الفضل اخبار میں غیراحمدی شعراء کا نعتیہ کلام

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 9؍ستمبر2024ء)

مولانا دوست محمد شاہد صاحب

دنیائے احمدیت کا ترجمان اخبار روزنامہ الفضل اپنے دامن میں ۱۰۰؍ سالہ تاریخ سمیٹے ہوئے ہے اور علاوہ ازیں اس کی ادبی خدمات کے، یہ درخشندہ پہلو آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے کہ اس کی ۱۹۲۹ء سے ۱۹۳۱ء تک کی خصوصی اشاعتوں میں برصغیر کے متعدد مسلم مشاہیر کا نعتیہ کلام پہلی بار اس کی زینت بنا۔ بعض اشعار اس درجہ جذب و کیف سے معطّر ہیں کہ ان کو پڑھتے ہی وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں شامل اشاعت ہے جس میں اردو ادب کی دس ممتاز شخصیات کے بارگاہِ رسالت میں نذرانۂ عقیدت کے نمونے ہدیۂ قارئین کیے گئے ہیں۔

٭…ڈاکٹر سر محمد اقبال (وفات ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء)

علامہ سر محمد اقبال

باخدا در پردہ گویم با تو گویم آشکار
یارسول اللہ اوپنہاں و تو پیدائے من!
تیغ لا در پنجہ ایں کافر دیرینہ دہ
باز بنگر در جہاں ہنگامہ الّائے من!
بہر دہلیز تو از ہندوستاں آوردہ ام
سجدہ شوقے کہ خوں گردید در سیمائے من!
(مطبوعہ الفضل ۳۱؍مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۶)

٭…لسان الملک ریاضؔ خیرآبادی (وفات ۱۹۳۴ء)

ہے عرش بریں اَور مدینے کی زمیں اَور
اللہ یہاں کے ہیں مکاں اَور مکیں اَور
اٹھ اٹھ کے چلے ساتھ کئی طُور نشیں اَور
جاتے ہیں جو کعبے کو وہ جائیں گے کہیں اَور
ہے عرش بریں فرش رہ گنبد خضرا
میری ہے جبیں اَور فرشتوں کی جبیں اَور
(مطبوعہ الفضل ۳۱؍ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ۲۷)

٭…سید علی آشفتہ لکھنوی مدیر ’’مبصر‘‘

سن کے قیصر نے کہا ہاں وہ نبی ہے برحق
مُرسل خاص خدا ، حق کا ولی ہے برحق
یوں نہ اس کفر کی دنیا میں پریشاں ہوتا
پائوں دھو دھو کے مَیں پیتا جو کہیں واں ہوتا
نُورِ ایماں سے مگر قلب منور نہ ہوا
پھر بھی آشفتہؔ مسلمان وہ کافر نہ ہوا
(مطبوعہ الفضل 31مئی 1929ء صفحہ 26)

٭…لسان الہند مرزا محمد ہادی عزیزؔ لکھنوی (وفات ۲۹؍جولائی ۱۹۳۵ء)

مگر حقیقت کی اِک نظر کر ذرا سرا پائے مصطفیٰ ؐ پر
یہ قد آدم وہ آئینہ ہے کہ جس میں قدرت ہے جلوہ آرا
عرب کے جاہل عرب کے سرکش کہ جن کا جوہر درندگی تھا
یہی ہے وہ فلسفی اُمّی کہ جس نے اس قوم کو سنوارا
حضیض ہستی پہ جب تھا مائل تو ذرّہ ذرّہ بنا تھا سورج
ہوا تھا میلان ارتقا جب تو عرش اعظم کا تھا ستارا
مجسمہ حسن معنوی کا نمونہ اک لطف سرمدی کا
حرا کے خلوت کدہ میں جس کو خدائے برحق نے خود سنوارا
زمین شور عرب پہ آ کر بنائے اخلاق اس نے ڈالی
وہی یتیموں کا آسرا تھا وہی ضعیفوں کا تھا سہارا

(مطبوعہ الفضل ۳۱مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۰)

٭…لسان القوم جناب علی نقی زیدی صفیؔ لکھنوی (وفات ۱۹۵۱ء)

اعجاز ہی اعجاز تھے اطوار محمدؐ
رفتار محمدؐ ہو کہ گفتار محمدؐ
مقصود نہ تھی جنگ سے تسخیر ممالک
پیکار حکیمانہ تھی پیکار محمدؐ
اس وقت دیا اذن پئے جنگ دفاعی
ہونے لگے مقتول جب انصار محمدؐ
آقائے دو عالم کے غلاموں سے تو پوچھو
آزادوں سے بہتر تھے گرفتار محمدؐ

(مطبوعہ الفضل ۳۱؍مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۸)

٭…حکیم ضمیر حسن خاں دل شاہجہانپوری (وفات ۱۹۵۹ء)

کیونکر نہ ہو مومن کو تمنائے مدینہ
ہیں خلد کے مالک چمن آرائے مدینہ
تنویر کا مخزن ہے ہر اک ذرہ یثرب
دیکھو تو سہی رونق صحرائے مدینہ
مداح رہا آپ کا ہر مشرک و مومن
مجموعۂ اخلاق تھے مولائے مدینہ
افسردہ دلوں پہ نظر فیض و عطا ہو
اے بحر کرم اے چمن آرائے مدینہ
ہے پاک و مطہّر وطن شاہ دو عالم
قدسی بھی نظر آتے ہیں شیدائے مدینہ
(مطبوعہ الفضل ۳۱؍مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۵۳)

٭…جناب سراج الحسن سراج لکھنوی (وفات ۱۹۶۸ء)

شہ کونین فخر انبیاء محبوب سبحانی
محمد مصطفیٰ نور خدا اسلام کا بانی
وہی امّی لقب مشہور ہے جس کی زباں دانی
بلاغت جس کا حصہ تھا ۔ فصاحت جس کی لاثانی
مئے وحدت کا متوالا اٹھا جب لے کے انگڑائی
دکھا دی اس نے غیبی قوتوں کی کارفرمائی
بنی ہر ہر ادا تصویرِ اعجاز مسیحائی
کچھ ایسی شان تھی اللہ کی قدرت نظر آئی
اُسی کا نام ہے نام خدا دل کے نگینوں میں
محبت کے خزانے بھر دیے ہیں جس نے سینوں میں
(مطبوعہ الفضل ۲۵؍اکتوبر۱۹۳۰ء صفحہ۱۸)

٭…مولانا عبدالمجید سالک مدیر ’’انقلاب‘‘ لاہور (وفات ۲۷ستمبر۱۹۵۹ء)

اے شاہ عرب ، ختم رسل ۔ سید ابرار ، اے احمد مختار
مسلم ہیں ترے نام پہ کٹ مرنے کو تیار ، اے احمد مختار
ایمان ہمارا ہے ۔ ترے نام کی عزت ، اسلام کی عزت
ہم کو تری عزت کے سوا کچھ نہیں درکار ، اے احمد مختار
پھر تیری تجلّی سے ضیا بار ہے مشرق ، بیدار ہے مشرق
پُرنُور ہیں پھر چین و عرب کابل و تاتار ، اے احمد مختار
(مطبوعہ الفضل ۲۵؍اکتوبر۱۹۳۰ء صفحہ ۶)

٭…جناب نشتر جالندھری مدیر رسالہ ’’ادیب‘‘ پشاور (وفات ۲۲؍جون ۱۹۷۵ء)

اے آنکہ ذات تو سبب خلق کائنات
یک پرتو تو چہرہ برافروز شش جہات
شہنائے لٓا اِلٰہ دمیدی چو در حجاز
یکسر بباد رفت صنم زار کائنات
گفتار تست چشمہ تہذیب خلق را
کردار تست خضر راہ منزل حیات
’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘
اے لطف عام توبہ جہاں مژدۂ نجات
(مطبوعہ الفضل ۲۵؍اکتوبر۱۹۳۰ء صفحہ ۳۰)

٭…نواب سراج الدین احمد خاں سائلؔ دہلوی (داغ وفات ۱۵؍ ستمبر ۱۹۴۵ء)۔ داماد جناب فصیح الملک

برزخی رتبہ ہے یوں شاہ رسولاں تیرا
تُو ہے امت کا نگہباں وہ نگہباں تیرا
یا نبی آفت خورشید قیامت سے بچا
حشر میں سر پہ رہے سایۂ داماں تیرا
دل میں ہو جاتی ہے تسکین سی پڑھنے سے درود
آگیا راس مرے درد کو درماں تیرا
ذوق پابوس کے پر ہوں تو مدینہ کی طرف
لے کے اُڑ جائے مجھے دید کا ارماں تیرا
(مطبوعہ الفضل ۸؍نومبر۱۹۳۱ء صفحہ۲۰)

یہاں اُس دَور کے محض چند مشاہیر سخن کی نعتیہ غزلوں کے چند اشعار کے انتخاب پر ہی اکتفا کیا ہے وگرنہ بعض پُرکیف نظمیں خاصی طویل ہیں اور’’الفضل‘‘کے پورے پورے صفحہ پر محیط ہیں۔ المختصر بقول اسداللہ خان غالبؔ دہلوی ؎

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے

………٭………٭………٭………

اپنا تبصرہ بھیجیں