محترم ارشاد علی خان صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 25؍اگست2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍مارچ2014ء میں محترم ارشاد علی خان صاحب کا ذکرخیر اُن کے نواسے مکرم علی احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم ارشاد علی خان صاحب 1938ء میں ضلع روہتک (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان پر آپ ضلع منڈی بہاؤالدین کے نواحی گاؤں رکھ بلوچ میں رہائش پذیر ہوگئے۔ اس وقت آپ کے والد وفات پاچکے تھے اور آپ نہایت سخت حالات میں چھٹی جماعت میں کہار ضلع جہلم کے ایک سکول میں داخل ہوگئے۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک احمدی طالب علم سے ہوئی جس کو لڑکے مرزائی وغیرہ کہہ کر تنگ کرتے تھے۔ آپ کو اس سے قبل احمدیت کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا اس لیے آپ نے اُس احمدی لڑکے سے معلومات لینا چاہیں تو اُس نے اپنے والد سے آپ کو ملوادیا جنہوں نے احمدیت کا تعارف کروایا اور کچھ کتب بھی دیں۔ یہ بات سکول میں پھیلی تو سکول میں ملازم آپ کے گاؤں کے منشی صاحب نے آپ کے گھر جاکر بتایا کہ اپنے لڑکے کو واپس بلالو ورنہ وہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس پر ساتویں کلاس میں آپ کو سکول سے اٹھالیا گیا۔ آپ نے بھرپور شور مچایا لیکن سکول جانے کی اجازت نہیں ملی۔ ایک سال تک آپ کے مسلسل رونے دھونے سے آپ کے چچا کو ترس آگیا تو انہوں نے اس شرط پر پڑھنے کی اجازت دے دی کہ آپ کہار سکول میں نہیں پڑھیں گے۔ چنانچہ آپ کو منڈی بہاؤالدین کے ایک سکول میں داخل کروایا گیا۔ مڈل کا امتحان شروع ہونے میں دو تین ماہ باقی تھے۔ گھر کے مسدود حالات آپ کے کپڑوں سے ظاہر تھے۔ کتابیں بھی پوری نہ تھیں۔ آپ دوسرے لڑکوں سےعاریۃً کتابیں مانگ کر پڑھتے رہے۔ خدا تعالیٰ نے ذہن رسا دیا تھا اس لیے جو پڑھتے وہ یاد ہوجاتا۔ اس دوران آپ خداتعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتے رہے کہ اے مولا کریم! مجھے پتہ ہے کہ احمدیت سچی ہے لیکن میرے دل کی تسلّی کے لیے مجھے یہ نشان دکھادے کہ مَیں مڈل بورڈ میں اوّل آؤں۔ خداتعالیٰ نے بڑی شان سے یہ نشان دکھایا اور 1953ء کے مڈل امتحان میں آپ پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ یہ وہ دَور تھا جب پنجاب میں احمدیت کے خلاف فسادات بھی کیے گئے۔ سکول میں بھی احمدیت کی بہت مخالفت تھی تاہم آپ نے کسی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور 1954ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ حضورؓ اُس وقت یورپ کے دورے پر تشریف لے گئے تھے۔ چنانچہ بیعت کی منظوری کی اطلاع آپ کو حضورؓ کے یورپ کے دورے سے واپس آنے پر اُس وقت ملی جب آپ سرگودھا میں ایف اے میں زیرتعلیم تھے۔
تعلیم مکمل کرکے آپ بینک میں ملازم ہوگئے اور نیشنل بینک آف پاکستان میں وائس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ آپ ایک اچھے ہومیوپیتھ ڈاکٹر بھی تھے۔ گاؤں میں بےشمار مریضوں کا علاج مفت کیا۔ بہت مہمان نواز اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ آپ کے اخلاق کا اثر احمدی غیراحمدی سب پر یکساں تھا۔ صلہ رحمی کا بہت جذبہ تھا۔ زندگی بھر اپنے غیراحمدی بھائیوں کو اپنی زمینیں دیے رکھیں اور کبھی حساب کتاب نہیں کیا۔ لوگ برملا کہتے کہ آپ بہت اچھے انسان ہیں مگر ہیں قادیانی۔ آپ جواب دیتے کہ ہم اچھے اسی لیے ہیں کہ احمدی ہیں۔ 17؍دسمبر2009ء کو آپ کی وفات ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں