مسجد بیت الرحیم کارڈف یوکے کی تعمیر
(مطبوعہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل یوکے ؍نومبر2025ء)
خلافتِ خامسہ میں ہونے والی عظیم الشان ترقیات کا ایک اَور زینہ
ویلز (برطانیہ) کے دارالحکومت کارڈف میں پہلی احمدیہ مسجد بیت الرحیم کی تعمیر



خداتعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ مسجد بیت الرحیم کارڈف کے افتتاح کی بابرکت تقریب آج 23؍نومبر 2025ء کو منعقد رہی ہے۔ اس خوبصورت مسجد کا سنگ بنیاد 9؍ستمبر 2023ء کو رکھا گیا تھا۔ یہ دوسری مسجد ہے جو برطانیہ میں مجلس انصاراللہ یو کے کی طرف سے تعمیر کی جا رہی ہے۔ پہلی ناصر مسجد ہارٹلے پول تھی جو 2005ء میں بنائی گئی تھی۔ پس یاد رہے کہ کارڈف میں اس پہلی مسجد بیت الرحیم کی تعمیر ہماری منزل نہیں ہے بلکہ جاری رہنے والی ترقیات کا یہ محض ایک زینہ ہے۔ یہ ہماری اُن ذمہ داریوں کا صرف عشرعشیر ہے جو مسیح الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے اور خلافتِ احمدیہ کا سلطان نصیر بننے کا عہد کرنے کے بعد ہم پر عائد ہوتی ہیں۔ انگلستان کے احمدیوں کا فرض ہے کہ سیّدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے دلوں میں تبلیغ اسلام اور قرآن کریم کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کا جو جوش پایا جاتا ہے اُسے اپنے دلوں میں بھی محسوس کریں اور اُسی دردِ دل کے ساتھ اپنے تمام ہم وطنوں تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے سعی کریں اور جہاں بھی ممکن ہو خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کے لیے مساجد تعمیر کرتے چلے جائیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک ارشاد برطانیہ میں رہنے والے ہر احمدی کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ حضورؓ فرماتے ہیں:


’’ اگر آپ انگلستان کی تاریخ پر ایک مجموعی نظر ڈالیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انگلستان کی ترقی غیر معمولی مشکلات کے موقع پر ایسے حوادث کے ذریعے ہوتی رہی ہے جسے گو بعض اتفاق حسنہ کہہ دیں لیکن بصیرت رکھنے والے انسان ان میں خدا تعالیٰ کے فضل کا جلوہ دیکھتے ہیں۔ اتفاق حسنہ ایک منفرد واقعہ کا نام ہوتا ہے لیکن انگلستان کی پچھلی چھ سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کے غیر معمولی حوادث جن کے ذریعے سے انگلستان کی بعض تاریک ترین گھڑیاں بعد میں اس کی روشن ترین ساعتیں ثابت ہوئی ہیں، ایک لمبے سلسلہ میں منسلک ہیں۔ جن کی کڑیوں کو الگ الگ دیکھ کر گو اتفاق حسنہ کہا جا سکے لیکن جنہیں مجموعی نظر سے دیکھ کر خدا تعالیٰ کی مشیت کے سوا کسی اَور سبب کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ کی یہ خاص نگاہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انگلستان سے کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے اور وہ کام وہی ہے جو بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے بذریعہ الہام بتایا۔ یعنی ایک دن انگلستان اسلام کو قبول کرکے اس طرح خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا وارث ہونے والا ہے جس طرح اس نے دنیا کی بادشاہت سے ورثہ پایا ہے۔ انگلستان جس قدر بھی خوش ہو بجا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کہ نگاہ میں پسندیدہ ٹھہرا۔ وہ ایک دلہن ہے جسے آسمانی دولھا نے اپنے لیے پسند کر لیا، ایک موتی ہے جو جوہری کی نگاہ میں جچ گیا، ایک درخت ہے جسے باغباں نے باغ کے وسط میں لگایا۔‘‘ (دارالانوار جلد 12 صفحہ 42)
جماعت احمدیہ کی تاریخ دعوت الی اللہ اور مساجد یعنی بیوت اللہ کی تعمیر سے عبارت ہے۔ چنانچہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے اصحاب نے حقیقی اسلام کا پیغام ہندوستان سے باہر دیار مغرب میں پہنچانے کے لیے جو بےلَوث قربانیاں پیش کی تھیں اُنہیں ہمارے ربّ نے قبولیت کا شرف عطا فرمایا۔ چنانچہ آج برطانیہ میں احمدیہ مساجد اور مشن ہاؤسز کی کُل تعداد پچاس سے زائد ہوچکی ہے۔ جبکہ جماعتوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہے۔ الحمدللہ
برطانیہ میں کامیابیوں کا ایک اور زینہ طے کرتے ہوئے آج ہمیں اُن واقعات کا بھی اختصار سے تذکرہ کرنا چاہیے جو اُس بابرکت ’’تاریخ احمدیت‘‘ کا ہی ایک ایسا روشن باب ہیں جس نے خدائی وعدہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ پر مہر صداقت ثبت کردی۔ یہ ایسا باب ہے جس کا آغاز ہندوستان کے ایک گمنام گاؤں قادیان سے ہوا۔ ماموریت کے ابتدائی ایام میں ہی حضرت مسیح موعودؑ نے بارہ ہزار کے قریب اشتہارات دعوتِ اسلام پر مشتمل بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک مختلف اقوام کے پیشوائوں، امیروں اور والیان ممالک کے نام ارسال فرمائے ان میں برطانیہ کے شہزادہ ولی عہد (دی پرنس آف ویلز)، وزیراعظم برطانیہ مسٹر گلیڈ سٹون اور شہزادہ بسمارک کو بھی خطوط لکھے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 156)
مغرب میں دعوت الی اللہ کے لیے کی جانے والی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اَن تھک کوششوں میں رسالہ ’’ریویو آف ریلیجز‘‘ کا اجراء، اسلام پر ہونے والے قلمی حملوں کا شاندار جواب اور آنحضورﷺ کی ناموس کی خاطر معاندین (مثلاً لندن میں مقیم پگٹ) کو مختلف چیلنجز کا دیا جانا بھی شامل ہے۔ لیکن آج ان تفاصیل میں جائے بغیر ہم کارڈف میں مسجد بیت الرحیم کے پس منظر اور اس حوالے سے محض چند تاریخی واقعات کا بیان ضروری سمجھتے ہیں تاکہ قارئین کو اس نئی مسجد کی تعمیر کے لیے کی جانے والی مساعی اور غیرمعمولی مالی قربانیوں کا ادراک ہو اور دل خدا تعالیٰ کی حمد اور اُس کے شکر کے جذبات سے بھر جائے۔

خلافتِ اولیٰ میں برطانیہ میں پہلے احمدی مبلغ حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ تشریف لائے اور پھر خلافتِ ثانیہ میں وقفے وقفے سے بہت سے مبلغین کرام کو دعوت الی اللہ میں اُن کے مددگار کے طور پر یہاں بھجوایا جاتا رہا۔ ان میں کئی صحابہ کرامؓ بھی شامل تھے۔ ان کی مساعی سے انگلستان کے علاوہ سکاٹ لینڈ اور ویلز کے چیدہ چیدہ مقامات پر بھی تبلیغی کاوشیں جاری رہیں۔
ویلز (Wales) کی سیاسی تاریخ یوں ہے کہ 1284ء میں انگلستان کی عملداری میں آچکا تھا جِس کی وجہ سے ان دو ممالک کے درمیان سیاسی وجوہات کی بنا پر اتحاد کی صورت پیدا ہوگئی تھی جو آہستہ آہستہ مستحکم ہوتی گئی یہاں تک کہ 1536ء میں ان کے مابین ایک ایسا مضبوط تر سیاسی جوڑ عمل میں آیا کہ دو الگ الگ ملک ہونے کے باوجود انگلینڈ اینڈ ویلز کے نام سے گویا ایک ہی نام کی مملکت بن گئی۔ ویلز کا صدر مقام کارڈف (Cardiff) ہے۔ برطانیہ کی سرکاری زبان انگریزی ہے جبکہ ویلز میں انگریزی کے ساتھ ساتھ وَیلش (Welsh) زبان کو بھی سرکاری درجہ حاصل ہے۔
ویلز جب علیحدہ تھا تو وہاں کا حاکم اعلیٰ پرنس آف ویلز کہلاتا تھا لیکن دونوں ممالک کے یکجا ہونے کے بعد یہ نشان انگلستان کے شاہی خاندان کے ولی عہد شہزادہ کے لیے مختص ہو گیا اور تب سے یہ امتیازی نشان بدستور انگلستان کے ولی عہد شہزادہ کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے قلب مبارک میں تبلیغ اسلام کا اس قدر جوش پایا جاتا تھا کہ ولی عہد شہزادہ ویلز جو تخت نشینی کے بعد ایڈ ورڈ ہشتم کہلائے (اور دستبرداری کے بعد ڈیوک آف ونڈ سر) دسمبر 1921ء میں جب ہندوستان آئے تواُن کی آمد پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تصنیف لطیف ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ کے ذریعہ اُنہیں دعوت اسلام دی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی صداقت کے نشان کے طور پر اُنہیں ان الفاظ میں تحریک فرمائی کہ ’’آپ اپنے رسوخ سے کام لے کر پادریوں کو تیار کریں جو اپنے مذہب کی سچائی کے اظہار کے لیے بعض مشکل امور کے لیے دعائیں مانگیں اور بعض ویسے ہی مشکل امور کے لیے جماعت احمدیہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور دعاکرے مثلاً سخت مریضوں کی شفا کے لیے جن کو بذریعہ قرعہ اندازی کے آپس میں تقسیم کر لیا جائے۔ پھر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کی سنتا ہے اور کس کے منہ پر دروازہ بند کر دیتا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرسکیں اور ہرگز نہ کریں گے کہ ان کے دل محسوس کرتے ہیں کہ خدا کی برکتیں ان سے چھین لی گئی ہیں تو پھر اے شہزادہ! آپ سمجھ لیں کہ خدا نے مسیحیت کو چھوڑ دیا ہے اور اسلام کے ساتھ اپنی برکتیں وابستہ کردی ہیں۔‘‘ (تحفہ شہزادہ ویلز بحوالہ انوارا لعلوم جلد6 صفحہ 529 طبع اول)
عزت مآب شہزادہ ویلز نے یہ کتاب بڑے ادب و احترام کے ساتھ قبول کی اور ان کے چیف سیکرٹری مسٹر ڈی مانٹمورنسی نے شہزادہ کی طر ف سے بہت بہت شکریہ کے ساتھ اس کتاب کی رسیدگی کی اطلاع حضرت مولاناذوالفقار علی خان صاحب کو قادیان میں بذریعہ خط دی۔ (ریویو مارچ تا مئی 1921ء)
اس کتاب کے چار درجن نسخے انگلستان بھجوائے گئے۔ اس حوالے سے حضرت مولوی مبارک علی صاحب (بی اے بی ٹی بوگرابنگال) مبلغ انچارج برطانیہ یکم جون 1922ء کی رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں:’’تحفہ شہزادہ ویلز کی چاردرجن کتب مرکز سے موصول ہوئیں۔ چند کاپیاں فروخت کی گئیں، باقی نسخے صاحب علم ، معزز لوگوں ، لندن کے بڑے بڑے اخباروں کے ایڈیٹروں کے علاوہ پروفیسر بی۔ ایچ۔ برائون (کیمبرج) پروفیسر نکلسن (کیمبرج) پروفیسر سر ٹی۔ ڈبلیو۔ آرنلڈ مصنف ’’دعوت اسلام‘‘، لارڈ بلفور، لارڈ ہیڈلے، وزیراعظم، وزیرہند، سائنسدان اور محقق علوم طبعیات Sir Olivor Lodge اور سر آر تھر کانن ڈائل (یورپ میں تحریک روحانیت کے ایک بڑے لیڈر) کو تحفۃً پیش کیے گئے۔‘‘ (الفضل 6؍جولائی1922ء)
تحفہ شہزادہ ویلز کی سحر انگیز تاثیرایسی تھی کہ بہت سے نواحمدی انگریزوں نے یہ کتاب قیمتاً خریدی اور بعض نے بعدازاں اس کے پُراثر کلمات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اخلاقی اور روحانی تبدیلی کا بےساختہ اقرار بھی کیا۔ چنانچہ مانچسٹر کے جناب آرتھر پلانٹ (Mr. Arthur Plant) نے حضرت مولانا عبدالرحیم دردؔ کے نام ایک مکتوب میں تحریر کیا کہ میں نے ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ کا بتمام و کمال چار مرتبہ مطالعہ کیا ہے اور اُس پر غور کیا ہے اور اسے باربار پڑھتا ہوں۔ قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرتا ہوں۔ جانے آپ نے مجھ میں کیا تبدیلی پیداکردی ہے کہ مَیں جو بہت ہی سُست تھا اب خدا نے مجھے چُست اور چاق وچوبند کردیا ہے اورخدا نے میری دعائوں کو سُناہے۔ پس میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ (الفضل2؍دسمبر1925ء)
اُس زمانے میں برطانیہ کے مختلف علاقوں میں بعض احمدی بھی مقیم رہے جو اپنے ماحول میں ذاتی طور پر نہ صرف دعوت الی اللہ کیا کرتے تھے بلکہ اپنی مساعی سے مرکز کو بھی باقاعدگی سے آگاہ کرتے تھے۔ چنانچہ مکرم ظفر حق خان صاحب بردار شیخ فضل حق صاحب بٹالوی جو ویلز میں مقیم تھے اور انڈین سول سروس (I.C.S.) کے امتحان کی تیاری کررہے تھے۔ ریویو آف ریلجنز کے لئے مضامین لکھتے اور اپنے دوستوں کو ریویو مطالعہ کے لئے دیتے۔ آپ نے اپنے تجربہ کی بنیاد پر لکھا کہ ریویو آف ریلجنز تبلیغ اسلام کے لیے نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ (الفضل 12؍مئی1925ء)
اُس دَور میں کارڈف (ویلز) میں ایک خاتون محترمہ عائشہ نورصاحبہ نے بھی بیعت کی اور تبلیغ کے کام میں جوش اور ولولے سے حصہ لینے لگیں ۔ ان کی تبلیغ کو اللہ تعالیٰ نے پھل بھی لگایا۔ چنانچہ ایک خاتون جو ایک عرب کی بیوی تھیں اور ان کا نام میبل ایما علی (Mrs. Mabel Emma Ali) تھا ا ن کے ذریعہ مسلمان ہوئیں۔ ان کا اسلامی نام صفیہ رکھا گیا۔ مسز صفیہ میبل ایما علی لکھتی ہیں:’’میں محسوس کرتی ہوں کہ تبدیلی مذہب کے وقت سے گویا ایک نئی دنیا میں داخل ہوگئی ہوں۔ لاریب اسلام بہترین مذہب ہے۔ میں اپنے بیٹے کی بھی اسی دین کے مطابق تربیت کروں گی۔‘‘ (الفضل قادیان 25؍نومبر1920ء)
الغرض ویلز اور ویلش قوم کے ساتھ جماعت احمدیہ کا تعلق بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ جماعت احمدیہ کا اس ملک میں باقاعدہ قیام ۔ تاہم خلافت احمدیہ کی برطانیہ ہجرت کے بعد جو عظیم الشان ترقیات خدا تعالیٰ نے احمدیت کو عطا فرمائی ہیں اُن میں یورپ بھر میں بڑی بڑی جماعتوں کا قیام اور اُن کے ذریعے احمدیہ مساجد کی کثرت سے تعمیر تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے۔ دراصل یہی وجہ ہے کہ ویلز میں احمدیہ مسجد اور مرکز تبلیغ کے قیام کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔ لیکن اس راہ میں حائل مشکلات کے نتیجے میں یہ منصوبہ قریباً دس سال تک التوا کا شکار رہا۔ اگرچہ لمبی قانونی کارروائی اور مسجد کی تعمیر کی مخالفت سے پیدا ہونے والی غیرمتوقع صورتحال سے اندازۂ خرچ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ تاہم ’’تاریخ احمدیت‘‘ یہی بتاتی ہے کہ ایک سو سال قبل جب مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا تو لندن میں تعمیر کی جانے والی اس پہلی مسجد کے لیے گراں قدر مالی قربانی پیش کرنے کی سعادت پانے والوں میں اکثریت ہندوستان اور خصوصاً قادیان کے ایسے غرباء اور سفیدپوش درویش صفت احمدیوں کی تھی جنہیں پیٹ بھر کر روٹی بھی میسر نہیں تھی اور تن ڈھانپنے کے لیے اکثر اُن کے پاس اتنے ہی کپڑے ہوتے تھے جتنے موسم کی شدّت سے بچنے کے لیے ضروری ہوا کرتے تھے۔ ان میں ہماری وہ مائیں بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر یا پہلے سے کی ہوئی کسی بچت کو اپنی ذاتی ضروریات کی بجائے خلیفہ وقت کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے خداتعالیٰ کی خاطر نہ صرف پیش کردیا بلکہ اپنے آنسوؤں سے اپنے ربّ کے حضور گریہ کناں بھی ہوئیں کہ وہ اس عاجزانہ کاوش کو قبول فرمالے اور اسلام احمدیت کی ترقی کے لیے پیش کی جانے والی یہ ادا محبوبِ حقیقی کی نگاہ میں محبوب ٹھہرے۔
پس گزشتہ ایک صدی کی عظیم الشان ترقیات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے آج ہم گواہی دے سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے غریب اور بیکس جماعت کی پیش کی جانے والی اِن حقیر جانی و مالی قربانیوں اور اسلام کی حالت زار دیکھ کر شدّتِ جذبات سے بہنے والے آنسوؤں کو اپنی رحمت سے قبول فرمایا اور اُن احمدیوں کی اولادوں کو بےشمار برکتوں سے نوازتے ہوئے اپنی اتنی نعمتوں کا وارث بنادیا ہے جن کا شمار بھی شاید ممکن نہیں۔ اپنے ربّ کے ان بےپایاں احسانات پر ہم آج جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے۔ لیکن غور طلب امر یہ بھی ہے کہ شکرگزاری کا یہ احساس کیا ہم میں کوئی احساس ذمہ داری بھی پیدا کرتا ہے اور کیا ہم آج اپنی نسلوں کو دائمی برکات کا وارث بنانے کے لیے خود بھی قربانیوں کے اعلیٰ معیار پیش کرنے کی سعی کررہے ہیں۔ اور اپنے ربّ کے حضور ایسی عاجزانہ قربانیاں پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جنہیں ہمارا ربّ قبول فرماکر ہماری اولادوں کے لیے امن و سلامتی اور خیروبرکت کی راہیں مزید کشادہ کرتا چلا جائے۔
اسلام میں مساجد کی اہمیت سے تو ہر احمدی واقف ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہروں میں سب سے پسندیدہ جگہ اس کی مساجد ہیں اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ اُس کے بازار ہیں۔ (مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ)
اسی طرح محمود بن لبید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِخلافت میں مسجد نبوی کی تعمیر نو اور توسیع کا ارادہ فرمایا تو کچھ لوگوں نے اسے ناپسند کیا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ اس مسجد کو اس کی اصل حالت میں ہی رہنے دیا جائے۔ یہ سن کر آپ(حضرت عثمانؓ ) نے فرمایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مَنْ بَنَیٰ مَسْجِدًا لِلّٰہِ بَنَی اللّٰہُ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ مِثْلَہُ کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا۔ (مسلم کتاب المساجد باب فضل بناء المساجد و الحث علیھا)
جماعت احمدیہ آنحضورﷺ کے ارشادات کے پیش نظر مساجد کی تعمیر کی طرف ہمیشہ سے خاص توجہ دیتی آئی ہے۔ اسی کی تلقین حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمائی ہے اور خلفائے کرام نے اس حوالے سے جماعت میں مسابقت کی روح زندہ رکھنے کے لیے کئی منصوبے بھی جاری فرمائے ہیں۔ چنانچہ جس علاقے میں بھی احمدیوں کی آبادی میں قابل ذکر اضافہ ہوا وہاں احمدیوں نے صلوٰۃ سینٹر (مرکزِ نماز) کی بنیاد رکھ دی اور مسجد کی تعمیر کے لیے کوششوں کا آغاز بھی کردیا۔ مختلف مالی معاملات اور قانونی مراحل سے دعاؤں کی مدد سے گزر کر خداتعالیٰ نے ہمیشہ ہی کامیابی عطا فرمائی اور پھر یہ مساجد اُس علاقے میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترویج کا ذریعہ بن گئیں کیونکہ ان میں سربسجود وہ پاک روحیں تھیں جن کے بارے میں پاکیزگی کی گواہی خداتعالیٰ نے یوں دی ہے۔ فرمایا:فِیْہِ رِجَالٌ یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْن (التوبۃ:108) یعنی اس میں آنے والے ایسے لوگ ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ بالکل پاک ہوجائیں اور اللہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر مسجدوں کے قیام کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’اِس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہیے۔ پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیّت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اَغراض یا کسی شرّ کو ہر گز دخل نہ ہو۔ تب خدا برکت دے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد7 صفحہ 119،ایڈیشن 1985ء)
اسی طرح فرمایا: ’’مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اُن نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی۔ کھجور کی چھڑیوں سے اُس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیاداروں نے ایک مسجد بنوائی تھی۔ وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرا دی گئی۔ اُس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا یعنی ضرررساں۔ اس مسجدکی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی۔ مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ491، ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے متعدد خطبات جمعہ اور خطابات مساجد کی تعمیر کی ضرورت، مساجد کی اہمیت اور مساجد کے لیے پیش کی جانے مالی قربانیوں کے فلسفے کے حوالے سے ارشاد فرمائے ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ فرماتے ہیں: ’’اس اہم بات کو ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ دعاؤں کی طرف توجہ دیں اور مساجد کی تعمیر بھی اس لیے ہوتی ہے کہ اس میں عبادت کے لیے لوگ جمع ہوں۔ پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں۔ جمعوں میں باقاعدگی اختیار کریں۔ دنیا کے لہو و لعب اور کاموں میں اپنی عبادتوں کو نہ بھول جائیں۔ اگر ہم اپنی عبادتوں کو بھول گئے تو یہ مسجد بنانا صرف ایک ظاہری ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے۔ دنیا کو ہم بتا رہے ہوں گے کہ یہاں مسلمانوں کی ایک مسجد بن گئی ہے،لیکن ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قابل نہیں ہوں گے کہ اس مسجد کی برکات سے فیض پانے والے ہوں یا ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مددگاروں میں سے ہوں۔ آپؑ نے تو فرمایا ہے کہ مسلسل دعاؤں سے میرے مددگار بنو، تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جلد سے جلد پورا ہوتا دیکھیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍ستمبر 2022ء )
حضورانور ایدہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جب مسجد بناتے ہیں یا بنائیں تو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اُس کی رضا کے حصول کے لیے بنانے والے ہوں اور مسجد بنانے کے لیے جو قربانی کی ہے، اُس پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں نہ کہ کسی قسم کا فخر۔کیونکہ ہماری یہ جو قربانی ہے، جو ہم کرتے ہیں، یہ اُس قربانی کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہے بلکہ اس سے بھی بہت کم ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی تھی۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ27؍اپریل 2012ء )
جماعت احمدیہ برطانیہ کو انتظامی لحاظ سے سولہ ریجنز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ویلز اور ساؤتھ ویسٹ ریجن تجنید کے لحاظ سے یوکے کا سب سے چھوٹا ریجن ہے مگر رقبے کے لحاظ سے وسیع و عریض علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ تنظیمی لحاظ سے یہ ریجن تین مجالس کارڈف، برسٹل اور سوانزی پر مشتمل ہے۔ کارڈف مجلس یہاں کی سب سے بڑی مجلس ہے اور کارڈف ویلز کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔

کارڈف میں مسجد بیت الرحیم کی ایمان افروز تاریخ کے حوالے سے مکرم منور احمد مغل صاحب (سابق ریجنل ناظم اعلیٰ انصاراللہ) بیان کرتے ہیں کہ کارڈف میں جماعت کے قیام کے بعد سے یہاں تبلیغ سٹالز اور دیگر پروگرامز منعقد کرنے کی کوشش تو کی جا رہی تھی تاہم یہ احساس بھی رہتا کہ ویلز میں کی جانے والی تبلیغی کوششیں ناکافی ہیں۔ یہاں کی مقامی آبادی میں جماعتی تعارف کم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ویلز میں احمدیہ مسجد نہیں تھی اور جب مقامی آبادی میں جماعت کا تعارف کروایا جاتا تو اُن کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کی مسجد کہاں ہے؟ اس سے ہمیں مسجد نہ ہونے کا شدت سے احساس ہوتا جس کے لیے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کی درخواست کی جاتی رہی۔ نیز اسی سوچ اور فکر کے پیش نظر 2011ء میں کارڈف مجلس کی طرف سے مجلس شوریٰ کے لیے یہ تجویز بھجوائی گئی کہ ناصر مسجد ہارٹلے پول مجلس انصاراللہ یوکے کے چندے سے حضور کی ہدایت پر تعمیر کی گئی ہے۔ اب مجلس انصاراللہ یوکے دوسری مسجد ویلز میں تعمیر کرنے پر غور کرے کیونکہ ساؤتھ ویسٹ ریجن یوکے کا واحد ریجن ہے جہاں جماعت کی مسجد نہیں ہے ۔
مجلس انصاراللہ کی نیشنل عاملہ نے تو کارڈف مجلس کی اس تجویز کو منظور نہ کیا۔ مگر جب مجلس شوریٰ کے لیے بھجوائی جانے والی تجاویز حضور کی خدمت میں پیش کی گئیں تو حضورانور نے اس ردّ شدہ تجویز کومجلس شوریٰ کے ایجنڈے میں شامل کر دیا۔ پھر حضورانور کی دعاؤں اور توجہ کا اعجاز تھا کہ مجلس شوریٰ نے بھی اس تجویز کی سفارش کردی جسے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے منظور فرمالیا اور یوں مجلس انصاراللہ یوکے کو کارڈف میں مسجد بنانے کی ذمہ داری تفویض ہو گئی۔

اگلا مرحلہ کارڈف میں مسجد کی تعمیر کے لیے مناسب جگہ کا حصول تھا۔ صدر مجلس انصاراللہ چودھری وسیم صاحب کی ہدایات کی روشنی میں خاکسار نے بطور ریجنل ناظم و زعیم مجلس کارڈف مکرم سعادت احمد صاحب کے ساتھ مل کر جگہ کی تلاش کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔ اس کے لیے مختلف اسٹیٹ ایجنٹس کی مدد بھی حاصل کی گئی اور ایک موقع پر کارڈف کونسل سے بھی میٹنگ ہوئی جس کا مقصد ایک کمیونٹی سنٹر کا حصول تھا جسے کونسل لیز پر دینا چاہتی تھی۔ مگرہماری کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ اس دوران صدر مجلس بھی متعدد بار کارڈف تشریف لائے تاکہ حضورانور کے ارشاد کی جلد تعمیل ہوسکے۔ چنانچہ مناسب جگہ کے حصول کے لیے اپنی کوششوں میں مزید بہتری اور تیزی لانے کے لیے ہم نے ایک اسٹیٹ ایجنٹ DTZ ڈائریکٹر Chris Terry کی خدمات بھی حاصل کیں تاکہ وہ پراپرٹیز جو مارکیٹ میں آئے بغیر بِک جاتی ہیں ان کو بھی دیکھا جا سکے۔ یہ سلسلہ سال 2014ء تک جاری رہا اور آخر کار DTZ نے اَور جگہوں کے علاوہ ایک آفس بلڈنگ دکھائی جو کارڈف شہر کے ویسٹ میں کنٹن ایریا میں واقع تھی۔ یہ بلڈنگ ہمیں پسند آگئی اور اسے بطور مسجد استعمال کرنے کی اجازت کے ساتھ مشروط طور پر خریدنے کا فیصلہ کیا گیا جسے اس جگہ کے مالک نے بھی منظور کرلیا۔
اگلا اہم مرحلہ مسجد بنانے کے لیے کونسل میں باقاعدہ درخواست دے کر مسجد کی تعمیر کی منظوری لینے کا تھا۔ جس کے لیے محترم چودھری وسیم احمد صاحب صدر مجلس اور مکرم ناصر خان صاحب کارڈف تشریف لائے اور گیپ آرکیٹیکٹ سروسز کے ساتھ میٹنگ کے بعد کونسل میں منظوری کی کارروائی کی ذمہ داری ان کو سونپ دی گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 13؍مارچ2015ء کو کونسل کی طرف سے اجازت مل گئی اور اس جگہ کا قبضہ حاصل کرلیا گیا۔
اس کے بعد آرکیٹیکٹ Stephen کے ذریعے ایک مفصل درخواست کارڈف کونسل میں 26؍اکتوبر 2015ء کو جمع کرائی گئی جس میں مسجد کا نقشہ اور بہت ساری رپورٹس، جو مسجد کی تعمیر کے لیے ضروری تھیں، شامل تھیں۔مگر کونسل کی پلاننگ کمیٹی نے اس درخواست کو نامنظور کردیا۔ کونسل کے اعتراضات دُور کرکے درخواست دوبارہ دائر کی گئی مگر کونسل نے اسے بھی نامنظور کرکے 16؍مارچ 2017ء کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر اپیل کا حق استعمال کرتے ہوئے ہمارے آرکیٹیکٹ نے کونسل کے فیصلے کے خلاف ویلش گورنمنٹ کو اپیل کر دی۔ کونسل کا کیس کمزور تھا کیونکہ اس سے قبل وہ اس جگہ مسجد کی تعمیر پر اتفاق کرچکے تھے اور بعد میں باقاعدہ نقشے کی منظوری نہ کرکے گویا وہ اپنے ہی پہلے فیصلے کی نفی کررہے تھے۔ لہٰذا کونسل اور ہمارے آرکیٹیکٹ کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں کونسل نے ہماری درخواست کو دوبارہ زیرغور لانے کی یقین دہانی کروائی اور یوں ویلش گورنمنٹ والی اپیل مشروط طور پر واپس لے لی گئی ۔ بالآخر 20؍مارچ 2018ء کو کونسل نے باضابطہ طور پر مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ۔ مسجد کی تعمیر کی اجازت ملنے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ازراہِ شفقت اس کا نام بیت الرحیم مسجد تجویز فرمایا۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک
دراصل 2015ء میں جب مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ خریدی گئی تو مقامی آبادی اور غیراحمدی مسلمانوں نے مسجد کی تعمیر کی شدید مخالفت شروع کردی۔جماعت احمدیہ کی مخالفت میں کثرت سے پمفلٹس تقسیم کیے گئے نیز کونسل اور اراکینِ پارلیمنٹ کو دستخط شدہ درخواستیں بھی بھجوائی گئیں تاکہ کونسل پر پریشر ڈالا جاسکے اور وہ مسجد کی تعمیر کی اجازت نہ دے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بھی ایک مہم شروع کی گئی جس کے بعد مسجد سے ملحقہ آبادی بھی مسجد کی مخالف مُہم میں شامل ہو گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسجد کی تعمیر کی درخواست کو کونسل نے دو مرتبہ مسترد کردیا۔

ضمناً یہ ذکر کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ2012ء میں جب مسجد کے لیے جگہ کی تلاش زور و شور سے جاری تھی تو جماعت کے بارے میں ایک تبلیغی پروگرام عید ڈنر منعقد کیا گیا تاکہ لوکل کونسل، اراکین پارلیمنٹ اور لوکل کمیونٹی میں جماعت کا تعارف بڑھایا جائے۔ یہ پروگرام ایک مقامی ہوٹل میں منعقد کیا گیا جس کی صدارت صدر مجلس انصاراللہ یو کے نے کی۔ یہ پروگرام انتہائی کامیاب رہا اور ویلش اسمبلی کے متعدد ممبران اس میں شامل ہوئے جن میں ایک مسلمان ممبر مکرم محمد اصغر صاحب بھی تھے جنہیں پروگرام کی دعوت باقی ممبران کی طرح ہی دی گئی تھی مگر ان کا نام خطاب کرنے والے مہمانوں میں اس ڈر سے شامل نہیں کیا گیا تھا کہ نہ جانے خطاب میں کیا کہہ دیں جس سے پروگرام کا ماحول ہی خراب ہوجائے۔ جب مقررین خطاب کر چکے تو مکرم محمد اصغر صاحب نے جو سامعین میں بیٹھے تھے خود کھڑے ہو کر صدر صاحب سے کچھ کہنے کی اجازت مانگی۔
مکرم محمد اصغر صاحب نے اس وقت سب کو حیرت میں ڈال دیا جب دیگر باتوں کے علاوہ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی بتایا کہ ’’میری حقیقی دادی کی میرے والد کی پیدائش کے موقع پر وفات ہوگئی تھی اور میرے والد کو ایک احمدی خاتون نے دودھ پلایا تھا لہٰذا اس لحاظ سے میرا وجود احمدیت کا مرہون منت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے کچھ احمدی دوست بھی ہیں اور مَیں اس تلاش میں بھی رہا تھا کہ کارڈف میں کسی احمدی دوست سے بھی میرا کوئی رابطہ ہوجائے جو آج اس پروگرام کے ذریعے ہوگیا ہے اور اس پر مَیں بہت خوش ہوں۔ ‘‘
اس دن کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ محمداصغر صاحب سے ہمارا میل جول بڑھتا گیا اور ہماری درخواست پر وہ اکثر جماعتی پروگراموں میں بھی شوق سے تشریف لاتے رہے۔ آپ متعدد بار جلسہ سالانہ یوکے، پیس سمپوزیم، چیریٹی واک اور دیگر بہت سے جماعتی پروگراموں میں بھی شریک ہوئے اور خطاب کرنے کے مواقع بھی اُنہیں ملے۔ ایک دفعہ جلسہ سالانہ یوکے پر وہ اپنے ایک دوست ویلش اسمبلی کے رُکن Nick Ramsey اور ان کی اہلیہ نیز ایئر کموڈور ریٹائرڈ محمد طارق صاحب کو بھی اپنے ہمراہ لے کر گئے۔
مکرم محمد اصغر صاحب کو متعدد بار حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ مسجد بیت الفتوح میں جب آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تو محمداصغر صاحب خصوصی طور پر حضورانور سے ملنے کے لیے لندن تشریف لائے۔ خاکسار بھی ان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا اور ساتھ ہی 500 پاؤنڈز کا چیک حضور انور کی خدمت میں مسجد بیت الفتوح کی تعمیرنَو کے لیے پیش کیا۔
کارڈف مسجد کے پروجیکٹ میں محترم محمد اصغر صاحب کی خصوصی دلچسپی تھی اور اس حوالے سے progress کے بارے میں اکثر پوچھتے رہتے تھے۔ ان کی دِلی خواہش تھی کہ مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب جلد از جلد منعقد ہو اور حضورانور ویلز تشریف لائیں اور اسی دن ویلش اسمبلی میں بھی حضور خطاب فرمائیں جس کی تحریری اجازت انہوں نے اسپیکر اسمبلی سے لے رکھی تھی۔ اس کی دعوت بھی بالمشافہ ملاقات کرکے انہوں نے حضورانور کو دی تھی۔ مگر کووڈ کی بیماری اور بہت سی دیگر وجوہات کی بنا پر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ جماعت کا یہ سلطان نصیر 16؍جون 2020ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔ اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔جب حضورانور کی خدمت میں اصغر صاحب کی اچانک وفات کی اطلاع دی گئی تو حضورانور کی طرف سے فیملی کے ساتھ افسوس اور تعزیت کا خط ارسال کیا گیا۔
کارڈف مسجد کی تعمیر کی مکمل اجازت اگرچہ2018ء میں کونسل کی طرف سے مل گئی تھی مگر بعض وجوہات اور کووڈ کی وبا کی بِنا پر مسجد کی تعمیر شروع نہ ہوسکی۔ اس دوران بطورمسجد اور نماز سنٹر نیز دیگر جماعتی پروگراموں کا انعقاد کرکے اس عمارت سے بھرپور استفادہ کیا جاتا رہا۔ بالآخرحضورانور کی منظوری سے کارڈف مسجد کے سنگِ بنیاد کی تقریب 9؍ستمبر 2023ء کو منعقد ہوئی جس میں محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت برطانیہ نے قادیان سے منگوائی گئی ایک اینٹ (جو دعا کرکے حضورانور نے دی تھی) سنگِ بنیاد میں رکھی۔ اس موقع پر بہت سے دیگر احباب کے علاوہ محترم چودھری ڈاکٹر اعجازالرحمٰن صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے، محترم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب نائب صدر صف دوم، مکرم سعادت احمد صاحب ریجنل ناظم اعلیٰ کو بھی مسجد کی بنیاد میں اینٹ رکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

مسجد کی تعمیر کے آغاز کے ساتھ ہی مکرم شکیل احمد بٹ صاحب کو کارڈف مسجد کے منصوبے کے لیے فنڈریزنگ کا انچارج مقرر کیا گیا۔ آپ نے بیان کیا کہ مسجد کی تعمیر کا کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنوری 2024ء سے شروع ہو ا اور پروگرام کے مطابق وسط 2025ء میں یہ شاندار منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ الحمدللہ
اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ساڑھے تین ہزار سے زائد انصار اور اُن کے بعض افرادِ خاندان نے مالی قربانی کی توفیق پائی۔ جمع ہونے والی کُل رقم 2334178پاؤنڈ ہے جس میں سے قریباً ساڑھے بائیس لاکھ پاؤنڈ خرچ کیے جاچکے ہیں۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس تاریخی مسجد کے افتتاح کے پُرمسرت موقع پر برکینافاسو میں گیارہ گائیوں کا صدقہ اُس علاقے (ڈوری) میں دیا جارہا ہے جہاں شہدائے احمدیت کی فیملیوں سمیت سواسو سے زائد احمدی گھرانے آباد ہیں۔ نیز اس علاقے میں بہت سے پناہ گزین بھی مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ گیارہ بکرے ربوہ میں صدقہ کروائے جارہے ہیں۔
مسجد بیت الرحیم کی دو منزلہ عمارت دو بڑے ہال اور ایک ڈائننگ ہال پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر پانچ صد سے زیادہ نمازی بیک وقت اس میں نماز ادا کرسکتے ہیں۔ چند دفاتر کے علاوہ تین کمروں پر مشتمل مربی ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے حوالے سے مجلس انصاراللہ برطانیہ نے ایک معلوماتی ویب سائٹ بھی تیار کی ہے جس پر آن لائن عطیات پیش کرنے والوں کی سہولت کے لیے معلومات اور لنک بھی موجود ہے۔ ویب سائٹ کا ایڈریس یہ ہے:
https://ansar.org.uk/bait-ur-raheem-mosque-in-cardiff/
اس مسجد کی تعمیر پر ہر احمدی کا دل اور زبانیں خداتعالیٰ کی حمد سے لبریز ہیں اور ہم خداتعالیٰ کے حضور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مقامی احمدی خاندانوں کو اس مسجد کو آباد رکھنے اور اس کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس سرزمین کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نور سے منور فرمادے۔ آمین
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا:
وہ شہر جو کفر کا ہے مرکز ، ہے جس پہ دینِ مسیح نازاں
خدائے واحد کے نام پر اک، اب اس میں مسجد بنائیں گے ہم
پھر اس کے مینار پر سے دنیا کو حق کی جانب بلائیں گے ہم
کلامِ ربِ رحیم و رحماں، ببانگِ بالا سنائیں گے ہم
………٭………٭………٭………
(اس مضمون کی تیاری میں ’’تاریخ احمدیت‘‘ مؤلفہ مؤرخ احمدیت مکرم مولوی دوست محمد شاہد صاحب، ’’تاریخ یوکے‘‘ مؤلفہ مکرم لئیق احمد طاہر صاحب مبلغ سلسلہ یوکے اور مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ میں شائع ہونے والے چند مضامین سے مدد لی گئی ہے۔)
