میری تعلیم وتربیت میں الفضل کا کردار

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر2025ء)

زکریا ورک صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم زکریا ورک صاحب کا اخبار الفضل کے حوالے سے یادوں پر مشتمل ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ جب سے الفضل انٹرنیٹ پر دستیاب ہونا شروع ہوا ہے۔ راقم بلاناغہ اس کا مطالعہ کرتا ہے۔ جس دن الفضل کا نیا شمارہ دستیاب نہ ہو تو اُس روز کوئی نہ کوئی پرانا شمارہ پڑھ لیتا ہوں کہیں کوئی کام کی بات نظرانداز نہ ہوگئی ہو۔
الفضل سے راقم کا تعلق کوئی نصف صدی پر ممتد ہے۔ جب میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کا طالب علم تھا تو بھائی جان مکرم اسحٰق خلیل صاحب کے فرمان پر ہمارا خلافت لائبریری میں جانا جملہ گھریلو ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری تھی۔ چنانچہ الفضل کے مطالعہ کی نیک عادت خلافت لائبریری سے شروع ہوئی۔ اُس زمانے میں یہ لائبریری مسجد مبارک کے پاس قصر خلافت کے احاطے میں واقع تھی۔

مولانا دوست محمد شاہد صاحب

الفضل کے مطالعے سے جماعت احمدیہ کے نامور اہل قلم و شعراء کے اسماء گرامی اور ان کی گراں قدر تصنیفات سے واقفیت ہونے لگی ۔ اُس زمانے میں اخبار الفضل کی زینت بننے والے مضامین میں جس عالم بےبدل کی لیاقتِ علمی، ذکاوتِ فہمی اور محبتِ رسول ﷺ اُن کی تحریروں سے چھلکتی اُن کانام نامی محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب ہے۔
میں الفضل کیوں پڑھتا ہوں؟ اس کاجواب ایک لفظ میں یہ ہے: چسکا ۔ جس روز اخبار نہیں پڑھتا ایسے محسوس ہوتا ہے گویا کسی چیز کی کمی رہ گئی ہے۔ عاجز نے جن بزرگوں کو دیکھا ہوا ہے یا جن دوستوں کے ساتھ وقت گزارا ہے، ان کے بارے میں اور ان کے خاندان کے بارے میں الفضل کے ذریعے اطلاعات مہیا ہوتی ہیں۔ یوں یہ اخباربین الاقوامی رابطے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
راقم کے کئی مضامین الفضل کی زینت بنتے رہے ہیں۔ اس حوصلہ افزائی نے میرے ذوقِ نگارش کو مہمیز کیا۔ خلفائے کرام کے خطبات سننے کے علاوہ الفضل میں ان کا مطالعہ جس طرح ذہن پر مرتسم ہوتا ہے اور جوروحانی مائدہ حاصل ہوتا ہے اس کو احاطہ ٔتحریرمیں لانا مشکل ہے۔ بعض لوگ باتیں سن کر متاثر ہوتے ہیں بعض پڑھ کر متاثر ہوتے ہیں، میرا تعلق مؤخرالذکر سے ہے۔ چنانچہ جو مضامین پسند آتے ہیں ان کو پرنٹ کرکے اپنے پاس فائل میں رکھ لیتا ہوں۔ ان فائلوں میں الفضل قادیان 2؍جولائی1946ء کے پہلے صفحہ کی فوٹوکاپی بھی ہے جس میں راقم السطور کی ولادت کا اعلان شائع ہوا تھا۔ 22؍جنوری1972ء کے اخبار کے پہلے صفحہ کی فوٹو کاپی بھی ہے جس میں راقم کے نکاح کا اعلان شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ درجنوں پسندیدہ علمی مضامین فائل کیے ہوئے ہیں۔
1965ء میں ربوہ سے کراچی ہجرت کے بعد الفضل کا مطالعہ باقاعدہ کرتا رہا۔ 1971ء میں زیورخ (سوئٹزرلینڈ) آیا تو بھائی جان اسحٰق خلیل صاحب کے پاس ربوہ سے الفضل کا ہفتہ وار بنڈل آیا کرتا تھا۔ تب بھی الفضل سے تعلق قائم رہا۔ دوسال بعد کینیڈا آگیا تو کچھ عرصہ اخبار سے تعلق منقطع رہا پھر جب میں کنگسٹن منتقل ہوا تو اخبار کا بنڈل ہفتہ وار ڈاک سے منگوانے لگا۔ میرے لیے تو الفضل سرمۂ نور بصیرت و بصارت اور ایک شفیق استاد کی طرح ہے۔ میں نے اس مؤقر اخبار سے بہت کچھ سیکھا، حکمت کے موتی پائے، باریک بینی سے ایمان افروز خطبات پڑھے، خود اس میں مضامین لکھے بلکہ کئی دفعہ تو یہ میری پہچان بن گیا۔ مارچ2012ء میں حضورانور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوکر جب اپنا نام گوش گزار کیا تو آپ نے فرمایا: وہی زکریا ورک جوالفضل میں لکھتے ہیں؟ غرض یہ امر میرے لیے باعث نازش و افتخار ہے کہ الفضل میری شناخت کا ذریعہ بن گیا۔
خلفائے کرام کے علم و عرفان سے معمور خطبات پڑھنے کا روحانی اور مادی فائدہ سے تعلق ہے۔ مثلاً جب 1972ء میں مَیں جرمنی کی Gottingen یونیورسٹی میں طالبعلم تھا تو ان دنوں پولی ایسٹر کی قمیصیں پہننے کا رواج تھا۔ ایسی قمیص پہننے سے پسینہ زیادہ آتا تھا ۔ ایک روز حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا خطبہ پڑھا جس میں آپ نے نائلون کی قمیصیں پہننے سے منع فرمایا تھا۔ اس کے بعد میں نے پولی ایسٹر کی قمیص زیب تن کرنی ترک کردی۔

شیخ روشن دین تنویر صاحب

جب مَیں نے میٹرک پاس کیا تو میراہم جماعت نصیر بیگ مجھے الفضل کے دفترمیں بغرض ملازمت لے گیا۔ وہاں مَیں نے بعمر پندرہ سال ایک ہفتہ کام کیا۔ یہاں پہلی دفعہ طباعت کے لیے پلیٹیں بنتی دیکھیں، کاتبوں کوزمین پر بیٹھ کردیوار سے ٹیک لگائے کتابت کرتے دیکھا، روشن دین تنویر صا حب کو قریب سے دیکھا اور پرنٹنگ کا طریقہ کار دیکھا جو اس کندہ ناتراش کے لیے موجبِ حیرت تھا۔

محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ہمراہ

عالی ہمت ، سادہ مزاج مسعود احمد دہلوی صاحب سے ملاقات کا شرف 1978ء میں ٹورانٹو میں حاصل ہوا جب وہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ہمراہ کینیڈا کے دورہ پر تشریف لائے تھے۔

1989ء میں جب مکرم بشیر احمد آرچرڈ کی انگلش کتاب ’’لائف سپریم‘‘ (Life Supreme) کا میرا کیا ہوا ترجمہ منصہ شہود پر آیا تو محترم نسیم سیفی صاحب نے پوری کتاب قسط وار الفضل میں شائع کی تھی۔ تصنیفی دنیا میں میرے لیے یہ خشت اول تھی اور اب تک خداکے فضل سے اس حقیرپر تقصیر کی چودہ کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں جن میں سے تین ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی زندگی اور کارناموں پر ہیں۔

مولانا نسیم سیفی صاحب

مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب کے ساتھ 1997ء میں ربوہ میں ان کی قیام گاہ پر ملاقات ہوئی تو بہت ہی پیار سے ملے، کھانا پیش کیا اور اپنی اہلیہ صاحبہ سے کہا کہ میرا فوٹوان کے ساتھ اتاریں۔ میرے لیے یہ بات موجب انبساط تھی کہ انہوں نے اور میرے سسر نے پگڑیاں تبدیل کی ہوئی تھیں۔
میرے قلم کا پہلا عشق الفضل سے تھا۔ بندہ پُر تقصیر کی نگارشات دنیابھر کے اخبارات و جرائد کی زینت بن چکے ہیں مگر دل کوجو سکینت اوریک گونہ فرحت الفضل میں مضمون شائع ہونے پر پہنچتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اس لطیف احساس یا واردات قلبی کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں