تحقیق ادیانِ مختلفہ اور الفضل

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 5؍اگسست 2024ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں ’’تحقیق ادیانِ مختلفہ اور الفضل‘‘ کے عنوان سے مکرم نصیر احمد انجم صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں الفضل کی سو سالہ تاریخ میں شائع ہونے والے چند قیمتی عالمانہ تحقیقی مضامین کی جھلکیاں شامل اشاعت کی گئی ہیں۔
۱۹۲۰ء میں پروفیسر رام دیو صاحب نے لاہور میں تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام اِس زمانے کا مذہب نہیں ہے کیونکہ اس کے اصول سائنس کے مطابق نہیں ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے پروفیسر صاحب کے اعتراضات کا مدلّل جواب اپنے ایک مضمون میں دیا جو ۱۳؍دسمبر۱۹۲۰ء کے الفضل اخبار میں شائع شدہ ہے۔حضورؓ نے تحریر فرمایا کہ پروفیسر صاحب کے اعتراضات تو آریہ دھرم پر وارد ہوتے ہیں نہ کہ اسلام پر۔ مثلاً اُن کا اعتراض کہ فرشتوں کا وجود محض خیال ہے (حضورؓ نے فرمایا) ’’فرشتہ خیالی یا وہمی وجود نہیں بلکہ ان کا وجود عالمِ خیال سے باہر بھی موجود ہے اور قرآن کریم نے فرشتوں کی نسبت جو کچھ بیان فرمایا ہے اس کا ایک ایک لفظ درست ہے۔ اگر کسی شخص کو ان کے وجود کے خلاف کوئی اعتراض ہو تو مَیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس کے شکوک کا ازالہ کرسکتا ہوں۔ اور فرشتوں کا وجود مَیں صرف اس لیے ہی نہیں مانتا کہ مَیں نے قرآن کریم میں اُن کا ذکر پڑھا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے محض فضل اور احسان سے مَیں نے خود بھی اُن کی ملاقات کی ہے اور اُن سے کئی علوم سیکھے ہیں۔‘‘
قیام پاکستان کے بعد ایک طبقہ ہائے فکر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اسلام زمینداری اور جاگیرداری کے خلاف ہے۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۸؍مارچ۱۹۵۰ء کے اخبار الفضل میں اس بارے میں تحریر فرمایا کہ زمینداری آنحضرتﷺ کے زمانے سے پہلے بھی موجود تھی اور آپؐ کے زمانے میں بھی رہی لیکن آپؐ نے اس کو ختم نہ کیا۔ آپؐ کے بعد آپؐ کے خلفاء کے دَور میں بھی جاگیرداری اور زمینداری قائم رہی۔ چنانچہ طائف وغیرہ میں بڑے بڑے جاگیردار تھے لیکن اُن کی زمینیں اُن کے پاس ہی رہیں۔ دراصل جو چیز تباہی لاتی ہے وہ جاگیرداروں کے ہاتھوں غریبوں کا استحصال ہے، اس کو بہرحال ختم ہونا چاہیے۔
مضمون نگار نےبعض جیّد محقّقینِ احمدیت کا بھی ذکر کیا ہے جن کے مختلف موضوعات پر گراں قدر تحقیقی مضامین گذشتہ ایک سو سال میں الفضل اخبار کی زینت بنتے رہے۔ بعض تحقیقی مضامین سے ایسے بہت سے نکات بھی شامل اشاعت ہیں جن سے اخبار الفضل کے گذشتہ شماروں کی علمی حیثیت نیز تربیتی اور روحانی افادیت کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں