مکرم خالد احمد البراقی صاحب (شہید شام)

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل جلسہ سالانہ نمبر 21 تا 26؍جولائی 2025ء)

مکرم خالد احمد البراقی صاحب کا تعلق شام (سیریا) سے تھا اور آپ ایک انجینئر تھے۔ 5؍جنوری 1977ء کو پیدا ہوئے اور 37؍سال کی عمر میں شہادت کا مقام پایا۔ ان کے والدین کو 1986ء میں دمشق کے نواحی علاقے کی ایک بستی ’حوش عرب‘ میں سب سے پہلے قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔ بیعت کرنے کے بعد ان کے والد صاحب کو مخالفت اور دھمکیوں کے ساتھ 1989ء میں چھ ماہ کی جیل بھی کاٹنی پڑی۔ اسی طرح بعد میں فسادات کے دوران 2012ء اور 2013ء میں بھی دو دفعہ ان کے والد کو گرفتار کیا گیا۔ خالد البراقی صاحب کو 18؍ستمبر 2013ء کو انٹیلیجنس ایجنسی کی کسی برانچ نے گرفتار کیا اور لاپتہ کردیا گیا۔ یہاں تک کہ 9؍دسمبر2013ء کو ان کے والد کو ملٹری انٹیلیجنس کی ایک برانچ میں بلاکر بعض کاغذات تھماکر بتایا گیا کہ ان کے بیٹے کی 28؍اکتوبر 2013ء کو وفات ہو گئی ہے۔ لاش بھی نہیں دی گئی۔ غالباً یہی امکان ہے کہ وہاں کیے جانے والے ٹارچر کی وجہ سے شہادت ہوئی۔
خالد البراقی صاحب کی نیکی، تقویٰ، حُسنِ خلق اور دینی تعلیمات کی پابندی کی گواہی وہاں کے بہت سارے احمدیوں اور غیراحمدیوں نے دی ہے۔ بہت نرم دل اور لوگوں سے ہمدردی رکھنے والے اور ہر مفوضہ کام کو نہایت خوشدلی کے ساتھ انجام دینے والے تھے۔ تعاون، اخلاص اور خلافت سے محبت ان کے خصائل میں شامل تھیں۔ اپنے وطن اور انسانوں سے محبت رکھنے والے وجود تھے۔ ایک مقامی جماعت کے صدر بھی رہے۔ بوقت وفات بطور سیکرٹری تعلیم القرآن اور وقفِ عارضی خدمات بجا لا رہے تھے۔ موصی تھے۔ چندوں کی باقاعدہ ادائیگی کرنے والے تھے۔ ان کی بیوی بھی احمدی ہیں۔ بچے چھ سال سے کم عمر کے ہیں۔ ایک بیٹی شروب، بیٹا احمد اور ایک بیٹا حسام الدین جو اُن کی گرفتاری سے چند ہفتے قبل پیدا ہوا تھا اور وقفِ نو کی تحریک میں شامل ہے۔
گرفتاری سے پہلے خالد البراقی صاحب نے اپنی فیس بُک پر وطن سے محبت کا بےپایاں اظہار کیا اور سرزمین شام میں امن اور عوام میں باہمی محبت پیدا ہونے کی دعائیں کیں۔
یکم اپریل 2012ء کو انہوں نے حضورانور ایدہ اللہ کو ایک خط لکھا تھا جس کے آخر پر اپنا 2006ء کا ایک رؤیا لکھا تھا۔ اس رؤیا سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ بھاری ذمہ داری اور اہم امانت اُن کے سپرد کی جائے گی اور رؤیا میں اُنہیں حق پر قائم رہنے اور کوئی کمزوری نہ دکھانے کی تاکید کی گئی تھی۔ اس رؤیا کے بعد اُن کو جماعت کا صدر بنایا گیا تو وہ سمجھے کہ شاید یہ رؤیا پوری ہو گئی ہے۔ لیکن رؤیا میں حق پر قائم رہنے اور کمزوری نہ دکھاتے ہوئے جان دینے کی تلقین کی گئی تھی۔ تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ اسی حالت میں اُنہوں نے اپنی جان دی کہ دین پر قائم رہے اور اپنے ایمان میں لغزش نہیں آنے دی۔
محترم خالد البراقی شہید نے اپنے والد کے قبول احمدیت کے حوالے سے بیان کیا کہ سرکاری نوکری سے فراغت کے بعد میرے والد نے ‘حوش عرب’ میں ٹریکٹرز اور موٹریں ٹھیک کرنے کی ورکشاپ کھول لی۔ سردیوں میں جب شدید برفباری ہوتی تو بستی کے لوگ گھروں میں بیٹھ کر کھاتے پیتے، تاش کھیلتے اور تمباکونوشی کا شغل کرتے۔ میرے والد بھی ان تمام چیزوں کے رسیا تھے۔ لیکن احمدیت قبول کرنے کے بعد وہ یکسر بدل گئے حتیٰ کہ سگریت نوشی بھی ترک کردی بلکہ اس کی بُو تک سے کراہت کھانے لگے۔ وہ گھر جس میں فضول قصّے کہانیاں ہوتی تھیں اب وہاں اللہ رسولؐ کی باتیں ہونے لگیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام کی اشاعت ہونے لگی۔ مخالفت کے باوجود بستی والے اپنے ٹریکٹر اور موٹریں ٹھیک کروانے میرے والد کے پاس ہی آتے تھے اور ان کے کام اور دیانتداری کے معترف تھے۔ اہل بستی کہا کرتے تھے کہ احمد براقی کے بچے بہت ذہین ہیں لیکن اس نے احمدیت قبول کرکے ان کو ضائع کردیا ہے۔ ہم سات بہن بھائی ہیں۔ مَیں نے مکینیکل انجینئرنگ کی، دو بھائیوں نے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی، ایک بہن ڈینٹسٹ ہے اور دو بہنوں نے ادب عربی اور ایک نے فرنچ لٹریچر پڑھا ہے۔ ایک وہ وقت تھا کہ لوگ بستی میں ہمارے مقاطعے کی باتیں کرتے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں کسی کا محتاج نہیں کیا، ہماری شادیاں بھی احمدیوں میں کروادیں اور اولاد کی نعمت بھی عطا فرمائی۔

محمد طاہر ندیم صاحب

مکرم طاہر ندیم صاحب کہتے ہیں کہ شام میں قیام کے دوران ہمارا ان سے تعارف ہوا۔ یہ تواضع اور خاکساری کی بڑی مثال تھے۔ نہایت سادہ، نیک اور ہنس مکھ۔ دمشق میں جماعت کے ہی ایک مکان میں رہتے تھے جسے بطور مرکز استعمال کیا جاتا تھا۔ انہیں علم کی اس قدر پیاس تھی کہ اکثر اپنے ایک کزن کے ساتھ ہمارے پاس آ جاتے اور علمی موضوعات پر باتیں ہوتی تھیں۔ جو بھی جماعتی کتاب ملتی، بڑی محبت اور تڑپ کے ساتھ اُس کا مطالعہ کرتے۔ جماعت کی پرانی لائبریری میں سے بعض عربی کتب اور رسالہ البشریٰ کے قدیم شماروں میں سے مضامین نکالتے اور دوبارہ کمپیوٹر پر ٹائپ کرکے ہمیں ارسال کرتے تھے۔ مختلف کتابوں کے تراجم پر نظرِ ثانی میں معاونت کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے گہری محبت اور خلافت سے بھی عشق تھا۔ یوم مسیح موعود علیہ السلام کے موقع پر نشر ہونے والے عربی پروگرام کو سن کر بہت جذباتی انداز میں انہوں نے اپنا پیغام بھیجا اور حضرت مسیح موعودؑ کا ایک قصیدہ بھی نہایت پُر سوز آواز میں ریکارڈ کروایا۔

میر انجم پرویز صاحب

مکرم میر انجم پرویز صاحب بھی شام میں رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں تبلیغ کا انہیں بڑا شوق تھا اور کام پر چونکہ تبلیغ کرنا منع ہے اس لیے کہتے تھے کہ میں اخلاق سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بڑی محنت، اخلاص اور دیانت داری کے ساتھ کام کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میں اس لیے ایسا کرتا ہوں تاکہ لوگوں کو خود توجہ پیدا ہو کہ احمدی سچے، دیانتدار، محنتی اور بااخلاق ہوتے ہیں۔ وطن سے بڑی محبت کرنے والے تھے اور اپنے دوستوں اور ہم جلیسوں کو بھی یہ سمجھایا کرتے تھے کہ وطن سے محبت کرو کیونکہ یہی صحیح اسلامی تعلیم ہے۔ وطن سے محبت کے حوالے سے حضورانور کے خطبات بھی انہوں نے اپنے دوستوں کو سنائے اور اُن کو آمادہ کیا کہ تشدد کی زندگی ختم کرکے پُرامن شہری بن کے رہو۔ لیکن بعض بدفطرت ان کے خلاف تھے۔ لگتا ہے حکومت کے انہی کارندوں نے اُن پر ظلم کیا جس کی وجہ سے اُن کو یہ شہادت کا رُتبہ نصیب ہوا۔
شہید مرحوم کے بھائی مکرم طاہر البراقی صاحب بیان کرتے ہیں کہ خالد شہید کے کمرے کی دیواروں پر ہر جگہ قرآنی آیات، حدیث یا حضرت مسیح موعودؑ کا کوئی شعر آویزاں ہوتا۔ گھر میں یا جماعتی طور پر جو کام بھی اُن کے سپرد ہوتا اُسے بھرپور ذمہ داری سے ادا کرتے۔ علاقے کے کئی گھروں میں شمسی توانائی کے پینلز انسٹال کیے۔ طلبہ کی مدد میں پیش پیش رہتے۔ انتہائی عاجز اور منکسرالمزاج، نماز کے پابند، اہلیہ سے حددرجہ حسنِ سلوک سے پیش آنے والے اور دوسروں کو صلہ رحمی، محبت اور خدا کو راضی کرنے کی نصیحت کرنے والے تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍دسمبر2013ء میں شہید مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں