چند مذہبی دعووں کی سائنسی تصدیق

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 18؍اگست 2025ء)

بائبل اور قرآن کریم میں بیان فرمودہ بعض دلچسپ حقائق کو جدید تحقیق کی روشنی میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍فروری 2014ء میں شامل اشاعت کیا گیا ہے جو ماہنامہ ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘ اگست 2007ء سے منقول ہیں۔

٭… امریکہ کے رسالہ لائف (Life) نے اپریل 1965ء میں بائبل نمبر شائع کیا تھا جس میں یہ تحقیق بیان کی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایشیا اور افریقہ کے کئی سفر اختیار فرمائے جو کسی تجارتی یا دنیوی مقصد کے لیے نہ تھے بلکہ صرف مذہبی مقاصد کے لیے تھے۔

موجودہ دَور میں بائبل کے بہت سے مندرجات کو غیرصحیح تسلیم کرلیا گیا ہے۔ مثلاً بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی جان بچانے کے لیے اپنی بیوی کو بہن کہہ دیا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں جو قدیم تختیاں اُن علاقوں کی کھدائی کے دوران برآمد ہوئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کے قبیلے میں قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز سردار بوڑھا ہو جاتا تھا تو وہ اپنی بیوی کو بہن کا لقب دے دیتا تھا اور اس معروف روایت کو باعث اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ پس جب مصر میں آپؑ نے اپنی بیوی کو بہن کہا تو اس کا مطلب حقیقی معنوں میں بہن قرار دینا نہ تھا اور نہ مقصد جان بچانا تھا بلکہ انہوں نے اہل مصر پر اپنا خاندانی مرتبہ واضح کیا کہ وہ قبیلے کے شیوخ میں سے ہیں۔ سینکڑوں سال میں یہ روایات و اصطلاحات ختم ہوچکی تھیں چنانچہ بائبل نقل کرنے والوں نے ان روایات کی قیاساً ایک غلط توجیہ کرڈالی۔
رسالہ لائف کے اس خاص نمبر میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق بائبل کی اس روایت کو بھی تحقیقات کے نتیجے میں غلط قرار دیا گیا ہے کہ انہوں نے (نعوذباللہ) اپنے باپ کو دھوکا دے کر نبوت حاصل کی تھی اور اس فریب دہی میں گویا آپؑ کی والدہ بھی شامل تھیں۔
٭… تاریخی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت زرتشتؑ کے مذہب میں بھی پانچ نمازیں تھیں۔ T.R.Sethina اپنی کتاب The Teachings of Zarthushtra, the Prophet of Iran (ایرانی پیغمبر زرتشتؑ کی تعلیمات) میں لکھتے ہیں کہ دن کو پانچ Gahs میں تقسیم کیا گیا تھا اور پانچ مرتبہ عبادات واجب تھیں۔

مسجد اقصیٰ فلسطین

٭… عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سائنس کے بانی یونانی تھے۔ لیکن بابل کے نواحی علاقوں (جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی) میں کھدائی سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں کے لوگ Euclid کے مشہور تکونی مسئلے کو جانتے تھے۔ مٹی کی تختیوں پر اُن کی بنائی ہوئی تکونی شکلیں اس کا ثبوت ہیں۔ اُن کا زمانہ Euclid سے سترہ سو پہلے کا زمانہ ہے۔
٭… پیغمبروں کی سرزمین کے شہر بغداد کے قریب کھدائی کے دوران ایک بیٹری سیل بھی برآمد ہوا ہے جس کے بارے میں مشہور ایٹمی سائنسدان George Gamow کی رائے ہے کہ بجلی کے یہ سیل اُس زمانے میں زیورات پر سونے کا پالش چڑھانے کے لیے استعمال ہوتے تھے لیکن بعد میں یہ علم دنیا سے ناپید ہوگیا اور پھر حالیہ دَور میں عظیم سائنسدان Dottore Galvani نے اس علم کو دوبارہ دریافت کیا۔

مسجد اقصیٰ فلسطین کا ایک قدیم منظر

٭…اسلام، قرآن اور توریت کا نظریہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان وحدانیت کو شروع سے ہی تسلیم کرتا چلا آیا ہے۔ لیکن بعض فلسفی کہتے تھے کہ انسان پہلے پہل جس چیز سے خوف کھاتا تھا اُس کو پوجتا تھا اور اس طرح کئی خداؤں اور دیوتاؤں کا تصور پیدا ہوگیا، بعد میں آہستہ آہستہ وحدانیت کا ظہور ہوا۔ موجودہ زمانے میں افریقہ کے بعض Pygmy قبائل جو ہمیشہ سے تہذیب، تمدّن اور باقی دنیا سے الگ تھلگ رہے ہیں، اُن کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اُن میں بھی وحدانیت شروع سے چلی آرہی ہے۔ گویا اس نظریے کی تائید ہورہی ہے کہ دراصل توحید ہی انسان کا اصلی مذہب ہے۔
٭…روسی سائنسدان سپٹسیٹ ایگریمسٹ کی رائے میں قومِ لُوطؑ کے مسکن سدوم اور گومور (Sodom & Gomorrah) کی تباہی کے واقعات جو بائبل میں درج ہیں اُن کی نوعیت ایٹمی دھماکے کی سی ہے۔
٭…قرآن کریم نے ہر شے کو جوڑوں کی شکل میں تخلیق کیے جانے کا ذکر کیا ہے اور اس ضمن میں یہ لطیف نکتہ بھی اشارۃً بیان فرمایا کہ دنیا کے ساتھ آخرت کا وجود بھی قانون زوجیت کا تقاضا ہے۔ بہرحال اب سائنسدان یہ ثابت کرچکے ہیں کہ مادہ کے ساتھ ضد مادہ (Anti-matter) بلکہ مادے کے ذرّات کے ساتھ Anti-particles کا ہونا ناگزیر ہے۔ بہت سے ماہرین تو اس کائنات کے آئینوی توام یعنی عکس کے موجود ہونے کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔

چند مذہبی دعووں کی سائنسی تصدیق” ایک تبصرہ

  1. اچھی تحریر ہے لیکن یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ایسا کیوں ہوا تھا یا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بہرحال اب ہم کچھ کر نہیں سکتے جو کچھ ہوچکا ہے وہ ماضی بن چکا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں