میں نے پاکستان بنتے دیکھا
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 11؍اگست 2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2014ء کی خصوصی اشاعت (پاکستان نمبر میں) محترم ماسٹر برکت علی صاحب کے اُس خون آشام سفر کی روداد شامل ہے جو قیام پاکستان کے بعد ہوشیارپور سے واہگہ بارڈر تک کیا گیا۔
محترم ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری پیدائش ضلع ہوشیارپور کے گاؤں جلووال اکھنور میں ہوئی۔ 14؍اگست 1947ء کو میری عمر تیرہ سال تھی اور مَیں اینگلو آریہ مڈل سکول پٹی میں چھٹی جماعت میں زیرتعلیم تھا۔ سکول کے تمام اساتذہ ہندو اور سکھ تھے۔ گاؤں سے سکول کا فاصلہ آٹھ دس کوس تھا جو پیدل طے کرنا پڑتا۔ راستہ ریتلا اور ٹیلوں والا دشوار گزار تھا۔ سورج طلوع ہونے پر گھر سے نکلتے اور مغرب پر واپس گاؤں پہنچتے۔راستے میں پانی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔
گاؤں میں اکثریت سکھوں کی تھی۔ مسلمان بہت کم تھے اور وہ بھی گاؤں کے ایک طرف ایک محلے میں رہتے تھے۔ مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کی بودوباش مشترکہ تھی۔ سب اکٹھے مل کر رہتے تھے مگر ہندو اپنے گھروں میں مسلمان بچوں کو داخل نہیں ہونے دیتے تھے مبادا ناپاک ہوجائیں۔شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ والد صاحب عمررسیدہ تھے اس لیے ہم نے اپنی دس گھماؤں زرعی زمین سکھوں کو ٹھیکے پر دی ہوئی تھی۔ بارانی علاقہ تھا۔ کنویں اکثر گہرے اور ویران تھے۔ گاؤں میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی جس میں مَیں نے کبھی کسی کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔
جب برصغیر کی تقسیم کا ذکر ہونے لگا تو بوجہ کمسن ہونے کے شعور نہ تھا کہ کیا ہونے والا تھا۔ اخبار ریڈیو بھی نہ تھے۔ سنا کرتے تھے کہ مسلمانوں کا ایک لیڈر محمد علی جناح مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خطہ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ دُھن کے پکے اور اصول پسند تھے۔ آخر اُن کی کوششیں رنگ لائیں اور اُن کا مطالبہ انگریزوں نے مان لیا۔ یہ خبر دُوردراز دیہات میں دیر سے پہنچی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ذہنی طور پر نئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوسکے اور ماحول میں تناؤ اور کشیدگی سے حالات اتنے خراب ہوگئے کہ مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہونے لگے۔ ہمیں زیادہ خطرہ سکھوں سے تھا جو رات ہوتے ہی جتھوں کی صورت میں نعرے لگانے لگتے۔ یہ نعرے رات کی تاریکی میں بہت مہیب ہوتے۔ یہ بھی سننے میں آتا تھا کہ کچھ دیہات میں مسلمانوں نے نہتے ہونے کے باوجود حتی المقدور مقابلہ کیا اور کچھ گاؤں میں بہت قتل عام ہوا۔ ایک گاؤں سسولی کے سارے مسلمانوں کو سکھوں نے گاؤں کی اُس خشک ندی میں ہی قتل کردیا جہاں وہ جان بچانے کے لیے چھپے ہوئے تھے۔ ہم بےبس اور لاچار تھے اور خداتعالیٰ کے بھروسا پر غیبی امداد کے منتظر تھے۔

ایک دن چند معزز سکھ مسلمانوں کے پاس آئے اور کہا کہ حکومت نے ایک گاؤں میں مہاجر کیمپ قائم کیا ہے۔ ہم تمہیں وہاں بحفاظت پہنچادیتے ہیں، تم اپنے ساتھ جو چیز چاہو لے لو اور کل تکیہ پر آجاؤ۔ ہمارا گھرانہ علاقے میں اکیلا احمدی تھا۔ والدین ضعیف تھے اور والد تو پیدل سفر کے قابل بھی نہ تھے۔ چار بچوں میں دو چھوٹی بہنیں اور دو چھوٹے بھائی تھے۔ ایک بڑا بھائی تھا اور اتفاق سے ایک بڑا بھائی لاہور سے ہمیں ملنے آیا ہوا تھا جو قدرت نے ہماری مدد کے لیے بھیجا تھا۔ ایک بھائی مدراس میں اور ایک لاہور میں مقیم تھے۔
ہمارے والد سندھی خان گاؤں میں معزز تھے اور اُن کے سکھ سرداروں سے اچھے مراسم تھے۔ سکھوں نے والد صاحب کی صحت کے پیش نظر ایک گدھے کا انتظام کردیا۔ نقدی، آٹا، برتن اور بستر لے کر ہم گھروں کو کھلا چھوڑ کر حسرت بھری نظروں سے خداحافظ کہہ کر چل پڑے۔ ماحول یکسر تبدیل ہوگیا تھا اور نفسانفسی کا عالم تھا۔ قافلہ ڈیڑھ دو گھنٹے مسافت کے بعد مہاجر کیمپ پہنچ گیا جس کی حفاظت کے لیے ڈوگرہ فوج آئی ہوئی تھی۔ لوگوں نے چادروں کھیسوں کے خیمے کھڑے کرلیے۔ چھتیس گھنٹے بعد اگلے سفر پر روانہ ہوئے اور جس گاؤں پہنچے وہ پہلے ہی خالی ہوچکا تھا۔ اگلے روز پھر چھ سات گھنٹے کے سفر کے بعد نسرالا گاؤں پہنچے۔ والد صاحب قافلے کے ساتھ سفر نہ کرتے تھے بلکہ سرکاری انتظام کے تحت دیگر بوڑھوں وغیرہ کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ نسرالا تک بچوں اور عورتوں کی حالت قابل رحم ہورہی تھی اور اُن کا کوئی پُرسان حال نہ تھا۔ کئی افراد سفر کی صعوبت کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ کھانے پینے کا ایسا مسئلہ تھا کہ جس کے ہاتھ جو چیز آتی وہ بےدریغ استعمال کرلیتا۔
نسرالا سے اگلے دن چلے تو بونداباندی ہورہی تھی۔ یہ سفر بہت تکلیف دہ تھا۔ سامان بھیگ گیا اور بستروں کا وزن دوگنا ہوگیا۔ موسم ٹھنڈا ہوگیا تو جانی نقصان بھی بہت ہوا۔ بہت دلخراش منظر بھی دیکھے۔ ایک بچے کی پیدائش کا وقت آگیا۔ ماں کے لیے قافلے کے ساتھ سفر جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔ آخر اُس نے ایک محفوظ جگہ تلاش کی اور فارغ ہوئی۔ بچے کو وہیں پھینکا اور قافلے کے ساتھ شامل ہوگئی۔
اگلا پڑاؤ چوہڑوالی میں تھا جہاں بارش کی وجہ سے ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ یہاں بہت اموات ہوئیں۔ لاشیں پانی پر تیر رہی تھیں۔ کسی طرح گیلی گندم ہم نے حاصل کی اور اسے بھون کر کھایا۔ یہاں مغرب کے وقت میں اور میری بہن اپنے خاندان سے بچھڑ گئے۔ خدا نے دوبارہ اکٹھا کردیا۔ چوہڑوالی میں تین چار دن کے بعد ہم گڑھا چھاؤنی پہنچے جہاں سے ریلوے کی لائن نکودر کو جاتی ہے۔ ہمیں برلب سڑک کیمپ لگانے کا حکم ملا۔ والد صاحب کو ہم سے بچھڑے کئی دن ہوچکے تھے اور ہم کسی حد تک اُن کی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود مَیں اور بڑا بھائی اُن کی تلاش میں قافلے میں پھرنے لگے جو دُور تک پھیلا ہوا تھا۔ کافی کوشش کے بعد ایک خیمے میں اُن کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ ہم نے خیمے والوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور بھائی نے والد صاحب کو اپنی کمر پر بٹھالیا اور اپنے خیمے میں لے آئے۔ اُن کی حالت بہت خراب تھی۔ سر اور کپڑوں میں جوئیں پڑی ہوئی تھیں۔ مَیں گڑھا شہر گیا جہاں شاندار عمارتیں ویران ہوچکی تھیں۔ تین دن بعد ایک لمبی ٹرین لائن پر آئی۔ لوگ اُس کے اندر، اوپر بلکہ نیچے لوہے کی سلاخوں پر بھی بیٹھ گئے۔ مَیں اور والد صاحب پچھلے ڈبے میں تھے جبکہ باقی گھرانہ اگلے ڈبوں میں۔ جب گاڑی نے حرکت کرنے کی کوشش کی تو وزن بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے انجن گاڑی کو کھینچ نہ سکا۔ بالآخر گاڑی کو آدھا کرکے لے جانے کی تجویز ہوئی۔ شومیٔ قسمت ہمارا خاندان پہلے چلا گیا اور ہم پیچھے رہ گئے۔ پھر اس کے بعد اُن سے رابطہ نہ ہوسکا۔

بہرحال ہماری ٹرین روانہ ہوئی۔ خدشہ تھا کہ امرتسر سٹیشن پر سکھ حملہ نہ کردیں کیونکہ پہلی گاڑیوں پر حملے کیے گئے تھے۔ لیکن ڈرائیور نے سٹیشن پر گاڑی نہ روکی اور صحیح سلامت گزر آئے۔ سورج غروب ہونے کے قریب ہم واہگہ سٹیشن پہنچے تو مسلمانوں کے نعرۂ تکبیر کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ 9؍ستمبر 1947ء کی تاریخ تھی۔ ہمیں معلوم نہ تھا کہ باقی خاندان کہاں ہے اور لاہور میں ہمارا بڑا بھائی کہاں رہتا ہے۔ ٹرین ہربنس پورہ سے ہوتی ہوئی رائیونڈ لے گئے۔ اندھیرا چھا چکا تھا۔ ٹرین خالی کرنے کا حکم ملا۔ رات ہم دونوں باپ بیٹے نے بےسروسامانی کی حالت میں پلیٹ فارم پر ایک بوسیدہ کمبل میں گزاری۔ صبح والد صاحب نے کہا کہ لاہور کی طرف واپس چلیں وہاں ہمارا ایک عزیز رہتا ہے۔ چنانچہ ہم ایک مال گاڑی کے ذریعے رائیونڈ سے لاہور پہنچے۔ اُس وقت میری جیب میں ایک روپیہ نہ جانے کہاں سے نکل آیا۔ ٹانگہ پر سوار ہوکر ہم لاہور چھاؤنی میں اپنے رشتہ دار عبداللہ جان کے پاس پہنچے۔ وہ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آیا اور میرے والد کو اپنی کمر پر بٹھاکر گھر لے گیا۔ گھر میں پہلے ہی پناہ گیروں کا رش تھا۔ کسی طرح بھائی کو اطلاع کی گئی تو وہ آئے اور ایک سرکاری ٹرک میں بٹھاکر ہمیں اپنے پاس چنڈیاں لے گئے۔ چند دنوں بعد بڑے بھائی بھی باقی افراد کے ساتھ وہاں پہنچ گئے جو منڈی مریدکے چلے گئے تھے لیکن وہاں کوئی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے چنڈیاں آگئے۔ اس طرح ہم سب ایک بار پھر اکٹھے ہوگئے۔ والد صاحب بہت لاغر ہوچکے تھے۔ آخر وہ 30؍نومبر 1947ء کو وفات پاگئے۔ چنڈیاں کے لوگوں نے احمدی ہونے کی وجہ سے مقامی قبرستان میں تدفین نہ ہونے دی چنانچہ مجبوراً باؤلی ڈیری کیمپ کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔ مقام شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں احمدیت پر قائم رکھا۔ میری عمر اس وقت اسّی سال سے زائد ہے۔ سرکاری ملازمت سے پنشن پاچکا ہوں اور اگلے دائمی سفر کا منتظر ہوں۔
جیسے انہوں نے کہانی لکھی ہے نا تو تقریبا تمام ہی لوگ جو کہ ہندوستان سے پاکستان ائے تھے جنہوں نے سفرِ ہجرت کیا تھا ان کی کہانی ایسی ہی ہے۔ سارے ہی خاندان بہت ہی مشکلوں سے یہاں پہ پہنچے تھے۔ میرے نانا سسر بھی کافی مشکلوں سے پہنچے تھے کیونکہ وہ امرتسر میں ملازم تھے۔ اللہ تعالی ان سب کی قربانیاں کا اجر دے