکر سنا اور قادیان جا کر بیعت کر لی۔ واپس آ کر مولوی صاحب کو بھی کہا کہ مَیں نے تو بیعت کر لی ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟ مگر وہ خاموش ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد آہستہ سے بولے کہ میاں بات تو سچی ہے مگر ہم دنیا دار جو ہوئے۔
کہتے ہیں کہ مَیں تقریباً دس سال کا تھا کہ میرے والد صاحب مجھے قادیان لے گئے اور قادیان کے ارد گرد سیر کرائی۔ جب ہم مسجد نور کے پاس پہنچے جو کہ ابھی بنی ہوئی نہیں تھی۔ غالباً بنیادیں رکھی گئیں تھیں۔ فرمایا کہ میاں ہم پہلے پہلے جب حضرت اقدس کے ساتھ آیا کرتے تھے تو بالکل جنگل تھا۔ ہم حضور کے لئے کپڑا بچھا دیا کرتے تھے۔ حضور وہاں بیٹھ جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس وقت آپ لوگ یہاں کائی اور سرکنڈا دیکھتے ہیں ، ایک وقت یہاں خوب رونق ہو گی۔
حضرت مہر غلام حسین صاحب روایت کرتے ہیں کہ میں نے خواب میںدیکھا کہ ہم دونوں بھائی بازار میں جا رہے تھے۔ تمام بستی ہندوؤں کی تھی ایک بوڑھے شخص کو ہم نے قرآن پڑھتے سنا۔ جب ہم واپس آئے تو پھر بھی وہ پڑھ رہا تھا۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ شخص پکا مسلمان اوربے دھڑک آدمی ہے جو ہندوؤں کی بستی میں قرآن پڑھ رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ بیعت کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھی تو پتہ لگا کہ یہ وہی شخص تھا جس کو مَیں نے خواب میں قرآن پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔
حضرت مہر غلام حسین صاحب ہی روایت کرتے ہیںکہ ایک شخص بنام رحیم بخش صاحب قوم درزی ان کی مسجد میں آیا کرتا تھا۔ آکر کہنے لگا کہ مولوی صاحب! آج طبیعت بہت پریشان ہے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو بیان کرنے لگا کہ حامد شاہ ایک فرشتہ اور باخدا انسان ہے اور مسلمان ان کی تعریف کرتے ہیں۔ آج ان سے بہت غلطی ہوئی ہے۔ آج انہوں نے اپنے ماموں عمر شاہ کو کہا ہے کہ ماموں جان آپ کا حضرت ابنِ مریم کے بارہ میں کیا خیال ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹا! میرا تو یہی مذہب ہے کہ وہ زندہ آسمان پر ہیں۔ کسی زمانے میں امتِ محمدیہ کی اصلاح کے لئے آئیں گے۔ شاہ صاحب نے کہا کہ ماموں صاحب! آج سے آپ میرے امام نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہ عقیدہ مشرکانہ ہے کہ ایک انسان کو حيّ و قیوم اور لازوال مانا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سید و مولیٰ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عقیدہ سے بڑی ہتک ہوتی ہے کہ وہ تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھائے جائیں۔ عمر شاہ نے اس پر کہا کہ اچھا بیٹا ، آپ آگے کھڑے ہوا کریں اور مَیں پیچھے پڑھا کروں گا۔ مَیں نے یہ بات سنتے ہی کہا کہ مولوی صاحب! مَیں نے مان لیا ہے کہ مسیح مر گیا ہے ۔ اگر مسیح زندہ رہیں تو توحید میں بڑا فرق آتا ہے۔ آپ یہ مت خیال کریں کہ احمدی ہوں۔ مَیں ابھی تک احمدی نہیں مگر مرزا صاحب کی بات ضرور سچی ہے۔ مَیں کبھی گوارا نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی جائے۔ مولوی صاحب نے میرے منہ کے آگے ہاتھ رکھ دیا۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب! کیوں روکتے ہو؟ مولوی صاحب نے کہا کہ اگر آپ کا عقیدہ ہو گیا ہے کہ مسیح مر گیا ہے تو اتنا جوش و خروش دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ مَیں نے کہا مولوی صاحب! مسجد سے نکلتے ہی منادی کرتا چلا جاؤں گا کہ اگر حضرت عیسیٰ آسمان پر ہیں تو محمد رسول اللہ کی ہتک ہے۔مَیں نے جاتے ہی اپنے والد صاحب کو سمجھایا اور میرا بڑا بھائی غلام حسین جو عارف والے کا امیر جماعت ہے وہ دونوں جَل کر آگ بگولہ ہو گئے اور میرا نام دجال اور ملعون وغیرہ رکھا۔ مجھے یہ خیال آیا کہ کل جمعہ پر مولویوں کا حملہ ہو گا۔ مَیں نے رات کے وقت اس احمدی کو جس کو ہم نے مسجد سے روکا تھا ایک نوکر کے ذریعہ بلایا۔ مَیں نے اسے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب نے وفاتِ مسیح پر کوئی دلیل بھی دی ہے یا یوں ہی کہہ دیا ہے۔ اس نے کہا نہیں آیات پیش کی ہیں، مَیں نے حیران ہو کر کہا کہ ہم دن رات قرآن پڑھتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں یہ کیا بات ہے۔ ایک ہی آیت ہمیں بتا دو۔ اس نے ساتویں پارے کی آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ بتادی۔ مَیں نے کہا اب میری تسلی ہو گئی ہے۔ اب کوئی مولوی میرا مقابلہ نہ کر سکے گا۔ فجر کے وقت مولوی غلام حسین صاحب اور مولوی فیض دین صاحب اور دو تین اور آدمی میرے بھائی کے ہمراہ آئے۔ مَیں مسجد کے دروازے میں کھڑا تھا کہ یہ جا پہنچے۔ مولوی غلام حسین نے کہا کہ مسیح کے آپ کیوں دشمن ہو گئے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ مولوی صاحب! مَیں نے کیا دشمنی کی؟ وہ کہتے کہ آپ کا بھائی کہتا ہے کہ یہ مسیح کی موت کا قائل ہو گیا ہے۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب کیا کریں، وہ تو خود اپنی موت کا اقرار کر رہا ہے۔ اور آپ کی مثال مدعی سست گواہ چست کی ہے۔ مولوی صاحب نے کہا یہ کہاں لکھا ہے؟ مَیں نے کہا قرآن میں۔ وہ کہتے ہیں مگر کونسا قرآن! جو مرزا صاحب نے بنا دیا ہے؟ مَیں نے کہا مولوی صاحب ذرا ہوش سے بولیں۔ خدا پر حملہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ تو فرماتا ہے کہ میرے قرآن کی کوئی مثل نہیں لا سکتا اور یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن مرزا صاحب نے بنادیا ہے۔ کہنے لگے کہاں لکھا ہے؟ مَیں نے ساتویں پارے کی آیت پڑھی۔ کہتے ہیں مگر ہم تمہیں ایک ہی گُر بتاتے ہیں کہ ان بے ایمانوں کے ساتھ بات نہ کی جائے یعنی احمدیوں کے ساتھ بات نہ کی جائے۔ بلکہ نظر کے ساتھ نظر ملائی جائے تو بھی اس کا اثر ہو جاتا ہے۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب! سچائی کا اثر ویسے ہی ہوا کرتا ہے۔ مولوی صاحب واپس ہو کر چلے گئے۔ میرا بھائی جومخالف تھا وہ نیروبی میں چلا گیا۔ مَیں نے بیعت کرلی۔ والد صاحب اور بیوی کو بھی سمجھا لیا۔ گویا سب کو سمجھا لیا۔ بھائی کو نیروبی میں جا کر سمجھ آئی۔ وہ دس ماہ کے بعد واپس چلے آئے اور آتے ہی بیعت کر لی۔ اب خدا کے فضل سے ہمارے محلے میں سو ڈیڑھ سو افراد احمدی ہیں۔ بھائی صاحب کی واپسی پر والد صاحب میر حامد شاہ صاحب اور بھائی صاحب قادیان گئے وہ جب واپس آئے تو ہم چار آدمی تبلیغ کرتے کرتے پیدل چل پڑے اور دستی بیعت کی۔
کئی سعید روحیں ہیں جو خوف کی وجہ سے چپ ہیں۔ آج بھی اگر یہ پاکستان میں اس قانون کو ہٹا دیں اور احمدیوں کو آزادی سے تبلیغ کرنے دیں تو انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت میں داخل ہو جائیں گی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میری بیوی، بڑا بھائی اور اس کی بیوی قادیان گئے۔ ہم نے ایک مکان کرائے پر لیا ہوا تھا۔ رات کو ہم اس مکان میں رہتے تھے۔ دن کو ہماری مستورات اور بچے حضرت صاحب کے مکان میں رہتے تھے اور ہم مہمان خانہ میں۔ میرے بھائی کی لڑکی کی آنکھیں بچپن سے ہی بیمار رہتی تھیں۔ چونکہ وہ لڑکی حضرت صاحب کے پاس رہتی تھی۔ حضرت صاحب نے اپنے ایک خادم کے ساتھ اس لڑکی کو بھیجا اور فرمایا کہ مولوی صاحب کو جا کر کہو کہ کچھ اس لڑکی کی آنکھوں میں دوائی ڈال دیں (حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓحضرت خلیفہ اول)۔ چنانچہ مولوی صاحب نے کچھ چیز ڈالی پھر عمر بھر اس لڑکی کی نظر خراب نہیں ہوئی۔
حضرت سید نذیر حسین شاہ صاحب آف گھٹیالیاں نے 1904ء میں بیعت کی تھی۔ یہ کہتے ہیں کہ جب حضرت اقدس سیالکوٹ تشریف لے گئے تو گھٹیالیاں میں چونکہ احمدیت کے متعلق ایک رَو پیدا ہو چکی تھی۔ اس لئے یہاں کے سترہ اٹھارہ آدمی گئے تھے اور قریباً سب نے بیعت کر لی تھی۔بیعت کا واقعہ یوں ہے کہ جس روز حضرت اقدس نے سیالکوٹ جانا تھا ہم اس سے ایک روز پہلے گئے تھے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب پانچ سات روز پہلے گئے ہوئے تھے۔ اور حضرت مولوی نورالدین صاحب غالباً ایک دن پہلے گئے تھے کیونکہ مَیں نے ان کو مسجد میں دیکھا تھا۔ ہم لوگ چوہدری محمد امین صاحب وکیل کے ڈیرہ پر اترے ہوئے تھے اور وہ سخت دہریہ تھا۔ مگر چونکہ ہمارے اس کے ساتھ تعلقات تھے ، ہم اس کے پاس ٹھہرا کرتے تھے۔ وہ حضرت خلیفہ اوّل کے پاس اپنے اعتراضات لے کر گئے۔ جب واپس آئے تو چوہدری شاہ دین صاحب نے انہیں پوچھا کہ بتاؤ مولوی نور الدین صاحب سے مل آئے؟ (یہ دیکھیں کس طرح تبلیغ کیا کرتے تھے) انہوں نے کہا کہ مذہبی مناظرے کی شطرنج میں دوسرا چالا یہ شخص چلنے ہی نہیں دیتا۔ ( حضرت خلیفۃ اوّلؓ کے بارہ میں کہا کہ جب مَیں کوئی بات کرتا ہوں یہ دوسری چال مجھے چلنے ہی نہیں دیتا۔بالکل بند کر دیتا ہے۔) نیز کہا کہ آج مجھے خدا پر ایمان ہو گیا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وجہ سے خدا پر ایمان ہو گیا تھا۔ چونکہ اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد آمد تھی۔ اس لئے عصر کے وقت ہی تمام شہر کے معززین اور مضافات کے لوگ جوق در جوق سٹیشن پر جانے لگے۔ ہم بھی پہنچ گئے۔ حضور کی گاڑی شام کے وقت سٹیشن پر پہنچی۔ اور جس ڈبے میں حضور تھے اسے کاٹ کر راجیکی سرائے کے پاس لے جایا گیا۔ حضور ایک فٹن پر سوار ہوئے۔ لوگ دورویہ قطاروں میں الگ کھڑے تھے اور پولیس گشت کر رہی تھی۔ حضرت صاحب کے ساتھ ایک شخص لیمپ لے کر کھڑا تھا اور کہتا تھا کہ یہ مرزا صاحب ہیں۔ بعد میں وہ شخص مجھے ملا اور چونکہ احمدی ہونے کی وجہ سے اس سے واقفیت ہو گئی، وہ حکیم عطا محمد صاحب تھے۔ کہتے ہیں کہ وہاں مولوی عبدالکریم صاحب نے جمعہ کی نماز پڑھائی۔ میں بالکل حضرت صاحب کے پاس کھڑا تھا اور حضورہی کی طرف میری توجہ تھی۔ جمعہ کے بعد حضور کے لئے کرسی بچھائی گئی ۔ حضور تشریف فرما ہوئے اور سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی۔ جس وقت حضور سورۃ فاتحہ پڑھ رہے تھے میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ بالکل بھولی بھالی شکل کا انسان ہے ۔یہ تقریریں ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ ان کی نہیں ہرگز ہو سکتیں۔مگر جب حضور نے تقریر فرمائی تو میرا شک رفع ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ اس تقریر میں حضور نے فرمایا کہ لوگ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں کہ وہ ربّ العالمین ہے، مالکِ یوم الدین ہے، اور چاہتے ہیں کہ گمراہی کے ازالہ کا اللہ کوئی علاج کرے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے علاج کا سامان کیا ہے تو لوگ منکر ہورہے ہیں۔ کیا خدا تعالیٰ ظالم ہے کہ ایک تو امت گمراہ ہو رہی ہو اور دوسرے ان میں ایک دجال کو بھیج کر انہیں اور گمراہ کرے؟ یہ سوچتے نہیں۔ اس تقریب کا لوگوں پر اس قدر اثر ہوا کہ بے شمار مخلوق نے بیعت کی۔ مجھے چوہدری اللہ دتہ صاحب نے کہا کہ بیعت کرو کیا دیکھتے ہو؟ ان کی تحریک سے میں نے دستی بیعت کر لی۔ اس سے پہلے میں حضرت اقدس کی ہر مجمع میں تائید کیا کرتا تھا مگر ابھی تک بیعت نہیں کی تھی۔ ہاں ایک بات یاد آئی۔ جب حضرت صاحب فٹن پر سوار ہوئے تو ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا اس نے کہا یہ منہ جھوٹے کا نہیں۔ میرے منہ سے حضرت صاحب کو دیکھ کر بے اختیار یہ کلمہ نکلا کہ اس نے کبھی آسمان کو نہیں دیکھا ہو گا۔ حضرت صاحب کی نظر اس وقت بھی نیچی تھی۔( نظریں ہمیشہ نیچی رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اتنی نظریں نیچی رکھتے ہیں کبھی آسمان نہیں دیکھا ہوگا۔)
ایک دفعہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی گئی کہ حضور! مکان کے نیچے خلقت بے شمار جمع ہے۔ حضور کو دیکھنا چاہتی ہے۔ حضور نے کھڑکی میں سے چہرہ مبارک باہر نکالا۔ مخلوق اس قدر ٹوٹی پڑی کہ قریب تھا کہ کئی لوگ دَب کر مر جائیں۔ اس پر حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ حضور چہرہ مبارک اندر کر لیں ورنہ کوئی حادثہ ہو جائے گا۔ چنانچہ حضور نے چہرہ اندر کر لیا۔
چوہدری حاکم دین صاحب میانوالی خانہ والی کی 1902ء کی بیعت ہے۔وہ روایت کرتے ہیںکہ میرا بھائی احمدی تھا اور مولوی تھا۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ اس کو کیا ہو گیا۔ پہلے موحّد بنا اب احمدی ہو گیا۔ ہمیں اس سے بڑی نفرت ہو گئی۔ وہ ہمیں سمجھاتا رہا۔ قلعہ صوبہ سنگھ سے مولوی فضل کریم صاحب بھی سمجھانے کے لئے آتے مگر ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی۔ پھر ایک مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے رحیم بخش عرضی نویس پتھوکے کا تھا اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی شاہ محمد آف قلعہ میاں سنگھ تھا۔ غیر احمدی مولوی صرف رفع الی اللہ ہی کو پیش کرتا تھا مگر احمدی قرآنِ کریم کی کئی آیتیں پڑھ کر استدلال کرتا تھا۔ اس وقت ہمیں سمجھ آئی کہ یہ لوگ بھی مسلمان ہیں۔ اس سے پہلے ہم احمدیوں کو عیسائیوں کی طرح سمجھتے تھے۔ وہاں ہی مَیں نے احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھی۔ راستے میں سوچا۔ پھر بھائی کے ساتھ قادیان گیا۔ (یہ مولویوں کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے جیسا کہ مَیں نے کہا، ہمیشہ ہر وقت چلتا رہتا ہے۔ اب دیکھیں کہ انہوں نے تحقیق کا کیا ذریعہ ڈھونڈا۔ جستجو ہو، نیک فطرت ہو تو آدمی ہر ذریعہ تلاش کرتا ہے۔ انہوں نے یہ کیا۔ کہتے ہیں کہ میں تحقیق کرنے کے لئے )پہلے اُس شخص کے پاس گیا جو چُوڑھوں کا بادشاہ کہلاتا ہے( یعنی جو کام کرنے والے ہیں، خاکروب ہیں۔ )وہ خود تو موجود نہ تھا اس کا بالکہ ملا جو بوڑھا ہو چکا تھا (یعنی اس کا نائب۔) اس سے مَیں نے پوچھا کہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے بارہ میں آپ کو کوئی واقفیت ہے؟ اس نے کہا کہ پہلے تو نورٌ علی نور تھا۔ بڑی عبادت کیا کرتا تھا۔ مگر اب اسے غلطی لگ گئی ہے۔ پھر ایک اور فقیر سے پوچھا کہ کیا آپ احمدی ہیں؟ کہنے لگا نہیں۔ مَیں نے کہا کیوں؟ کہنے لگا مجھ پر مرزا صاحب کے رشتہ داروں نے دعویٰ کیا تھا کہ جہاں یہ رہتا ہے یہ مکان اس کا نہیں ہے۔ مَیں نے مرزا صاحب کو ہی صفائی میں طلب کر لیا۔ مرزا صاحب نے عدالت میں کہہ دیا کہ یہ غریب فقیر ہے۔مکان اس کے پاس ہی رہے تو کیا حرج ہے؟ ۔ اس پر مکان مجھے مل گیا۔ مرزا صاحب کے رشتے دار اُن پر بڑے خفا ہوئے۔ کہتے ہیں، اس پر مَیں نے اس فقیر سے کہا کہ پھر بھی تجھ پر مرزا صاحب کی سچائی نہیں کھلتی؟ کہنے لگا بات یہ ہے کہ یہ جو شرطیں لگاتا ہے ان پر چلنا مشکل ہے۔( شرائط بیعت بڑی مشکل ہیں) کہتے ہیں کہ ان دونوں فقیروں کی باتوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ جو شخص پہلے نورٌ علی نور تھا اب وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس پر میں نے بیعت کر لی اور پھر کئی دفعہ حضور کی زندگی میں قادیان گیا اور سیالکوٹ لیکچر کے موقع پر بھی گیا۔
چوہدری عبداللہ خان صاحبؓ داتہ زیدکا، ان کی بیعت 1902ء کی ہے یہ لکھتے ہیں کہ 1902ء میں یہاں گرمی کے موسم میں دو مولوی آئے۔ ایک فضل کریم صاحب مرحوم قلعہ صوبہ سنگھ کے، اور دوسرے عبدالحئی۔ مؤخر الذکر نے حضرت صاحب کے خلاف ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ یہ کفر کی حالت میں ہی مرا ہے۔ مگر مولوی فضل کریم صاحب میرے ساتھ ایمان لائے تھے۔ یہ دونوں مولوی صاحب ایک رات میرے پاس ٹھہرے۔ مَیں نے حضرت صاحب کے متعلق ان سے دریافت کیا۔ پہلے مولوی فضل کریم صاحب بولے اور کہا کہ وہ کافر ہیں۔ مَیں نے کہا کہ تحقیقات کے بغیر کافر کہنا ٹھیک نہیںہے۔ پھر مولوی عبدالحئی صاحب بولے اچھا دوکاندار تو ضرور ہیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کہا کہ وہ دوکاندار تو ضرور ہیں)۔ مَیں نے کہا کہ اگر دوکاندار ہوتے تو وہ چیز پیش کرتے جسے ہر شخص خوشی سے لیتا ہے۔ ایسا مہنگا سودا پیش نہ کرتے جسے کوئی لیتا ہی نہیں ہے بلکہ الٹی مخالفت ہو رہی ہے ۔ (ہر ایک کو اپنی اپنی دلیل سوجھتی ہے اور یہ بھی بڑی اچھی دلیل ہے ۔) تو اس واقعہ کے بعد میرے دل میں بہت تحریک ہوئی اور مَیں تحقیقات کرتا رہا۔ جنوری یا فروری 1903ء میں مولوی فضل کریم صاحب یہاں تشریف لائے۔ مَیں نے ان کو علیحدگی میں حضرت صاحب کی بابت پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ جس طرح وہابی لوگوں کو لوگ ناپسند کرتے تھے مگر وہ سچے نکلے۔ ایسے ہی گو آج کل مرزا صاحب کی مخالفت کی جا رہی ہے مگر آخر یہ سچے ہی نکلیں گے۔ اس پرمَیں نے کہا کہ پھر آپ بیعت کیوں نہیں کر لیتے۔ انہوں نے کہا کہ مخالفت بہت ہو گئی ہے۔ مَیں نے کہا مَیں زمیندار ہوں۔ اپنی روزی کما کر کھاتا ہوں اور آپ حکیم ہیں۔ اس لئے آج ہی ہمیں بیعت کا خط لکھنا چاہئے۔ چنانچہ ہم نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ جمعہ کا دن تھا مَیں نے یہاں اعلان کردیا کہ مَیں نے حضرت مرزا صاحب کی بیعت کر لی ہے اور مولوی صاحب نے قلعہ میں اعلان کر دیا۔ پھر مخالفت ہوتی رہی۔
حضرت محمد شاہ صاحبؓ ابن عبد اللہ شاہ صاحب آف لدھیانہ لکھتے ہیں کہ میرا پہلے یہ خیال تھا کہ جو سیدہیں ان کو کسی دوسرے کی بیعت کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا مقام اس سے گرتا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ کچھ مدت تک اسی خیال میں پختہ رہا۔ لیکن جب بھی کسی مجلس میں حضرت مرزا صاحب کا ذکر ہوتا۔ اگر تعریفی رنگ میں ہوتا تو دلچسپی سے سنتا اور جس مجلس میں مخالفت ہوتی اس مجلس میں بیٹھنا ناگوار گزرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قائل تھے لیکن جو سید کا ایک ٹائٹل لگا ہوا تھا، اس کی وجہ سے اَنا زیادہ بڑھ گئی تھی۔ کہتے ہیں اس مجلس میں نہ بیٹھتا ۔ اٹھ کر چلا جاتا۔ آخر ایک روز کسی کے منہ سے بے پیر اور بے مرشد سن کر جو کہ کسی اور کو کہہ رہا تھا،خیال آیا کہ بے پیر اور بے مرشد تو ایک گالی ہے اور میں خود بھی بے پیر اور بے مرشد ہوں۔( سید تو ہوں لیکن میرا کوئی پیر نہیں، اور مجھے کوئی پیر ماننے کو تیار نہیں ہے۔)کیا سید مستثنیٰ ہیں؟(آج کل بھی بعض سیّدوں کا یہی حال ہے ) خود ہی بعض گدی نشینوں کا خیال آکر کہ بعض بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں اور سید تھے۔ انہوں نے بھی بعض غیر سید بزرگوں کی بیعت کر کے فیض حاصل کیا تھا۔ تو بہر حال کہتے ہیں ہمیں بھی اپنی جگہ فکر رہنے لگا لیکن کم علمی اور جہالت کی وجہ سے کسی سے دریافت تو نہ کیا۔ لیکن ایک مقصد دل میں رکھ کر بعض اچھے آدمیوں سے اپنے مقصد کے پورا ہو جانے کے واسطے کچھ وِرد پوچھنے اور کرنے شروع کر دئیے۔(دعائیں بھی شروع کیں، کچھ وِرد کرنے شروع کر دئیے۔) اور مقصد یہی تھا کہ مرشدِ کامل اور سید مل جاوے۔ چنانچہ کافی عرصے تک چِلّوں اور وِردوں کی دھن لگی رہی اور کرتا رہا۔ قبرستانوں میں، دریاؤں میں، کنوؤں پر اور پہاڑوں میں، بزرگوں کے مزاروں پر، غرضیکہ راتوںکو بھی خفیہ جگہوں پر جا جا کر چالیس چالیس دن چِلّے کئے۔ (یعنی کہ ایک شوق تھا، لگن تھی کہ بہر حال کسی پیر و مرشد کو میں نے تلاش کرنا ہے۔ )کچھ نہ بنا۔ آخر ایک روز مایوس ہو کر لیٹ گیا اور سو گیا۔ نیند میں ایک بزرگ کو دیکھا اس نے تسلی دی کہ بیٹا تمہیں جو مرشد ملے گا وہ سب کا مرشد ہو گا۔ اس کے ہوتے ہوئے سب پیر اور مرشد مات ہو جائیں گے۔ یہ نظارہ دیکھ کر دل کو تسلی ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ مرشدِ کامل انشاء اللہ مل جاوے گا۔ آخر شروع 1905ء میں ایک رات مَیں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے جو کہ بالکل صاف اورپاکیزہ کیا گیا ہے جیسے ایک بہت بڑا جلسہ گاہ ہو۔ نہایت صاف اور اس میں ایک سٹیج اونچی اور بادشاہوں کے لائق جس کی تعریف میرے جیسے کم علم سے نہیں ہوسکتی، تیار ہے۔ مجھ کو یہ شخص کہہ رہا ہے کہ یہاں آج کل نبیوں علیہم الصلوٰۃ والسلام کا اجتماع ہے۔ اور رسولِ کریم یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ آج اپنے پیارے بیٹے کو تخت پر بٹھانے آئیں گے۔ تو مَیں خوشی میں اچھلتا ہوا اور نہایت تیزی سے دوڑتا ہوا اس میدان میں سٹیج کے عین قریب سب سے پہلے ہانپتا ہوا اور سانس پھولا ہوا پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ میدان کھچا کھچ نورانی شکل کے پاک لوگوںسے بھر گیا کہ معاً سب کی نظریں اوپر کی طرف کو دیکھنے لگیں۔ مَیں نے بھی اوپر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہوائی جہازوں کی طرح جھولے نہایت نفیس بنے ہوئے ہیں اور ان میں کسی میں ایک مرد ایک عورت یا دو عورتیں اور کسی میں فقط عورتیں یا فقط مرد آسمان سے نہایت آرام سے اترتے ہیں۔ مجھے خود بخود معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ فلاں نبی ہے اور یہ فلاں نبی ہے اور بہت سی امہات المؤمنین بھی مثلاً مائی صاحبہ حوّا، مائی صاحبہ ہاجرہ،مریم اور بی بی فاطمہ و خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھن سب تشریف لے آئیں۔ اور جب سب نبی علیہم الصلوٰۃ والسلام اور امہات المؤمنین آکر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور اسی طرح انتظار ہونے لگا کہ جیسے جمعہ کے روز قادیان شریف مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا انتظار لوگ کرتے ہیں۔ (اُس زمانے کی بات ہے)اور بعض دفعہ آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہنے لگتے ہیں کہ باپ بیٹا آتے ہی ہوں گے۔ کافی دیر کے بعد ایک جھولا اترا جو کہ سب جھولوں سے زیادہ سجا ہوا تھا۔ اس میں جناب حضرت محمد مصطفی ﷺ اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اتر کر سٹیج پر جو دو کرسیاں ساتھ ساتھ پڑی تھیں تشریف فرما ہوئے۔ پہلے مجھ کو رسولِ کریم ﷺ نے پھر حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے السلام علیکم کہا۔ اور پہلے افتتاحی تقریر رسولِ کریم ﷺ نے کی اور فرمایا کہ میں اپنے بیٹے کوآپ سب نبیوں کے سامنے جس کے متعلق پہلے سے آپ لوگوں کو خبریں دی جا چکی ہیں، تخت پر بٹھاتا ہوں۔ پھر حضرت مرزا صاحب مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے تقریر فرمائی۔ اس وقت مجھے سید کی حقیقت معلوم ہوئی اور حضرت صاحب کو دیکھا کہ وہ وہی لدھیانہ کے سٹیشن والے ہی مرزا صاحب تھے۔ دوسرے روز سب سے پہلے بیعت کا خط لکھ دیا۔ ہزاروں ہزار برکتیں نازل ہوں مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام پر اور ان کی اولاد پر۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی جنہوں نے 1897ء میں بیعت کی تھی اور 1899ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مَیں نے ایک عربی قصیدہ سنایا۔ مسجد مبارک میں مغرب کی نماز کے بعد چھت پر میں قصیدہ سنانے لگا۔ جب مَیں نے وہ شعر پڑھا جس میںمَیں نے اسلام کے علماء جو سلسلہ احمدیہ کے مخالف اور دشمن تھے، ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ کیا تم اپنی حماقت سے اپنے دجال کی تائید کرتے ہو؟ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے ذریعہ جو زندوں کا تو نہیں البتہ مردوں کا سردار ہے۔ حضرت صاحب نے جب یہ شعر سنا تو آپ نے اس شعر کو بہت ہی پسند فرمایا اور فرمایا کہ یہ شعر بہت ہی اچھا ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں آنحضرت ﷺ کے مقام کو اونچا کرنے کے بارے میں عجیب تڑپ تھی۔ کوئی بات سنتے تھے تو اس پر انتہائی پسندیدگی کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔) اور کہتے ہیں کہ کہا اس کو دوبارہ پڑھو اور بار بار سناؤ۔ چنانچہ خاکسار نے اس شعر کو پھر دہرا کر پڑھا۔ اس کے بعد یہ شعر مجھے اب تک یاد ہی رہتا ہے اور جب مَیں اسے پڑھتا ہوں تو وہ سماں اور منظر حضرت مسیح موعود ؑکی مجلس کا میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ اور روح کو مسرت بھی ہوتی ہے اور اس پیارے مسیح کی فرقت کے باعث طبیعت ایک حزن و غم اور حسرت بھی محسوس کرتی ہے۔ سو یہ شعر بھی میرے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگاروں میں سے بطور ایک یادگار کے ہے۔
پھر حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب ابن مکرم شیخ بابو جمال الدین صاحب روایت کرتے ہیں کہ’’ میرے والد صاحب نے 1898ء کے قریب حضرت اقدسؑ کی بیعت کی تھی۔ وہ دمیلی میں سٹیشن ماسٹر تھے۔ جہلم کے پاس ایک جگہ ہے۔ وہاں ایک شخص نے حضرت اقدسؑ کا ذکر کیا۔ انہوں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ قادیان جا کر اس شخص کو ضرور دیکھنا ہے۔ چنانچہ وہ رخصت لے کر گوجرانوالہ آئے اور یہاں سے قادیان گئے۔ بغیر کسی دلیل کے حضرت اقدسؑ کا چہرہ دیکھ کر ہی وہ ایمان لے آئے‘‘۔
صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
حضرت میاں ابراہیم صاحبؓ ابن مکرم محمد بخش صاحب روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے سب سے پہلے حضرت اقدس کو اس وقت دیکھا جبکہ حضور جہلم تشریف لے جا رہے تھے، واپسی پر بھی دیکھا تھا۔ پھر لاہور 1904ء میں، پھر 1905ء میں قادیان گیا۔ قادیان جانے سے پہلے مجھے ایک خواب آئی تھی جس کا مفہوم یہ تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ والد صاحب گھر سے باہر گئے ہوئے ہیں اور گھر میں صرف میں اور میری چھوٹی ہمشیرہ ہیں۔ دیکھا کہ دو آدمی دروازے پر آئے، دستک دی اور آواز دی۔ میں نے باہر نکل کر دروازہ کھولا۔ وہ دونوں میری درخواست پر اندر تشریف لے آئے۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر کے صحن میں ایک دری اور تین کرسیاں بچھی ہوئی ہیں سامنے ایک میز بھی پڑی ہے۔ میں نے ان کو کرسیوں پر بٹھا دیا اور چھوٹی ہمشیرہ کو کہا کہ ان کے لئے چائے تیار کرو۔ وہ کوٹھے پر ایندھن لینے کے لئے گئی۔(اس زمانے میں لکڑیاں اوپر رکھی ہوں گی) ابھی وہ سیڑھیوں پر ہی تھیں کہ ایک سیاہ رنگ کا اچھے قد و قامت کا سانڈ اندر آ گیا۔( بڑا سارا بیل) اور ان آدمیوں کو دیکھ کر فوراً واپس ہو گیا۔ اورسیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔ مَیں نے شور ڈال دیا کہ میری ہمشیرہ کو مار دے گا۔ شور سن کر پہلے سیاہ داڑھی والے مہمان اٹھنے لگتے ہیں مگر سرخ داڑھی والے نے کہا کہ چونکہ یہ کام آپ نے میرے سپرد کیا ہوا ہے اس لئے یہ میرا کام ہے۔ چنانچہ وہ گئے۔ مَیں بھی پیچھے ہو لیا۔ ہمشیرہ دیوار کے ساتھ لگ گئی۔ اور اسے کچھ خراش لگی ہیں۔ مگر زخم نہیں لگا۔ ہم اوپر چلے گئے۔ سانڈھ ہماری مغربی دیوار پر انجن کی شکل میں تبدیل ہو گیا۔ اور دیوار پر آگے پیچھے چلنے لگا۔ کہتے ہیں جب دیوار کے آخری کونے پر پہنچا تو اس پر مہمان نے سوٹا مارا اور پیچھے کی طرف گِرکر چُور چُورہو گیا۔ہم واپس آ گئے اور وہ مہمان پھر کرسی پر بیٹھ گئے اور چائے پی۔ مجھے بھی انہوں نے پلائی۔ چائے پینے کے بعد کچھ دیر وہ بیٹھے رہے۔باتیں کرتے رہے پھر کہنے لگے، برخوردار! ہمیں دیر ہو گئی ہے۔ اجازت دو تا کہ ہم جائیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ آپ مجھے بتائیں تو سہی کہ آپ کون ہیں تا مَیں اپنے والد صاحب کو بتا سکوں۔ میری اس عرض پر وہ دونوں خفیف سے مسکرائے۔ کالی داڑھی والے نے کہا کہ میرا نام محمد ہے اور ان کا نام احمد ہے۔ مَیں نے یہ سن کر نبی کریم ﷺ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا کہ پھر مجھے کچھ بتائیں۔ انہوں نے عربی زبان میں ایک کلمہ کہا جو مجھے یاد نہیں مگر اس کا مفہوم جو اُس وقت میرے ذہن میں تھا وہ یہ تھا کہ تیری زندگی کے تھوڑے دن بہت آرام سے گزریں گے۔ پھر مَیں نے مصافحہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے باپ کو میرا السلام علیکم کہہ دینا۔ وہ باہر نکل گئے۔مَیں نے ان کو رخصت کیا۔ ان کے جانے کے بعد خواب میں ہی میرے والد صاحب آ گئے۔ مَیں نے سارا واقعہ سنایا۔ وہ فوراً باہر گئے۔ اتنے میں میری نیند کھل گئی جس کا باعث یہ ہوا کہ میرے باپ نے مجھے آواز دی کہ اٹھ کر نماز پڑھو۔کہتے ہیں، مَیں نے اپنے والد صاحب کو یہ خواب سنائی۔ اس دن جمعہ تھا۔ جمعہ کے وقت مَیں نے منشی احمد دین صاحب اپیل نویس کو یہ خواب سنائی انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں خود لکھ کر یا مجھ سے لکھوا کر بھیج دی اور چند روز بعد کہا کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ جلسے پر اس لڑکے کو ساتھ لے آؤ۔ اُن کی عمر چھوٹی تھی جب اﷲ تعالیٰ نے خواب دکھائی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس لڑکے کو ساتھ لے آؤ۔ چنانچہ جلسے پر مَیں گیا۔ جب ہم مسجد مبارک میں گئے تو دو تین بزرگ بیٹھے تھے۔ ہم نے ان سے مصافحہ کیا، اتنے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ تشریف لے آئے۔ ہم کھڑے ہو گئے۔مصافحہ کیا۔پھر حضور بیٹھ گئے۔ منشی احمد دین صاحب نے عرض کی کہ حضور! یہ وہ لڑکا ہے جسے خواب آئی تھی۔ حضور نے مجھے گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ وہ خواب سناؤ ۔ چنانچہ مَیں نے وہ خواب سنائی۔ پھر اندر سے کھانا آیا۔ حضور نے کھایا اور دوستوں نے بھی کھایا۔ اور جب حضرت اقدس کھانا کھا چکے تو تبرک ہمارے درمیان تقسیم کر دیا۔ ہم نے وہاں بیٹھے ہی کھایا۔ میرے والد صاحب نے عرض کی کہ مجھے کوئی تبرک عنایت فرمادیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی بچوں کو خوابیں دکھاتا ہے۔ اس زمانہ میں بھی بعض چھوٹی عمر کے بچے خوابیں دیکھتے ہیں۔
حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ ابن مکرم شیخ بابو جمال الدین صاحب روایت کرتے ہیں کہ’’ مَیں جب دسویں کلاس میں پڑھتا تھا تو حضرت اقدسؑ کے مکان کے ارد گرد ہمارا پہرہ ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ہم پہرہ دے ہی رہے تھے کہ ہم نے حضرت اقدسؑ کی وفات کی خبر سنی۔ حضورؑ کے زمانہ میں جب ہم پہرہ دیتے تھے تو ہمارے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہوا کرتی تھیں‘‘۔
میاں فیروز دین صاحبؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور یہ جو نانبائی ہے یہ روٹیاں چُرا لیتا ہے۔ حضورؑ خاموش رہے۔ دوسرے دن پھر عرض کیا۔ حضورؑخاموش رہے۔ تیسرے دن پھر عرض کیا۔ آپ نے فرمایا:میر صاحب یہ تو ایک روٹی کے لئے دو دفعہ دوزخ میں جاتا ہے۔ ایک دفعہ نکالنے کے لئے اور ایک دفعہ لگانے کے لئے،اس سے بڑھ کر مَیں اس کو کیا سزا دوں گا؟ اگر کوئی اور اس سے اچھا آپ کو ملتا ہے تو آپ لے آئیں۔
بہر حال یہ چند واقعات ہیں جو میں نے اُس میں سے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے بھی ہر ایک کو ایمان اور ایقان میں بڑھائے اور یہ لوگ جن کی روایات ہیں یقینا ان کی نسلیں بھی یہ واقعات سن رہی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے کچھ یہاں موجود بھی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا میں بھی برکت ڈالے۔ اور ان میں سے ہر ایک کو اخلاص اور وفا میں بڑھاتا چلا جائے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث ہم بھی اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں بھی بنتی چلی جائیں۔ اور جلد سے جلد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے جو غلبہ اسلام کی مہم ہے اس کو بڑی شان سے کامیاب اور پورا ہوتے ہوئے دیکھیں۔
خطاب کے آخر پر حضورانور نے اجتماعی دعا کروائی ۔
(یہ روایات رجسٹر روایات(قلمی) نمبر6اور10 سے لی گئی ہیں)۔

اپنا تبصرہ بھیجیں