مکرم لطیف عالم بٹ صاحب شہید

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل جلسہ سالانہ نمبر 21 تا 26؍جولائی 2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍اکتوبر2014ء میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق مکرم لطیف عالم بٹ صاحب ابن مکرم خورشید عالم بٹ صاحب آف کامرہ ضلع اٹک کو 15؍اکتوبر کی رات کو قریباً سات بجے ان کے گھر کے قریب دو نامعلوم موٹرسائیکل سوار دہشتگردوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ وہ گھر کے قریب ہی واقع اپنی سٹیشنری کی دکان سے معمول کے مطابق واپس آرہے تھے جب اپنے گھر کے قریب گلی میں پہنچے تھے تو پیچھے سے موٹرسائیکل سواروں نے انہیں بٹ صاحب کہہ کے آواز دی۔ جیسے ہی یہ واپس مڑے ہیں تو ایک شخص نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں چار پانچ گولیاں شہید مرحوم کے سینے میں لگیں۔ کسی نے ان کے بیٹے ذیشان بٹ صاحب کو اطلاع دی تو وہ فوری موقع پر پہنچے۔ بہرحال ریسکیو والے بھی پہنچ گئے تھے۔ لطیف بٹ صاحب اس وقت ہوش میں تھے مگر سول ہسپتال اٹک جاتے ہوئے راستے میں جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی عمر 62سال تھی۔
لطیف عالم بٹ صاحب کے خاندان کا تعلق کامونکی ضلع گوجرانوالہ سے تھا۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد مکرم خورشید عالم بٹ صاحب کے ذریعہ ہوا جن کو 1934ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ شہید مرحوم اپریل 1952ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ F.Aتک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایئر فورس میں بھرتی ہو گئے اور کامرہ ایئر فورس سے کارپورل ٹیکنیشن کے رینک سے 1991ء میں ریٹائر ہوئے اور کتابوں کا کاروبار شروع کیا۔ زیادہ کاروبار قانونی کتابوں کا تھا اور پاکستان کی مختلف کچہریوں میں وکلاء کو کتب دیا کرتے تھے۔ غیراحمدی وکلاء بھی ان کے بڑے معترف تھے۔
شہید مرحوم بطور ناظم اشاعت انصاراللہ بھی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ قبل ازیں ضلعی سطح پر سیکرٹری ضیافت اور خدام الاحمدیہ میں ناظم صحت جسمانی کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ شہید مرحوم کا گھر لمبے عرصے سے نماز سینٹر ہے۔ اس کے علاوہ جماعت کے دیگر پروگرام جلسے اجلاسات بھی ان کے گھر منعقد ہوتے تھے۔ شہید مرحوم ہمیشہ جماعتی خدمت کے لیے تیار رہتے اور جو کام بھی سپرد کیا جاتا اسے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے۔ کبھی انکار نہیں کرتے تھے۔ بہت مہمان نواز تھے۔ خلافت سے انتہائی محبت اور عشق کا تعلق تھا اور اطاعت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ نماز جمعہ کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ نماز جمعہ سے دو گھنٹے قبل ہی مسجد میں چلے جایا کرتے تھے۔ بہت دلیر اور نڈر انسان تھے۔ 2007-08ء میں بھی ان پر نامعلوم افرادنے حملے کی کوشش کی تھی۔ حملہ آور نے ان پر فائر کیا مگر گولی پِسٹل میں پھنس گئی اور انہوں نے اس وقت ایک حملہ آور کو پکڑ لیا اور کافی مزاحمت ہوئی لیکن بہرحال وہ بعد میں بھاگ گیا۔
شہید مرحوم اعلیٰ اخلاق اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت شوق تھا۔ شہادت کے وقت وصیت کا فارم انہوں نے پُر کر دیا تھا جو ابھی زیر کارروائی تھی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر کرتے ہوئے آپ کی وصیت منظور فرمانے کا بھی اعلان کیا۔
مکرم امیر صاحب ضلع نے بتایا کہ شہید مرحوم میں عہدیداران اور نظام کی اطاعت کا غیر معمولی جذبہ تھا اور جماعتی پروگراموں اور اجلاسات میں ہمیشہ شامل ہوتے۔ کبھی کسی پروگرام سے غیر حاضر نہ ہوتے۔

انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب

شہید مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی عزیزہ ارم وسیم اور چار بیٹے خرم بٹ صاحب، ذیشان بٹ صاحب جو اپنے والد کے ساتھ ہی کاروبار کررہے تھے، انجینئرعمر بٹ صاحب اور علی بٹ صاحب چھوڑے ہیں۔
مکرم محمود مجیب اصغر صاحب (سابق امیر ضلع)کہتے ہیں کہ شہید مرحوم نے ایئر فورس سے ریٹائر ہونے کے بعد اس نیت سے وہیں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی کہ وہاں مستقل رہنے والا کوئی نہیں کیونکہ ایئرفورس کے آفیسر آتے اور ٹرانسفر ہو کے چلے جاتے۔ جماعت موجود نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے وہاں اپنا گھر بھی بنایا تھا تاکہ نماز سینٹر کا کام بھی دے اور جماعت بھی قائم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس نیت کو پھل لگائے اور اس شہادت کے بدلے اللہ تعالیٰ سینکڑوں ہزاروں احمدی وہاں اس علاقے میں عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں