پاکستان میں واپسی اور ربوہ کی یادیں

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل … اپریل 2025ء)

ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍جنوری 2014ء میں مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کے قلم سےایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ زندگی وقف کرنے کے بعد ربوہ میں گزارے ہوئے اپنے شب و روز نہایت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔
آپ رقمطراز ہیں کہ خاکسار نے 1961ء میں ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا اور میو ہسپتال میں ہاؤس جاب کے بعد مزید تعلیم کے لیے انگلستان چلاگیا۔ وہاں بچوں کی بیماریوں کا ڈپلومہ کیا اور پھر 1968ء میں ایڈنبرا سے کارڈیالوجی میں MRCP کیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں تحریر کیا کہ اب مَیں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرسکتا ہوں اور فضل عمر ہسپتال ربوہ میں خدمت کرنے کا خواہشمند ہوں۔ حضورؒ نے کچھ مزید ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ربوہ آجانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد مَیں نے اپنا سامان بحری جہاز کے ذریعے پاکستان بھجوایا اور خود اپنی بیوی اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان پہنچا۔ میری خواہش تھی کہ اپنے ہمراہ ایک کار بھی لے جاؤں لیکن اس کے لیے سرمایہ میسر نہیں تھا اس لیے دل کی صحت چیک کرنے یعنی ECG کرنے والی مشین خرید کر ساتھ لے گیا۔ یہ فیصلہ بہت عمدہ رہا۔


لندن سے روانہ ہوکر ہم چند دن کراچی میں محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب کے پاس ٹھہرے جو میرے خسر تھے اور کراچی میں مربی تھے۔ پھر چند روز لاہور میں قیام کیا جہاں میرے والدین کا گھر تھا۔ پھر ربوہ اپنی اہلیہ کے چچا جان مکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب کے گھر پہنچے۔ بیوی بچوں کو وہاں چھوڑ کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری پہنچا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت ملاقات کا شرف عطا فرمایا اور فرمایا کہ مَیں نے آپ کی رہائش کے لیے انجمن کے ایک سینئر کوارٹر کا انتظام کرکے رکھا ہوا ہے آپ ناظرامور عامہ (حضرت صاحبزادہ مرزا منصوراحمد صاحب) سے کوارٹر کی چابی لے لیں۔

فضل عمر ہسپتال ربوہ

میرا دل اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات سے پُر تھا جس نے ہماری رہائش کا بندوبست کردیا۔ اس کوارٹر میں ہم سولہ سال تک مقیم رہے جس کے بعد اپنا ذاتی مکان بنانے کی توفیق مل گئی۔ کوارٹر میں ہم سے پہلے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظراعلیٰ مقیم تھے۔ ہمارا سامان ابھی نہیں پہنچا تھا اس لیے مَیں بازار سے دو نواڑی پلنگ اور بستر خرید لایا تاکہ سونے کا انتظام ہوسکے۔ والد صاحب نے اپنے گھر کے کچھ برتن ہمیں استعمال کے لیے دے دیے۔ میٹھا پانی اور سوئی گیس لگ چکی تھی۔ ہم نے کوارٹر میں رہنا شروع کردیا اور ہسپتال میں ڈیوٹی بھی سنبھال لی۔

جلسہ سالانہ کی آمد آمد تھی اور ہسپتال میں کام بڑھ رہا تھا۔ جلد ہی جلسے کے مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی۔ ہمیں اتنے مہمانوں کی تواضع کا تجربہ نہیں تھا۔ مہمان نوازی کا سارا کام میری اہلیہ پر ہی پڑگیا۔ نئے ملک اور نئے ماحول کا تجربہ بھی نہیں تھا۔ ایسے میں پہلے تو بچے بیمار ہوئے اور آخرکار میری اہلیہ شدید بیمار ہوگئیں کہ جان کے لالے پڑگئے۔ محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے تشخیص اور علاج کے سلسلے میں بہت مدد کی۔ چنانچہ کافی لمبے علاج اور حضورؒ کی خصوصی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمادیا۔ اسی دوران میرے خسر صاحب کا تبادلہ ربوہ میں ہوگیا اور وہ بھی ہمارے ساتھ ہی مقیم ہوگئے۔ میری اہلیہ کی بیماری کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہم استخارہ کرکے حضورؒ کی اجازت سے انگلستان آگئے۔

مسجد مبارک ربوہ

ربوہ کے شب و روز بہت مسرور کُن تھے۔ مسجد مبارک ہمارے گھر کے سامنے ہی تھی۔ پانچوں نمازیں حضورؒ کی اقتدا میں ادا کرنے کی توفیق ملتی۔ ایک جمعہ کی نماز میں میرے ساتھ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نماز ادا کرنے میں مصروف تھے۔ ان کی قربت میں نماز ادا کرنے کا بہت لطف آیا۔ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اکثر فجر کی نماز کے بعد اپنے کوارٹر میں لے جاتے اور چائے کی پیالی سے تواضع کرتے۔ اُن کے کوارٹر کا پانی ابھی نمکین تھا جس سے چائے بنائی جاتی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے بزرگوں نے ربوہ میں رہائش کے ابتدائی ایام میں کس قدر تکالیف ہنسی خوشی سے برداشت کیں۔ صحابہ ابھی کثرت سے تھے جن کی خدمت کی توفیق بھی ملتی ۔ پڑوس میں بہت بزرگ فیملیاں مقیم تھیں۔ خاکسار سے مشورہ کے لیے مریض گھر بھی آیا کرتے تھے اور محلے پڑوس والے بھی کبھی دروازہ کھٹکھٹا دیتے۔ پڑوسی یہ سب بڑے تحمل سے برداشت کرتے۔ خدا کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرنے اور ہنسی خوشی تکالیف برداشت کرنے والے انہی لوگوں کی اولادیں آج دنیا کے ہر براعظم میں موجود ہیں۔
فضل عمر ہسپتال چھوٹا سا تھا لیکن مریضوں سے بھرا رہتا تھا۔ اکثر مریض غریب دیہاتی ہوتے تھے۔ اپنے شدید مریضوں کو چارپائیوں پر اٹھاکرگاؤں کے آدھے افراد ہسپتال پہنچتے اور وہیں ڈیرہ لگالیتے۔ مریض ہسپتال میں داخل ہوجاتا اور لواحقین باہر بیٹھے رہتے، وہیں کھاتے پیتے اور وہیں سوتے۔ ہسپتال والے بھی ان کی اس عادت سے واقف تھے اس لیے بڑے تحمل سے انہیں برداشت کرتے تھے۔ جب مریض تندرست ہوجاتا تو ہنسی خوشی واپس جاتے اور ڈاکٹر کے لیے بڑی محبت سے دودھ یا چند انڈے پیش کردیتے۔

صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب

مکرم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ہسپتال کے انچارج تھے۔ تشخیص میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ مریضوں اور غریبوں کی ہمدردی دل میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں ہر طرف تنگدستی کا عالم تھا، بعض دوائیں مہنگی اور غریبوں کی دسترس سے باہر ہوتی تھیں۔ میاں صاحب کوشش کرکے ہرممکن علاج مریضوں کو فراہم کرنے کی پوری کوشش فرماتے۔ مَیں انگلستان سے آیا تھا جہاں علاج مفت تھا لیکن ربوہ آکر مالی اعتبار سے بےحد تفاوت کے باوجود مجھے کبھی کسی مریض کو صحیح علاج فراہم کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ تپ دق کا مرض عام تھا لیکن ہمارے ہسپتال میں اس کا علاج صحیح اور سائنسی طریق پر کیا جاتا تھا۔ خون اور بلغم ٹیسٹ کرنے اور ایکسرے کرنے کا بہترین انتظام تھا۔ اکثر مریضوں کا علاج مفت ہوتا تھا۔ ٹی بی کا علاج مَیں نے انگلستان میں ٹی بی سینیٹوریم میں تربیت کے دوران سیکھا تھا جس کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔ کچھ ہی عرصے میں ربوہ سے اس بیماری کا خاتمہ ہوگیا۔ بیرونی مریضوں کا علاج جاری رہا۔ میاں صاحب نے غریب مریضوں کی ہمدردی میں جماعت کے افراد کو تحریک کی اور علاج کے لیے ایک مستقل فنڈ قائم کیا جو آج بھی جاری ہے۔
ربوہ میں جلسوں، اجتماعات اور مشاعروں کا خوب رنگ تھا۔ علماء کی تقاریر ازدیاد علم کا باعث بنتیں۔ اجتماعات میں حضرت خلیفۃالمسیح بنفسِ نفیس شرکت فرماتے۔ کالج سکول ابھی جماعت کی تحویل میں ہی تھے، وہاں بہت عمدہ محفلیں ہوتیں۔ کھانے سادہ اور لذیذ، زمین پر دسترخوان اور مٹی کے برتنوں میں کھائے جاتے۔ موٹریں چند تھیں، گلیاں اور سڑکیں کچی تھیں۔ چند تانگے شہر کے رہنے والوں کے لیے نقل و حمل کی ضروریات کو پورا کرتے۔ مریضوں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت دشوار ہوتا اس لیے مریضوں کو گھروں میں ہی دیکھنے کا رواج پکڑ گیا۔ آندھی آتی تو دھول مٹی تمام فضا میں پھیل جاتی۔ بارش ہوتی تو کیچڑ کی وجہ سے چلناپھرنا بھی دشوار ہوجاتا۔ چند دکانیں تھیں، دو تین بازار تھے۔ ایک دو بیکریاں تھیں۔ چیزیں خالص اور ملاوٹ سے پاک ہوتی تھیں۔ دودھ سبزی باہر سے لائی جاتی تھیں۔ لیکن کوئی دشواری لوگوں کو دل برداشتہ نہیں کرتی تھی کیونکہ سب ہی درویش صفت اور خداپرست تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں