پاکستانی سپیس پروگرام اور ڈاکٹر سلام

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 4؍اگست 2025ء)
پاکستان کے قومی سپیس پروگرام ’’سپارکو‘‘ کی بنیاد ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی سفارش پر 1961ء میں رکھی گئی جو صدر پاکستان کے سائنسی مشیر تھے۔ وہ اس کمیشن کے چیئرمین اور بانی ممبر بھی تھے۔ رہبر اوّل کی لانچ کے بعد ایشیا میں پاکستان تیسرا اور دنیا کا دسواں ملک تھا جس نے ایسا راکٹ لانچ کیا تھا۔

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2014ء کے خصوصی شمارے (پاکستان نمبر میں) مکرم طارق مصطفیٰ صاحب پرنسپل انجینئر اٹامک انرجی کمیشن کے ایک انگریزی مضمون (مطبوعہ فرائیڈے ٹائمز 30؍مارچ2012ء) کا اردو ترجمہ بقلم مکرم زکریا ورک صاحب شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ستمبر1961ء میں جب مَیں یوایس اٹامک انرجی کمیشن لیبارٹری (OakRidge) میں متعین تھا تو مجھے واشنگٹن سے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا فون آیا۔ فرمایا کہ جلد از جلد اور ہرصورت واشنگٹن پہنچ کر اُن کے ہمراہ ایک اہم میٹنگ میں شامل ہوجاؤں۔ انہوں نے واضح کردیا کہ اُن کو کوئی پرواہ نہیں کہ مَیں کس طرح وہاں پہنچتا ہوں۔ وہ صدر ایوب کے ہمراہ وہاں آئے تھے جو امریکہ کے سرکاری دورہ پر تھے۔ بہرحال اگلی صبح مَیں اُن کے پاس پہنچ گیا اور پھر ہم اُن کے ہمراہ ناسا کے ہیڈکوارٹر میں گئے۔ ہماری ملاقات ڈائریکٹر آف انٹرنیشنل ریلیشنز Arnold Frutkin سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ صدر کینیڈی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی کے اختتام پر پہنچنے سے پہلے امریکہ چاند پر انسان اتارے گا اور اس کو بحفاظت واپس لے کر آئے گا۔ اُن کا راکٹ چاند کی جانب روانہ کرنے سے پہلے زمین کے محور میں رکھا جائے گا اس کے لیے زمین کی بالائی فضا کے خواص کا جاننا ضروری ہے۔ بحر ہند کے اردگرد کی بالائی فضا کے متعلق ڈیٹا موجود نہیں۔ اس لیے ناسا نے اُس علاقے کے چند ملکوں کا انتخاب کیا ہے کہ وہ راکٹ رینجز قائم کریں اور سائنسی تجربات بھی کریں۔ امریکہ یہ آلات اور راکٹ مفت میں مہیا کرے گا بشرطیکہ وہ ان تجربات سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو شیئر کریں۔ ڈاکٹر سلام نے مجھ سے پوچھا تو مَیں نے یہ ذمہ داری اٹھانے پر رضامندی ظاہر کی۔ چنانچہ مجھے اُسی دوپہر واشنگٹن سے ایک جہاز کے ذریعے ڈیڑھ سو میل دُور واقع جزیرہ Wallops بھجوایا گیا جہاں ناسا کے راکٹ اور لانچ کرنے کے آلات متعارف کروائے گئے۔ رات کو مَیں نے اس سفر کی رپورٹ مرتب کی اور صبح بذریعہ جہاز واشنگٹن پہنچ کر اُس میٹنگ میں شامل ہوگیا جو گذشتہ روز میری اس رپورٹ کے انتظار میں ملتوی کردی گئی تھی۔ رپورٹ بہت مثبت تھی چنانچہ صدر ایوب کی منظوری سے پاکستان اس سکیم کا حصہ بنادیا گیا۔ ہم نے کراچی سے قریباً ایک سو کلومیٹر دُور واقع بلوچستان کے ساحلی شہر سون میانی میں تجرباتی مرکز قائم کرکے جون 1962ء میں مذکورہ منصوبہ نوماہ میں مکمل کرکے امریکہ کو مطلوبہ نتائج مہیا کردیے۔
میری عمر اُس وقت صرف ستائیس سال تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام اس محنت طلب اہم کام کرنے کے لیے مجھ پر کیسے اعتماد کرسکتے تھے!

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام غالباً 1956ء سے قبل عمل میں آچکا تھا جس کے اعزازی ممبر کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالسلام بھی تھے۔ 1957ء میں مَیں لندن یونیورسٹی سے میکینیکل انجینئرنگ میں فرسٹ کلاس آنرز کے ساتھ گریجوایشن کرچکا تھا جب آپ لندن تشریف لائے تاکہ پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئرز کو کمیشن کے لیے ریکروٹ کرسکیں۔ انٹرویو بورڈ میں پاکستان کے برطانیہ میں ہائی کمشنر اور امپیرئیل کالج لندن میں قائم نیوکلیئر انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے انچارج بھی شامل تھے۔ سترہ امیدواروں میں سے صرف مجھے ہی منتخب کیا گیا اور یوں پروفیسر عبدالسلام کے ساتھ میری لمبی اور عزیز رفاقت کا آغاز ہوا جو کئی دہائیوں پر ممتد تھی۔
ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی جو انرجی کمیشن کے چیئرمین بھی رہے، اُن کے اور پروفیسر عبدالسلام کے مابین ایسا گہرا منصبی تعلق تھا کہ لوگ ’’عثمانی سلام بھائی بھائی‘‘ کہا کرتے تھے۔ انہوں نے سٹاف ممبران کو کورسز پر بھیجنا شروع کیا۔ مجھے بھی دو سال کی تربیت کے لیے امریکہ بھجوایا گیا تھا۔ ان حالات میں پروفیسر سلام کا اعتماد مجھ پر بڑھتا گیا اور آخر انہوں نے مجھے امریکہ کے مطلوبہ تجربات کے منصوبے سرانجام دینے کا اہل سمجھا۔ بہرحال ابتدائی منظوری کے بعد ہم نے ایک ہفتے میں ایک چھوٹی سی ٹیم تشکیل دی۔ امریکی بہت خوش تھے کہ ہم اس کام میں بہت سنجیدہ تھے۔ چنانچہ امریکہ میں ہماری تربیت شروع ہوگئی اور کراچی میں راکٹ رینج کا ڈیزائن، انفرا سٹرکچر اور عمارتوں کا منصوبہ تیار ہونے لگا۔ سون میانی کا انتخاب صدر ایوب نے خود کیا تھا۔ اس منصوبے کی نگرانی کے لیے مَیں نے دونوں مقامات کے دورے کیے۔ فریقین کے مابین طے پایا کہ پہلا تجربہ پاکستان اپنے خرچ پر کرے گا۔ عجلت کے پیش نظر اس منصوبے کی منظوری صدر ایوب نے براہ راست دی تھی کیونکہ جون 1962ء میں مون سون کا موسم شروع ہونے سے قبل تجربات مکمل کرنے کی خواہش تھی۔ چنانچہ نو ماہ کے قلیل عرصے میں راکٹ رینج تعمیر کرکے عملے کو تربیت دی گئی، آلات کی خریداری کی گئی اور ان کو بذریعہ ہوائی جہاز کراچی بھجوایا گیا اور نصب کرکے ٹیسٹ کیا گیا۔ پاکستان میں راکٹ لانچنگ کا ٹیکنیکل کام پہلی بار کیا جارہا تھا اس لیے ہماری ساری ٹیم پوری مستعدی اور جذبے سے دن رات اس کام میں منہمک رہتی۔ میری Rambler کار بذریعہ جہاز امریکہ سے کراچی بھجوائی گئی جس کی boot میں حساس آلات رکھے گئے تھے۔ بہرحال یہ منصوبہ ٹائم لائن کے اندر مکمل کرلیا گیا۔ ہندوستان کا تھمبار رینج کا منصوبہ کچھ ماہ کے بعد شروع ہوسکا کیونکہ وہ بیوروکریسی کے ذریعے منظوری حاصل کررہے تھے۔ انہوں نے ہمارے ایک سال بعد 1963ء میں راکٹ لانچ کیا۔
7؍جون1962ء کی شام سات بج کر ترپن منٹ پر جب رہبر اوّل آسمان کی طرف پرواز کرنے لگا تو پروفیسر عبدالسلام اور ڈاکٹر عثمانی کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ وہ ٹیم کے تمام ارکان سے بغل گیر ہوئے۔ اگلے روز مجھے پروفیسر عبدالسلام کا ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ موصول ہوا جس میں انہوں نے ہماری کامیابی پر فخر و انبساط کا اعادہ کیا تھا۔
اچھی معلوماتی ہے لیکن اس میں ڈاکٹر عبدالسلام بھی کچھ تصویریں کا ڈال دیتے تو زیادہ اچھا لگتا مضمون