محترم چودھری عبدالحمید صاحب
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 25؍اگست2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم مارچ2014ء میں مکرم خالد اقبال صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم چودھری عبدالحمید صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

ابی جان 19؍ستمبر1939ء کو محترم چودھری محمد حسین صاحب کے ہاں جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ دو بہنیں اور سات بھائی تھے۔ آپ کے والد محکمہ تعلیم انسپکٹرز آف سکول میں بطور ہیڈکلرک ملازم تھے اور بوجہ ملازمت زیادہ عرصہ ملتان میں مقیم رہے۔ چنانچہ ابی جان نے ملتان سے ہی تعلیم حاصل کی اور ایمرسن کالج سے B.Scکی ڈگری لی۔ جب آپ نے F.Sc کا امتحان دینا تھا تو آپ کے بڑے بھائی محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے کیمبرج سے آپ کو ایک تاریخی نوعیت کا خط لکھا جس نے آپ کے لیے مشعل راہ کا کام کیا۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے خط میں لکھا: ’’…آپ کو شاید اس وقت تو یہ مضمون حساب فزکس، کیمسٹری وغیرہ بےکار معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ ان میں Top پر رہنے میں دو پوائنٹ ہوتے ہیں۔ (1) اگر آپ ان مضمونوں میں بہتر نتیجہ دکھائیں تو اگرچہ آپ کی ان میں دلچسپی نہ بھی ہو تو بھی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ محنت کرسکتے ہیں اور دوسرے آپ ذہین ہیں۔ زندگی میں کامیابی محنت اور ذہانت سے ہے۔ ایک معمولی کلرک بن جانا یا معمولی دکاندار بن جانا یا معمولی میکینک بن جانا آپ کو خوش نہیں کرسکتا۔ زندگی Ambition کا نام ہے۔ اور وہ Ambition کیا ہے؟ سب سے چوٹی پر رہنا۔ جس شخص کی زندگی میں Ambitionنہیں ہے وہ مردہ ہے۔ ماں باپ بھائی کسی کے کام نہیں آسکتے۔ ہر شخص نے اپنی زندگی خود بنانی ہوتی ہے۔ آپ کی عمر میں انسان کو احساس نہیں ہوتا کہ وقت کس طرح خرچ کرنا چاہئے، زندگی بھر میں کونسی چیزیں کام آئیں گی۔ لیکن محنت کی عادت ایسی چیز ہے کہ ایک بار پڑ جائے تو کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔ محنت کرنا کوئی آسان چیز نہیں۔ بہت کڑوی چیز ہے۔ (جی کہتا ہے) کہ یہ مصیبت ہے، دوسرے لوگ مزے کررہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ جو لوگ اس عمر میں مزے کرتے ہیں وہ ساری عمر روتے رہتے ہیں۔ مزے کرنے کا بھی وقت ہو اور کام کرنے کا بھی وقت ہو تو زندگی حسین ہوتی ہے۔ آپ کا مطمحٔ نظر یہ ہونا چاہئے کہ آپ رات کو جب سوئیں تو سونے سے پہلے یہ سوچیں کہ کیا آپ کا دن اچھا گزرا ہے۔ پڑھنے کے وقت آپ پڑھتے ہیں؟ کھیلنے کے وقت آپ کھیلتے ہیں؟ یاد رکھیں ہم بہت غریب ہیں۔ ہمارے پاس سوائے محنت اور ذہانت کے اور کچھ نہیں کہ ہم اوپر چڑھ سکیں۔ آپ کے سامنے ہزاروں میدان ہیں آپ محنت کریں تو بڑے سے بڑے تاجر، بڑے سے بڑے میکینک ہوسکتے ہیں۔ ایک بار عزم کریں اور پھر محنت۔ اس وقت آپ کے سامنےStudies کا میدان ہے۔ آپ یقیناً اس قابل ہیں کہ آپ سب کو پیچھے چھوڑ سکیں۔ اگر پہلے وقت ضائع ہوگیا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ عزم کے ساتھ کیا ہوا دو دن کا کام لوگوں کے مہینوں کے کام سے بہتر ہوتا ہے۔…‘‘ ان نصائح پر عمل کرنے کے نتیجے میں آپ نے بہت ہی کامیاب زندگی گزاری۔
بی ایس سی میں کامیابی کے بعد ڈاکٹر سلام صاحب نے آپ کو 1957ء میں انگلستان بلالیا جہاں آپ نے بسکٹ کی مشینری بنانے والی کمپنی میں دو سال اپرنٹس شپ کی اور پھر پاکستان آکر بسکٹ بنانے والی مشینری کی فروخت کا کام شروع کیا۔ 1961ء میں آپ سویڈن گئے جہاں دودھ پروسس کرنے والی مشینری بنانے کی تربیت لی۔ پھر پاکستان آکر کچھ عرصہ کراچی میں کاروبار کیا اور بھلوال میں 1970ء میں ڈیری پلانٹ لگایا۔ 1977ء میں ایران جانے کا پروگرام بنایا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہوئے تو حضورؒ نے فرمایا کہ چندہ پوری شرح سے دیتے رہیں آپ کا کانٹریکٹ Renew ہوتا رہے گا۔ چنانچہ آپ ایران چلے گئے۔ انقلابِ ایران میں مارچ 1979ء میں کمپنی نے آپ کو پاکستان میں اپنا سیلزمینیجر مقرر کردیا۔ 1981ء تک آپ کراچی میں رہے اور پھر لاہور آگئے جہاں وفات تک مقیم رہے۔ 1983ء میں ایک برطانوی کمپنی کے سیلزمینیجر کے طور پر کام شروع کیا۔ 1988ء میں اپنی کمپنی بنائی اور پاؤڈر دودھ بنانے والی ڈنمارک کی کمپنی Niro کی ایجنسی لی جو آج بھی قائم ہے۔ Dairy Technologist کے طور پر آپ نے پاکستان بھر میں شہرت پائی۔
1960ء میں محترمہ شریفہ حمید صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر میاں عبدالحمید صاحب سے آپ کی شادی ہوئی تھی جن سے ایک بیٹا (مضمون نگار) اور دو بیٹیاں خدا تعالیٰ نے عطا فرمائیں۔ آپ نے بچوں کی بہت اچھی تربیت کی اور اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ جب ایک بیٹی صرف بتیس سال کی عمر میں وفات پاگئیں تو یہ صدمہ بڑے صبر سے برداشت کیا۔
آپ ہمیشہ خلفائے کرام سے رابطہ رکھتے اور اہم کاموں میں مشورہ لیتے۔ کئی بزرگ صحابہ اور دیگر بزرگان کو بھی دعائیہ خطوط لکھتے رہتے۔ اپنے تمام عزیزوں سے رابطہ رکھتے اور صائب مشورے دیتے۔ طبیعت میں رعب بھی تھا اور انتظامی صلاحیت بھی تھی۔ دادا جان محترم چودھری محمد حسین صاحب سے وقت کی پابندی کی عادت اُن کے سب بچوں نے اپنائی تھی۔ یہ عادت اگلی نسل میں بھی قائم ہے۔
1963ء میں حلقہ سوسائٹی کراچی کے صدر جماعت مقرر ہوئے۔ آپ کا گھر ہی نماز سینٹر بھی تھا۔ بھلوال میں قیام کے دوران وہاں بھی صدر جماعت رہے۔ اس دوران وہاں زمین خرید کر وقارعمل کے ذریعے ایک مسجد بھی تعمیر کروائی جس میں آپ امامت بھی کرتے رہے۔ اپنے مشاہدات پر مبنی بزرگان کا ذکرخیر مضامین کی شکل میں الفضل میں شائع کرواتے رہتے۔ گھر میں ہمیشہ نماز باجماعت پڑھاتے۔ فجر کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت لازمی تھی۔ ہمیشہ جلدی سونے اور جلدی صبح اٹھنے کو ترجیح دیتے۔ اپنے بڑے بھائی محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے عشق کی حد تک پیار تھا۔ اس لیے اُن کی سوانح عمری لکھنی شروع کی۔ 17؍نومبر1998ء کو مسودہ مکمل ہونے پر الحمدللہ کہا اور پھر چند لمحوں بعد ہی آپ کی اپنی زندگی کی کتاب مکمل ہوگئی۔ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ آپ کی کتاب آپ کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔