سلامتی کونسل اور مسئلہ کشمیر

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 18؍اگست 2025ء)

حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کا 13؍اگست 2013ء کا شمارہ ’’پاکستان نمبر‘‘ کے طور پر شائع ہوا ہے۔اس خصوصی اشاعت میں شامل محترم پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کے مضمون میں اس تاریخی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اگرچہ بھارت ہی سلامتی کونسل میں لے کر گیا تھا مگر وہاں متعیّن پاکستان کے مندوب (حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ) کے سامنے بھارت اپنا کیس ہار گیا۔ اس کے تاریخی ثبوت میں دو حوالے پیش کیے گئے ہیں۔

ناصر احمد پرویز پروازی صاحب

1۔ جناب شیخ محمد عبداللہ صاحب ریاست کشمیر کی نیشنل کانفرنس کے راہنما تھے اور ہندوستان سے الحاق کا اعلان کرنے کے بعد مہاراجہ کشمیر نے انہیں وزیراعظم مقرر کیا تھا۔ وہ ہندوستان کے اُس وفد کے رُکن تھے جو جنوری 1948ء میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھیجا گیا تھا۔ وہ اپنی کتاب ’’آتشِ چنار‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ہندوستان کی طرف سے کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے پہلا وفد گوپال سوامی آئینگر کی قیادت میں بھیجا گیا تھا جس میں مَیں بھی شامل تھا۔ پاکستانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ چودھری سرظفراللہ خان کررہے تھے جو ایک ہوشیار بیرسٹر تھے۔ انہوں نے بڑی ذہانت اور چالاکی کا مظاہرہ کرکے ہماری محدود سی شکایت کو ایک وسیع مسئلے کا رُوپ دے دیا اور ہندوستان و پاکستان کی تقسیم کے سارے پُرآشوب پس منظر کو اس کے ساتھ جوڑ دیا۔ ہندوستان پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایت کا دائرہ کشمیر تک محدود رکھتا لیکن وہ سرظفراللہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گیا اور ہم چلے تو مستغیث بن کر تھے لیکن ایک ملزم کی حیثیت میں کٹہرے میں کھڑے کردیے گئے۔
مجھے بھی سلامتی کونسل نے اپنا عندیہ بیان کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے یہ دعوت اچانک پیش کی جس کے لیے مَیں تیار بھی نہ تھا۔ مَیں اُس دن بخار میں مبتلا تھا۔ لیکن مجبوری تھی اس لیے جو کچھ کہہ سکتا تھا، کہا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ظفراللہ خان کی شطرنج بازی کا نتیجہ تھا کہ وہ اچانک مجھ سے تقریر کرواکر میری پوزیشن سلامتی کونسل کے ممبروں میں گرانا چاہتے تھے۔ بہرحال مَیں نے گھنٹہ بھر تک تقریر کی۔

جواہر لال نہرو

ظفراللہ خان نے مجھ پر ایک فقرہ کسا تھا کہ مَیں جواہر لال نہرو کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی ہوں! مَیں نے اس کا جواب یہ دیا کہ مجھے جواہر لال کی دوستی پر فخر ہے اور آپ کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جواہر لال کے ساتھ میرا خون کا رشتہ ہے اور خون خون ہوتا ہے اور پانی پانی۔ (دراصل جواہرلال نہرو بھی کشمیری تھے۔)
شیخ عبداللہ مزید لکھتے ہیں کہ نئی دہلی میں وزیراعظم جواہرلال نہرو کے کمرے میں اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مندوب آئینگر نے جب کشمیر کے بھارت سے الحاق کی تجویز پاس کرنے کا مسئلہ پیش کیا تو پنڈت جواہرلال غصے میں کہنے لگے کہ مَیں اس کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا، اس طرح تو ہندوستان کی عزت خاک میں مل جائے گی کیونکہ ہم نے بارہا بین الاقوامی سٹیج پر اور خود کشمیری عوام کے سامنے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ایک آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔ ہم اپنے عہد سے روگردانی کرکے کیسے دنیا کی طعن و تشنیع کا نشانہ بن سکتے ہیں۔پنڈت جی اخلاقی سطح پر بالکل درست کہہ رہے تھے۔ لیکن مئی 1953ء میں جب وہ ہفتہ بھر کے لیے سرینگر آئے تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بلاکر ہندوستان کے ساتھ الحاق کی توثیق کرادوں۔ اُس وقت مجھے اُن کی پہلی بات یاد آئی اور سوچنے لگا کہ ان کی اخلاقی عظمت کا جوہر ان کے خوبصورت کشمیری خدوخال کے حامل چہرے کی تاریخ ساز جھریوں کے کس گرداب میں کھوگیا ہے!
جناب شیخ صاحب رقمطراز ہیں کہ پنڈت جواہر لال نہرو اپنے آپ کو ناستک کہتے تھے لیکن وہ ہندوستان کے اُس ماضی کے قصیدہ خواں تھے جس میں ہندو احیا پرستی اور ہندو افسوں کا راج تھا۔ وہ اپنی ذات کو اس قدیم سلطنت کو پھر سے قائم و دائم کرنے کا ایک ہتھیار سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مہاتما گاندھی جیسے اصول پسند عارف کا یہ چیلا بیک وقت قدیم ہند کے مشہور سیاست کار چانکیہ کا پرستار بھی تھا جس کی کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘ اُس کے سرہانے پڑی رہتی تھی جس میں ریاست کی فریب کاری کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ جواہر لال نے یہی سیاستکاری کشمیر میں ہمارے ساتھ برتی، پاکستان کے ساتھ برتی اور بین الاقوامی سطح پر معاملات میں بھی اس کا مظاہرہ کیا۔ …وہ اپنی حیثیت اور مرتبے کو بچانے کے لیے دوستوں کو قربان کرنے میں کافی فیاض واقع ہوئے تھے۔ … میری سادہ لوحی دیکھیے کہ مَیں نے اُس کی جھوٹی قسم پر اعتبار کرلیا اور اپنے گذشتہ تجربات کو پس پشت ڈال کر خلوص نیت کے ساتھ اشتراک پر آمادہ ہوگیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مجھے اس غلطی کی تلخی کا ازسرنَو اندازہ ہونے لگا جب پارلیمنٹ میں کشمیر اکارڈ کی دستاویزات پیش کی گئیں اور ایوان کے ہر حصے نے اسے ایک بہت اہم کارنامہ قرار دیا۔ آل انڈیا ریڈیو نے اسے ایسے پیش کیا جیسے کانگریس پارٹی نے بڑا قلعہ فتح کرلیا ہو۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ اگر ابتدائے عشق میں ہی ایسے اعتماد شکنی سے کام لیا گیا تو آگے کیا پیش آئے گا۔
(جناب شیخ محمد عبداللہ کا یہ اعتراف اس بات کی دلیل ہے کہ اگر سر ظفراللہ خان نے اُن پر جواہرلال نہرو کے کٹھ پتلی ہونے کا الزام لگایا بھی تھا تو وہ کتنا صحیح تھا اور شیخ صاحب کی قوم آج تک اس کی سزا بھگت رہی ہے۔)

لارڈ ماؤنٹ بیٹن

2۔ وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پریس سیکرٹری مسٹر ایلن کیمپیل جانسن اپنی کتاب Mission with Mountbatten میں 17؍فروری1948ء کی گورنمنٹ ہاؤس نئی دہلی میں ہونے والی سٹاف میٹنگ کی روداد یوں بیان کرتے ہیں کہ میٹنگ میں ماؤنٹ بیٹن نے کشمیر کی مایوس کُن صورتحال کا جائزہ لیا۔ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جانےسے کم از کم فوری جنگ کا خطرہ تو ٹل گیا تھا مگر ایک نیا خطرہ اُبھر رہا تھا جس کے نتیجے میں انڈیا اور برطانیہ کی حکومتوں کے درمیان موجود خوشگوار تعلقات میں بہت بُری طرح رخنہ پیدا ہوسکتا تھا۔ پہلی بات یہ تھی کہ اقوام متحدہ ہمارا یہ بنیادی مطالبہ تسلیم ہی نہیں کررہی تھی کہ کشمیر پر باہر سے حملہ کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ امریکی اور برطانوی مندوبین بھی شرمناک طور پر پاکستان کے حق میں تھے۔ اس کا لازمی اور قدرتی نتیجہ مایوسی تھا اور اسی لیےوزیراعظم جواہرلال نہرو نے اپنے وفد کو واپس بلانے کا حکم دیا تھا تاکہ دوبارہ ترتیب دیا جائے۔
تعلقات عامہ کے میدان میں بھی ہماری کارکردگی میری توقعات سے کہیں بڑھ کر مایوس کُن تھی۔ ہندوستانی مندوب آئینگر کی تقریروں کے نہ ہضم ہونے والے حصے چھاپنے کے لیے پریس والوں کو مجبور کیا گیا تھا اور وہ بھی تب شائع ہوئے جب ان تقریریوں پر کئی کئی دن گزر چکے تھے۔ مزید برآں پاکستان کے مندوب وزیرخارجہ ظفراللہ خان اقوام متحدہ کے روزمرہ کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ وہ اس میدان میں جتنے شائستہ رواں تھے بھارت کے مندوب (آئینگر) اتنے ہی الجھے ہوئے اور ناموزوں تھے۔

2 تبصرے “سلامتی کونسل اور مسئلہ کشمیر

  1. اچھی تحریر ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ کے بارے میں پتہ ہونا چاہیے۔ مجھے کچھ کچھ تو معلوم تھا۔ ہاں مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں ائی کہ 12 فروری 1948 میں میٹنگ ہوئی اس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کیسے موجود تھا کیونکہ 1947ء میں تو برطانوی گورنمنٹ چلی گئی تھی۔

  2. لارڈ ماؤنٹ بیٹن اُس وقت آزاد ہندوستان کا گورنر جنرل تھا جس طرح قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے گورنرجنرل تھے۔ ماؤنٹ بیٹن کی اس خواہش کو مسلمانوں نے قبول نہیں کیا تھا کہ وہ دونوں آزاد ریاستوں کا گورنرجنرل تب تک رہے جب تک ہجرت کے تمام معاملات طے نہیں ہوجاتے۔ اُس کا ہندونواز عمل مسلمانوں کے لئے اُس کی خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ بنا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں