محترم ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید

برادرم ماسٹر عبدالقدوس شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل جلسہ سالانہ نمبر 21 تا 26؍جولائی 2025ء)

(تحریر: محمود احمد ملک)

جان دی ، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

عظیم شاعر اسداللہ خان غالب نے تو نہ جانے کن خیالات کے مدِّنظر یہ خوبصورت شعر کہا ہوگا لیکن راہ وفا میں ایک احمدی شہید کے جذبات کی عکاسی یہ شعر برملا کر رہا ہے۔جب بھی الٰہی سلسلوں کی مخالفت کی تاریخ اور مومنین کی راہ حق میں قربانیوں کا خیال ذہن میں ابھرتا ہے تو اولاً ان سرفروش مومنین و معصومین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر خیر دل کی زبان پر ورد کرنے لگتا ہے جنہوں نے قرون اولیٰ کے اہل ایمان کے نقوشِ پا پر چلتے ہوئے دینِ حق کی سربلندی کی خاطر مخالفت کی آندھیوں کے سامنے ثبات قدم اور عدو کے ہر ہر ناروا ظلم و ستم کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے دلیری کے ساتھ اپنا سر کٹوانا پسند کیا اور راہ حق میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے رضائے باری تعالیٰ سے مزین حیاتِ جاودانی کے تاج سروں پر سجالیے۔ عالمِ احمدیت کے یہ روشن ستارے دنیابھر کے مختلف خطّوں، نسلوں اور قوموں میں جگمگارہے ہیں۔ اپنی گراں قدر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے احمدی جاں نثاروں کا ذکرخیر کیا جائے تو سینکڑوں پھولوں کا ایسا خوشنما گلدستہ دکھائی دیتا ہے جس میں آویزاں ہرپھول گو کہ اپنے رنگ، خوشبو اور حُسن میں تو منفرد ہے لیکن اس ایک قدرِ مشترک کے ساتھ کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے عہدِ وفا کی فعلی شہادت پیش کرتے ہوئے احمدیت اور حضرت مسیح الزمانؑ کے من جانب اللہ ہونے پر اپنے لہو سے مہر صداقت ثبت کرتے ہوئے ان بے مثال قربانیوں کو اپنے لیے عین فخر و سعادت جانا۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جس قربانی کا آغاز سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مبارک زمانہ میں شَاتَانِ تُذْبَحَانِ کی آسمانی خبرکے ساتھ دو پاکیزہ روحوں کی قربانی سے ہوا تھا، محض ایک صدی میں ایسے جاں نثاروں کی تعداد سینکڑوں میں ہوگئی۔ اور یہ بھی امر واقعہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اس الٰہی سلسلے کی مخالفت میں اضافہ اور عناد میں شدّت آتی گئی، اسیری کی صعوبتیں برداشت کرنے اور لہو کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا وہاں جماعت احمدیہ کی عالمگیر ترقیات کے بھی ناقابل یقین باب رقم ہونے لگے۔ دلائل اور براہین کے سامنے لاجواب و عاجز معاندین آج بھی ہر وہ حربہ اپنائے ہوئے ہیں جو انبیائے کرامؑ کے مخالفین ابتدائے آفرینش سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ دوسری طرف عاجزانہ وفاؤں کے پُرخلوص نذرانے پیش کرنے والے مخلصین کی تعداد میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوتا چلاجارہا ہے۔ یہ قربانیاں یقیناً رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ان شاءاللہ۔ لیکن ہمارا فرض ہے کہ شہدائے احمدیت کا ذکرِ خیر ہمیشہ اپنی نسلوں کے دلوں میں زندہ و جاوید رکھیں تاکہ احمدیت کی سربلندی کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے والے جاںنثار بھی قیامت تک اس الٰہی جماعت میں پیدا ہوتے چلے جائیں۔

مکرم ماسٹر عبدالقدوس شہید

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’محسنوں کو جماعت کبھی بھلایا نہیں کرتی۔‘‘ اپنے آقا کے اس ارشاد کے پیش نظر ہمارا فرض ہے کہ شہدائے احمدیت اور اُن کی نسلوں کو نہ صرف اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو ان کے اہل و عیال سے بھی ویسا ہی حُسن سلوک کریں جیسے ہم اپنی اولاد سے کرتے ہیں۔
شہادت کے عظیم مرتبہ کو قرآن کریم میں جس محبت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے اور شہید کے لیے خداتعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ نے اپنے پیار کا اظہار جن الفاظ میں فرمایا ہے اُس کی وجہ سے جب کسی احمدی بھائی کی شہادت کا ذکر چلتا ہے تو ساری جماعت کے دلوں میں سوگوار احساسات کے ساتھ ساتھ تسکین کی لہریں بھی موجزن نظر آتی ہیں کیونکہ یہ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں خداتعالیٰ نے اسی دنیا میں ایک کامیاب انجام کی خوشخبری عطا فرمادی گویا اپنی رضا کا سرٹیفکیٹ جاری فرمادیا۔

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے برادرم محترم ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی دردناک شہادت کا تفصیل سے ذکر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍اپریل 2012ء میں فرمایا تھا اور شہید مرحوم کو نہایت پیار سے خداتعالیٰ کے سپرد فرماتے ہوئے ان کے سفّاک قاتلوں کا معاملہ بھی خداتعالیٰ کی تقدیر کے حوالے کردیا تھا۔ مجلس انصاراللہ یوکے کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبرو دسمبر2018ء میں شہید مرحوم کا ذکرخیر خاکسار (محمود احمد ملک) کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

واقعات کے مطابق ربوہ کے محلہ نصرت آباد کے ایک رہائشی احمد یوسف کو کسی نے قتل کردیا اور پولیس نے مقتول کے بیٹے کے ایما پر مختلف احباب کو مختلف اوقات میں شک کی بِنا پر گرفتار کرکے شامل تفتیش رکھا اور بعد میں ان تمام احباب کو بےگناہ کرکے چھوڑ دیا گیا۔ اسی سلسلے میں مدّعی کی طرف سے محلّے کے صدر ماسٹر عبدالقدوس صاحب کا نام بھی لیا گیا تھا لیکن بعد میں بغیر کسی وجہ کے انہیں اس کیس میں نامزد کردیا گیا ۔ چنانچہ پولیس نے ان کو گرفتار تو کر لیا لیکن باقاعدہ پرچہ نہیں کاٹا اور گرفتاری بھی نہیں ڈالی۔ رابطہ کرنے پر پولیس افسران مسلسل یہی کہتے رہے کہ ہم جانتے ہیں یہ بھی بے گناہ ہے۔ جلد ہی معاملہ کلیئر (clear) ہوجائے گا، بعض مجبوریاں ہیں اس لیے ہم نے پکڑا ہوا ہے۔ اسی دوران ماسٹر صاحب کو پولیس نے تھانہ ربوہ سے کسی نامعلوم جگہ پر منتقل کردیا۔ اُن کو غائب کرنے کے دس دن کے بعد پولیس اُنہیں تھانہ میں واپس لے آئی اور ماسٹر صاحب کے ایک دوست کو فون کر کے کہا کہ اپنا بندہ آکے لے جاؤ۔ وہ دوست وہاں گئے تو پولیس نے اُس دوست سے ایک سادہ کاغذ پر دستخط لے لیے کہ ماسٹر صاحب کو مَیں واپس لے کر جارہا ہوں۔
ماسٹر صاحب کی حالت چونکہ ٹھیک نہیں تھی اس لیے وہ دوست انہیں تھانے سے سیدھے فضل عمر ہسپتال لے گئے جہاں جاکے انہوں نے بتایا کہ17؍مارچ کو رات کے اندھیرے میں اُنہیں کچھ پولیس اہلکار تھانہ ربوہ سے پانچ چھ گھنٹے کی ڈرائیو کے فاصلہ پر ایک نامعلوم مقام پر لے گئے اور انتہائی تشدّد کیا۔ بالکل ویران جگہ تھی۔ پولیس والے اُنہیں مارمار کے یہ کہتے رہے کہ اس قتل میں ملوّث کسی عہدیدار کا نام لے دو تو تمہیں چھوڑ دیں گے۔ ایک کاغذ پر دستخط کروانے کی کوشش بھی کرتے رہے اور انہوں نے بعض ناظران اور دوسروں کے نام بھی لیے۔ تشدّد کرتے ہوئے یہ اہلکار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفاء کے نام لے کر جماعت کے خلاف شدید بدزبانی کرتے۔کئی روز کے تشدّد کے نتیجے میں جب ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی حالت بہت خراب ہوگئی (انہیں پاخانے میں بھی خون آتا رہا، خون کی اُلٹیاں بھی آتی رہیں، گردوں پر بھی کافی اثر ہوا۔ ویسے ہوش میں تھے لیکن اندرونی طور پر انتہائی شدید چوٹیں آئی تھیں) تو پولیس والوں نے انہیں کچھ دوائیں دیں اور حالت قدرے بہتر ہوئی تو واپس لاکر ان کے دوست کے حوالے کر دیا۔

مکرم عبدالقدوس شہید

فضل عمر ہسپتال میں ICU میں ماسٹر صاحب کو مسلسل خون کی بوتلیں لگائی گئیں۔ لیکن حالت سنبھلنے کے بعد دوبارہ بگڑ گئی۔ 29؍ مارچ کو دوبارہ خون کی الٹیاں آئیں۔ پھیپھڑے بھی متاثر تھے جس کی وجہ سے 30؍مارچ 2012ء کو بےہوش ہوگئے اور اُسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی اور شہادت کا رُتبہ پایا۔
شہید مرحوم نے شہادت سے قبل بتایا کہ پولیس والوں کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا کہ یہ تمہارا بیان ہے اس پر دستخط کردو تو تمہیں چھوڑ دیں گے۔ اُس میں لکھا تھا کہ جو قتل ہوا ہے اُس میں ربوہ کی مرکزی انجمن اور صدرعمومی وغیرہ کے یہ یہ لوگ ملوّث ہیں۔ یہ دستخط کرنے سے انکار کرتے کہ یہ میرا بیان ہی نہیں ہے۔ آپ کے انکار پر تشدّد پھر شروع کردیا جاتا۔ ایک دفعہ طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو پھر کچھ انجکشن لگوائے، کچھ دوائیاں دیں، طبیعت سنبھلی تو پھر تشددّکرنے لگ گئے۔ ماسٹر صاحب کہتے ہیں مار تو برداشت ہو رہی تھی لیکن وہ گالیاں سننا مشکل تھا جو میرے بزرگوں کو دیتے تھے۔ کھانا بھی کبھی کبھار دیتے تھے۔ ایسا تشدد اور ظلم کبھی نہ مَیں نے سنا اور نہ کبھی دیکھا ہے۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ مَیں برداشت کرسکتا۔ مَیں دعائیں کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے تشدّد سہنے کی، برداشت کرنے کی ہمت دے۔
شہیدمرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حضورانور نے فرمایا کہ یہ ہے ایمان کو سلامت رکھنے والے اور سچائی پر قائم رہنے والے کی کہانی۔ اس عزم اور ہمت کے پیکر نے جان دیدی مگر جھوٹی گواہی نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو بھی شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ پس اس عظیم شہید نے ہمیں جہاں بہت سے سبق دیے وہاں یہ سبق بھی دیا کہ ہمارے سے شرک نہیں ہو سکتا ۔ شہید مرحوم نے اپنے عہدِ بیعت کو بھی خوب نبھایا۔ وہ اگر اذیت کی وجہ سے پولیس کی من پسند سٹیٹمنٹ دے دیتے تو اس کے نتائج جماعت کے لیے بہت خطرناک ہو سکتے تھے۔ قتل کے جھوٹے مقدمے میں مرکزی عہدیداران کو گرفتار کرنا تھا۔ مرکزی دفاتر پر پابندی ہو سکتی تھی۔ جماعت کی امن پسندی کی تعلیم اور کوششوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہو سکتی تھی۔ نہ صرف ملکی طور پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی جماعت کو نقصان پہنچتا۔ بہرحال دشمن نے ایک مکر کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے مخلص کے ذریعہ جو عام زندگی میں انتہائی نرم دل تھا، جس کو اس قسم کی سختیوں کا تصور بھی نہیں تھا، اُس کے ذریعے سے ان کے مکر کو توڑا۔ پس اے قدوس! ہم تجھے سلام کرتے ہیں کہ تُو نے اپنے آپ کو انتہائی اذیت میں ڈالنا تو گوارا کر لیا لیکن جماعت کی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔ تُو نے اپنی جان دے کر جماعت کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچالیا۔ ماسٹر عبدالقدوس ایک عام شہید نہیں ہیں بلکہ شہداء میں بھی ان کا بڑا مقام ہے۔
مکرم عبدالقدوس شہید کے والد میاں مبارک احمد صاحب کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑدادا حضرت میاں احمد یار صاحبؓ کے ذریعے ہوا جو فیروز والا (گوجرانوالہ) کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اسی طرح آپ کی پڑدادی محترمہ مہتاب بی بی صاحبہؓ بھی صحابیہ تھیں۔
ماسٹر عبدالقدوس صاحب 2؍اپریل1968ء کو پیدا ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر43؍سال تھی۔ آپ موصی تھے۔ آپ نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ پھر PTC کا کورس کیا اور ٹیچر لگ گئے۔ شہید مرحوم تقریباً بیس سال ربوہ میں گورنمنٹ سکول میں پڑھاتے رہے۔ آپ کے ساتھی اساتذہ کے مطابق آپ کا شمار نہایت محنتی اور دیانتدار اساتذہ میں ہوتا تھا۔
آپ کی شادی 1997ء میں روبینہ قدوس صاحبہ بنت مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب آف گوجرانوالہ سے ہوئی۔ شہید مرحوم نے بوقت شہادت اپنے والدین اور اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے عبدالسلام (چودہ سال)، عبدالباسط (تیرہ سال)، عبدالوہاب (پانچ سال) اور بیٹی عطیۃ القدوس (دس سال) چھوڑے۔
آپ کا بچپن محلہ دارالرحمت شرقی الف میں گزرا جہاں بطور طفل اور خادم مجلس کے کاموں میں شوق سے حصہ لیتے رہے۔ دس سال تک مختلف محلہ جات میں زعیم حلقہ رہے۔ بلاک لیڈر بھی رہے۔ 1994ء میں نصرت آباد شفٹ ہوئے تو یہاں بھی بطور زعیم حلقہ خدمت کی توفیق پائی۔ مجلس صحت کے زیرِ انتظام شعبہ کشتی رانی کے انچارج تھے۔ نائب صدر شعبہ کشتی رانی مجلس صحت پاکستان اور تین سال تک پنجاب روئینگ ایسوسی ایشن کے مینیجر بھی رہے۔ بہت اچھے تیراک تھے۔ اڑھائی سال قبل صدر محلہ منتخب ہو ئے۔ محلہ کے احباب کے مطابق شہید مرحوم بہت زیادہ حسنِ سلوک سے پیش آنے والے اور بلند حوصلے کے مالک تھے۔ اگر کوئی سخت لہجے میں بھی بولتا تو بات کو ہنس کر ٹال دیا کرتے تھے۔ آپ کو مجلس خدام الاحمدیہ کے شعبہ حفاظت مرکز میں بھی لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ 2002ء سے حفاظت مرکز کے تحت ایریا انچارج تھے۔ ڈیوٹی دہندگان کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے اور اُن کے کھانے پینے، چائے وغیرہ کا انتظام کرنا اور خود جاکر پہنچانا ان کا معمول تھا۔ شہید مرحوم اطاعت اور فرمانبرداری کا ایک نمونہ تھے اور جماعتی عہدیدارکا بہت احترام کرنے والے تھے۔
طالبعلمی کے دَور سے ہی اُنہیں ورزشی مقابلہ جات میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا۔ کبڈی، ہاکی، فٹ بال،کرکٹ اور کشتی رانی کے اچھے پلیئر تھے۔ عطیہ خون کے ذریعے بھی انسانیت کی خدمت کی بارہا توفیق پائی۔ خدمتِ خلق کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ دریائے چناب میں اگر کبھی کوئی ڈوب جاتا تو احمدی یا غیراحمدی کا فرق کیے بغیر اُس کی لاش تلاش کرنے میں اپنے ساتھیوں کی نگرانی کرتے ہوئے دن رات محنت کرتے اور تب تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ نعش کو تلاش نہ کرلیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ میرے ساتھ بھی انہوں نے ڈیوٹیاں دی ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ کبھی سامنے آ کر ڈیوٹی دینے کا شوق نہیں تھا۔ کوئی نام و نمود نہیں تھی۔ باوجود انچارج ہونے کے پیچھے رہتے تھے اور اپنے ماتحتوں کو آگے رکھتے تھے۔
مرحوم کی اہلیہ نے بیان کیا کہ شہید نہایت ملنسار، محبت کرنے والے، شاکر، ہمدرد اور دعا گو انسان تھے۔ ہم سب کا بہت خیال رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ سخت رویہ کبھی نہیں اپنایا۔ باوجود تکلیف اور مشکل کے عزیزوں کی خوشیوں میں شامل ہوتے تھے۔ شہادت سے ایک روز قبل بچوں کو صبر، ہمت اور خلافت سے وابستگی کی تلقین کی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبے کے اختتام سے قبل فرمایا کہ قدوس شہید سے ہمیں اور اہل ربوہ کو بھی یہ وعدہ کرنا چاہیے کہ ہم احسان فراموش نہیں ہیں۔ یقیناً انہوں نے جماعت پر بہت زیادہ احسان کیا ہے اور محسنوں کو جماعت کبھی بھلایا نہیں کرتی۔ ہمیں وہ انشاءاللہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔
حضورانور کے مذکورہ بالا ارشاد کی روشنی میں حضورانور کی منظور ی سے مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ کے دفتر کا نام شہید مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ‘‘ایوان قدوس’’ رکھ دیا گیا۔ اس موقع پر منعقد ہونے والی تقریب میں مکرم عبدالکریم قدسیؔ صاحب کی یہ مختصر نظم بھی پڑھی گئی:

عبدالکریم قدسی صاحب

زخموں سے چُور چُور تھا لب پہ گِلہ نہ تھا

کیا حوصلہ تھا ماسٹر عبدالقدوس کا
مجرم نہ کہہ سکا وہ کسی بے گناہ کو
بڑھتا ہی جا رہا تھا تشدّد کا سلسلہ
پرواہ اپنی جاں کی نہ بہتے لہو کی تھی
پیشِ نظر تھا اس کے فقط عہد بیعت کا
اس نے تو صدق صبر کی اعلیٰ مثال سے
سفّاک قاتلوں کو بھی حیران کر دیا
تھا اس کا جسم قدسیؔ اطاعت سے عطر بیز
قربانیوں کی دوڑ میں آگے نکل گیا

برادرم محترم عبدالقدوس صاحب کے ساتھ اگرچہ میرا خون کا رشتہ نہیں تھا لیکن اُن کی شہادت پر مجھے یہی احساس ہوا کہ گویا مَیں نے اپنا ایک قریبی عزیز کھودیا ہو۔ یہ احساس اس لیے بھی شدید تھا کہ اُن کا بچپن اور نوجوانی کے کئی سال میری ہمسائیگی میں اور نظروں کے سامنے گزرے تھے۔ اُن کی محنت، دیانتداری اور خلوص نیت کا مَیں دل سے معترف تھا۔ پہلے بطور منتظم اطفال اور بعد میں زعیم خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے خدمت کرتے ہوئے خاکسار نے اُسے اپنے محلّے کے بہترین اطفال اور خدام میں سے ایک پایا۔ اپنے محدود مادی وسائل پر قانع وہ ایسا اطاعت شعار بچہ تھا جس نے کبھی کسی خدمت سے اِعراض کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ جب بھی اور جس خدمت کے لیے بھی اُسے کہا گیا عبدالقدوس نے سعادتمندی سے ہمیشہ سر تسلیم خم رکھا۔ کبھی کسی جھگڑے یا فساد میں اُس کا نام نہیں آیا۔ کبھی کسی سے بحث نہیں کرتا تھا بلکہ ہنس کر بات ٹال دیا کرتا تھا۔ ادب ملحوظ رکھنا اُس کی فطرت ثانیہ تھی۔ نماز باجماعت کا پابند تھا اور خدمتِ دین میںذاتی مصروفیات کو کبھی حائل نہیں ہونے دیتا تھا۔ بلاشبہ اُس کا شمار اُن بچوں اور نوجوانوں میں کیا جاتا تھا جو ہمہ وقت ہر خدمت کے لیے لبّیک کہنے پر آمادہ رہتے تھے۔ طبعی طور پر خوش مزاج ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھیوں میں بھی مقبول تھا۔ یہ وہ دَور تھا جب پاکستان میں جنرل ضیاءالحق نے احمدیوں کا جینا حرام کررکھا تھا اور ربوہ کے خدام سالہاسال تک روزانہ رات کو حفاظتی ڈیوٹیاں دینے کی خدمت بجالاتے رہے۔ عبدالقدوس ہمہ وقت ہر خدمت کے لیے تیار جاںنثار خدام میں سے ایک تھا۔ خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ میں قریباً دو سال بطور نائب ناظم اشاعت بھی وہ میری ٹیم میں شامل رہا۔ بےشک وہ ایک ایسا قابل بھروسا نوجوان تھا جس پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا جاسکتا تھا۔

ملک ناصر احمد صاحب

محلّہ دار ہونے اور سالہاسال سے اکٹھے دینی خدمات کی توفیق پانے کی وجہ سے ذاتی اعتماد اور محبت کا تعلق بھی اُن کے ساتھ قائم تھا۔ غالباً 1987ء میں ایک روز انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اب مزید پڑھنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور کوئی کام شروع کرنا چاہتے ہیں۔ شاید اُن کے ذاتی اور گھریلو حالات بھی اُنہیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کررہے تھے۔ لیکن چونکہ میرے خیال میں اُن کا تعلیم کو خیرباد کہنے کا فیصلہ درست نہیں تھا اس لیے اپنے طور پر اُنہیں سمجھانے کی کافی کوشش کی اور پڑھائی میں مدد دینے کی پیشکش بھی کی۔ لیکن جب وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو پھر مَیں اُن کی خواہش پر اُن کو اپنے ہمراہ فیصل آباد لے گیا جہاں میرے ماموں مکرم ملک ناصر احمد صاحب کا ٹویوٹا گاڑیوں اور سپیئرپارٹس کا کاروبار تھا اور ربوہ سے چند دیگر دوست بھی اُن کے پاس کام کررہے تھے۔ اُن کی ایک فرم K.Z.Motors میں عبدالقدوس صاحب کو ملازمت مل گئی اور رہائش کی جگہ بھی۔ ہفتہ وار رخصت پر وہ ربوہ آجاتے۔ لیکن چونکہ عبدالقدوس صاحب مبتدی تھے، تجربہ بالکل نہیں تھا، عمر بھی چھوٹی تھی اس لیے تنخواہ بھی زیادہ نہیں تھی بلکہ محض گزارہ ہی تھا کیونکہ کھانا بازار سے کھانا پڑتا تھا۔ اُن کی رہائش بھی چونکہ کام کے ساتھ ہی تھی اس لیے ڈیوٹی کا وقت بھی متعیّن نہیں تھا۔ چنانچہ محض چند ماہ کے بعد ہی گرمیوں کی ایک دوپہر وہ میرے ہاں اُس وقت تشریف لائے جب انہیں معلوم تھا کہ محترم ملک ناصر صاحب بھی آئے ہوئے ہیں۔ عبدالقدوس صاحب کہنے لگے کہ ان حالات میں کام کرنے سے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی تعلیم ہی جاری رکھیں۔ لیکن چونکہ اُن کے آجر اُن کی دیانتداری اور محنت کے معترف ہوچکے تھے چنانچہ اُنہیں ملازمت چھوڑنے میں مشکل پیش آرہی تھی اور اسی لیے اُنہوں نے مجھ سے مدد مانگی تھی۔ جب مَیں نے اُن کی خواہش محترم ملک ناصر صاحب سے بیان کی تو پہلے تو انہوں نے عبدالقدوس صاحب کی خوبیوں کو سراہا اور اُن کی خواہش اور حالات کا علم ہونے پر فوراً ہی اُن کو دوگنی سے بھی زیادہ تنخواہ کی پیشکش کردی بلکہ مستقبل قریب میں مزید اضافہ کرنے کا وعدہ بھی کیا اور اپنے ساتھ سالہاسال سے کام کرنے والوں کی مثالیں بھی دیں جو اپنے تجربے اور محنت کی بِنا پربہت آسودہ حال تھے۔ دس پندرہ منٹ یہ گفتگو جاری رہی لیکن عبدالقدوس صاحب نے شاید زمانے کی سختی کی جھلک بہت قریب سے دیکھ لی تھی اور اسی لیے وہ اپنی چھوڑی ہوئی تعلیم دوبارہ جاری کرنے پر مُصر تھے۔ چنانچہ یہ مرحلہ بھی طے ہوگیا اور عبدالقدوس صاحب نے ملازمت سے فراغت حاصل کرکے اپنی منقطع تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ اس کے بعد بیرونِ ملک آجانے کی وجہ سے اُن کے ساتھ میرا براہ راست رابطہ تو اگرچہ منقطع ہوگیا لیکن اُن کی خدمات کا علم دوستوں کے ذریعے ہوتا رہتا تھا۔
دسمبر2003ء میں مَیں پاکستان گیا تو ایوان محمود ربوہ میں میری اُن سے اتفاقاً ملاقات ہوگئی جب ایک شام مَیں وہاں پہنچا تو چند خدام کے گروپ میں سے نکل کر وہ اچانک میرے سامنے آکھڑے ہوئے۔ لیکن جسمانی طور پر اُن میں اتنی تبدیلی آچکی تھی کہ مَیں اُنہیں پہچان نہیں سکا۔ چند ثانیے خاموشی سے کھڑے رہنے کے بعد مسکراتے ہوئے وہ کہنے لگے: ‘‘پہچانیا نئیں؟’’ (وہ ہمیشہ پنجابی زبان میں گفتگو کرتے تھے)۔ اُن کی آواز سنتے ہی میرے ذہن میں اُن کے نام کی بازگشت سنائی دی اور بےساختہ زبان سے اُن کا نام ادا ہوا اور پھر ہم بغلگیر ہوگئے۔ پندرہ سال کے طویل وقفے کے بعد اچانک ہونے والی یہ ایک مختصر سی ملاقات تھی جو یادگار بن گئی۔
آج مجھے یہ کہنے میں کوئی حجاب نہیں ہے کہ مَیں تو برادرم عبدالقدوس صاحب کو اُس وقت پہچان نہیں پایا تھا۔ لیکن آج اُن کو پہچاننے والے اور بِن مِلے اُن سے محبت کرنے والے اور اُن کی پاک روح پر سلام بھیجتے ہوئے اُن کی نسلوں کے لیے دعائیں کرنے والے لاکھوں افراد خطّۂ ارض پر موجود ہیں۔
برادرم عبدالقدوس صاحب کی شہادت پر مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مکرم بشارت محمود طاہر صاحب نے جو نظم کہی تھی اس کے چند اشعار ہدیۂ قارئین ہیں ؎

بشارت محمود طاہر صاحب

بَن پڑا جو بھی مخالف نے ستم رکھا ہے
تُو نے قدوسؔ محبت کا بھرم رکھا ہے
خوب دکھلائی وفا تُو نے سرِ مقتل بھی
کٹ گئے ہاتھ تو سینے پہ عَلَم رکھا ہے
تیری خوشبو سے مہک اٹھا ہے ربوہ سارا
تیری یادوں نے ہر اِک آنکھ کو نَم رکھا ہے
تجھ سے گر پھول ہوں گلشن میں تو اس گلشن پہ
مالکِ کُل کا بہت ناز و کرم رکھا ہے

خداتعالیٰ شہدائے احمدیت کی پاک روحوں پر بےشمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے ۔وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس یقینِ محکم پر قائم رہے کہ اُن کی یہ قربانی ضائع نہیں جائے گی بلکہ اپنی ذات میں نمو پاکر ایسے ثمرات پیدا کرے گی جن کی لذّت اور شیرینی سے نہ صرف اُن کی روح لطف اندوز ہوگی بلکہ آئندہ احمدی نسلیں بھی اُن پر فخر کریں گی اور اُن کے نقوشِ پا پر چلنا سعادت سمجھیں گی۔ اور دشمنِ احمدیت اپنے بدارادوں میں ہمیشہ ناکام و نامراد رہے گا۔ انشاءاللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں