میرے خاندان میں احمدیت کا نفوذ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 5؍اگسست 2024ء)

ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا نے احمدی نہ ہونے کے باوجود میرے تایا مکرم عبدالشکور قریشی صاحب کو تعلیم حاصل کرنے کے لیےراجپوتانہ سے قادیان بھجوادیا۔ وہ دورانِ تعلیم ہی حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے احمدی ہوگئے اور بعدازاں اجمیر آکر ملازم ہوگئے۔ آپ الفضل کے اوّلین خریداروں میں سے تھے۔ کچھ عرصے بعد میرے دادا نے میرے والد مکرم منظور احمد صاحب کو بغرض تعلیم اُن کے بھائی کے پاس اجمیر بھجوادیا۔ بھائی نے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی یہ ڈیوٹی بھی لگائی کہ روزانہ الفضل کا کچھ حصہ پڑھ کر بھی سنایا کریں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمدیت کے بنیادی عقائد سے گہری واقفیت ہوگئی چنانچہ میٹرک کے بعد جب وہ کسی کام سے قادیان گئے تو حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کرکے واپس لَوٹے۔
میرٹھ اور راجپوتانہ کے تمدّن میں بہت فرق تھا اور فاصلوں میں بھی دُوری تھی لیکن الفضل میں شائع ہونے والے ضرورت رشتہ کے ایک اعلان کے نتیجے میں میرے تایا عبدالشکور قریشی صاحب کا رشتہ میرٹھ کے ایک مخلص خاندان میں ہوگیا۔ اُس خاندان کی شرافت اور میرٹھ کے تمدّن اور خوبصورت اردو زبان ہمارے خاندان میں اتنی پسند آئی کہ میرے والد کا رشتہ بھی اسی خاندان میں ہوگیا۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ میرے خاندان میں احمدیت کے نفوذ کے علاوہ رشتوں کے انجام پانے میں بھی الفضل کو بنیادی مقام حاصل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں