مکرم مبشر احمد صاحب کھوسہ شہید

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل جلسہ سالانہ نمبر 21 تا 26؍جولائی 2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍ستمبر2014ء میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق مکرم مبشر احمد صاحب کھوسہ ابن مکرم محمد جلال صاحب آف سیٹلائٹ ٹاؤن میرپورخاص کو 22؍ستمبر کو شام ساڑھے سات بجے اُن کے کلینک میں نامعلوم افرادنے فائرنگ کرکے شہید کردیا جب آپ معمول کے مطابق مریض چیک کررہے تھے۔ تفصیلات کے مطابق اچانک دو نامعلوم افراد موٹرسائیکل پر آئے اور ان میں سے ایک نے کلینک میں داخل ہو کر مکرم مبشر احمد صاحب پر فائرنگ کردی۔ پانچ چھ گولیاں آپ کے سر اور سینے میں لگیں جس سے موقع پر ہی وفات ہو گئی۔ آپ کی عمر 47؍سال تھی۔
ڈاکٹر صاحب کے خاندان کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ 1954ء میں ان کے والد مکرم محمد جلال صاحب نورنگر ضلع عمرکوٹ سندھ شفٹ ہوئے اور اسی سال انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ اس پر اُنہیں گھر سے نکال دیا گیا تو مکرم غلام رسول صاحب آف محمدآبادنے اُن کو پناہ دی اور بعدازاں ایک محنتی اور مخلص انسان دیکھ کر اپنی بیٹی محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ کے ساتھ شادی کردی۔ شادی کے بعد محمد جلال صاحب کنری چلے گئے اور وہاں آٹا چکی کا کام شروع کیا۔ 1974ء میں مخالفین نے ان کی آٹا چکی کو آگ لگا دی اور گھر کا سامان لُوٹ لیا۔
شہید مرحوم 1967ء میں کنری میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم محمدآباد ضلع عمرکوٹ میں حاصل کی جہاں جماعت کی زمینیں ہیں۔ اس کے بعد یہ اپنی نانی کے پاس کراچی چلے گئے جہاں F.A پاس کیا اور پھر DHMS (ہومیوپیتھی پریکٹس) اور ڈسپنسری کے کورسز کیے۔ 1995ء میں شادی کے بعد بچوں کی تعلیم کی خاطر میرپورخاص شفٹ ہوگئے اور کچھ عرصے کے بعد وہاں کلینک کا آغاز کیا۔ آپ ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے اور ڈسپنسری کی بھی پریکٹس کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کے ہاتھ میں بہت شفا رکھی تھی۔ علاقے کے وڈیروں اور کئی خاندانوں کے فیملی ڈاکٹر تھے۔ لوگوں کو ان کے احمدی ہونے کا علم تھا مگر کبھی کسی نے مخالفت نہیں کی حتٰی کہ کلینک کے ساتھ غیر از جماعت کی مسجد ہے۔ وہاں کے امام مسجدنے بھی کبھی جماعت کی مخالفت کی کوئی بات نہیں کی بلکہ ڈاکٹر صاحب سے اچھا تعلق تھا۔
شہید مرحوم کو کئی تنظیمی اور جماعتی عہدوں پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ ضلعی عاملہ کے ممبر رہے۔ شہادت کے وقت سیکرٹری تربیت نومبائعین کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ جو بھی نومبائعین آتے تو ان کے کھانے کا انتظام کرتے۔ ان کے پاس کرایہ نہ ہوتا تو اپنی جیب سے بھی کرایہ دے دیتے۔ خدمت خلق کا بڑا شوق تھا۔ کشمیر کا زلزلہ آیا تو میڈیکل ٹیم کے ساتھ وہاں 22؍دن تک خدمت کی توفیق پائی۔ بہرحال قربانی کے میدان میں صف اول میں سے تھے۔ مہمان نواز تھے۔ اپنے ساتھیوں اور جماعتی عہدیداران کی دعوت کا اہتمام کرتے تھے۔ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ خلافت سے انتہائی محبت، عشق کا تعلق تھا۔ اطاعت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے۔ باجماعت نمازی تھے۔ نوافل پڑھنے والے اوردرود پڑھنے والے تھے۔ ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرتے اور ہمیشہ درگزر سے کام لیتے۔ اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ بڑی باوقار اور بارُعب شخصیت تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور چندہ جات کی ادائیگی میں ہمیشہ فعال تھے۔ ہمیشہ اپنے بجٹ سے زیادہ اور بروقت چندہ وصیت ادا کیا کرتے تھے۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا شوق تھا۔ ان کی دو بیٹیاں میڈیکل کالج میں زیرتعلیم ہیں۔ دو بیٹے بھی زیر تعلیم ہیں۔ پہلے ان کو پان کھانے کی عادت تھی جو انہوں نے اس لیے ترک کردی کہ یہ عادت درود شریف کے ورد میں روک بنتی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد بلال نے شہادت سے چند روز قبل ایک خواب میں دیکھا کہ ان کے بھائی ایک چھت پر مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صاحب صدیقی شہید کے ساتھ ایک طرف کونے میں کھڑے ہیں اور باقی لوگ دوسری طرف کھڑے ہیں۔ اسی طرح شہید مرحوم کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ تمام بہن بھائیوں میں یہ اونچے مقام پر کھڑے ہیں۔
شہید مرحوم کے لواحقین میں والد مکرم جلال احمد صاحب اور والدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے علاوہ اہلیہ محمودہ بیگم صاحبہ، دو بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔
عطاءالوحید باجوہ صاحب کہتے ہیں کہ میرا تعلق بھی میرپورخاص سے ہے اس وجہ سے شہید مرحوم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بہت خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے۔ ہر ایک سے مسکرا کر بات کرتے۔ کسی مجلس میں بیٹھے ہوتے تو فوراً اس کا حصہ بن جاتے اور اپنے دلچسپ انداز گفتگو سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے۔ تمام واقفین زندگی اور خاص طور پر مربیان سلسلہ کا بہت احترام کرتے تھے خواہ وہ آپ سے عمر میں بہت چھوٹے ہی ہوتے۔ چہرے پر غصہ، تنگ نظری کے آثار کبھی نہیں دیکھے۔ ہمیشہ مسکراتے اور بارونق چہرے کے ساتھ ملتے۔ علاقے کے لوگ بھی حیران ہیں کہ کس وجہ سے شہید کیا گیا ہے۔ ایک ہمدرد انسان تھے۔ خدمتِ انسانیت کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ لوگوں کی طرف سے اس بات کا برملا اظہار آپ کی شہادت کے موقع پر بھی ہوا۔
ایک سابق صدر لجنہ بیان کرتی ہیں کہ شہادت کے موقع پر غیر از جماعت بھی افسوس کے لیے آئے۔ دو عورتوں کا تعلق اس علاقے سے تھا جہاں ان کا کلینک تھا۔ وہ کہتی ہیں ہم بھی ڈاکٹر صاحب سے دوائی لیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ ایک غریب عورت ڈاکٹر صاحب کے پاس دوائی لینے کے لیے آئی تو آپ نے اسے دوائی دی اور کچھ پرہیز بتایا۔ اس پر اس عورت نے بادل نخواستہ کہا: اچھا۔ اس کے انداز سے آپ سمجھ گئے کہ وہ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ وہ غریب تھی۔ تو مبشر صاحب شہید نے اُسے فیس بھی واپس کردی اور کچھ رقم بھی دی اور کہا کہ ان پیسوں سے تم نے یہ چیزیں لینی ہیں، اپنا علاج مکمل کرنا خوراک کا بھی خیال رکھنا۔ ان عورتوں نے کہا کہ آپ لوگ جو انسانیت کی خدمت کرتے ہیں تو یہ مخالفین آپ لوگوں کو ہی چُن چُن کر مارتے ہیں۔
شہید مرحوم کے بھائی لکھتے ہیں کہ آپ بڑی حکمت سے سارے خاندان کے کام سلجھانے والے تھے اور تمام خاندان والے ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا اور اُن کی تعلیم کا خیال رکھنا اپنی ذمہ داری سمجھتے۔ ایک بہن کے کچھ مالی مسائل تھے۔ ان کے خاوند کو کسی وجہ سے جیل جانا پڑ گیا تو اُن کے بچوں کا بڑا خیال رکھا۔ نومبائعین کی خدمت میں ہر وقت مصروف رہنے والے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں