محترم ڈاکٹر طلعت علی شیخ صاحب

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری فروری2023ء)

(اوّاب ابراہیم بقاپوری )

اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو عظیم الشان صحابہ ؓ اور تابعین کے رنگ میں جس طرح ہدایت یافتہ اور خدا رسیدہ ستارے عطا فرمائے، اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کو بھی ایسے باخدا وجود عطا فرمائے جنہوں نے محض خدا کی خاطر اور خلافت احمدیہ کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہوتے ہوئے نہ صرف بھرپور جانی اور مالی خدمات سرانجام دیں بلکہ اپنی عاجزانہ دعاؤں اور نیم شبینہ عبادتوں کے ذریعے بھی مذہب اسلام کو تقویت پہنچائی اور مخلوق خدا کی ہمدردی میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے۔ حضرت ڈاکٹر طلعت علی شیخ صاحب بھی ایسے دعاگو اور باخدا وجودوں میں سے ایک تھے جن کی بے مثال زندگی دوسروں کے لیے نمونہ تھی۔

محترم ڈاکٹر طلعت علی شیخ صاحب

محترم ڈاکٹر طلعت علی شیخ صاحب کی پیدائش 29؍ اکتوبر 1933 ء کو ملتان میں ہوئی۔ آپ کے والدمحترم اشتیاق علی صاحب دلّی کےپہلے مسلمان چیف انجینئر تھے جنہوں نے 1920ء میں انجینئرنگ میں کئی اعلیٰ ڈگریاں انڈیا اور لندن سے حاصل کی تھیں۔بتایا جاتا ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کی پیدائش کا مرحلہ نہایت مشکل تھا جس کی وجہ سے ماں اور بچے میں سے کسی ایک کے بچنے کی امید کی جاسکتی تھی۔حالت اتنی خراب تھی کہ بلڈپریشر کی وجہ سے آپ کی والدہ کی آنکھوں سے خون نکلنا شروع ہوگیا۔ یہ خبر سن کر آپ کے نانا حضرت عبدالغنی صاحبؓ نے بیسیوں بکرے یکے بعد دیگرے بطور صدقہ قربان کرنے شروع کر دیے جب تک کہ اُن کو یہ خبر نہ ملی کہ دونوں ماں بیٹا خطرے کی حالت سے باہر نکل آئے ہیں۔
محترم ڈاکٹر صاحب کی والدہ محترمہ سعیدہ اختر صاحبہ ایک نیک، صاحب کشف و الہام خا تون تھیں۔ 1947ء میں جب وہ صرف سینتیس سال کی تھیں تو محترم ڈاکٹر صاحب کے والد محترم شیخ اشتیاق علی صاحب کی طبیعت شدید ناساز ہوگئی۔ تاہم بیماری کے باوجود تقسیم ہندکی وجہ سے پاکستان کے چیف انجینئر کے انٹرویو کے لیے قائد اعظم کی دعوت پر انہوں نے طویل سفر بھی کیا تھالیکن واپس دہلی پہنچ کر حالت زیادہ خراب ہوگئی اور intestinal ulcer کی وجہ سے وہ قیامِ پاکستان سے چند ہفتے قبل وفات پاگئے۔ اُن کا جنازہ حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان میں پڑھایا اور یہ بھی فرمایا کہ ’ ’مجھے کیوں نہ اطلاع دی گئی کہ اشتیاق علی اتنا بیمار ہے۔ ہم اس کے لیے دعا کرتے اور وہ شفایاب ہوجاتا۔ اب ہم کدھر سے ایسے لوگ لائیں گے۔‘‘
محترم شیخ اشتیاق علی صاحب کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی۔
محترم شیخ صاحب کے آبا و اجداد سہگل ہندو تھے ۔ ان میں سب سے پہلے اننت رام نے اسلام قبول کیا۔ آپ اننت رام کی ساتویں پشت میں سے تھے۔ آپ کے دادا حضرت فرمان علی شیخ صاحب دھرم کوٹ بگہ کے رئیس ا عظم تھے۔ یہ بستی بٹالہ ضلع گورداسپور سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہ بھی ایک نہایت قابل انجینئر تھے جنہوں نے اپنی ڈگری سونے کے تمغے کے ساتھ تھامس کالج رُڑکی سے حاصل کی تھی جو ہندوستان کا پہلا انجینئرنگ کالج تھا۔ بعدازاں انہوں نے اسسٹنٹ انجینئرکی حیثیت سے دہلی سنٹرل پی ڈبلیو ڈی میں بھی کام کیا اور کئی تعمیرات کی نگرانی کی جن میں لیڈی ہارڈنگ ہسپتال کی عمارت بھی شامل ہے جو ابھی تک موجود ہے۔
محترم شیخ فرمان علی صاحب کے والد حضرت شیخ عزیزالدین صاحب ؓتھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں شامل تھے۔ اُن کا ذکر سیرت المہدی میں بھی آتا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے سچے عاشق تھے اور ہر وقت اسی جستجو میں رہتے تھے کہ کسی طرح حضورؑ کی صحبت سے فائدہ اٹھاسکیں۔ چنانچہ وہ اکثر چاندنی راتوں میں نماز عشاء ادا کرنے کے بعد اپنے گائوں دھرم کوٹ بگہ سے روانہ ہوتے اور 9 میل پیدل چل کر نصف شب کے قریب قادیان پہنچ جاتے۔ حضور ؑ ان دنوں مسجد میں چارپائی پر لیٹا کرتے تھے۔ حضرت شیخ صاحبؓ حضرت مسیح موعود ؑ کی چارپائی کے نیچے ہی صف پر لیٹ جاتے۔ لمبا فاصلہ طے کرنے کی وجہ سے تکان بھی ہوتی چنانچہ وہیں سو جاتے۔ جب حضورؑ کی چارپائی کو غیرارادی طور پر آپؓ کے گھٹنے لگتے تو حضورؑ جاگ جاتے اور اصرار فرماتے کہ چارپائی پر لیٹ جائیں۔ لیکن آپؓ ادب کی وجہ سے کبھی حضورعلیہ السلام کی چارپائی پر نہ لیٹے۔ بہرحال وہاں جانے کا مقصد یہی ہوتا تھا کہ حضورعلیہ السلام کے ساتھ نماز تہجد کی ادائیگی کا موقع مل جائے۔
حضرت شیخ عزیزالدین صاحب ؓ پیشہ کے لحاظ سے پٹواری تھے۔ وہ ایک بڑی حویلی اور کئی رقبہ زرعی زمین کے بھی مالک تھے۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ایک بار آپ ؓ کی دعوت پر حضرت اقدسؑ آپؓ کے گاؤں دھرم کوٹ بگہ تشریف لے گئے۔ وہاں کے غیراحمدیوں کے ساتھ مذہبی گفتگو کرنے کے بعد حضرت اقدسؑ نے حضرت شیخ صاحب ؓ کے گھر دوپہر کا کھانا تناول فرمایا۔ پھر آپؓ کی درخواست پر حضورعلیہ السلام نے آپؓ کے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے خاص طور پر دعا کی۔ چنانچہ اس دعا کی برکت سے آپ کے بڑے بیٹے جلال آباد( افغانستان) کے وزیر بنے۔ منجھلے بیٹے (جو ڈاکٹر طلعت علی شیخ صاحب کے دادامحترم شیخ فرمان علی صاحب تھے) رئیس اور انجینئر بنے۔ سب سے چھوٹے بیٹے بہاولپور کے ایگزیکٹو انجینئر بنے۔ بڑی بیٹی (جو ڈاکٹر طلعت علی صاحب کی نانی بھی تھیں)ایک تحصیلدار سے بیاہی گئیں جبکہ چھوٹی بیٹی محترم شیخ امیر علی صاحب جج ہائیکورٹ پنجاب (برٹش انڈیا) کی بہو بنیں۔

محترم ڈاکٹر طلعت علی شیخ صاحب اور اوّاب ابراہیم بقاپوری صاحب

حضرت شیخ صاحبؓ کی یہ خواہش بھی تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں ہدیہ پیش کریں لیکن گھر میں اُس وقت صرف تین آنے ہی موجود تھے۔ چنانچہ آپؓ نے وہی خدمت اقدس میں پیش کیے جو حضورؑ نے قبول فرمائے۔ جب حضور ؑ نے کوٹ پہن لیا اور روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تو اچانک بارش شروع ہوگئی۔ لیکن حضرت صاحبؑ نے ارادہ ترک نہیں کیا اور پھر جیسے ہی باہر قدم رکھا تو بارش رُک گئی اور بادل چھٹنے لگے یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔
محترم ڈاکٹر طلعت علی صاحب کے والد محترم شیخ اشتیاق علی صاحب کی زندگی شاہانہ انداز میں گزر رہی تھی۔ رئیس تھے، برطانیہ کے تعلیم یافتہ اور ایک اعلیٰ ترین عہدے پر فائز۔ دہلی کی ایک عالیشان کوٹھی، ملازموں کی ریل پیل، گھر میں دو کاریں اور ڈرائیور، حلقہ احباب میں لارڈز اور سیاسی راہنما شامل تھے جن میں پنڈت نہرو بھی تھے۔ بینکوں میں لاکھوں روپیہ جمع تھا۔ ایسے میں اُن کی اہلیہ نے خواب میں ایک صحن دیکھا جس پر ایک تختی لگی ہوئی تھی اور اُس پر لکھا تھا کہ ’تمہارا ادّن تمدّن بدلنے والا ہے‘۔ چنانچہ جب تقسیم ہند سے چند ہفتے قبل آپ کے خاوند کی وفات ہوگئی تو تقسیم ہند کی تکلیف اٹھاتے ہوئے یہ ۳۷ سالہ بیوہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ کچھ نقد رقم لے کر پاکستان پہنچیں اور حیدرآباد سندھ میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہائش پذیر ہوئیں۔ خدا کے علاوہ کوئی سہارا نہ تھا۔ ہندوستان کے بینکوں میں موجود لاکھوں روپے اور کوٹھیاں اپنے سازوسامان سمیت ہندوستان میں رہ گئیں۔ بعد میں دہلی والی کوٹھی کسی کو الاٹ ہوگئی تو اُن کا پیغام آیا کہ اشتیاق علی کی ڈگریاں تو لے جائو، لیکن ایسا کبھی ممکن نہ ہوسکا۔ 1963ء تک یہ فیملی بہت تکالیف کا شکار رہی۔ اسی دوران محترم ڈاکٹر طلعت علی صاحب کے دادا کی وفات ہوئی تو اُن کی جائیداد پر اُن کے غیراحمدی بھائی قابض ہوگئے۔ اس جائیداد کی اُس زمانے میں مالیت چونتیس کروڑ روپے تھی۔
محترم ڈاکٹر صاحب بتایا کرتے کہ لمبے آزمائشی دَور میں میری والدہ محترمہ نے بڑی ریاضت کی۔ اکثر ساری رات عبادت میں مصروف رہتیں اور کثرت سے نفلی روزے رکھتیں۔ اُن کا خداتعالیٰ سے ایک زندہ تعلق تھا اور اللہ تعالیٰ نے بےشمار سچی خبروں اور بشارتوں سے اُن کو سرفراز فرمایا۔ والدہ پر جب بشارت ہونے لگتی تو اُن کو خوشبو آتی اور ایسے محسوس ہوتا کہ باہر بارش ہو رہی ہے اورپھر غنودگی آجاتی۔ تھوڑی دیر بعد جب ہوش آتا تو اپنی کشفی کیفیت یا الہام سے بچوں کو آگاہ کرتیں جو اکثر آپ کے ارد گرد ہوتے اور آپ کی اُس حالت کا اکثر مشاہدہ کرتے۔اگرچہ ان پندرہ سالوں کے عرصہ میں ہمارے مالی حالات اتنے خراب تھے کہ اکثر یونیورسٹی سے گھر آکر جب مَیں اپنی والدہ سے کچھ کھانے کو مانگتا تو معلوم ہوتا کہ گھر میں کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ سردیوں کی شدید ٹھنڈی راتوں میں اوڑھنے کے لیے میرے پاس اتنی چھوٹی سی چادر تھی جس میں بیک وقت پاؤں اور سر نہیں سماسکتے تھے۔ اتنی تکلیف اور غربت میں اکثر لوگ خداتعالیٰ سے متنفر ہوکر دہریہ ہوجاتے ہیں لیکن بفضل الٰہی مَیں اللہ تعالیٰ کی طرف اَور مائل ہوگیا۔ کثرت سے ذکرالٰہی کرتا اور درودشریف پڑھتا، لمبی نماز تہجد اور بلند آواز میں تلاوت قرآن کریم کرنا میرا معمول بن گیا۔ کئی لوگ گھر کے باہر میری تلاوت سننے کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ محلہ کے دوست ٹوکتے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا باپ بھی ہمیں فجر کے لیے جگا دیتا ہے۔بہرحال فجر کی نماز ادا کرکے مَیں سو جاتا اور پھر صبح اٹھ کر یونیورسٹی چلا جاتا۔ عبادت اور پڑھائی کے علاوہ میرادھیان کسی طرف نہیں تھا۔
کہتے ہیں کہ

در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیز گار

کہ جوانی کی عبادت تو انبیا ء کا خاصہ ہے، بوڑھے ہو کر تو بھیڑیا بھی نیک ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محترم ڈاکٹر صاحب کی نوجوانی کی ریاضت کو قبولیت کا شرف بخشا اور اپنے فضل سے آپ پر اپنی بشارات کے دروازے کھولنا شروع کیے۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ آپ کو پہلا الہام قریباً 1953ء میں ہوا تھا یعنی تقریباً بیس سال کی عمر میں۔
وقت گزرتا گیا اور اس خاندان کے مالی حالات تنگ سے تنگ تر ہوتے گئے یہانتک کہ محترم ڈاکٹر صاحب کو اپنی ڈاکٹری کی پڑھائی چھوڑنا پڑی اور نوکری کی تلاش شروع کی تاکہ اپنی والدہ اور چار بہن بھائیوں کی کفالت کرسکیں۔ کچھ عرصہ تو نوکری نہ ملی۔ پھر خداتعالیٰ نے فضل فرمایا اور بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ چنانچہ آپ نے پہلے اپنے بہن بھائیوں کوپڑھایا اور بعد میں اپنی ڈاکٹری کی تعلیم بھی مکمل کی۔
اس تکلیف دہ دَور میں شدید مالی پریشانیوں کے حالات میں محترم ڈاکٹر طلعت علی شیخ صاحب کی والدہ محترمہ بعض صحابہؓ کی خدمت میں دعائیہ خطوط لکھا کرتیں۔ ایک بار حضرت ڈکٹر غلام غوث صاحبؓ نے ایک خط کے جواب میں تحریر فرمایا کہ انہوں نے جب اللہ تعالیٰ کے حضور ڈاکٹر طلعت شیخ کے لیے دعا کی تو یہ جواب آیا It is on my Part (یعنی اس کا معاملہ میرے ذمہ ہے۔ )
محترم ڈاکٹر صاحب بیان فرماتے تھے کہ 1963ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ہم حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ سے ملنے بھی گئے۔ آپؓ نے سفید لٹھے کی اَن دھلی دھوتی پہنی ہوئی تھی اور چارپائی پر تشریف فرما تھے۔ لوگ قطار میں آتے اور سلام و مصافحہ کر کے چلتے جاتے۔ بعض ہدیہ بھی پیش کرتے۔ جب میری باری آئی تو آپؓ نے مجھے غور سے دیکھا اور اپنے ساتھ بٹھالیا۔ لوگ آتے، ملتے اور گزر جاتے۔ اسی اثنا میں حضرت مولاناؓ نے میری کمر پر تھپکی دی اور فرمایا کہ ’’ایک بات بتاتا ہوں جو آج تک کسی کو نہیں بتائی۔ مجھے یہ جو مقام دیا گیا ہے وہ لاحول پڑھنے سے ملا ہے ۔‘‘
محترم ڈاکٹر طلعت علی شیخ صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے عہد خلافت میں پروان چڑھے۔آپ کی والدہ اپنے بچوں سمیت خلافت احمدیہ کے ساتھ نہایت مخلصانہ تعلق رکھتیں ، اپنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب خوب دیتیں اور حضورؓ سے ملانے بھی لے کر جاتیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کی جب وفات ہوئی تو ڈاکٹر صاحب اس وقت لاہور میں تھے۔ آپ بھی ربوہ پہنچے۔ وہاں تابعداری کا عجیب نظارہ دیکھا جب کسی جماعت کے لوگوں کے لیے کوئی اعلان کیا جاتا تو وہ فوراً اطاعت کرتے۔ وہاں لاہور ٹائمز کے ایڈیٹر بھی موجود تھے۔ وہ بھی اس منظم تابعداری کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور اپنے اخبار میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ مَیں نے اس سے پہلے ایسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب کو حضورؓ کے جنازے کو کندھا دینے کا بھی موقع ملا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن پہلے ہی قطعہ خاص میں مجھے حضورؓ کی تدفین کی جگہ دکھا دی گئی تھی جس پر نور کی بارش ہو رہی تھی۔
کئی لوگوں نے مصلح موعود کا دعویٰ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ پر بہتان لگائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے محترم ڈاکٹر صاحب کو بشارت دیتے ہوئے بتایا تھا کہ حضورؓ کا دعویٰ مصلح موعود سچا تھا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کے ساتھ بھی آپ کا اور آپ کے بھائی طیب علی شیخ صاحب کا خاص تعلق تھا جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور دارالحکومت اسلام آباد کی ترقیاتی اتھارٹی یعنی CDA میں کام کرتے تھے۔آپ ترقی کرتے کرتے اسلام آباد CDA میں ڈائریکٹر جنرل تک پہنچے۔ جماعت کے کئی تعمیراتی منصوبے بھی حضورؒ کے ارشاد پر آپ نے مکمل کروائے جن میں اسلام آباد کی احمدیہ مسجد بھی شامل ہے۔ حضورؒ اکثر آپ سے اپنی زندگی وقف کرنے کا بھی اظہار کرتے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کے ساتھ بھی محترم ڈاکٹر طلعت علی صاحب کا بہت گہرا محبت کا تعلق تھا۔ اکثر ملاقات کے لیے حاضر ہوتے اور مجالس عرفان میں کثرت سے غیرازجماعت احباب کو لے کر آتے۔ حضورؒ کی وفات کے وقت کافی عمررسیدہ اور ایک حد تک معذور ہوچکے تھے۔ اسی وجہ سے لوگوں سے ملنا ملانا بھی بہت کم کردیا تھا لیکن حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے بہت محبت تھی۔ خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنتے اور غیرازجماعت مہمانوں کے ساتھ تبلیغی گفتگو کرتے ہوئے حضورانور کا بہت محبت سے ذکر کرتے۔
محترم ڈاکٹر طلعت علی شیخ صاحب کی شادی اندازاً سن ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں میں ہوئی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر امۃالکریم طلعت صاحبہ پاکستان کی ایک مشہور پروفیسر تھیں جنہوں نے مشرقی علوم، بشریات اور تقابلہ مذاہب میں جرمنی سے سکالرشپ پر Ph.Dکی ڈگری اعلیٰ اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔ آپ مختلف یونیورسٹیوں میں عربی اور اسلامیات کی پروفیسر بھی رہیں اور PTv پر عربی سہلاً کے پروگرام میں بھی پڑھاتی رہیں۔ جرمن، عربی ، اردو اور انگریزی کی کئی کتب تالیف کیں۔ اُن کے والد محترم ڈاکٹر غلام علی صاحب ضلع شیخوپورہ کے گائوں چہور کے قریش خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ 2002ء میں محترمہ کی وفات ہوئی۔ آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
محترم ڈاکٹر صاحب کا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق تھا۔ بےشمار واقعات کے بےشمار لوگ گواہ ہیں۔ آپ دست درکار و دل بایار کا کامل نمونہ تھے۔ ہر وقت زبان ذکرالٰہی سے تر رہتی۔ اس بات کی اکثر نصیحت کیا کرتے کہ بیٹا خدا سے ہمیشہ بناکر رکھنا۔ اللہ کے علاوہ کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔
یہ بھی کہتے کہ دعائیں ہمیشہ stock میں ہونی چاہئیں تاکہ کہیں کوئی پریشانی ہو یا ناگہانی آفت آئے تو انسان کی حفاظت اور اللہ کی رحمت سابقہ مانگی گئی دعائوں کے نتیجے میں ہوسکتی ہے۔ کیونکہ دعا کبھی ضائع نہیں جاتی۔ ایک بار اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ بھی فرمایا کہ ’وہی مناجات قبول کرتا ہوں جو مناسب ہیں۔‘
آپ فرمایا کرتے کہ کبھی خدا سے نا امید نہیں ہونا چاہیے کیونکہ قدرت اکثر اُن لوگوں کو ٹیسٹ کرتی ہے جو خدا کی طرف آنا چاہتے ہیں۔
جو لوگ آپ سے دعا کی درخواست کرنے آتے آپ انہیں توجہ دلاتے کہ اپنا جائزہ خود بھی لو اور دیکھو کہ تم سے کوئی ایسا عمل سرزد تو نہیں ہو رہا جو قدرت کو ناگوار گزر رہا ہو۔مجھے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ کام کرنا چھوڑدو۔ اور تم بھی دعا کرو اور میں بھی تمہیں اپنی دعائوں سے سہارا دیتا ہوں۔ ایسا نہ ہو کی تم خود تو کسی نامناسب کام میں محو ہوگئے ہو۔ اور میں خدا کے دربار میں جائوں تو قدرت ناراض ہو کہ جس کے لیے دعا کر رہے ہو وہ کدھر ہے؟
ایک بار آپ نے بیان فرمایا کہ کسی نے دعا کی درخواست کی اور مَیں نے اس کے لیے دعا کرنا شروع ہی کی تھی کہ ارشاد ہوا:’اس کے لیے دعا مت کر، He’s a crook ‘
آپ بیان کرتے تھے کہ اللہ دو تین چیزیں ہی چاہتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائو ، یہ اس کو سخت نا پسند ہے اور دوسرا یہ کہ اس کا شکر ادا کرو۔ تیسرا یہ کہ جب گناہ ہو تو اس سے معافی مانگ لینی چاہیےکیوں کہ اس کا دل اتنا بڑا ہے کہ وہ معاف کر دیتا ہے۔ اور یہی کہتا ہے کہ چل اگّوں نہ کریں۔
آپ اس کی بھی ترغیب دیا کرتے کہ جب کوئی پریشانی ہو یا کوئی خاص کام کرنا ہو تو ہمیشہ دو نفل پڑھ لیا کرو۔ کہا کرتے کہ اکثریہی اطلاع قدرت کی طرف سے آتی ہے کہ دو نفل پڑھ لو۔ اور کئی بار یوں بھی بشارت ہوئی کہ ’تمہارا کام کردیتا ہوں، نفل بعد میں پڑھ لینا‘۔ گھر سے باہر جانے سے پہلے بھی اکثر دو نفل پڑھ کر نکلتے۔ اکثر بشارت بھی مل جاتی کہ ’خیریت سے واپس آجائے گا‘۔
آخر ی پندرہ بیس سالوں میں شام کو قریباً سات بجےآپ عبادت کرنا شروع کرتے اور آدھی رات تک اپنے ربّ کے حضور التجاؤں میں مصروف رہتے۔ رمضان آتا تو نماز تہجد کا خاص اہتمام ہوتا۔ خداتعالیٰ کی پیار کی نظر آپ پر پڑتی اور خوشخبریوں سے دامن بھر دیتی۔ ایک بار اسی حالت میں تہجد میں مصروف تھے کہ بشارت ہوئی  ’بس کر دے، نہیں تو تجھے بخار چڑھ جائے گا‘۔
آپ کی زندگی بہت سے حیران کن روحانی واقعات سے لبریز تھی۔ آپ بیان کرتے تھے کہ ایک بار رات کے اڑھائی تین بجے میں نے کشفاً دیکھا کہ ایک فرشتہ انعام لے کر بیٹھا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی آتا ہی نہیں۔
بہت سی ایسی خبریں بھی آپ کو دی جاتیں جن کا تعلق عالمی معاملات اور قوموں کے عروج و زوال سے ہوتا۔ ملاقاتی جو مختلف مذہبی سوالات کیا کرتے تھے، آپ کو اُن کے جوابات بارہا بشارت کے طور پر عطا فرمائے گئے۔
خاکسار (مضمون نگار) نے ڈاکٹر صاحب کی صحبت میں قریباً بارہ سال کا عرصہ گزارا ہے۔ اس دوران بےشمار روحانی تجارب کا مشاہدہ کرنے کی سعادت ملی۔ بہت سی بشارات آپ نے رجسٹروں میں درج کررکھی ہیں۔ حضرت اقدس رسول اللہ ﷺ کی زیارت سینکڑوں مرتبہ کشفی بیداری میں کی۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام، دیگر انبیائے کرام، صحابہ کرام اور اولیاءاللہ کی زیارت کی سعادت بھی کثرت سے آپ کو حاصل ہوتی۔ (بقیہ صفحہ 16پر ملاحظہ فرمائیں)
2017ء کے شروع میں آپ کے بائیں پائوں کے انگوٹھے پر تھوڑی سی چوٹ لگی لیکن ذیابیطس کی وجہ سے زخم مندمل ہونے کی بجائے بڑھتا چلا گیا۔ پھر آپریشن بھی کروانا پڑا، کھانے کی نالی میں بھی زخم نکلے۔ دل کی بیماری بھی ہوگئی۔ آخر 14؍ اگست 2017ء کی شام قریباً چھ بجے تراسی سال کی عمر میں آپ اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ اِنَّا لِلہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ تدفین احمدیہ قبرستان بروک وُڈ میں ہوئی۔
اپنی وفات سے کچھ دن پہلے آپ نے اپنی ملازمہ سے یہ ذکر کیا کہ میں نے خواب میں اپنا جنازہ دیکھا ہے جس میں بہت کم لوگ شامل تھے۔ پھر اداس ہو کر آپ نے کہا کہ مَیں نے کتنے ہی لوگوں کے کام کیے مگرکوئی نہ آیا۔ (واقعۃً اُس روز ایسا ہی وقوع میں آیا۔)
بلاشبہ آپ نے اپنے اوقات مخلوقِ خدا کی پریشانیوں اور تکالیف کو دُور کرنے کے لیے وقف کررکھے تھے۔ نہ صرف آپ اُن کے لیے نہایت تضرّع سے دعائیں کرتے، بہترین مشورے سے نوازتے بلکہ اگر ممکن ہوتا تو عملاً بھی اُن کی مدد کردیتے۔ بےشمار لوگوں نے آپ سے فیض پایا۔ آپ سادہ مزاج، محبت کرنے والے اور بہت مہمان نواز تھے۔
دین کی خاطر مالی قربانی پیش کرنے میں بھی محترم ڈاکٹر صاحب ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ہر تحریک پر لبیک کہتے اور گرانقدر رقم پیش کرتے۔ آپ نے اپنی تمام جائیداد اپنی وفات سے چند سال قبل ایک مسجد کی تعمیر کےلیے پیش کرنے کی سعادت بھی حاصل کی تھی۔
قارئین سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم ڈاکٹر طلعت علی شیخ صاحب کی مغفرت فرمائے، آپ کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما دے اور آپ کے درجات بلندتر فرماتا چلا جائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں