الفضل اور قومی شخصیات کے تأثرات

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 12؍اگسست 2024ء)

مکرم فخرالحق شمس صاحب کا مرتبہ ایک مضمون خصوصی شمارہ میں شامل اشاعت ہے جس میں الفضل کی سوسالہ خدمات پر مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی معزز قومی شخصیات کے قیمتی تأثرات قلمبند کیے گئے ہیں۔ ان محترم شخصیات کا مختصر تعارف بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔
٭…صحافت، ادب، ابلاغیات اور تعلیم و تحقیق کے میدان میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن صاحب متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الفضل کو سوویں سالگرہ مناتے دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کیونکہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے علاوہ ملک کے کسی اَور خبار نے اشاعت کے سو سال مکمل نہیں کیے۔ اگرچہ الفضل کو صحافت کی اُس قسم میں شامل نہیں کیا جاسکتا جس کو قبولِ عام کا درجہ حاصل ہو کیونکہ یہ اخبار نظریاتی طور پر ایک ایسے مخصوص نظریے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہے جس کو ماننے والے پاکستان میں بہت مشکل زندگی گزارتے رہے ہیں۔
٭…جناب آئی اے رحمٰن صاحب گذشتہ تئیس سال سے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ آپ انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ نے کہا کہ اتنی طویل مدّت تک کسی اخبار کی اشاعت بجائے خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اور الفضل کی تاریخ تو اس وجہ سے بھی قابل تعریف ہے کہ اس اخبار کو کبھی بھی دوستانہ یا منصفانہ ماحول نصیب نہیں ہوا۔
٭…صحافت، ادب اور میڈیا میں ایک معتبر نام ڈاکٹر محمد اجمل نیازی صاحب کا ہے۔ انہوں نے الفضل کی صدسالہ اشاعت پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ کسی لگن اور آرزو کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ کسی مشن اور وژن کے ذریعے ہی جہد مسلسل کی توفیق ملتی ہے۔ ادارہ کے ارکان کی محنت اور محبت کے علاوہ قارئین کی استقامت کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ کسی رسالہ کی کامیابی اُنہی کی مرہون منت ہوتی ہے۔
٭…صحافی، شاعر اور ماہنامہ ’’شاداب‘‘ کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر کنول فیروز صاحب نے کہا: ’’شاداب‘‘ کے تبادلہ میں مجھے نسیم سیفی صاحب نے ’’الفضل‘‘ بھجوانا شروع کیا تھا جن سے میری بہت اچھی یاداللہ تھی۔ مَیں انٹرفیتھ ڈائیلاگ کو پسند کرتا ہوں اسی لیے میرے لیے الفضل میں بہت معلوماتی مواد ہوتا ہے۔ ان حالات میں اس جریدے کو سو سال سے جاری رکھنا بہت بڑی جدوجہد ہے اور یہ کاوش قابل تحسین ہے۔ احمدیوں نے تحریک پاکستان میں بہت اہم کام کیا اسی لیے قائداعظم نے چودھری ظفراللہ خان صاحب کو وزیرخارجہ مقرر کیا لیکن قائداعظم کے پاکستان میں اظہارخیال کی آزادی نہیں ہے۔
٭…جن دیگر شخصیات کے پیغامات شامل اشاعت ہیں اُن میں صحافی اور ہیومن رائٹس کمیشن کے نیشنل کوآرڈینیٹر جناب حسین نقی صاحب، قانون دان اور سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ جناب نعیم شاکر صاحب اور پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف پروفیسر احمد عقیل روبی صاحب شامل ہیں۔
٭…ماہر تعلیم اور صحافی پروفیسر وجاہت مسعود صاحب نے کہا کہ گذشتہ ۶۵برس کے دوران اس (احمدیہ) فرقے پر جو گزری اس کی ایک جھلک الفضل کی اشاعتی تاریخ سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ میری رائے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں کسی مذہبی فرقے کو اس تسلسل کے ساتھ ریاستی امتیاز اور معاشرتی تعصب کا نشانہ نہیں بنایا گیا جس کا سامنا پاکستان میں احمدی مسلک کو کرنا پڑا۔ اسی طرح پاکستان کی تاریخ میں کوئی اخبار ایسا نہیں جس کی اشاعت پر اس تواتر سے پابندیاں عائد کی گئی ہوں۔
٭…ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے لیگل ایڈوائزر جناب محبوب خان صاحب نے الفضل اور جماعت احمدیہ کے حوالے سے اپنی بہت سی یادیں بیان کیں اور کہا کہ اظہار خیال کی مشکلات کے باوجود ایک سو سال سے یہ اخبار چلانا کوئی آسان کام نہیں۔ موصوف نے پاکستان بنانے میں احمدیوں کے کردار، جنرل اختر حسین ملک اور دیگر احمدی جرنیلوں کے کارناموں اور حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کا کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حوالے سے اقوام متحدہ میں آواز اٹھانے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ قومیائے جانے سے پہلے ٹی آئی کالج ربوہ میں داخلہ لینے کے لیے پاکستان بھر سے طلبہ سفارشیں کرواتے تھے۔ انہوں نے ربوہ میں کھیلوں کے حوالے سے اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ باسکٹ بال، کبڈی، گھڑدوڑ اور نیزہ بازی میں ربوہ نے نیشنل لیول کے کھلاڑی پیدا کیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں