مکرمہ نصیرہ بیگم صاحبہ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 14؍جولائی 2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍جنوری2014ء میں مکرم فہیم احمد راشد صاحب نے اپنی والدہ محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ٹھیکیدار نواب دین صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرمہ نصیرہ بیگم صاحبہ 1933ء میں قادیان میں محترم سبحان علی صاحب (کاتب روزنامہ الفضل۔ وفات 1952ء) کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اُس وقت وفات پاگئی تھیں جب اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی صرف چھ ماہ کی تھی۔ مکرمہ نصیرہ بیگم صاحبہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں چنانچہ آپ نے اپنے بہن بھائیوں کی پرورش میں خاص خدمت کی توفیق پائی۔
آپ نمازوں میں باقاعدہ ہونے کے علاوہ نوافل بھی ادا کرتیں اور تسبیحات بھی کرتیں۔ گھر میں بھی سب کو نماز اور قرآن کریم کی تلاوت کی تلقین کرتیں۔ سب بچوں کو خود قرآن کریم پڑھایا۔ توکّل علی اللہ بہت تھا۔ خداتعالیٰ دعائیں بھی بکثرت قبول فرماتا اور اکثر خوشخبریاں بھی عطا فرماتا جنہیں وہ لکھ لیتیں۔ لوگ خاص معاملات میں دعا کے لیے کہتے تو آپ بارہا دعا کے بعد خوشخبری بھی دے دیتیں۔
آپ مہمان کو اللہ کی رحمت سمجھتیں اور محبت کے ساتھ ہرممکن خدمت کرتیں۔ جب ایم ٹی اے جاری ہوا تو اپنے گھر پر ڈش لگوائی اور خطبہ جمعہ یا دیگر پروگرام دیکھنے کے لیے جو احمدی تشریف لاتے اُن کو حضرت مسیح موعودؑ کا مہمان کہتیں اور اُن کی چائے اور عمدہ قسم کے بسکٹ سے تواضع کرتیں۔ رمضان میں حضورؒ کا درس شام کو آتا تھا تو اس دوران سب آنے والوں کی افطاری بھی کرواتیں۔
آپ روزانہ صدقہ بھی نکالتیں بلکہ ہر مانگنے والے کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی بیماری کا سن کر تو خصوصی صدقہ نکالتی رہیں۔ چند غریب خواتین اکثر آیا کرتی تھیں جن کی بہت مدد کرتی تھیں۔ اگر کسی کے آنے میں زیادہ دنوں کی تاخیر ہوجاتی تو پریشان ہوجاتیں کہ کہیں وہ بیمار تو نہیں ہوگئی۔
کافی عرصہ ذیابیطس میں مبتلا رہیں جس کے نتیجے میں ایک وقت چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا تھا اور واکر استعمال کرنی پڑتی تھی۔ 25؍اکتوبر2002ء کو ستّر سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی اور اسلام آباد میں ہی تدفین عمل میں آئی۔