یہ بیٹیاں ہوتی ہیں…

(عمر ہارون)
جب سسرال میں دل رونے کو چاہتا ہے تو وہ ہنس دیتی ہیں، اپنے آنسو چھپا لیتی ہیں۔
دو گھروں کے رشتے قائم رکھنے کے لیے اپنے دکھوں کو سہہ لیتی ہیں۔
اپنی کمر باندھ لیتی ہیں کیونکہ دونوں گھروں کا بوجھ اٹھانا ہوتا ہے۔
اپنے والدین کی عزت کی خاطر دل کے درد کو دل ہی میں چھپا لیتی ہیں۔
یہ بیٹیاں ہوتی ہیں— مضبوط، قربانیاں دینے والی اور حوصلہ مند۔
کبھی یہ *”Agrimony”* بن جاتی ہیں، یعنی دل کا غم چھپا کر سکون کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
کبھی یہ *”Rock Rose”* کی مانند ہوتی ہیں، جو خوف اور مصیبتوں کا جوانمردی سے سامنا کرتی ہیں۔
سسرال والوں کے لیے یہ *”Holly”* بن جاتی ہیں، بے لوث محبت اور اپنائیت کا پیکر۔
جب ضرورت پیش آئے تو یہ *”Vervain”* بن کر حق اور سچائی کی خاطر ڈٹ جاتی ہیں۔
بچوں کے لیے یہ *”Hornbeam”* بن کر انہیں طاقت دیتی ہیں اور *”Olive”* بن کر ان کی پرورش کرتی ہیں۔
لیکن سسرال والے اکثر انہیں *”Centaury”* سمجھتے ہیں، جیسے وہ صرف دوسروں کی خدمت کے لیے پیدا ہوئی ہیں۔
ہاں، یہ بیٹیاں ہوتی ہیں— جو ہر چیز قربان کرتی ہیں اور پھر بھی اپنے والد کی لاڈلی بنی رہتی ہیں۔

نوٹ: ہومیوپیتھی دواؤں کی پوٹینسی ہر کیس کے لحاظ سے مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن Bach flowers کی پوٹینسی ایک ہی ہوتی ہے اور یہ طریقہ علاج 1935ء سے زیراستعمال ہے تاہم بہت سے ہومیوپیتھ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس حوالے سے مزید معلومات کے لئے آپ اپنے علاقہ کے کسی ہومیوپیتھ سے رابطہ کریں یا ہمیں میسیج کرکے مضمون نگار کا فون نمبر بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

یہ بیٹیاں ہوتی ہیں…” ایک تبصرہ

  1. ایک کہاوت ہے کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ اس کہاوت کی سچائی تب معلوم ہوئی جب میری شادی ہوگئی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی کتنی مشکل ہے اور ایک ہی وقت پہ بہت سے لوگوں کو خوش رکھنا تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب اپ خوش نہ رہ سکیں۔ بچیوں کو تعلیم ہی اس طرح کی دی جاتی ہے کہ کوئی بات نہیں تھوڑا برداشت کرلو، تھوڑا ضبط کرلو، کوئی غصہ کرے تو خاموش ہوجاؤ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ تعلیم غلط ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہا جائے کہ جھوٹ کو جھوٹ نہ کہو، غلط کو غلط نہ کہو اور سچ کو سچ نہ کہو تو حالات تھوڑے سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ یہ کہنا کہ بس اب مر کے ہی وہاں سے جنازہ اٹھنا ہے، غلط ہے۔ ہر انسان کے اندر اتنی برداشت کی قوت نہیں ہوتی اسی لیے کچھ لوگ وقت سے پہلے مر جاتے ہیں، وقت سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ جب ہم چھوٹے بچے تھے ہم بات بات پہ روتے تھے اور بات بات پہ ہنستے تھے لیکن اب رونے کے لیے کوئی کونہ ڈھونڈنا پڑتا ہے، تنہائی ڈھونڈنی پڑتی ہے اور ہنسنے کے لیے وجہ ڈھونڈنی پڑتی ہے جو اکثر ملتی نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں