مکرم نعمان احمد نجم صاحب شہید
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل جلسہ سالانہ نمبر 21 تا 26؍جولائی 2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍مارچ 2015ء میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق مکرم نعمان احمد نجم صاحب ابن مکرم چودھری مقصود احمد صاحب آف ملیر رفاہِ عام سوسائٹی کراچی پر دو دہشتگردوں نے 21؍مارچ 2015ء کی شام قریباً آٹھ بجے ان کی دکان پر آکر فائرنگ کردی۔ ایک گولی سینے میں لگی اور دل کو چھوتی ہوئی آرپار ہوگئی۔ واقعہ کے بعد قریبی دکانداروں نے ان کے بھائی مکرم عثمان احمد صاحب کو فون کرکے اطلاع دی۔ وہ فوری طور پر آئے اور نعمان صاحب کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جارہے تھے کہ وہ راستے میں ہی شہید ہوگئے۔ مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم چودھری منظور احمد صاحب کے ذریعے ہوا تھا جنہوں نے خلافت ثانیہ کے دَور میں بیعت کی تھی۔ ان کے والدین چھوٹی عمر میں وفات پا گئے تھے جس کے بعد یہ قادیان چلے گئے جہاں بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ابتدائی تعلیم بھی قادیان میں حاصل کی۔ وہیں پر محترمہ صفیہ صادقہ صاحبہ بنت مکرم مبارک علی صاحب کے ساتھ شادی ہوئی۔ پھر قیام پاکستان کے بعد ہڑپہ ساہیوال میں آگئے۔ کچھ عرصہ ربوہ میں رہے اور شہید مرحوم کے والد مکرم مقصود احمد صاحب ربوہ میں ہی پیدا ہوئے۔ پھر شہید مرحوم کے دادا نے گوجرانوالہ میں ملازمت کی وجہ سے1968ء میں مع فیملی وہاں رہائش اختیار کرلی۔ 1974ء میں جب گوجرانوالہ میں ہنگامے ہوئے تو احمدیہ مسجد کی حفاظت کرتے ہوئے شہید مرحوم کے دادا مکرم چودھری منظور احمد صاحب، چچا مکرم محمود احمد صاحب اور پھوپھا مکرم سعید احمد صاحب بھی شہید ہو گئے۔ ان حالات کی بِنا پر یہ خاندان 1976ء میں کراچی شفٹ ہو گیا۔
نعمان احمد نجم صاحب 26؍جنوری1985ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ MBA کرنے کے بعد2008ء میں کمپیوٹر ہارڈویئر کا بزنس شروع کردیا۔ نہایت ایماندار، نیک دل، نیک سیرت، شریف النفس اور ملنسار تھے۔ نہایت مخلص اور فدائی نوجوان تھے۔ اپنے ملازمین کو بھی چھوٹے بھائیوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ نگرپارکر مٹھی میں جماعت کے زیرانتظام قائم کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ اور مشن ہاؤس کے لیے کچھ کمپیوٹر اور متعلقہ سامان تحفے کے طور پر نہ صرف پیش کیا بلکہ وہاں جاکر سسٹم خود install کرکے آئے۔ شہید مرحوم کی خواہش تھی کہ اپنے دادا مکرم چودھری منظور احمد صاحب شہید کے نام سے ایک کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ بھی قائم کریں۔
مرحوم ایک ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ غیر از جماعت بھی کہتے تھے کہ یہ ایک فرشتہ ہے۔ اس وقت رفاہِ عام سوسائٹی میں بحیثیت قائد مجلس خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے والے اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے والے تھے۔ مخالفین کی طرف سے ان کو دھمکیاں ملتی رہتی تھیں تو اپنے چھوٹے بھائیوں کو ہمیشہ محتاط رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ چھ ماہ قبل شہید مرحوم اپنا کاروباری سامان لے کر آ رہے تھے کہ اس وقت ان کو نامعلوم افرادنے روک کر سامان بھی لے لیا اور رقم بھی لوٹ لی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم آئے تو تم کو مارنے تھے مگر چونکہ رقم مل گئی ہے اس لیے چھوڑ رہے ہیں۔ شہید مرحوم کے پسماندگان میں والدین کے علاوہ دو بھائی ذیشان محمود اور عثمان احمد شامل ہیں۔
خرم احمد صاحب معلم سلسلہ کہتے ہیں کہ نعمان احمد نجم شہید بڑے نرم گو تھے۔ محبت کرنے والے تھے۔ جماعتی خدمت کا جذبہ رکھنے والے نوجوان تھے۔ کئی دفعہ کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ میں خدمت کے لیے نگرپارکر میں جاتے تھے جو سندھ کا دُوردراز علاقہ ہے۔ جب وہاں پہنچتے تو ان کو کہا جاتا کہ آپ تھکے ہوئے ہیں آرام کر لیں، پھر کام کریں تو ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ہم مجاہد ہیں، ہمیں شہری سمجھ کر نازک مزاج نہ سمجھ لیں۔
سابق قائد علاقہ منصور صاحب کہتے ہیں کہ مَیں ان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ بارہ سال کے تھے۔ ہمیشہ بڑے شوق، جوش اور ولولے سے جماعتی کاموں میں، مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے اور ہمیشہ اوّل پوزیشن لیتے تھے۔ سکول کے بعد اپنے والد صاحب کی دکان پر ان کا ہاتھ بٹاتے لیکن خدمتِ دین کو مقدّم رکھتے۔ کبھی وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ بات کرنے والے تھے۔
عمران طاہر صاحب مربی سلسلہ کہتے ہیں کہ میرے عزیز بھی تھے۔ مَیں نے انہیں کبھی کسی پر چلّاتے یا سختی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ عاجزی، مسکینی اور حلم کی تصویر تھے۔ نہایت باادب اور محبت کرنے والے انسان تھے۔
ان کی ایک عزیزہ کہتی ہیں کہ مخالفت کے پیش نظر ان سے بیرونِ ملک ہجرت کرنے کے لیے کہا جاتا تھا لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان میں رہنا ہی پسند کیا۔ اپنی والدہ کی ہر خواہش اور ضرورت کا خیال رکھنے والے تھے۔
مشہود حسن خالد صاحب مربی سلسلہ کہتے ہیں کہ ایک دن باتیں کرتے ہوئے شہید مرحوم نے کہا کہ وہ کون خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جو شہید ہوتے ہیں۔ شاید ان کی یہ تمنا ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ مقام دیا۔