جلسہ سالانہ یوکے 2011ء سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا افتتاحی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت جلسہ کا یہ رسمی افتتاح ہو رہا ہے، آغاز ہو رہا ہے۔ رسمی طور پر اس لئے کہ ہم آج کے خطبہ جمعہ کو بھی جلسہ کا حصہ سمجھتے ہیں اور اس میں شامل ہونے کے لئے اس ملک میں رہنے والے احمدی  بڑی کوشش کر کے اپنے جلسے کا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ پھر ڈیوٹی والوں کے لئے آج سے ہی نہیں بلکہ دس پندرہ دن پہلے سے، جب سے یہاں کام شروع ہوا ہے جلسے کے انتظامات میں تیزی آئی ہے، اُس وقت سے اُن کا جلسہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور ہزاروں کی تعداد میں یہ کارکنان اس میں شامل ہیں، اور آج آپ لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک خوبصورت عارضی شہر ان کارکنان نے جلسہ کے انعقاد کے لئے کھڑا کر دیا ہے جس میں آپ آرام سے جلسہ سننے کے لئے بیٹھے ہیں۔ آج دنیا میں جہاں جہاں جماعتیں جلسہ سالانہ منعقد کرتی ہیں ایک وسیع انتظام ہے جو جلسہ منعقد کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہ کوئی معمولی جلسہ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی خاطر، اللہ اور رسول کی باتیں سننے کے لئے، اپنے نفسوں کی اصلاح کے لئے ایک وسیع اجتماع ہے جو منعقد کیا جاتا ہے۔ الحمدللہ کہ آج یو۔کے کی جماعت کو ایک بار پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے اور افرادِ جماعت کی روحانی پیاس بجھانے کے لئے یہ جلسہ منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو ان دنوں میں یہ بات خاص طور پر اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ جلسہ کے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہم نے یہ تین دن گزارنے ہیں، ورنہ ہمارا یہاں آنا فضول اور عبث ہو گا۔ جماعتی انتظامیہ اور کارکنان نے آپ کی سہولیات اور جلسہ کے انتظام کو بہتر سے بہتر کرنے کے لئے اپنی بساط اور طاقت کے مطابق جو کوشش کی ہے اُس کا صحیح بدلہ بھی نہیں دے رہے ہوں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی یہ عاجزانہ کوششیں قبولیت کا درجہ پا کر اُن کو ثواب دلانے کا موجب بنتی ہیں لیکن جو شامل ہونے والے ہیں، اس کا حق ادا نہیں کرتے اور جلسہ کے مقصد کو نہیں سمجھتے۔ اگر یہاں جلسہ پر آنے کے لئے جوآپ کی ذمہ داریاں ہیں اُن کو پورا نہیں کر رہے تو اپنے آپ کو انعامات سے محروم کر رہے ہوتے ہیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیشہ جلسہ کے مقصد کو  پیشِ نظر رکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ زُہد،تقویٰ، خدا ترسی، نرم دلی، محبت و مؤاخات، عاجزی، سچائی و راستبازی اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی دکھانا ہے۔   (مأخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 394)

               اس وقت مَیں آپ کے سامنے ان چند باتوں کی مختصر وضاحت کر دیتا ہوں۔ ہم پڑھتے بھی ہیں، سنتے بھی ہیں، کہتے بھی ہیں کہ زہد و تقویٰ ایک مومن کی شان ہے لیکن زہد کی حقیقت پر کم غور کرتے ہیں اور پھر اس کو زندگی کا حصہ بنانے کا بہت کم حق ادا کیا جاتا ہے۔ بہت سے صاحبِ علم بیشک اس کے معنی بھی جانتے ہوں گے لیکن بعض دفعہ ذاتی مفادات اس پر عمل سے اُنہیں بھی روک دیتے ہیں۔ وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔ اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے، عامۃ المسلمین کا اور ایک عام احمدی کا تعلق ہے ہم زہد کے سادہ معنی یہی جانتے ہیں کہ نیکی ہے۔ لیکن امام الزمان جنہوں نے اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی مدد اور تائید سے نئے زمین و آسمان پیدا کرنے ہیں اور کئے ہیں، وہ جب اپنے ماننے والوں کو کسی امرکی طرف توجہ دلاتے ہیں تو اُنہیں اُن روحانی خزانوں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جو نیکیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے سے ملتے ہیں،اور جن کے حصول سے بندہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا بن جاتا ہے۔ دنیاوی خزانے تو خدا تعالیٰ کے قرب کی ضمانت نہیں لیکن یہ روحانی خزانے وہ ہیں جو انسان کی بقا کے بھی ضامن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی بھی ضمانت ہیں۔ لیکن یہ روحانی خزانے اُس کو ملتے ہیں جو ان کے پانے کے لئے پھر اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرتاہے۔ یہ وہ خزانے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہیں۔ پس جب ہم گہرائی میں جا کر آپ کی تحریرات اور ارشادات کو پڑھتے اور سنتے ہیں اور اُن پر غور کرتے ہیں اور اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنے آپ کو نئے روشن راستوں پر چلتا ہوا دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ میں بتا رہا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ جلسہ میں آ کر زُہد پیدا کرو۔ اور زُہد کیا چیز ہے؟ اس کے معنی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

               زُہد کا مطلب ہے کہ ہر قسم کے جذبات کو قربان کرنا، اپنی دلی خوشی سے کسی دعوے سے دستبردار ہونا، مستقل مزاجی سے کسی بری چیز سے نہ صِرف صَرفِ نظر کرنا بلکہ اُسے رد کرتے چلے جانا، دنیا کی خواہش نہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بعض باتوں سے بچنا جن سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور نیکیوں کو اختیار کرنا۔ اپنے معاملے خدا تعالیٰ پر چھوڑنا اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی اپنا مقصود بنالینا۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی ایک لفظ میں ہماری اصلاح کے لئے اُس خزانے کو بند کر دیا ہے جو اگر ہماری زندگی کا حصہ بن جائے تو ہماری دنیا بھی سنور جائے اور دین بھی سنور جائے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے اُسوہ حسنہ بنا کر بھیجا ہے اور فرمایا اس رسول کی پیروی کرو یہ تمہارے لئے نمونہ ہے۔ فرماتا ہے :   لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُواللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا( سورۃ الاحزاب: 22)   ۔تمہارے لئے اُن لوگوں کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت سے ملنے کی امید رکھتے ہیںاور اللہ کا بہت ذکر کرتے ہیں، اللہ کے رسول میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے اس لئے اس کی پیروی کرو۔

               جب ہم آپؐ کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو زُہد کا کیا نمونہ نظر آتا ہے۔ اب زہد کے معنوں سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ دنیا میں کوئی دلچسپی ہی نہ ہو۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر لامام رازیؒ جلد 6جزء12صفحہ 57سورۃ المائدۃ:32لتجدنّ اشد الناس عداوۃ…)  آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ حلال کو اپنے اوپر حرام کر لینا اور اپنے مال کو ضائع کر دینے کا بھی زہد سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی اپنے مال کی پرواہ نہیں کرتا، اُسے ضائع کر دیتا ہے، دنیاوی جھمیلوں سے فرار حاصل کر کے جنگلوں میں چلا جاتا ہے، رشتوں کے حقوق کی ادائیگی سے بچتا ہے تو یہ بھی زُہد کے خلاف ہے۔  (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الزھد فی الدنیاحدیث نمبر:4100) ۔ فرمایا زہد یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے خدا کی خاطرجذبات کی قربانی کی جائے۔اگر کوئی حق چھوڑنا بھی ہے تو خدا کی رضا کے حصول کے لئے چھوڑنا ہے۔ دنیا کی خواہشات کو اللہ کی رضا کے حصول میں روک نہ بننے دینا یہ زُہد ہے۔ دین کی سربلندی کے لئے دولت کوخرچ کرنا اور حقوق العباد کے لئے خرچ کرنا، یہ زُہد ہے۔ اگر دولت کمائے گا ہی نہیں تو دین اور حقوق العباد کے لئے خرچ کس طرح کرے گا؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے احمدی بھی ہیں جو کروڑوں کماتے ہیں اور اپنے لئے گزارہ کی رقم رکھ کر کروڑوں کی مالی قربانی کرتے ہیں۔ مجھے لکھتے ہیں کہ فلاں کام میں اتنے منافع کی امید ہے اور میں نے عہد کیا ہوا ہے کہ وہ تمام منافع جو کروڑوں میں ہے کسی جماعتی منصوبے کے لئے دے دینا ہے۔

                پس آج جماعت احمدیہ میں یہ خوبصورتی ہے کہ اس میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی دنیا کی بے رغبتی دنیا سے دور بھاگ کر نہیں ہے بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی جائز خواہشات کو کم کر کے اللہ کے راستے میں یہ دنیا رکھ دیتے ہیں۔ یہ وہ زُہد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ زُہد ہے جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

               ’’دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ سوائے اس حالت کے جب خدا چاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے کہ وہ دنیا کے کاروبار میں پڑ کر بھی اپنے دین کو مقدم رکھے۔ ایسے شخص بھی دنیا میں ہوتے ہیں۔چنانچہ ایک شخص کا ذکر تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص ہزارہا روپیہ کے لین دین کرنے میں مصروف تھا۔ ایک ولی اللہ نے اُس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اُسے معلوم ہوا کہ اُس کا دل باوجود اس قدر لین دین روپیہ کے خدا تعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا۔ ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے  رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہ(سورۃ النور:38) کوئی تجارت اور خریدو فروخت اُن کو غافل نہیںکرتی۔ اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کوبھی نہ بھولے۔ وہ ٹٹو کس کام کا ہے جو بروقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہو تو خوب چلتا ہے۔ وہ قابلِ تعریف نہیں۔ وہ فقیر جو دنیوی کاموںسے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں۔ ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کر دو اور دنیوی کاروبار کو چھوڑ دو۔ نہیں، بلکہ ملازم کو چاہئے کہ وہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدّم رکھے‘‘۔  (ملفوظات جلد 5صفحہ162۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت سے کس طرح زُہد کے معیار قائم کروائے۔ جب فتوحات ہوئیں اور سونے چاندی اور مالِ غنیمت کی فراوانی ہوئی تو پھر بھی اُن کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی طرف توجہ دلائی اور دنیاوی مال غریبوں میں تقسیم کر دیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی میرے آقا اور میرے جان سے پیارے باپ! آپ کے پاس غلام آئے ہیں، آپ تقسیم کر رہے ہیں تو ایک مجھے بھی عطا فرما دیں کہ چکّی پیس پیس کر میرے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے ہیں، پانی کا مشکیزہ اُٹھا اُٹھا کر کمر پر نشان پڑ گئے ہیں۔ آپؐ نے یہ سُن کر فرمایا کہ میری پیاری بیٹی! ایک تو پہلی بات یہ ہے کہ وہ تو تجھ سے پہلے ہی مستحق لوگوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ تمہیں مَیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے اور دنیا سے بے رغبت کر دے گی کہ تم سوتے وقت گیارہ دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَر، گیارہ مرتبہ الحمدللہ اور گیارہ مرتبہ سبحان اللہ پڑھا کرو (سنن أبی داؤد ابواب النوم باب فی التسبیح عند النوم حدیث:5063)۔ پس جب دنیاوی کاموں سے فارغ ہو کر انسان سونے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی بڑائی کو بیان کرنا اور غور کرنا، اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور غور کرنا، اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنا اور غور کرنا ، یقینا اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا بن جاتا ہے۔ بجائے اس سوچ کے کہ آج مَیں نے یہ دنیاوی کام کئے ہیں، یہ فائدے اُٹھائے ہیں اور صبح یہ فائدے اُٹھانے ہیں یا مَیں تو آج اِن اِن چیزوں سے،دنیاوی چیزوں سے محروم رہا ہوں، کس طرح اِن کو حاصل کرنا ہے یہ طریقے سوچتا رہے اور سو جائے، اللہ کو یاد کر کے سوئے اور دن ایمان پر رہتے ہوئے گزرنے پر شکر اور حمد کرے تو یہ زُہد ہے۔ اگر انسان مستقل مزاجی سے برائیوں سے صَرفِ نظر کرے اور عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (سورۃالمؤمنون:4)۔  لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں کہ قرآنی حکم پر عمل کرے، لغویات کو ردّ کرے تو یہ زُہد ہے۔ بداخلاقی اور بیہودہ باتوں سے رُکنا اور اچھی باتوں اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا، یہ زُہد ہے۔ اپنی اَناؤں کو دور پھینک کر صلح کی بنیاد ڈالنا، آپس کی رنجشوں کو دور کرنا، یہ زُہد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے آپس میں محبت، بھائی چارے اور سلام کو فروغ دینا یہ زُہد ہے۔ پس انسان کا ہر عمل جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو تو پھر یہ عبادت بن جاتا ہے اور یہی زُہد ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان کاموں میں سے یہ ایک کام ہے جس کے لئے جلسہ منعقد کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے اندر یہ حالت پیدا کی جائے کہ اپنی دنیا کو دین بنا لو اور خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنا لو۔ یہاں آ کر اپنے اندر وہ روحانی گرمی پیدا کرو جو دین کی خاطر دنیا کی خواہشات کو جلا دے اور دین کی خاطر دنیا کمانے کی روح پیدا کرے اور اُسے صیقل کرے۔ پس ایک تویہ مقصد ہوا جو مَیں نے یہاں ذکر کیا ہے۔

               دوسری اہم بات یہ بتائی کہ جلسہ پر آئے ہو تو اس کا تبھی فائدہ ہے جب تقویٰ پیدا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مصرعہ ترتیب دیا کہ ’’ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتّقا ہے‘‘۔  اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاماً یہ مصرعہ نازل ہوا کہ ’’اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے‘‘۔ (الحکم 10دسمبر1901ء جلد5نمبر45صفحہ3کالم نمبر1)

               قرآنِ کریم میں تقویٰ پر چلنے اور اس کے حوالے سے بیشمار احکامات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتری ہوئی تعلیم اور کتاب کی حکومت کو دنیامیں قائم کرنے کے لئے آئے ہیں، اُنہیں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تقویٰ جو دین کی بنیاد ہے اور جس کے گرد تمام قرآنی احکامات گھومتے ہیں، اگر انسان اس کو پکڑ لے تو حقیقی مومن بنتا ہے۔ اس لئے اپنے ماننے والوں کو بھی بتا دو کہ اگر حقیقی مومن بننا ہے تو یہ تقویٰ ہی ہے جس کی جڑ دلوں میں قائم کرنی ہے۔ اگر یہ قائم ہو گئی تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے مقصدِ پیدائش کو حاصل کر لیا۔ نیکیاں بھی وہی فائدہ دیں گی جو تقویٰ پر بنیاد رکھتے ہوئے ہوں۔ عبادتیں بھی وہی کام آئیں گی جن کی بنیاد تقویٰ پر ہو۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے بچنا، اور یہی اصل نیکی ہے۔ کسی ایک نیکی کو کرنے والا اگر نیکی کر کے اپنے آپ کو نیک سمجھنے لگ جائے تو وہ نہ ہی نیکیوں میں ترقی کر سکتا ہے، نہ ہی تقویٰ کے اُس معیار پر پہنچ سکتا ہے جس پر اللہ اور اُس کا رسول ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی یہ نشانیاں بتائی ہیں ۔ سورۃ البقرہ کی آیت ہے، اللہ فرماتا ہے:

               لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاِٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمَی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ۔ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوا۔ وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ  والضَّرَّآئِ  وَحِیْنَ الْبَاْسِ۔ اُوْلٰـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ۔وَاُوْلٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ (البقرۃ:178) کہ نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی اُسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر اور مال دے اُس کی محبت رکھتے ہوئے اقرباء کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو ، نیز گردنوں کے آزادکرانے کی خاطر اور جو نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور وہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں جب وہ عہد باندھتے ہیں اور تکلیفوں اور دکھوں کے دوران صبر کرنے والے ہیں، اور جنگ کے دوران بھی، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدق اختیار کیا اور یہی ہیں جو متقی ہیں۔

               اس آیت میں پہلی بات تو یہ بتا دی کہ نیکی کے کچھ لوازمات ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہی ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے نمازی بھی ہیں جن کی نمازیں اُن کے لئے ہلاکت ہیں، اُن کے منہ پر ماری جائیں گی۔ ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور یہ بہت اہم حکم ہے کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ؐ حدیث نمبر:1)  کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ پس یہ ایک اصولی بات ہے کہ حقیقی نیکی وہی ہے جو اس نیت سے کی جائے کہ خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے کرنی ہے اور اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی نیکی خدا کی مخلوق کے فائدے کے لئے ہو گی نہ کہ نقصان پہنچانے کے لئے۔ اگر ایک طرف تو یہ زعم ہو کہ ہم بہت نمازیں پڑھنے والے اور مسجدوں میں جمع ہونے والے ہیں اور دوسری طرف جیسا کہ آجکل پاکستان اور دنیا کے بعض ممالک میں مساجد میں ہو رہا ہے کہ احمدیت کے خلاف زہر اُگلا جا رہا ہے۔ خدا کے نام پر عبادت کے لئے آنے والے ، یہ نام نہاد عبادت کے لئے آنے والے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور احمدیوں کے خلاف اپنے نام نہاد علماء کی دشنام طرازیاں نمازوں کے بعد یا پہلے سنتے ہیں تو ایسے امام بھی اور ایسی نمازیں بھی بیشک قبلہ رو ہو کر تو پڑھی جاتی ہیں۔ یہ لوگ قبلہ رُو ہو کر تو کھڑے ہیں، لیکن اللہ کے نزدیک یہ نیکیاں نہیں ہیں کیونکہ دوسروں کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے، دوسروںکی جانوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا ہے، سارے قرآنِ کریم میں ایک جگہ بھی نہیں ہے کہ تم میری مخلوق پر ظلم کرو، انسانی قدروں کی پامالی کرو، ظلم و بربریت کے بازار گرم کرو۔ وہ نمونے دکھاؤ جو مخالفینِ انبیاء کا شیوہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کا مسجد میں آنا یا ظاہری طور پر رکوع و سجود کرنا کوئی نیکی نہیں، اس لئے کہ یہ تقویٰ سے دور ہے۔ پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے لوگوں کی صف سے باہر کر دیا ہے۔ پس حقیقی نیکی کی تلاش ایک مومن کا خاصہ ہے اور یہ اخلاص اور سوزو گداز کے ساتھ ، اللہ تعالیٰ کے حضور کئے گئے رکوع و سجود سے پیدا ہوتی ہے، نہ کہ ظلم و بربریت کی منصوبہ بندی سے۔ ذکرِ الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت سے پیدا ہوتی ہے جس میں نفس کی ملونی نہ ہو۔ مخلوقِ خدا سے ہمدردی اور اُن کے حق کی ادائیگی کا نام حقیقی نیکی اور تقویٰ ہے۔ حقیقی تقویٰ پر چلنے والا غریبوں، یتیموں اور بیکسوں کی محبت میں ترقی کرتا ہے، نہ کہ اُن کے حقوق کی پامالی۔ بہر حال اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ روحانیت میں اگر ترقی چاہتے ہو اور نیکیوں کی حقیقت اگر سمجھنا چاہتے ہو تو ایمان باللہ میں ترقی کرو۔

               دوسری بات کہ یومِ آخرت پر ایمان، یہ یومِ آخرت پر ایمان تقویٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ فرشتوں پر ایمان بھی ایک حقیقی مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ پھر کتاب پر ایمان ہے اور نبیوں پر ایمان ہے۔ اب کسی کا یہ کہنا کہ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں، ہم ان ارکان پر ایمان لانے والے ہیں، اُس کو تقویٰ کی راہوں پر نہیں چلا دیتا۔ جب تک ایک حقیقی مومن اپنے ایمان کی حالت کا عملی اظہار نہ کریاور اس عملی حالت کا اظہار یہ ہے کہ وَاٰتَی الْمَالَ عَلیٰ حُبِّہٖ (سورۃ ا لبقرۃ:178)) کہ مال، اُس کی محبت رکھتے ہوئے خرچ کرے۔ آجکل کے مادی زمانے میں خاص طور پر ضروریات بھی مختلف نوع کی ہو چکی ہیں اور خواہشات بھی بڑھ چکی ہیں۔ اب محبت رکھتے ہوئے خرچ کرنے کے بھی کئی معنی ہیں لیکن بہر حال یہاں مَیں کچھ بیان کرتا ہوں۔ انسان کی خواہشات بڑھ چکی ہیں، اُس پر مستزاد یہ کہ ٹی وی، میڈیا، سڑکوں پر اشتہارات انسان کی توجہ نئی نئی ایجادات اور سہولتوں کی طرف کرواتے ہیں اور ہر کوئی خواہش کرتا ہے کہ یہ بھی میرے پاس ہو اور یہ بھی میرے پاس ہو۔ اور وسائل محدود ہوتے ہیں۔ اب یہاں مال کے خرچ کی ترجیح دیکھنی ہو گی۔ اگر تو مال کی محبت اور اپنی ذاتی ترجیحات مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں روک بن گئی تو انسان تقویٰ سے دور ہو گیا۔ بعض ایسے بھی ہوں گے جن کے وسائل محدود نہیں لیکن مال کی محبت اُنہیں اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے روک رہی ہوتی ہے۔ پھر بعض دفعہ انسان اپنا مال کسی نیک کام میں خرچ تو کر دیتا ہے لیکن چٹّی سمجھ کر کرتا ہے۔ یہ خرچ بھی مجبوری کا خرچ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ کے حصول کے لئے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا خوش دلی سے ہونا چاہئے، نہ کہ کسی سیکرٹری مال یا عہدیدار کے مجبور کرنے پر۔ بلکہ ایک حقیقی مومن کے دل میں یہ تڑپ ہوتی ہے اور ایک شوق ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے اورمال خرچ کر کے اُسے خوشی اور لذت محسوس ہوتی ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ایسے ہزاروں افراد مرد اور خواتین ہیں بلکہ بچے بھی ہیں جو اپنا مال دلی خوشی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ بغیر توجہ دلانے پر خود آ کر پیش کرتے ہیں، بلکہ کئی بچے میرے پاس آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنے جیب خرچ کی تمام رقم فلاں مدّ میں دے دی ہے یا فلاں مدّ میں دینا چاہتے ہیں۔ تو یہ ایمانی حالت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں نظر آتی ہے۔

                اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بعض اُن چیزوں کی طرف بھی توجہ دلا دی جہاں خرچ کرنا ہے کہ اقرباء پر، یتیموں پر، مسکینوں پر، مسافروں پر، سوال کرنے والوں پر اور گردنوں کے آزاد کروانے یعنی غلامی اور ناجائز قید سے نکالنے والوں کے لئے بھی خرچ کرو۔ پھر دینی ضروریات کے لئے مالی قربانی کی بھی اَور جگہ توجہ دلائی گئی ہے۔ مال کی محبت ہوتے ہوئے دینی ضروریات کے لئے خرچ کرو۔ اور یہ خوبصورتی آج صرف جماعت احمدیہ میں ہے کہ ہر کام کے لئے منظم طور پر مالی قربانی کی وصولی اور خرچ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جلسہ پر جب لوگ آتے ہیں تو پھر ایک نئی روح کے ساتھ اس قربانی میں حصہ لیتے ہیں اور یہ تقویٰ میں ترقی کا باعث ہے۔

               پھر ایک بہت اہم کام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہاری روحانی ترقی کے لئے تمہاری عبادت کی عملی حالت جو نماز کے قیام کی صورت میں ہے اس پر توجہ دو، اور اَقَامَ الصَّلٰوۃ جہاں نماز باجماعت کا قیام ہے وہاں اپنی توجہ خالص اللہ تعالیٰ کی طرف رکھتے ہوئے نمازوں کی ادائیگی کرو۔ پہلے میںنے مثال دی کہ ایسی نمازیں بھی ہیں جو اُلٹائی جاتی ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والوں کی نمازیں نہیں ہیں۔ اگر نماز میں خیالات منتشر ہوتے بھی ہیں تو اَقَامَ الصَّلٰوۃ کا مطلب یہ ہے کہ اُنہیں بار بار توجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت پر مرکوز کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب بہت سارے لوگ ہوں اور نیکیوں کے حصول کی طرف توجہ ہو، جس طرح ہم یہاں جلسے پر جمع ہوتے ہیں، پھر نمازوں کی لذت کی طرف توجہ ہو، تو پھر ہر ایک دل میں خیال آتا ہے اور آنا چاہئے کہ میں بھی ان نیکی کرنے والوں اور عبادت کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں۔ ایک دوسرے کے نمونے دیکھے جاتے ہیں ۔ اکثر لوگ بعد میں خط لکھتے ہیں کہ جلسے پر ہمیں عبادت کا خاص لطف آیا اور ایک خاص ماحول تھا جس سے ہمیں بڑا فائدہ ہوا۔ پس جب یہ مزا اور لُطف آئے تو پھر یہ حقیقی تقویٰ ہے اُسے پھر ہر ایک کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہئے۔

               پھر زکوٰۃ دینے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پہلے بھی مال کی محبت رکھتے ہوئے بعض خرچوںکی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اب پھر زکوۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ نماز کے قیام کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانا ایک تو یہ ہے کہ جہاں تم اپنی عبادتوں سے حقوق اللہ کی ادائیگی کرتے ہو وہاں زکوٰۃ کی ادائیگی سے حقوق العباد کا بھی خیال تمہارے ذہن میں ہر وقت رہنا چاہئے، ورنہ اگر تم حقوق العباد ادا نہیں کر رہے تو تمہارے حقوق اللہ اور عبادتیں بھی ضائع ہو سکتی ہیں۔ ایسے ہی وہ لوگ ہیں جیسا کہ مَیں نے پہلے مثال دی جن کی نمازیں اُن پر الٹائی جاتی ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بعض اوقات حقوق العباد، حقوق اللہ سے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر حقوق العباد کی ادائیگی نہیں ہے تو حقوق اللہ بھی بے فائدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم تو یہ ہے کہ اُس کے بندوں کے بھی حقوق ادا کئے جائیں۔

                دوسرے دوبارہ زکوٰۃ کی صورت میں مال کی قربانی کی طرف توجہ دلائی کہ پہلی تو طوعی قربانی تھی کہ تم مال کی محبت نہ رکھتے ہوئے وہ کرو، لیکن چند لوگوں کی خدمت کر کے یا چند ایک کی مالی مدد کر کے ،صدقہ دے کر جو تم نے کر لی ہے یہ نہ سمجھو کہ اب ہمیں لازمی چندوں کی ضرورت نہیں ہے اور مالی قربانیوں کی ضرورت نہیں ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی کی ضرورت نہیں ہے۔ زکوٰۃ دینا تو لازمی چیز ہے۔ ہر صاحبِ مال پر اُس کی ادائیگی بہر حال فرض ہے۔ پہلی مالی قربانی تو لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنے طور پر بھی دی جا سکتی ہے جیسا کہ میں نے کہا لیکن یہ مالی قربانی جماعتی طور پر کرنی لازمی ہے تا کہ منظم رنگ میں بھی بیت المال کا نظام قائم ہو اور جماعتی سطح پر بھی جہاں حقوق العباد ادا ہو رہے ہوں وہاں جماعتی ضروریات بھی پوری ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے ایک مومن کی تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے حصول کی طرف رہنمائی فرما دی۔

               اور پھر اس کے بعد اپنے عہدوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اس میں ہر طرح کے عہد شامل ہیں۔ ایک وہ معاہدے جو لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں، چاہے وہ کاروباری معاہدے ہیں یا آپس کے معمولی معاہدات ہیں۔ اگر حقیقی متقی بننا چاہتے ہوتواُن کا پاس کرنا، اُن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اورپھر یہی نہیں ایک تقویٰ پر چلنے والے کے لئے ملکی قانون کی پاسداری بھی ضروری ہے، سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے ٹکرانے والا ہو، جیسا کہ پاکستان میں جماعت کے خلاف بعض قانون ایسے بنے ہوئے ہیں جو ہمیں ہمارے مذہبی شعائر کی ادائیگی سے روکتے ہیں۔ یہ قانون کی پاسداری جو ہے یہ بھی ایک شہری کا فرض ہے اور ایک عہد کی پابندی ہے کہ وہ اپنے معاشرے اور ملک کی بہتری کے لئے کام کرے گا۔ اسی طرح ایک عہد دین پر عمل کرنے کا  ہے۔ اور ایک احمدی اس عہد کو کئی مرتبہ مختلف موقعوں پر دہراتا ہے۔ اور یہ عہد کی پابندی بھی تقویٰ سے قریب لانے والی ہے۔

               پھر تکلیفوں اور دُکھوں میں صبر کرنا۔ صبر بھی ایک بہت بڑا خُلق ہے۔ اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بہت بشارتیں دی ہیں۔ اس صبر کا اظہار ایک تو جماعتی رنگ میں ہے جو دنیا میں رہنے والا ہر احمدی جس جگہ بھی ہے اُسے مخالفین کے ظلموں کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ وہ صبر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی یہ ایک امتیازی شان ہے جو دنیا کے ہر شریف الطبع شخص کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی اور اس میں تمام دنیا میں ایک احمدی ہے جس کا کوئی دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن آپس کے معاملات میں صبر کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کی بہت ضرورت ہے۔ جلسے کے دنوں میں اللہ تعالیٰ سے اس صبر کے حصول کی بھی بہت دعاکرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن باتوں کا اس آیت میں بیان ہوا ہے اگر ایک مومن ان پر عمل کرے گا تو وہ یقینا صدق و وفاکے ساتھ تقویٰ پر چلنے والا ہے۔ یہ چند باتیں میں نے تقویٰ کے حوالے سے مختصر ذکر کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیشمار جگہ مختلف رنگ میں تقویٰ کی وضاحت فرمائی ہے۔ پس ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ حقیقی تقویٰ کے حصول کی کوشش کرے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے کا انعقاد فرمایا تھا اور حقیقی تقویٰ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ہے کہ ہر چھوٹے بڑے گناہ اور برائی سے اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے بچنا۔

               پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جلسے کا ایک مقصد خدا ترسی پیدا کرنا بھی ہے۔ خدا ترسی یا خدا سے ڈرنا بھی اُس وقت ہوتا ہے جب ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو یا تقویٰ دل میں پیدا ہو۔

               پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جلسے کا ایک مقصد نرم دلی پیدا کرنا بھی ہے۔ اگر یہ پیدا نہیں ہوتی تو جلسے پر آنا بے مقصد ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جن خصوصیات کے لوگوں کو مغفرت کی اور جنتوں کی خوشخبری دی ہے اُن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں فرمایا،  وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (سورۃآل عمران:135)۔ اور غصہ کو دبانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں۔ غصہ کو دبانے والے اور معاف کرنے والے اور دوسروں سے رحم کا سلوک کرنے والے وہی ہو سکتے ہیں جن کے دل نرم ہوں ۔ پتھر دل اور غصیلا کبھی یہ عمل کر ہی نہیں سکتا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن (سورۃآل عمران:135) کہ اللہ تعالیٰ محسنوں سے محبت کرتا ہے۔ غصہ دبانا اور معاف کرنا ایک بہت بڑا خُلق ہے۔ یعنی جائز غصے کو بھی دبانا اور خدا کی رضا کے لئے احسان کرتے ہوئے معاف کرنا اور یہ خُلق اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ جو احسان کرتے ہوئے یہ عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے اور اس محبت کا نتیجہ یہ ہے کہ اُن کے لئے مغفرت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ ان کے ذریعے سے جنت میں داخل ہوتے ہیں۔ غصّہ دبانا بذاتِ خود ایک بہت بڑا خُلق ہے۔ لیکن جب غصہ دبانے کے ساتھ انسان کسی کو سچے دل سے معاف کرے اور دل میں کسی قسم کی کدورت نہ رکھے، یہ حقیقی عفو ہے اور یہ دل کی نرمی ہے۔ پس یہ نمونے ہیں کہ اپنے دلوںکو ہر قسم کی کدورتوں سے بالکل پاک کرو، اور نہ صرف پاک کرو بلکہ ایک قدم آگے بڑھا کر احسان کا بھی سلوک کرو۔ حدیث میں آتا ہے کہ تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے۔  (مؤطا امام مالک کتاب حسن الاخلاق باب ماجاء فی المھاجرۃ حدیث نمبر:1685)پس معاف کرنے کے بعد جب تحفے دئیے جائیں تو پھر غلطی کرنے والا بھی شرمندہ ہو جاتا ہے اور کسی نہ کسی کو یہ قدم اُٹھانا چاہئے۔ اگر خود معاف کرنے والا یہ قدم اُٹھائے گا تو معاشرے میں خوبصورت اور حسین احساسات اور جذبات پیدا ہوں گے۔ آپس کا تعلق اور محبت پیدا ہو گی۔ ہمارے جلسوں میں، اجتماعات میں یہ نرمی اور آپس کی محبت غیروں کو بہت زیادہ نظر آتی ہے۔ ایک ڈسپلن نظر آتا ہے۔ اگر روزمرہ کی زندگی میں بھی یہ نمونے نظر آنے لگ جائیں تو انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی ہر شخص پر اللہ تعالیٰ کے فضل پہلے سے بڑھ کر نازل ہوں۔

               آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر غصے کا ایک گھونٹ پی لینا اتنا بڑا اجر رکھتا ہے کہ وہ دوسری کسی بھی چیز کانہیں ہے۔

 (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 826مسند عبداللہ بن عباسؓ حدیث نمبر:3017)

                ایک مرتبہ آپؐ سے کسی نے درخواست کی کہ کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے کئی مرتبہ دہرایا کہ غصہ میں مت آؤ، غصہ میں مت آؤ۔    (بخاری کتاب الأدب باب الحذر من الغضب حدیث نمبر:6116)

               حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔

(بخاری کتاب الأدب باب قول النبی ﷺ یسروا ولاتعسروا حدیث نمبر:6126)

               ہمارے سامنے اس خُلق کے اظہار میں صحابہ کے کیا نمونے تھے؟ اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس کو بیان فرمایا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسین کے غلام سے غلطی ہو گئی۔ آپ اُس غلام کو سزا دینے کے لئے بڑھے، یا تیز نظر سے دیکھا اُس نے فوراً کہا: اَلْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ  (آل عمران:135)۔ یہ سُن کر حضرت امام حسن نے کہا: ٹھیک ہے مَیں نے غصّے کو دبا لیا۔ یہ سُن کر اُس غلام نے کہا:   وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس(آل عمران:135)کہ  جو غصہ کو دبانے والے ہیں وہ  لوگوں سے درگزر کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ اعلیٰ اخلاق تو اللہ تعالیٰ نے یہ بتائے ہیں کہ پوری رضا مندی کے ساتھ معاف کیا جائے۔ اس پر حضرت امام حسن نے کہا: تجھ سے ایسے ہی عفو کا سلوک میں نے کیا، میں نے معاف کیا۔پھر اُس نے کہا۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن  َ (آل عمران:135)  یعنی اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ ہوتے ہیں جو عفو کے بعد پھر اس سے بڑھ کر نیکی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا جا میں نے تجھے آزاد کر دیا۔ (مأخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ115۔ ایڈیشن 2003ء مطبو عہ ربوہ)

               پس اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے لئے یہ نمونے اختیار کرنے پڑتے ہیں کہ اللہ کے نام پر دلوں میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔ اصل مقصود اپنی اَناؤں کی تسکین نہیں، اپنے بدلے لینا نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور یہی ایک مومن کا شیوہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا اُسی صورت میں ہو گی جب اُس کی خشیت ہو گی، ورنہ اگر ذرا ذرا سی بات پر بدلے لینے والے بن جائیں اور ذرا ذرا سی بات پر انسان غصہ دکھانے والا بن جائے تو دل سخت ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر اپنوں اور غیروں سب سے سخت دلی کا اظہار ہوتا ہے۔

               ایک مجمع میں جہاں بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو تکلیف کا باعث ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں ایسے موقعوں پر عفو اور نرم دلی کا اظہار ایک مومن کی شان ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہاں آئے ہو تو یہ خُلق بھی اپنے اندر پیدا کرو اور اُس کے معیار بڑھاؤ۔ بعض دفعہ لوگ یہاں بھی آتے ہیں، بعض پُرانی رنجشیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے آپس میں تُو تُو مَیں مَیں ہو جاتی ہے اور لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں تو جلسے کا ماحول اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ خُلق جو ہے ایک احمدی کے اندر بہت زیادہ ہونا چاہئے۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

               ’’یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے۔ جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اُس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اُس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصّہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ 132۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

                پھر آپ نے فرمایا کہ ’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اُس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلد ی طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونو جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اُس کی عقل موٹی اور فہم کُند ہوتا ہے۔ اُس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے توپورا جنون ہو سکتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد3صفحہ104۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               اور پھر صرف غصہ کو دبانا ہی نرم دلی نہیں ہے بلکہ دوسروں کی تکلیف دیکھ کر پریشانیوں میں مبتلا دیکھ کر اُن کے لئے ہمدردی کے جذبات دل میں آنا، اُن کی مدد کے لئے آگے آنا، یہ وہ ہمدردی اور دل کی نرمی کے جذبات ہیں جو ایک مومن کاحصہ ہیں اور جو ایک مومن میں پیدا ہونے چاہئیں۔

               پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جلسے کا ایک مقصد آپس میں محبت و مواخات پیدا کرنا ہے۔ مومنوں کی ایک خوبی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ  کہ آپس میں بے انتہا رحم کرنے والے ہیں۔ آپس کا رحم محبت و پیار میں بڑھاتا ہے۔ جب دونوں طرف سے اس وصف کا اظہار ہو رہا ہو تو لازمی نتیجہ اس کا یہ نکلے گا کہ محبت و پیار بڑھے گا۔ بھائی چارے کی فضا قائم ہوگی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ تم آپس میں ایسے ہو جاؤ جیسے ایک ماں کے پیٹ سے دو بھائی۔   (مأخوذ ازکشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ13)یعنی یہ رِحم کا رشتہ رحمی رشتہ بن جائے۔ گو بعض دفعہ سگے بہن بھائی بھی دلوں کی سختی کی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن ہو جاتے ہیں کئی معاملے ایسے بھی آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اِن لوگوں پر بھی رحم کرے۔ لیکن عموماً رحمی رشتوںکا خیال رکھا جاتا ہے۔ بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جب دلوں کی نرمی تمہارے اندر پیدا ہو جائے تو عفو اور حسنِ سلوک سے آگے ترقی کرو اور  رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ  کے نظارے دکھاؤ۔ دلوں کی نرمی میں ایک دوسرے کے لئے رحم کے جذبات موجزن ہوں۔ پیار، محبت، اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو۔ اور یہ اس لئے کہ حقیقی مومن ہمیشہ  یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا(الفتح:30)  کی کوشش میں رہتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اُس کی رضا کے بھوکے ہوتے ہیں۔ رکوع اور سجود جہاں اس مقصد کے حصول کے لئے ہوتے ہیں وہاں وہ آپس کی محبت اور رحم کے سلوک بھی ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کر رہے ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں، مَیں اُنہیں اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دوں گا۔

(صحیح مسلم کتاب البرّ والصلۃ والآداب باب فی فضل الحب فی اللہ تعالیٰ حدیث نمبر:6548)

                پس آپس میں محبت اور مؤاخات قائم کرنے والے کایہ مقام ہے۔ یہی وہ بات ہے جو بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا باعث بنتی ہے۔ کون بدنصیب ہے جو چاہے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت سے محروم رہوں، اُس میں نہ آؤں۔ یقینا کوئی عقل و شعور والا انسان، جس کو خدا تعالیٰ پر یقین اور ایمان ہو، ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پس دیکھیں اللہ تعالیٰ کس کس طرح اپنے بندوں پر احسان کر رہا ہے۔ لیکن اگر ہم ذرا ذرا سی بات پر اس رحم اور اخوت کے رشتے کو توڑنے لگ جائیں تو بد بختی نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے جو اپنی رنجشوں اور لڑائیوںکو مہینوں اور سالوں پر منتج کر دیتے ہیں۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی بعثت کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ آپس کی محبت و اخوت کو قائم کرو تا کہ ایک ایسی جماعت قائم ہو جو محبت و اخوت کی مثال ہو، اور اس لئے آپ نے جلسہ سالانہ کے مقاصد میں سے ایک محبت و مؤاخات رکھا ہے جس کے پیدا کرنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔ آپس کی رنجشوں اور ناراضگیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ختم کرنا چاہئے تاکہ جہاں ہم ذاتی طور پر روحانیت میں ترقی کرنے والے بنیں وہاں جماعتی ترقی میں بھی حصہ دار بن رہے ہوں۔

               پھر ایک اعلیٰ خُلق جس کی طرف آپ نے ہمیں توجہ دلائی وہ عاجزی ہے۔ یہ خُلق بھی اُس وقت نکھرتا ہے جب لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ انسان بے شک اپنی عاجزی کے دعوے کرتا رہے کہ میں آپ کا خادم ہوں، بندہ ناچیز ہوں، بیشک یہ کہتا پھرے لیکن جب موقع آئے تو پھر تکبر اور بڑائی عَود کر آتی ہے۔ تو یہ ایک مومن کا شیوہ نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْا َرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا۔ (سورۃالفرقان:64)کہ اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل اُن سے مخاطب ہوتے ہیں تو جواباً کہتے ہیں سلام۔

               پس ایک حقیقی مومن جو عبادالرحمن بننا چاہتا ہے اس کی خاصیت یہ ہے کہ عام حالات میں بھی اُن کی حالتوں سے عاجزی ٹپکتی ہے اور جب ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو جاہل ہیں، جذبات کو انگیخت کرنا چاہتے ہیں تب بھی یہ عاجزی کی حالت قائم رہتی ہے۔ کسی کی عاجزی کا اُسی وقت صحیح پتہ چلتا ہے جب اُس کے جذبات کو انگیخت کیا جائے، بھڑکایا جائے، جب مقابلے کی صورت پیداہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسے ہی ایک موقعے پر حق کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جب مقابلے سے دستبرداری کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُس کو پسند آئیں‘‘۔(تذکرۃ صفحہ 595ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

                پس یہ وہ عاجزی اور عاجزانہ راہیں ہیں جو ہر احمدی کے لئے نمونہ ہیں اور ان کو اپنانا چاہئے کہ جھوٹی غیرت اور اَناؤں سے بچتے ہوئے رحمان خدا کے حقیقی عبد کا اظہار کرتے ہوئے جاہلوں کے مقابل پر عاجزی ہی دکھانی ہے۔ برائی کا جواب بجائے برائی سے دینے کے، اُن کی اصلاح کی نرمی اور حکمت سے کوشش کی جائے۔اگر پھر بھی اصلاح نہیں کرتے تو بجائے تُوتکار اور غیرت میں آنے کے، جس سے فساد بڑھے سلام کر کے اُن سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اپنے جذبات پر قابو پانا بہت بڑی بات ہے۔ اس لئے اس کا ثواب بھی اللہ تعالیٰ نے بہت دیا ہے ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ تکبر، بڑائی اور جھوٹی غیرت ہی ہے جو لڑائیوں کو طول دیتی ہے۔ یہاں رحمان خدا کے بندے کہہ کر یہ نصیحت کی گئی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ جو تمام بڑائیوں کا مالک ہے، بہت بڑا ہے وہ اپنی رحمانیت دکھاتے ہوئے تمہیں معاف کرتا ہے، تمہارے سے درگزر کرتاہے، کتنی ہی باتیں تم سے سرزدہو جاتی ہیں جن سے وہ صَرفِ نظر کرتا ہے تو تم جو اُس کے عاجز بندے ہو اپنی عاجزی کے اظہار اپنی رویّوں سے کرو تا کہ پتہ لگے کہ تم عبدِ رحمان ہو، تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت سے زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکو۔ عام حالات میں بھی نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کی تلاش میں رہو۔ کسی تکبر اور بڑائی کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ مخلوق سے سچی ہمدردی کی وجہ سے، اور جب جذبات کو بھڑکایا جائے تب بھی صلح صفائی کی بنیاد ڈالتے ہوئے امن قائم کرنے کی کوشش کرو۔

               ایک دوسری جگہ انسانوں کو عاجزی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَلَا تَمْشِِ فِی الْا َرْضِ مَرَحًا۔ اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْا َرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا (سورۃ بنی اسرائیل:38)  اور زمین میں اکڑ کر مت چل، نہ ہی تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے نہ پہاڑوںکی بلندی تک تیرا قد پہنچ سکتا ہے۔ گردن اکڑانے اور تکبر سے بلند مقام نہیں ملا کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ہو تو اس زمین کے رہنے والے اور زمین کی حیثیت کیا ہے؟ کبھی اس پر بھی غور کیا ہے ؟ اس کائنات میں ستاروں اور سیاروں کا جوجھرمٹ ہے اس میں اس زمین کی ایک نقطے کی بھی حیثیت نہیں ہے۔ تو پھر اس میں بسنے والے انسان کی کیا حقیقت ہے؟۔ وہ انسان جواس کی وجہ سے بڑائی میں مبتلا ہو رہا ہے اور پھر اپنی بڑائی اور تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے، اُس کی حیثیت کیا ہے؟ اس کائنات میں یہ جو چھوٹی سی زمین ہے ،جو ایک نقطہ سے بھی چھوٹی ہے اور لکھا ہوتاہے کہ ہماری زمین ان نقطوں میں یہیں کہیں ہے اور اس کا بھی پتہ نہیں لگتاکہ کون سا نقطہ ہے ،اس کو بھی پھاڑ کر تم انتہائی گہرائی تک نہیں جاسکتے۔ زمین کے علوم کی گہرائی تک بھی مکمل رسائی نہیں ہے تو تکبر کس بات کا ہے؟ تمہاری علمیت، تمہاری بڑائی، تمہاری گردنوں کے اکڑانے میں نہیں ہے بلکہ تمہاری عاجزی میں ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ہے۔ حقیقی بلند وہی ہے جسے خدا بلند کرے ۔  تمہاری دولت، تمہارے دنیاوی مقام، تمہارے خاندان، تمہاری قوم کسی بڑائی کی علامت نہیں ہیں۔ اپنے سامنے اُن درختوں کی ٹہنیوں کی مثالیں رکھو جو پھلوں سے لدتی ہیں تو زمین کی طرف جھکتی ہیں۔ پس بندے کی بھی عاجزی ہے جو اُسے خدا کا قرب دلا کر حقیقی بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ    ؎

بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ18)

               پس اصل مقام وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے قرب کا مقام ہے اور یہ عاجزی سے ملتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اہلِ تقویٰ کے لئے شرط تھی کہ وہ غربت اور مسکینی میں اپنی زندگی بسر کرے۔ یہ ایک تقویٰ کی شاخ ہے جس کے ذریعے ہمیں غضب ناجائز کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لئے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہے۔ عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ غضب اُس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔

(تحفہ سالانہ یا رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء از شیخ یعقوب علی تراب صاحب صفحہ49)

               پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سچائی اور راستبازی دکھانا ایک مومن کا، ایک حقیقی احمدی کا خاصّہ ہونا چاہئے اور اس کا معیار اللہ تعالیٰ نے کیا قائم فرمایا ہے؟ مَیں اکثر غیروں کے سامنے جب اسلام کی خوبیاں بیان کرتا ہوں تو دنیا میں انصاف اور عدل قائم کرنے کے لئے راستبازی کی یہ مثال دیتا ہوں جو قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے ضروری قرار دی ہے۔ فرمایا کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَٓائَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ۔ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْفَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا۔ فَلاَ تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ۔ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا (النساء:136)کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب۔ دونوں کا اللہ ہی نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو۔ اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے۔

               پس یہ ہے اُس سچائی کا معیار جو ایک حقیقی مومن کو اپنانا چاہئے جس کی اُس کو نصیحت کی گئی ہے ۔ قرآنِ کریم کی اس خوبصورت تعلیم کا کسی اور مذہب کی کوئی تعلیم مقابلہ نہیں کر سکتی۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

                     ’’جس قدر راستی کے التزام کے لئے قرآنِ شریف میں تاکید ہے مَیں ہرگز باور نہیں کر سکتا کہ انجیل میں اُس کا عُشر عشیر بھی تاکید ہو‘‘۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا میں نے ایک بڑی رقم کا انعام مقرر کر کے عیسائی پادریوں کو بھی چیلنج دیا تھا جو اسلام کی اس سچائی کی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں لیکن کوئی مقابلے پر نہیں آیا۔ آپ فرماتے ہیں: ’’ قرآنِ شریف نے دروغگوئی کو بُت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیفَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج: 31)۔ یعنی بتوں کی پلیدی اورجھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو۔ اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے   یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَٓائَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النساء :136) ۔ یعنی اے ایمان والو! انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہی کو لِلّٰہ  ادا کرو اگرچہ تمہاری جانوں پر اُن کا ضرر پہنچے، یا تمہارے ماں باپ یا تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اُٹھاویں‘‘۔ (مأخوذ از نورالقرآن نمبر2 روحانی خزائن جلد9صفحہ402،403)

                مسلمانوں کی کتنی بدقسمتی ہے کہ اس اعلیٰ تعلیم کے ہوتے ہوئے پھر جھوٹ بولنے میں آج کل دنیا میں مسلمان سب سے زیادہ بدنام ہیں۔ اگر دنیا میں ہر جگہ سچائی کا یہ معیارقائم ہو جائے تو امن پیدا ہو جائے۔ اور ہمارے اندر تو بہت زیادہ ا س کی ضرورت ہے ۔ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے تو ہم نے کوشش کرکے یہ معیار حاصل کرنے ہیں۔ ہم یہ معیار حاصل کریں گے تو ہمارے گھریلو مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ میاں بیوی میں جہاں رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں، سچائی کی کمی کی وجہ سے ہی پڑتی ہیں۔ معاشرے میں چھوٹے معمولی جھگڑے ہوتے ہیں وہ بڑی لڑائیوں میں سچائی کی کمی کی وجہ سے بدل جاتے ہیں اور نہ ختم ہونے والے مقدموں میں بدل جاتے ہیں۔ سچائی پر بنیاد ہو تو ابتدا میں ہی ختم ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔ اللہ کا خوف رکھنے والے کو ہلا دینے والا ہونا چاہئے۔خدا تعالیٰ نے ہم پر یہ کتنی بڑی ذمہ داری ڈالی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی زید یا بکر کا حوالہ نہیں دیا۔ فرمایا اگر تمہیں اللہ پر ایمان ہے تو پھر اللہ کی خاطر تمہاری ذات بے حیثیت ہو جانی چاہئے۔ اور اگر یہ صورت پیدا ہو گی تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ تم اپنے دنیاوی لالچوںیا غیرتوں کے لئے جھوٹی گواہیاں دو۔ تمہاری سچائی کے معیار بہت اونچے ہو جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مخالفین نے آپ کو ایک دفعہ ایک گواہی میں، خاندانی مقدمے میں،  جو مخالفین تھے انہوں نے ہی کہا کہ ہماری گواہی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی دے دیں۔ اور آپ نے سچی بات کہی اور خود اپنے خلاف ہی، اپنے خاندان کے خلاف گواہی دی، اپنے بھائیوں کے خلاف گواہی دی اور مخالفین کے حق میں فیصلہ ہو گیا۔

 (مأخوذاز حیات طیبہ مصنفہ حضرت شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگرمل صفحہ15)

               تو یہ نمونے ہیں جو ہمارے سامنے ہمارے لئے اسوہ ہیں۔ پس سچائی یہ ہے کہ نہ تمہاری ذات تمہیں سچائی سے روکے، نہ تمہارے والدین کا مقام اور پیار تمہیں سچائی سے روکے، نہ تمہارے کسی قریبی کا تعلق تمہیں سچ بولنے سے روکے۔ یہ نہ سمجھو کہ جھوٹ کا سہارا لے کر تم بچ سکتے ہو۔ انسانوں کی پکڑ سے تو بچ سکتے ہو لیکن اللہ تعالیٰ جو خبیر ہے اُس کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔ پس یہ معیار ایک سچے احمدی کے ہونے چاہئیں۔

               پھر آپ فرماتے ہیں کہ جلسے پر آنے والے اس ارادے اور نیت سے آئیں کہ دین دنیا پر مقدم ہو جائے اور دینی مہمات کے لئے اُن میں ایک جوش اور سرگرمی نظر آئے۔ جن اعلیٰ اوصاف اور اخلاق کا ذکر ہو چکا ہے، اگر وہ انسان میں پیدا ہیں تو دین کو دنیا پر مقدم ہونے کا ویسے ہی عملی اظہار شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر مزید اس کا عملی اظہار یہ ہے کہ جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے، اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کے سلطانِ نصیر بنیں۔ اپنے اندر جب یہ پاک تبدیلیاںپیدا کرنے کے عملی اظہار نظر آنے لگیں تو پھر بندے کو خدا کی پہچان کروانے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنے اور اعلیٰ اخلاق دنیا کو سکھانے کے لئے بھی ہر احمدی اپنی استعدادوں اور صلاحیتوںکو بروئے کار لاتے ہوئے عمل کرے۔ اس جلسے کے بعد ایک نئے عزم کے ساتھ اسلام کا خوبصورت پیغام دنیا کو پہنچانے کی ایک کوشش ہو۔ اشاعتِ اسلام کے لئے میڈیا کے جو مختلف ذرائع ہیں، کمپیوٹر کے ہیں، اُن کو آج کل کے لوگ استعمال کر سکتے ہیں تو اُن کو استعمال کریں۔ آپس میں یہاں اکٹھے ہوئے ہیں تو پلاننگ کریں کہ کس طرح ہم یہ پیغام دنیا کو پہنچا سکتے ہیں؟ ذیلی تنظیمیں بھی ہیں، جماعتی تنظیمیں بھی ہیں۔ ان دنوں میں جہاں اپنی عملی حالتوں کی طرف، دعاؤں پر توجہ ہو وہاں دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کے لئے بھی دعائیں ہوں۔ جب اس مجمع کی دعائیں جس میں مرد بھی شامل ہیں، عورتیں بھی شامل ہیں، بچے بھی شامل ہیں، نوجوان بھی شامل ہیں اور بوڑھے بھی شامل ہیں، جب ان سب کی دعائیں مل کر خدا تعالیٰ تک جائیں گی، عرش تک پہنچیں گی تو تبلیغ کے میدان میں اللہ تعالیٰ نئے راستے بھی دکھائے گا۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ نئے سے نئے راستے بھی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے ہمیں مل رہے ہیں۔ فتوحات کے نظارے بھی ہم دیکھیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔

               مَیں نے گزشتہ تقریباً دو تین سال پہلے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ جماعت کا تعارف پہلے دنیا کو کرائیں اور اشتہارات اور لیف لیٹس (Leaflets) کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کام ہوا۔ ابھی جب منسٹر صاحب نے تقریر کی اُس میں بھی ذکر کیا کہ بس پر تمہارا اشتہار لگا۔ امن کا پیغام ہے ۔ یہ پیغام بہت سارے ممالک میں دنیا میں دکھایا گیا اور بڑے وسیع پیمانے پر اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ لیکن یہ تعارف توپہلا قدم تھا۔ اب ان رابطوں اور اس تعارف کو ختم نہیں کر دینا بلکہ اب اگلا قدم یہ ہے کہ محبت، پیار اور سلامتی کا پیغام جو مسیح محمدی کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ہم نے اُسے دنیاکے ہر مذہب کے مطابق آگے پہنچانا ہے۔ یہ اُس شخص کا پیغام ہے جس نے اس آخری زمانے میں دنیا کی اصلاح کے لئے آنا تھا اور دنیا کو خدا کے حضور لا کر کھڑا کرنا تھا۔ پس اگلا پیغام دنیا کو یہ دینا ہے کہ آؤ اور اس جَرِیُ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآء (تذکرۃ صفحہ63ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ) کے ساتھ جُڑ کر، اس کی جماعت میں شامل ہو کر خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرو۔ اور اس شریعت پر قائم ہو جاؤ جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتری ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ ہم جو جان ،مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کا عہد کرتے ہیں اُس پر حقیقی رنگ میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ عمل کئے بغیر ہم دینی مہمات میں حصہ نہیں لے سکتے اور یہ توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بغیر نہیں مل سکتی۔ پس ان دنوں میں اس توفیق کے ملنے کے لئے بھی بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ ہمیںیہ دعا کرنی چاہئے کہ ہم اُن بہترین انسانوں میں سے ہو جائیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں بہترین ہیں، جن کی باتیں خدا تعالیٰ کو پسند ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا  ہے وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (حٰم سجدۃ:34)۔ کہ اور بات کہنے میں اُس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے۔ اور کہے کہ مَیں یقینا کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے بہترین لوگ خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والوں کو کہا ہے۔

               پس یہ خیال نہ کریں کہ امن اور سلامتی کے پیغام کے لیف لیٹس تقسیم کر دینے کے بعد ہمارا کام ختم ہو گیا ہے۔ ہم نے ملینز میں تقسیم کر دئیے بہت کچھ ہو گیا بلکہ اس کے بعد جبکہ آپ نے دنیا میں جماعت کو متعارف کروا دیا، امن اور محبت کا پیغام پہنچا دیا ہے، تو ذمہ داری پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ایک تو تبلیغ کے اگلے میدانوں کی تلاش کی ضرورت ہے، دوسرے اپنے عملوں کے وہ نمونے جو دوسرے کی توجہ ہماری طرف کھینچیں وہ دکھانے کی ضرورت ہے۔ مجھے کسی نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا آسان کام ہو گیا ہے کہ سلامتی کے پیغام کے لیف لیٹس تقسیم کر دو، یہ پیغام پہنچا دو، تبلیغ اور بیعتوں کے بارے میں اب مرکز نہیں پوچھے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مرکز پوچھے نہ پوچھے اللہ تعالیٰ کی نظر میں اگر بہتر بننا ہے تو اس کام کی طرف ویسے ہی ایک مومن کی خود بخود توجہ ہونی چاہئے۔ دوسرے اس پیغام کے بعد ایسے بھی لوگ ہوں گے جن کی خود بخود آپ کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور ہوتی ہے اور اس وجہ سے کئی بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اور جب لوگوں کی توجہ پیدا ہو گی تو بہر حال ہمارے عملوں اور حالتوں کی طرف بھی لوگ دیکھیں گے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تبلیغ کے ساتھ اپنے اعمال کو بھی درست کرنا ضروری ہے پھر ہی بہترین بن سکو گے اور تب ہی تمہاری یہ بات کوئی وزن رکھنے والی ہو گی کہ میں کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

               پس یہاں آ کر علمی اور تربیتی تقاریر سے استفادہ کر کے، ماحول کا ایک خاص اثر اپنے دل پر لے کر، آپس میں مل بیٹھ کر خدا تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کی منصوبہ بندی کر کے، اس کے لئے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق مال اور وقت کی قربانی دے کر ہی ہم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ورنہ اگر یہ نیت، ارادے اور کوشش نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں  پھر یہ جلسہ ایک ’’معصیت‘‘ ہے اور ’’طریقِ ضلالت اور بدعتِ شنیعہ‘‘ ہے۔ (مأخوذ از شھادۃ القرآن روحانی خزائن جلد6صفحہ395)

                دیکھیں کس قدر سخت تنبیہ ہے۔ آئے توہم یہاں جلسے کی برکات لینے ہوں اور یہ ہمارے لئے معصیت اور گناہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامل فرمانبرداروں میں شامل ہونے کا موقع عطا فرمایا ہے لیکن ہم نافرمانوں میں بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری ہدایت اور رہنمائی کے سامان پیدا فرما رہا ہے لیکن ہم ضلالت اور گمراہی کے طریق پر چل پڑیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے اس زمانے کے امام کو بھیجا کہ ہم قرآن وسنت کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اُس پر عمل کرنے والے بن سکیں۔ لیکن ہم اس جلسے کو دنیاوی میلہ سمجھتے ہوئے جمع تو ہو جائیں لیکن اُس سے فائدہ نہ اُٹھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر اس جلسے نے تمہارے اندر دینی، روحانی اور عملی تبدیلی پیدا نہیں کی یا تم اس مقصد کے لئے جلسے پر نہیں آئے تو یہ بدعتِ شنیعہ ہے۔ پھر یہ جلسہ ایک ایسی چیز بن جائے گا جو دین میں برائی پیدا کرنے کا باعث ہے۔ بہت سی بدعات تو دین میں پہلے ہی پیدا ہو چکی ہیں اُن میں ایک اور بدعت کا اضافہ ہو جائے گا۔

               لیکن یاد رہے کہ آپ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ ’’اس جلسے کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں، یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائیدِ حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلد1صفحہ281اشتہار نمبر91بار دوم مطبوعہ ربوہ)

                پس یہ جلسہ بذاتِ خود تو بہتوں کی اصلاح کا باعث بنتا ہے اور غیروں کے سامنے بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش ہوتی ہے لیکن جو اس حقیقت سے دور رہتے ہیں اور صرف میلہ سمجھ کر شامل ہو رہے ہیں وہ جن گناہوں اور بدعات میں ڈوبے ہوئے ہیں اُن میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو خود اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم اس مقصد کو پورا کر رہے ہیں یا نہیں جو جلسے پر آنے کا مقصد ہے۔ اگر پورا کریں گے تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جلسہ پر شامل ہونے والوں کے لئے کی گئی دعاؤں کے وارث بنیں گے۔

               اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس مقصد کو حاصل کرنے والا اور جلسے کی حقیقت کو سمجھنے والا بنائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم سمیٹنے والے ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ان دنوں میںبہت دعائیں کریں، اپنے لئے ، اپنی نسلوں کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں بھی اور ہماری نسلوں کو بھی جماعت سے جوڑے رکھے اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشات اور تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی محبت ہمارے دلوں میں پیدا ہو جائے۔ جہاں اپنی زبان میں اپنے لئے دعائیں کریں وہاں مسنون دعائیں بھی کریں اور درود بھی زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔ بلکہ ان دنوں میں درود کو خاص طور پر اپنی تمام دعاؤںپر حاوی کر لیں کہ دل کی گہرائی سے نکلا ہوا درود تمام دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ دشمنانِ احمدیت کے بدارادوں اور منصوبوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کے لئے بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ دشمن کا ہر شر اُن پر الٹا دے۔ ہر احمدی کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ اور یہ جلسہ ہر لحاظ سے اپنی برکتوں کو سمیٹتا ہوا اپنے اختتام کو پہنچے۔ آئندہ بھی ہر کارروائی اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت میں ہو۔ اب دعا کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں