محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب کا قبولیت احمدیت

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 19؍اگسست 2024ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم شریف احمد بانی صاحب لکھتے ہیں کہ میرے والد محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب نے ۱۹۱۸ء میں بیعت کی تو اُن کی والدہ نے چنیوٹ کے ماحول کے مطابق شدید مخالفت کی۔ وہ بڑی نیک اور دیندار خاتون تھیں، بےشمار لڑکیوں کو انہوں نے قرآن کریم پڑھایا لیکن دیانتداری سے سمجھتی تھیں کہ اُن کا بیٹا گمراہ ہوگیا ہے۔ والد صاحب کی کوئی بات سننے کے لیے وہ تیار ہی نہ ہوتی تھیں بلکہ بیٹے سے بات چیت ہی بند کردی تھی۔
۱۹۱۸ء میں پنجاب میں انفلوئنزا کی وبا کی وجہ سے جلسہ سالانہ مُلتوی ہوکر مارچ ۱۹۱۹ء میں منعقد ہوا تو والد صاحب پہلی بار قادیان گئے۔ وہ اپنی ڈائری میں رقمطراز ہیں کہ قادیان سے بہت سی کتب اور اخبار الفضل وغیرہ خرید کر واپس چنیوٹ پہنچا تو گھر کا وہی ماحول تھا جیسے ایک مہمان جو خواہ مخواہ مقیم ہو۔ کئی عورتیں میری والدہ کے پاس میرے احمدی ہونے پر افسوس کا اظہار کرنے آتیں۔ ایسے ماحول میں مَیں نے شرائط بیعت والے کیلنڈر گھر کے تمام کمروں میں دیواروں سے چسپاں کردیے۔ گھر میں آنے والی پڑھی لکھی عورتیں انہیں پڑھتیں۔ مَیں اکیلا بیٹھا درّثمین کی نظمیں ترنم سے پڑھتا اور کبھی قرآن مجید پڑھنے کے لیے آنے والی بچیوں میں سے کسی کو الفضل دے کر اونچی آواز میں سنانے کے لیے کہتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی عملی حالت میں اصلاح کی توفیق بھی عطا فرمائی اور مَیں نماز بروقت پڑھنے لگا اور قرآن مجید کی تلاوت بالالتزام کرنے لگا۔ ان سب باتوں کا اثر یہ ہوا کہ اب جو عورتیں افسوس کے لیے آتیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں کوئی نامناسب الفاظ استعمال کرتیں تو والدہ صاحبہ ناراض ہوکر انہیں منع کرتیں اور کہتیں کہ اپنی زبان گندی نہ کرو، احمدیت ضرور کوئی نیک تحریک ہے جس نے میرے بیٹے کو فرشتہ بنادیا ہے۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد وہ اپنے چھوٹے بیٹے میاں محمد یوسف بانی کو ساتھ لے کر قادیان گئیں اور ایک ماہ تک حضرت امّاں جانؓ کی مہمان رہیں اور بیعت کرکے واپس چنیوٹ آئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں