محترم سیّد عبدالحئی شاہ صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 26؍اگسست 2024ء)

سید عبدالحئی شاہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں محترم سیّد عبدالحئی شاہ صاحب صدر الفضل بورڈ کی اخبار الفضل کے لیے خدمات کو پیش کرتے ہوئے مکرم آغا سیف اللہ صاحب رقمطراز ہیں کہ جولائی۱۹۸۴ء سے اکتوبر ۲۰۰۶ء تک مجھے محترم شاہ صاحب کے ماتحت بطور مینیجر و پبلشر کام کرنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی فراوانیٔ فکر اور غیرمعمولی ذہانت عطا کی تھی کہ مایوس کُن حالات میں بھی اپنے فرائض کی تعمیل و تکمیل کی غرض سے کوئی نہ کوئی تدبیر کرنے میں کامیاب رہتے۔ ۱۹۸۴ء میں الفضل کی اشاعت پر حکومت نے پابندی عائد کردی۔ اشتہارات اور کاغذ کا کوٹہ پہلے ہی بند کرچکے تھے۔ مقدمات بھی بنائے گئے۔ مالی حالات بہت ناگفتہ بہ ہوگئے لیکن آپ کی راہنمائی میں جو اقدامات کیے گئے اُن میں عارضی عملے کی فراغت کے علاوہ مختلف رسالہ جات (انصاراللہ، خالد، مصباح اور تحریک جدید) کے ضمیمہ جات کی اشاعت کا آغاز بھی تھا۔ ہر ہفتے چار ہزار کی تعداد میں کسی ایک رسالے کا ضمیمہ شائع ہوتا اور الفضل کے متبادل کے طور پر بھجوایا جاتا۔ آخر چار سال کی بندش کے بعد ہائیکورٹ کے جسٹس خلیل رمدے صاحب نے اس پابندی کو کالعدم قرار دے دیا۔ اُس وقت وکلاءکرام کے درمیان الفضل کی دوبارہ اشاعت شروع کرنے کے طریق پر اختلاف رائے ہوا تو محترم شاہ صاحب کے حکیمانہ فیصلے اور حوصلہ افزائی کے نتیجے میں راتوں رات الفضل کا پرچہ شائع کرواکر علی الصبح ربوہ کے گھروں میں تقسیم کردیا گیا۔ اس پُرحکمت فیصلے نے ایک پُرمسرت فضا پیدا کردی۔

آغا سیف اللہ صاحب

محترم شاہ صاحب ہر معاملے میں خلیفہ وقت سے راہنمائی کے طالب ہوتے اور پھر ہدایت دیتے۔ آپ کی ہدایت پر الفضل کے تین کارکنان کو کمپوزنگ کی تربیت دلائی گئی اور اخبار کو کتابت سے کمپوزنگ میں تدریجاً ترقی دے دی گئی۔
مختلف قانونی قدغنوں اور تحریری مواد پر پابندیوں کے باوجود اُس دَور میں ادارتی عملے نے محنت شاقہ اور بالغ نظری سے اخبار الفضل کو حکومت کی چیرہ دستیوں سے بچانے کی مکمل کوشش جاری رکھی اور قرآن کریم، احادیث، ملفوظات، خلفائے کرام کے ارشادات اور دیگر اطلاعات و اعلانات کی اشاعت میں کبھی رخنہ نہیں آنے دیا۔ مالی طور پر بھی الفضل کا ادارہ مستحکم ہوتا چلا گیا جس میں مکرم شاہ صاحب کی شخصیت کا بڑا دخل تھا۔ انہیں خوشکُن طریق پر اپنی ہدایات تعمیل کرانے کا ملکہ حاصل تھا اور اپنے ماتحتوں پر اعتماد اور اُن کی اچھی کارکردگی پر نوازنے کا سلیقہ بھی خوب تھا۔ کبھی طعن و تشنیع یا ناجائز سرزنش نہ کرتے۔ دفتر کا ہر چھوٹا بڑا کارکن اپنی معروضات یا شکایات لے کر بلاجھجک آپ کے پاس چلا جاتا اور آپ پورے حلم اور توجہ سے ہمدردی اور ممکنہ دادرسی بھی کرتے۔ اگر شکایت کنندہ کی بات درست نہ ہوتی تو بھی لہجہ میں تلخی اور الفاظ میں سختی لائے بغیر دھیمے انداز میں مناسب نصیحت فرمادیتے۔ بہت نرم خُو، معاملہ فہم اور مزاج شناس تھے۔
ادارہ الفضل کے کئی کارکنان کو اُس دَور میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ہمیں کراچی اور سندھ میں بسلسلہ مقدمات پیشی پر جانا ہوتا تو شاہ صاحب تسلی دہندہ ہوتے اور صدقہ و عبادت کی تلقین کرتے ہوئے وعدۂ دعا کے ساتھ رخصت کرتے۔ آپ بھی کئی مقدمات میں ملوّث کیے گئے تو پیشی پر جانے کے لیے لبوں پر مومنانہ مسکراہٹ لیے ساتھ ہوتے۔ آپ کی کوشش ہوتی کہ آپ کے لیے کوئی امتیازی سہولت نہ پیدا کی جائے۔ بڑی ہی سادگی اور درویشی سے ہم میں گھل مل جاتے اور ہمارے ساتھ ہی رہتے خواہ فرش پر بیٹھنا پڑتا۔
محترم شاہ صاحب دفتر کی تعمیر و ترقی اور کارکنان کی بہبود کا خیال بھی رکھتے لیکن بلاجواز خرچ کی اجازت نہ دیتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں