میری زندگی کا ساتھی ’’الفضل‘‘

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں محترم مولانا محمد منورصاحب سابق مبلغ سلسلہ افریقہ کی اخبار ’’الفضل‘‘ کے حوالے سے قیمتی یادوں پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپ رقمطراز ہیں کہ جب سے مَیں نے ہوش سنبھالا ہے الفضل کو اپنے گھر میں آتے دیکھا ہے۔ مجھے ابتدائی قاعدہ کا سبق پڑھا کر ابا جان حروف تہجی کی شناخت الفضل سے کروایا کرتے تھے۔ چند سال کے بعد وہ مجھ سے الفضل میں شائع شدہ چھوٹے چھوٹے مضامین پڑھوا کر سننے لگے اور ساتھ ساتھ تصحیح بھی فرماتے جاتے۔جب مَیں ہائی سکول میں پہنچا تو اخبار میں شائع شدہ حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات پڑھنے کو کہتے۔ عربی اور فارسی الفاظ کی نہایت آسان اور قابل فہم تشریح میرے ذہن نشین کرواتے۔ اس طرح اردو زبان پر مجھے قدرت حاصل ہوتی گئی اور سمجھ کر پڑھنے کی عادت بھی پڑگئی۔ ہمارے ایک احمدی استاد مولوی عبدالحق صاحب تھے جو مجھے اپنے سے اونچی جماعتوں کے طلبہ سے اردو عبارت پڑھنے میں مقابلے کے لیے بھجواتے تھے تو مجھے ہمیشہ شاباش ملتی اور اس سے میرا حوصلہ بڑھ جاتا۔
جب دینی مسائل سمجھنے کی اہلیت مجھ میں نظر آئی تو اباجان اختلافی مسائل کے بارے میں مضامین پڑھنے کا مجھے حکم دیتے اور پھر مجھ سے ان مضامین کا مفہوم بیان کرنے کے لیے کہتے۔ جہاں ضرورت ہوتی وہاں مزید تشریح کرکے مسائل آسان بنا دیتے۔ ابا جان بہت اعلیٰ پایہ کے استاد تھے۔ انہوں نے قدم بقدم اس طرح مجھے آگے بڑھایا کہ مسائل ازبر ہوتے گئے اور ذہن پر بھی بوجھ نہ پڑا۔ الفضل پڑھنے سے میرا ذہن خدا تعالیٰ کے فضل سے روشن ہوتا چلا گیا اور احمدیت کے بارے میں مجھے کبھی شک یا تردّد پیش نہیں آیا۔ بچپن ہی سے گویا یہ عقائد میری گھٹی میں داخل ہوگئے۔
مربی بننے کے بعد جب 1946ء میں میری تعیناتی کانپور (یوپی) میں تھی تو میرے کئی مضامین الفضل اخبار میں شائع ہوئے۔ پھر مجھے افریقہ بھجوایا گیا تو اپنا پیارا اخبار روزانہ پڑھنے کے لیے آنکھیں ترس ترس جاتیں۔ وہاں پورے ہفتے کا پیکٹ بذریعہ ہوائی جہاز بھجوایا جاتا تھا اور جس دن یہ پیکٹ ہمیں ملتا وہ ہمارے لیے انتہائی خوشیوں کا دن ہوتا۔ گویا ہر ہفتے عید کا سا سماں ہوتا۔ کینیا میں قیام کے دوران میں نے ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو معلّمین کی میٹنگ کا دن بنایا ہوا تھا۔ الفضل سے معلّمین کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ارشادات سناتا، جماعتی خبروں اور مرکز کے حالات سے آگاہ کرتا۔جب نیروبی منتقل ہوا تو ماہنامہ ’’اخبار احمدیہ‘‘ میں الفضل سے مضامین کا خلاصہ لکھنا شروع کیا جسے سائیکلو سٹائل کر کے احمدی جماعتوں کو بھجوایا کرتا۔ ماہانہ سواحیلی اخبار میں بھی ضروری خبروں اور مفید مضامین کا خلاصہ پیش کرتا۔ جب میری تبدیلی تنزانیہ میں ہوئی تووہاں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ غرضیکہ الفضل ہر جگہ میرا ہم جولی اور ساتھی رہا۔

آغا سیف اللہ صاحب

ریٹائرڈ ہونے کے بعد اگرچہ مانگے تانگے کا اخبار تو ہر روز پڑھ لیتا تھا لیکن اس سے سیر حاصل استفادہ نہ کر پاتا تھا۔ خدا بھلا کرے جناب آغا سیف اللہ صاحب مینیجر روزنامہ ’’الفضل‘‘ کا کہ انہوں نے ایک پرچہ مجھے اعزازی طور پر بھجوانے کا اہتمام فرمادیا۔ اب یہ میرا بچپن کا ساتھی سارا دن میرے پاس رہتا ہے اور اس سے مجھے روحانی سکون ملتا رہتا ہے۔ اس میں دینی و دنیاوی خبروں کی اشاعت دیگر اخبارات کے پڑھنے سے بےنیاز کردیتی ہے۔
ہمارا اخبار ایک مربی اور معلّم کا مقام رکھتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کے علمی و روحانی مضامین کو ذہن و قلب کی لائبریری میں محفوظ کرلیا جائے اور ہر روز ان علوم میں اضافہ ہوتا رہے یہاں تک کہ دل و دماغ اتنے سیراب ہوجائیں کہ یہ روحانی آبِ شفا چھلک کر بہنا شروع ہوجائے اور دوسروں کی آبیاری کرنے لگے۔ خدا کرے کہ میرا بچپن کا ساتھی میرے بعد بھی جماعت کے اطفال و خدام کی بھرپور راہنمائی کرتا رہے اور وہ بھی اسے اپنا ہم جولی اور دوست بنالیں!

اپنا تبصرہ بھیجیں