خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ جولائی 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج بھی فتح مکّہ کے واقعات کی مزید تفصیل بیان کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں قیام کی مدت
کے بارے میں تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ تشریف لانے اور فتح مکہ کے بعد مکہ میں چند دن ٹھہرے تھے لیکن جو قیام ہے اس کی مدت میں اختلاف ہے۔ بخاری میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں انیس دن ٹھہرے۔ آپؐ دو رکعت نماز پڑھتے یعنی قصر کرتے تھے اور بعض روایات میں اٹھارہ یا سترہ اور پندرہ روز کا تذکرہ بھی ہے۔ علامہ ابن حجرنے انیس دن والی روایت کو راجح قرار دیا ہے کیونکہ اکثر روایات میں انیس دن کا ذکر ہے اور باقی روایات کو اس طرح سے جمع کیا گیا ہے کہ انیس دن والی روایت میں مکہ میں داخل ہونے اور روانہ ہونے کے دن بھی شامل ہیں اور جنہوں نے سترہ دن بیان کیے ہیں انہوں نے آمد و رفت کے دونوں دن شامل نہیں کیے۔ جن راویوں نے اٹھارہ دن کی روایت بیان کی ہے انہوں نے ان میں سے کوئی ایک دن شمار کیا ہے جبکہ پندرہ دن والی روایت کے راویوں نے سترہ دن والی روایت کو مدنظر رکھ کر لکھا ہے کہ یہ اصل ہے اور پھر اس میں سے داخلے اور کوچ کا دن نکال کر پندرہ دن کا ذکر کیا ہے۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ261دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فتح الباری جلد2صفحہ 715قدیمی کتب خانہ کراچی)
بعض مستشرقین نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فتح مکہ پہ اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ ولیم میور ایک بڑا مشہور مستشرق ہے۔ اس کا تعلق سکاٹ لینڈ سے تھا۔ فتح مکہ کا ذکر کرتے ہوئے اس نے اپنی کتاب The Life of Muhammad میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ماضی کے تمام پرانے قصوروں کو معاف کرنا یعنی لوگوں کے تمام قصوروں کو معاف کرنا اور ان کی تمام چھوٹی بڑی تکلیفوں کو فراموش کر دینا دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے فائدے کے لیے تھا۔ یہ لکھنے کے بعد مجبور ہے کہ بہرحال حقیقت کو تسلیم بھی کرے۔ کہتا ہے لیکن اس کے لیے ایک بڑے اور گداز دل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ گو آپ ہی کو پہنچا کہ آپ کے آبائی شہر کے سب لوگ آپ سے وابستہ ہونے لگے اور آپ کے مقصد کو پوری خوش دلی اور نمایاں عقیدت کے ساتھ اپنا لیا اور چند ہفتوں کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں سے دو ہزار افراد آپ کے پہلو میں کھڑے بڑی وفا داری کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔( The Life of Mahomet by Sir William Muir Pg 425- 426 Chapter xxiv London Smith, Elder & CO., 15 Waterloo Place 1878)
اسی طرح William Montgomery Watt نے بھی لکھاہے۔ یہ بھی ایک سکاٹش مستشرق گزرا ہے جس نے اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنی کتب میں بہت سخت باتیں کی ہیں لیکن اس کی ایک کتاب ہے Muhammad at Madina۔ اس میں لکھا ہے۔ مَیں اس کا ترجمہ پڑھتا ہوں۔ پہلے بھی میں نے ترجمہ ہی پڑھا تھا کہ مکہ کے رؤساءکو مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ یہ تسلیم کر رہا ہے۔ یہ رؤساءاور دیگر بہت سے دوسرے لوگ کفر پر ہی قائم رہے۔ سب سے بڑھ کر وہ مہارت جس کے ساتھ انہوں نے اپنی سربراہی میں موجود یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سربراہی میں موجود اتحاد کو سنبھالا اور تقریباً تمام افراد کو یہ احساس دلایا کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جا رہا ہے۔ اس چیز نے اسلامی معاشرے میں ہم آہنگی، اطمینان اور جوش کے جذبات کو نمایاں کر دیا جو دوسری جگہ پر موجود بے چینی کے برعکس تھا۔ یہ بات یقیناً بہت لوگوں پر واضح ہوئی ہو گی اور اس نے انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ کیا ہوگا۔ اس سب میں ایک بات ضرور متاثر کن ہے اور وہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے مقصد، اپنی بصیرت اور اپنی دوراندیش حکمت پر ایمان۔ جب ان کی جماعت ابھی چھوٹی تھی اور اپنے تمام وسائل دشمنوں سے بچنے کے لیے صرف کر رہی تھی تو انہوں نے ایک متحدہ عرب کے تصور کو جنم دیا تھا جو بیرونی سمت میں ترقی کرے گا اور جس میں مکہ کے لوگ اپنے پرانے تجارتی کردار سے بھی اہم نیا کردار ادا کریں گے اور اب تقریباً تمام لوگ حتیٰ کہ سب سے بڑے بھی اس کے سامنے سرتسلیم خم کر چکے تھے۔ خاطر خواہ مشکلات کے باوجود اکثر تنگ حالات میں مگر تقریباً ہمیشہ مکمل اعتماد کے ساتھ وہ اپنے مقصد کی جانب بڑھتے گئے۔ اگر ہمیں ان تاریخی واقعات کی حقیقت پر یقین نہ ہوتا تو کم ہی کوئی یہ مانتا کہ ایک حقیر سمجھا جانے والا مکہ کا نبی اپنے شہر میں فاتح کے طور پر واپس آ سکتا ہے۔(Muhammad at Medina by W. Montgomery Watt Chapter The Winning of the Meccans Pg 67 -68 ,،70 Ameena Saiyid, Oxford University Press Karachi 2006)
پھر ایک مستشرق ہے Arthur Gilman۔ یہ بھی ایک مشہور مستشرق گزرا ہے۔ اس کا تعلق امریکہ سے تھا۔ فتح مکہ کا ذکر کرتے ہوئے اس نے اپنی کتاب The Saracenes میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام معافی ،اسوۂ حسنہ اور رواداری کو مثالی کردار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اسی اونٹ پر بیٹھے جس نے بڑی ہی وفاداری کے ساتھ کئی دوسرے مواقع پر بھی آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا اور آپ سوار ہو کر شہر میں داخل ہوئے تو شکر کے جذبات سے آپ کا دل بھر آیا کیونکہ آپ نے سڑکوں کو خالی دیکھا اور یہ جان لیا کہ آپ کا استقبال امن سے ہوگا۔ آپ کی یہ بات بےحد تعریف کے لائق ہے کہ جس موقع پر ماضی کے مکہ کے مکینوں کے مظالم کی یاد آپ کو انتقام لینے پر اکسا سکتی تھی وہاں آپ نے اپنی فوج کو کسی بھی قسم کی خونریزی سے منع فرمایا اور عاجزی اور خدا تعالیٰ کے شکر کا ہر ممکن اظہار کیا۔ یہ بات درست ہے، یہ لکھتا ہے وہ جیسا کہ پہلے حضرت خالد بن ولید ؓکا واقعہ بیان ہو چکا ہے۔ کہتا ہے یہ بات درست ہے کہ ایک جگہ خالد نے طاقت کا مقابلہ طاقت سے کیا لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو سخت ناپسند کیا۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہلا کام کیا وہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنا تھا اور اس کے بعد آپ نے اپنے مؤذن کو حکم دیا کہ کعبہ کی بلندی سے نماز کے لیے صدا بلند کرو اور ایک منادی کرنے والے کو بھیجا کہ ہر شخص اپنے پاس پڑے ہوئے بت توڑ ڈالے۔ پھر لکھتا ہے کہ دس یا بارہ لوگ جنہوں نے پہلے مختلف مواقع پر نہایت وحشیانہ رویے کا مظاہرہ کیا تھا ان کو سزا دینے کا حکم ہوا اور ان میں سے چار لوگوں کو قتل کی سزا دی گئی لیکن اس رویے کو دیگر فاتحین کے رویے کے مقابلے پر ہمیں بہت ہی زیادہ انسانیت سے پُر قرار دینا چاہیے۔ لکھتا ہے کہ صلیبیوں کے مظالم کے مقابلے میں جنہوں نے 1099ء میں ستر ہزار مسلمان مردوں، عورتوں اور بے یارومددگار بچوں کو اس وقت موت کے گھاٹ اتار دیا جب یروشلم ان کے قبضہ میں آیا یا انگریز فوج کی درشتی کے مقابلے میں کہ وہ بھی صلیب کے سائے میں ہی لڑے تھے جنہوں نے 1874ء کے یادگار سال میں، جنگ کے دوران افریقہ میں گولڈ کوسٹ پر موجود (یہ گھانا کا پرانا نام ہے۔) ایک دارالحکومت جلا ڈالا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح حقیقت میں مذہب کی فتح تھی نہ کہ سیاست کی۔ آپ نے ہر طرح کی ذاتی تکریم کی باتوں کو ردّ کر دیا اور شاہانہ تسلط کے تمام طریقوں سے گریز کیا اور جب مکہ کے تمام متکبر سردار آپ کے سامنے لائے گئے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم میرے ہاتھوں سے آج کس چیز کی امید رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا اے ہمارے سخی بھائی !رحم کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تو پھر ایسا ہی ہو۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔(The Saracenes by Arthur Gilman, Fourth Edition, T. Fisher Unwain, London, 1887, Pg. 184, 185)
پھر ایک مستشرق ہے Ruth Cranston اس کا تعلق بھی امریکہ سے تھا۔ فتح مکہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ عورت ہے یہ اپنی کتاب World Faith میں لکھتی ہے کہ سال 630ء کے آغاز میں ایک دن وہ شخص جسے صرف دس سال پہلے اس شہر سے پتھر مار کر نکال دیا گیا تھا اور جسے مذاق کا نشانہ بنایا گیا تھا اب اپنے دس ہزار تجربہ کار سپاہیوں کے ساتھ مکہ شہر میں داخل ہوا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ کسی کو قتل نہ کیا جائے۔ شہریوں کے ساتھ مہربانی کا سلوک کیا جائے لیکن مکہ والوں کے تمام وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود ان کے سپاہیوں پر حملہ کیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سپہ سالار خالد جو اب ان کی افواج کے کمانڈر تھے کو سخت جوابی کارروائی سے روکنے میں مشکل پیش آئی۔
بہرحال اس نے اس بات میں یہ تو مبالغہ کر دیا ہے۔ کوئی یقین دہانیاں نہیں تھیں۔ وہاں حملہ پہلے انہوں نے، مکہ والوں نے کیا تھا۔ بہرحال جو تعصب ہے وہ تو کہیں نہ کہیں ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔ پھر لکھتی ہے کہ دو مسلمان اور اٹھائیس مکہ والے مارے گئے۔ ایسے وقت اور ایسے موقع پر اگر کوئی اور راہنما کمان میں ہوتا تو تصور کریں کتنا قتل و غارت ہوتا۔ یہاں پھر حقیقت بیان کرنے پر مجبور ہے۔ جب مسلمان فوج نے شہر پر قابو پا لیا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لباس تبدیل کر کے سفید احرام پہن لیا۔ آپ نے حج کے مقررہ مناسک ادا کیے۔ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔ پھر آپؐ نے اپنےباقی بچ جانے والے ساتھیوں کو بلایا۔ وہ ساتھی جنہوں نے بار بار اپنی جان خطرے میں ڈال کر آپ کے مقصد کے لیے قربانیاں دی تھیں کہ وہ اس عظیم دن اور آپ کی زندگی کے سب سے اہم موقع پر آپ کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ایک ایک کر کے تین سو ساٹھ پتھر کے بتوں بشمول ہبل کے ہر بت کو کعبہ سے نکالا گیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ ہر بت کو توڑتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے فرما رہے تھے۔ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔(World Faith By Ruth Cranston page216- 217 Skeffington Stratford Place London 1953)
Karen Armstrong یہ بھی ایک اچھی مستشرق ہیں اور عموماً بڑے انصاف سے لکھنے والی ہیں۔ 1944ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ انگلستان کی ایک معروف سکالر اور مصنفہ ہیں جو موازنہ مذاہب کے متعلق اپنی تحریرات کے باعث شہرت بھی رکھتی ہیں۔ اس نے اپنی کتاب Muhammad A Biography of the Prophet میں فتح مکہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خونریز انتقام لینے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسا لگتا ہے کہ کسی پر کوئی دباؤ ڈالا گیاہو۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مجبور کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کے درمیان صلح اور مصالحت قائم کرنا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ اس لیے نہیں آئے تھے کہ قریش کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائیں بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اس مذہب کو ختم کر دیں جو ان کے لیے ناکام ثابت ہوا تھا۔ مکہ کی فتح کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے اپنے دعوے کی سچائی کو ثابت کر دیا۔ یہ فتح بغیر کسی قسم کی خونریزی کے حاصل ہوئی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرامن پالیسی کامیاب رہی۔ چند ہی سالوں میں مکہ میں بت پرستی کا خاتمہ ہو گیا اور عِکرمہ اورسَُہیل جیسے سخت ترین مخالفین مخلص اور پُرجوش مسلمان بن گئے۔(Muhammad A Biography of the Prophet by Karen Armstrong, page 243and 245, Book Readers international Quetta)
بہرحال ان میں سے بعض مستشرقین ایسے ہیں جنہوں نے باوجود شدید مخالف ہونے کے یہ حق بیان کیا ہے اور اس پر وہ بیچارے مجبور تھے۔ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔
فتح مکّہ کے حوالے سے کچھ مزید واقعات بھی ہیں۔ ان میں ایک عبداللہ بن سعد بن ابی سَرَح کی توبہ
کا واقعہ ہے۔ لکھا ہے کہ اس نے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور کاتب وحی بھی تھا۔ پھر مرتد ہو کر واپس چلا گیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس کو بھی قتل کی سزا دی گئی تھی۔ جب مکہ فتح ہو گیا تو یہ حضرت عثمان بن عفانؓ کے ہاں چھپ گیا۔ یہ ان کا رضاعی بھائی تھا۔ حضرت عثمانؓ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے اور عرض کی: یا رسول اللہ! عبداللہ کی بیعت قبول فرمائیں۔ آپؐ نے دیر تک خاموشی اختیار فرمائی اور پھر اس کی بیعت لے لی۔ جب عبداللہ بن ابی سَرَح واپس چلا گیا تو لکھنے والے راوی یہاں لکھتے ہیں کہ آپ نے صحابہؓ سے فرمایا۔ میں اس لیے کچھ دیر تک خاموش رہا کہ تم میں سے کوئی اٹھے اور اس کو جلدی سے قتل کر دے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں اشارہ کیوں نہ کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی قتل کے لیے اشارے نہیں کیا کرتا۔ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی کے لیے جائز نہیں کہ وہ آنکھوں کی خیانت کا مرتکب ہو۔(سیرت ابن اسحاق،صفحہ529-530دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت ابن ہشام صفحہ 742دار الکتب العلمیۃ بیروت)(الاکتفاءجلد2صفحہ225عالم الکتب بیروت)
بہرحال یہ روایت اور اس طرح کی ملتی جلتی روایتیں کیونکہ بعض تاریخ کی کتب میں موجود ہیں اس لیے بیان بھی کر رہا ہوں لیکن ہیں یہ سب مشکوک اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تھا اور جو تحمل تھا وہ ثابت کرتا ہے کہ یہ سب روایات بعد میں گھڑ لی گئی ہیں۔
بہرحال حدیث کی ایک کتاب سنن نسائی میں یہ روایت اس طرح ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر عبداللہ بن سعد حضرت عثمانؓ کے گھر چھپ گیا۔ پھر جب عام بیعت کا اعلان ہوا تو حضرت عثمان عبداللہ کو لے کر آئے اور عرض کیا کہ عبداللہ کی بیعت قبول فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور اس کی طرف دیکھا اور تین مرتبہ ایسا کیا اور انکار فرمادیا اور تین مرتبہ ایسا کرنے کے بعداس کی بیعت لی اور اس کے بعد صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ تم میں سے کوئی دانا آدمی نہ تھا کہ جب مجھے دیکھا کہ میں بیعت نہیں لے رہا تو اٹھ کر اس کو قتل کر دیتا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں کیسے علم ہوتا کہ آپ کے دل میں کیا ہے؟ آپ نے اپنی آنکھ سے ہمیں اشارہ کیوں نہ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی نبی کے شایان شان نہیں کہ اس کی آنکھ خیانت کرے۔ (نسائی ،کتاب تحریم الدم، باب الحکم فی المرتد،حدیث 4067)یہ نسائی کی روایت ہے لیکن اس میں بھی ضروری نہیں ہے کہ اس کو صحیح یقین کیا جائے۔
یہ روایت سنن ابوداؤد میں بھی ہے۔( سنن ابو داؤد کتاب الحدود، باب الحکم فیمن ارتدحدیث4359) البتہ سنن ابوداؤد میں اس کے علاوہ ایک دوسری روایت بھی موجود ہے لیکن اس روایت میں قتل وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ چنانچہ اس روایت میں بیان ہے کہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب تھا۔ اسے شیطان نے بہکا دیا۔ وہ کفار سے مل گیا۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ حضرت عثمان بن عفانؓ نے اس کے لیے پناہ طلب کی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پناہ دے دی۔( سنن ابو داؤد کتاب الحدود، باب الحکم فیمن ارتدحدیث4358)
یہاں عبداللہ بن سعد کے متعلق اس طرح کی روایات کی بابت واضح ہونا چاہیے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ہے کہ یہ روایت حدیث کی جن کتب میں آئی ہے اس کی سند کی بابت جرح کی گئی ہے کہ یہ سند کے اعتبار سے کمزور ہے۔ یہ کہنا کہ اشارہ کیوں نہیں کیا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں چپ رہا۔ جبکہ آپ بادشاہ تھے اور واضح طور پہ کہہ سکتے تھے۔ بہرحال
دوسری اہم بات یہ قابل غور ہے کہ اسلام میں ارتداد کی کوئی سزا نہیں ہے۔ اس لیے عبداللہ بن سعد کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مرتد ہو گیا تھا اس لیے اس کے قتل کی سزا سنائی گئی۔ یہ درست نہیں ہو سکتا۔
اور علاوہ ازیں یہ بھی قابل غور ہے کہ اس واقعہ کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے بھی منافی نظر آتی ہے جیسا کہ پہلے میں کہہ چکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اس دن اللہ تعالیٰ کی صفت غفار اور ستار اور رحیم و کریم کے مظہر اتم نظر آتے تھے۔ کوئی شخص ایسا نہیں کہ اس نے معافی مانگی ہو اور آپ نے معاف نہ فرمایا ہو اگرچہ اس کے قتل کا حکم ہی کیوں نہ صادر کیا گیا ہو۔ پھر یہ حدیث بخاری اور مسلم میں بھی موجود نہیں ہے۔ مزید برآں یہ روایت درایت کے بھی خلاف نظر آتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح سربراہ کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ اگر کسی کے قتل کا حکم ضروری تھا تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت کیا تھی۔ اشارے یا کنائے کی کیا ضرورت تھی۔ جب حضرت عثمانؓ عبداللہ کو لے کر آئے تو آپؐ صاف فرما دیتے کہ نہیں اس کے جرائم ایسے ہیں کہ اس کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ انہی دنوں میں بنو مخزوم کی ایک عورت کی چوری کا مقدمہ بھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کی سفارشیں بھی بہت بڑی بڑی کروائی گئی تھیں۔ حضرت ام سلمہؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ نے سفارش کی تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح ان تمام سفارشات کو ردّ فرماتے ہوئے ہاتھ کاٹنے کی سزا برقرار رکھی۔ تو اگر عبداللہ بن سعد کا جرم اتنا سنگین تھا تو واضح فرما دیا جاتا کہ اس کی معافی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اس کی بجائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسا فعل منسوب کرنا جو عام اخلاقی آداب اور روایات کے بھی منافی ہووہ ناقابل قبول ہے۔ یعنی جب وہ بیعت کرنے کے لیے آ گیا تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے کہ اس اثناء میں جلدی سے کوئی اس کو قتل کر دے اور جب صحابہؓ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے گویا ان سے بازپرس کی کہ کیوں قتل نہ کیا اور جب صحابہ نے کہا کہ آپ آنکھ سے اشارہ کر دیتے تو یہ فرمایا کہ نبی کی آنکھ خیانت نہیں کرتی۔ اس لیے آنکھ سے اشارہ نہیں کیا۔ نعوذ باللہ۔نعوذباللہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دل میں تو یہی خواہش تھی۔ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تو یہی خواہش تھی کہ کاش کوئی قتل کر دے لیکن اشارہ نہیں کیا۔ اس روایت کی بناوٹ ہی اس واقعہ کو ردّ کر تی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بہت بلند اور اعلیٰ اور ارفع ہے کہ آپ کی طرف ایسی بات منسوب کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدود کے قیام کے لیے چٹان کی طرح مضبوط تھے اور کسی کی کوئی پروا نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ عفو اور رحمت کے وقت ریشم کی طرح نرم و ملائم تھے۔ انہیں کسی قسم کا کوئی قلق اور خلش نہیں ہوا کرتی تھی اس لیے عبداللہ بن سعد کی بیعت کے حوالے سے اس طرح کی روایات محل نظر ہیں اور بعض مؤرخین اور سیرت نگاروں نے بھی ان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورة المؤمنین کی آیت نمبر پندرہ کی تفسیر کرتے ہوئے اس واقعہ کا تذکرہ یوں کرتے ہیں کہ ’’اس آیت کے ساتھ ایک تاریخی واقعہ بھی وابستہ ہے جس کا یہاں بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کاتب وحی تھا جس کا نام عبداللہ بن ابی سَرَح تھا۔ آپ پر جب کوئی وحی نازل ہوتی تو اسے بلوا کر لکھوا دیتے۔ ایک دن آپ یہی آیتیں اسے لکھوا رہے تھے۔ جب آپ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ پر پہنچے تو اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ کہ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وحی ہے اس کو لکھ لو۔ اس بدبخت کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلی آیتوں کے نتیجہ میں یہ آیت طبعی طور پر آپ ہی بن جاتی ہے۔ اس نے سمجھا کہ جس طرح میرے منہ سے یہ آیت نکلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وحی قرار دے دیا ہے اسی طرح آپ نعوذباللہ خود سارا قرآن بنا رہے ہیں۔ چنانچہ وہ مرتد ہوگیا اور مکہ چلا گیا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر جن لوگوں کو قتل کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا ان میں ایک عبداللہ بن ابی سرح بھی تھا مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے پناہ دے دی اور وہ آپ کے گھر میں تین دن چھپا رہا۔ ایک دن جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ عبداللہ بن ابی سرح کو بھی آپ کی خدمت میں لے گئے اور اس کی بیعت قبول کرنے کی درخواست کی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے توکچھ دیرتامل فرمایا مگر پھر آپ نے اس کی بیعت لے لی۔اور اس طرح دوبارہ اس نے اسلام قبول کر لیا۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد6صفحہ 139۔ ایڈیشن2004ء)
عبداللہ بن ابی سَرَح کے متعلق آتا ہے کہ یہ بعد میں نمایاں اسلامی خدمات سرانجام دینے والے صحابہ میں شمار ہوئے۔
مصر کے گورنر بھی رہے۔ افریقہ کے ایک علاقے کو فتح کرنے والے تھے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد یہ فتنوں سے الگ تھلگ ہو گئے حالانکہ یہ ان کے رضاعی بھائی تھے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دعا کی تھی کہ ان کا آخری عمل نماز ہو۔ چنانچہ ایک دن صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور نماز مکمل کرتے ہوئے دائیں جانب سلام کہا اور بائیں جانب سلام کہنے ہی لگے تھے کہ ان کی وفات ہو گئی۔ چھتیس یا سینتیس ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔(اسدالغابہ جلد3صفحہ260-261دارالکتب العلمیۃبیروت)
پھرعِکرمہ بن ابی جہل کے قبول اسلام
کا ذکر ہے۔ عکرمہ بن ابو جہل ان لوگوں میں سے تھا جن کے قتل کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا ہوا تھا۔ عکرمہ اور اس کا باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتا تھا اور وہ مسلمانوں پر بہت زیادہ سختی کرتا تھا۔ جب اسے علم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون بہانے کا حکم دیا ہے تو وہ یمن کی طرف بھاگ گیا۔ باوجود اس کے کہ اسلام دشمنی میں اس نے اپنے باپ ابوجہل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا اور ممکن ہے کہ اس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو البتہ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ مکہ کے وہ رئیس اور سردار جو اسلام کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہے تھے اور آئے دن اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف منصوبے بناتے رہتے تھے فتح مکہ کے بعد انہوں نے خود ہی یہ سوچ لیا ہو کہ ان کے اعمال ایسے ہیں کہ کسی صورت میں ان کی معافی ممکن نہیں ہو سکتی اور ہو نہ ہو ان کو قتل ہی کیا جائے گا تو وہ یہ سوچ کر خود وہاں سے بھاگ گئے اور دراصل انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حد درجہ کی رحمت اور عفو اور درگذر کی توقع ہی نہ تھی اور نہ ہی اندازہ تھا۔ اس لیے انہوں نے مناسب سمجھا کہ جان بچا کر بھاگ جانا ہی بہتر ہے۔ لیکن جوں جوں ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حد سے بڑھے ہوئے عفو و درگزر کا پتہ چلتا گیا تو وہ مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس کھچے چلے آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے۔ بہرحال عکرمہ ان سرکردہ مخالفین میں سے ایک تھے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر بھی اسلامی لشکر کی بھرپور مزاحمت کی۔ اپنے ساتھ ایک جتھہ اکٹھا کیا جس میں مکہ کے بہادر نوجوان شامل تھے جن میں سہیل بن عمرو، صفوان بن امیہ وغیرہ شامل تھےاور تلواریں نکال لیں کہ ہم مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے دستہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن اپنے بیس سے زائد جوانوں کے قتل ہونے کے بعد یہ سب لوگ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور سُہَیل اور صَفْوَان اور عِکْرِمہ تینوں مکہ سے ہی بھاگ گئے۔ تاریخی روایت کے مطابق عکرمہ نے سمندری راستے سے یمن جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی ام حکیم بنت حارث بن ہشام جو قریشی سردار کی بیٹی تھی اس نے ہند بنت عتبہ اور مکہ کی دیگر معزز عورتوں کے ساتھ فتح مکہ کے موقع پر اکٹھے بیعت کی تھی۔ اس کو جب اپنے شوہر عکرمہ کا قتل کے ڈر سے یمن کی طرف فرار ہونے کا علم ہوا تو یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ عکرمہ کو خدشہ ہے کہ آپ اس کو قتل کروا دیں گے آپ اس کو امان دے دیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ امان میں ہے۔ وہ اپنے غلام کو لے کر جدہ کی طرف روانہ ہوئی اور اس نے عکرمہ کو سمندر کے ساحل پر پایا جب وہ کشتی پر سوار ہو نے کا ارادہ کر رہا تھا۔ ایک قول کے مطابق اس نے عکرمہ کو تب پایا جبکہ وہ کشتی میں سوار ہو چکا تھا۔ اس نے عکرمہ کو یہ کہتے ہوئے روکا کہ اے میرے چچا کے بیٹے! مَیں تمہارے پاس اس انسان کی طرف سے آئی ہوں جو لوگوں میں سب سے زیادہ جوڑنے والا اور لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور لوگوں میں سب سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ تُو اپنی جان کو ہلاکت میں مت ڈال کیونکہ میں تمہارے لیے امان طلب کر چکی ہوں۔ اس پر وہ اپنی بیوی کے ساتھ آیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا اور اس کا اسلام بہت خوبصورت رہا۔
روایت میں آتا ہے کہ جب عکرمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میری بیوی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے مجھے امان دی ہے یعنی کفر کی حالت میں ہی مکہ میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ یہ نہیں کہ مسلمان ہو جاؤں۔ آپؐ نے فرمایا تُو نے سچ کہا ہے۔ یقیناً تُو امن میں ہے۔ اس پر عکرمہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور آپ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور اس نے اپنا سر شرم سے جھکا لیا۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا اے عکرمہ! آج تُو مجھ سے جو بھی چیز مانگے گا اگر میں اس کی طاقت رکھتا ہوں گا تو ضرور تجھے دوں گا۔ عکرمہ نے عرض کیا کہ میری ہر اس عداوت کے لیے بخشش کی دعا کر دیں جو میں نے آپ سے روا رکھی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ!عکرمہ کی ہر وہ عداوت اس کو بخش دے جو اس نے مجھ سے روا رکھی یا ہر وہ بری بات بخش دے جو اس نے کی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی سے سرشار ہو کے اپنی چادر اس پر ڈال دی اور فرمایا خوش آمدید اس شخص کو جو ایمان لانے کی حالت میں اور ہجرت کرنے کی حالت میں ہمارے پاس آیا۔(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ132دار الکتب العلمیۃ بیروت)( سبل الھدیٰ جلد 5صفحہ227-228دار الکتب العلمیۃ بیروت)( فتح الباری جلد8صفحہ13قدیمی کتب خانہ کراچی)(اسد الغابہ جلد4صفحہ67دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فتح مکہ باشمیل 307، 327، 328 نفیس اکیڈمی کراچی)
عکرمہ کے ایمان لانے سے ایک پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر
بھی ملتا ہے جس کا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکر کیا ہے کہ ’’عکرمہ کے ایمان لانے سے وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو سالہا سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے بیان فرمائی تھی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا میں جنت میں ہوں۔ وہاں میں نے انگور کا ایک خوشہ دیکھا اور لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس کے لیے ہے؟ تو کسی جواب دینے والے نے کہا ابوجہل کے لیے۔ یہ بات مجھے عجیب معلوم ہوئی اور میں نے کہا جنت میں تو سوائے مؤمن کے اور کوئی داخل نہیں ہوتا۔ پھر جنت میں ابوجہل کے لیے انگور کیسے مہیا کیے گئے ہیں ؟ جب عکرمہ ایمان لایا تو آپ نے فرمایا وہ خوشہ عکرمہ کا تھا۔ خدا نے بیٹے کی جگہ باپ کا نام ظاہر کیا جیسا کہ خوابوں میں اکثر ہو جایا کرتا ہے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن۔انوارالعلوم جلد20 صفحہ 350)
پھرھَبَّارْ بن اَسْوَد کا بھاگ جانا اور پھر اسلام قبول کرنا
اس بارے میں لکھا ہے کہ جاہلیت میں یہ بڑا فصیح اللسان تھا اور لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف متحد کیا کرتا تھا۔ نیز بڑا بدخلق شخص تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینبؓ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اس وقت وہ حاملہ تھیں۔ ھَبَّارْ بن اَسْوَد نے اونٹ کو بدکایا جس سے آپ اونٹ سے نیچے گر گئیں۔ اس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا اور اسی وجہ سے وہ آخری وقت تک بیمار رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا تھا کہ جہاں بھی نظر آئے اس کو قتل کر دیا جائے۔ فتح مکہ کے وقت یہ اسی ڈر سے مکہ سے بھاگ گیا اور جنگلوں میں چھپتا چھپاتا رہا۔ فتح مکہ کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے گئے تو پھر یہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو صحابہ نے اس کو دیکھ لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنے لگے کہ ھَبَّارْ آ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں میں نے دیکھ لیا ہے۔ اس کو کچھ نہ کہا جائے۔ ھَبَّارْ نے قریب آ کر کہا یا رسول اللہؐ! آپ پر سلامتی ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ میں آپ سے بھاگ کر تمام علاقے میں پھرا ہوں اور میں نے عجمیوں سے بھی ملنا چاہا۔ پھر میں نے آپ کے فضل و کرم اور نیکی اور درگزر کو یاد کیا جو آپ زیادتی کرنے والوں سے روا رکھتے ہیں۔ یا رسول اللہؐ!ہم مشرک تھے۔ اللہ نے آپ کے ذریعہ ہمیں ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا۔ میری زیادتیوں اور ان تکالیف کو معاف فرما دیجئے جو میری طرف سے آپ کو پہنچتی رہی ہیں۔ میں اپنے برے سلوک اور گناہوں کا معترف ہوں۔ راوی کہتا ہے کہ میں اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا رہا۔ آپ ھَبَّارْ کی معذرت پر حیا کے باعث سرجھکائے بیٹھے رہے اور فرمایا میں نے تجھے معاف کیا۔ اسلام ماقبل کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔(کتاب المغازی از واقدی جلد2صفحہ282دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فتح مکہ ازمحمدباشمیل صفحہ 331تا 333نفیس اکیڈمی کراچی)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس واقعہ کو لکھا ہے کہ وہ لوگ جن کے قتل کا حکم دیاگیا تھا ان میں وہ شخص بھی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینبؓ کی ہلاکت کا موجب ہوا تھا۔ اس شخص کا نام ھَبَّارْ تھا۔ اس نے حضرت زینبؓ کے اونٹ کا تنگ جو زِین کے کسنے کا جو چوڑا تسمہ ہوتا ہے وہ کاٹ دیا تھا اور حضرت زینبؓ اونٹ سے نیچے جا پڑی تھیں جس کی وجہ سے ان کا حمل ضائع ہو گیا اور کچھ عرصہ کے بعد وہ فوت ہو گئیں۔ علاوہ اور جرائم کے یہ جرم بھی اس کو قتل کا مستحق بناتا تھا۔ یہ شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا اے اللہ کے نبی! میں آپ سے بھاگ کر ایران کی طرف چلا گیا تھا۔ پھر میں نے خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعہ سے ہمارے شرک کے خیالات کو دور کیا ہے اور ہمیں روحانی ہلاکت سے بچایا ہے۔ میں غیر لوگوں میں جانے کی بجائے کیوں نہ اس کے پاس جاؤں اور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اس سے معافی مانگوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ ھَبَّارْ! جب خدا نے تمہارے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی ہے تو میں تمہارے گناہوں کو کیوں نہ معاف کروں۔ جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا۔ اسلام نے تمہارے سب پہلے قصور مٹا دئیے ہیں۔(دیباچہ تفسیر القرآن۔انوارالعلوم جلد20صفحہ 350-351)(فیروز اللغات اردو صفحہ 385 فیروز سنز)
اس کو تو بخش دیا لیکن عبداللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ کیوں نہ اشارہ کیا؟ ضرورت نہیں تھی بہرحال ۔
پھرکعب بن زُہَیر بن ابی سُلمیٰ ہیں۔یہ بھی ایک شخص تھا۔ سات ہجری میں کعب اور اس کا بھائی بُجَیْر یہ دونوں اَبْرَق مقام پر آئے جو بصرہ سے مدینہ کے راستہ پر بنو اسد کا ایک کنواں تھا۔ بُجَیْر یہاں سے مدینہ گیا اور وہاں جا کر اسلام قبول کر لیا جس پر کعب بہت ناراض ہوا اور ہجویہ اشعار لکھے۔ اگرچہ عام روایات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہجویہ اشعار کی وجہ سے کعب کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا مگر بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل بات صرف اتنی ہی نہ تھی بلکہ کعب اور بُجَیْر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاپہنچانے یا قتل کرنے کی کوئی سازش کی تھی اور اسی مقصد کے تحت کعب مدینہ سے دور ٹھہر گیا اور بھائی کو مدینہ بھیجا لیکن بُجَیْر نے اسلام قبول کر لیا۔
جب کعب کو بھائی کے اسلام کی خبر ہوئی تو وہ سخت ناراض ہوا اور اس کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے لوٹ رہے تھے تو بُجَیْر نے اپنے بھائی کعب بن زُہَیر کو خط لکھا کہ وہ بھی توبہ کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے قصور کی معافی مانگ لے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اس شخص کو معاف فرما دیتے ہیں جو توبہ کرتے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہو جاتا ہے۔ آخر کعب کو اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں۔ چنانچہ کعب نے ایک قصیدہ لکھا۔ اس قصیدے کا پہلا مصرع یہ ہے۔
بَانَتْ سُعَادُ فَقَلْبِي الْيَوْمَ مَتْبُوْلُ
سُعَاد مجھ سے جدا ہو گئی اور شدت غم سے میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے۔ اس کے بعد کعب بن زُہَیر روانہ ہوئے اور مدینہ پہنچ کر اپنے ایک جاننے والے کے ہاں ٹھہرے۔ اگلے روز وہ شخص کعب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو اس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے کعب سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کھڑے ہو کر آپ سے امان طلب کرو۔ وہ کھڑے ہوئے اور آپ کے سامنے بیٹھ کر اپنا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پاس موجود صحابہ میں سے کسی نے کعب بن زُہَیر کو نہیں پہچانا۔ کعب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کعب بن زُہَیر آپ کے پاس اپنی جان کی امان پانے اور توبہ کر کے مسلمان ہونے کے لیے آنا چاہتا ہے۔ اگر میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آؤں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی توبہ قبول فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ تب کعب نے عرض کیا کہ میں ہی کعب بن زُہَیر ہوں۔ یہ سنتے ہی ایک انصاری مسلمان کھڑا ہو کر کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس خداکے دشمن کو میرے حوالے فرمائیے تا کہ میں اس کی گردن مار دوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے جانے دو۔ یہ شخص توبہ کرنے اور ندامت کے اظہار کے لیے آیا ہے۔ جب کعب نے قصیدہ بَانَتْ سُعَادْ پڑھا اور اس میں اس شعر پر پہنچے۔
اِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ یُسْتَضَاءُ بِہٖ
مُھَنَّدٌ مِنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ مَسْلُوْلُ
یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا نور ہیں جس سے حق کی روشنی حاصل کی جاتی ہے اور اللہ کی تلواروں میں سے ایک سونتی ہوئی برہنہ ہندی تلوار ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر حضرت کعب پر ڈال دی جو اس وقت آپ کے جسم مبارک پر تھی۔ اس چادر کی وجہ سے ہی یہ قصیدہ، قصیدہ بردہ کے نام سے مشہور ہو گیا یعنی چادر والا قصیدہ۔ بردہ کے معنی چادر کے ہیں۔ اس کو قصیدہ بَانَتْ سُعَادْ بھی کہا جاتا ہے اور قصیدہ بُردہ بھی۔ بعد میں حضرت امیر معاویہ نے ایک بڑی رقم کے عوض حضرت کعب سے یہ چادر خریدنے کی کوشش کی مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس متبرک کپڑے کو جدا نہیں کروں گا ۔مگر پھر جب حضرت کعب کا انتقال ہو گیا تو حضرت امیر معاویہ نے کعب کے وارثوں سے یہ چادر خرید لی۔ اس کے بعد یہ چادر بنو امیہ کے حکمرانوں کو وراثت کے طور پر منتقل ہوتی رہی اور ان کی حکومت کے زوال کے وقت ضائع ہو گئی۔(کعب بن زُہَیراور قصیدہ بانت سعاد صفحہ 6۔7مکتبہ اسحاقیہ کراچی)(سیرت الحلبیہ جلد3 صفحہ301-302دار الکتب العلمیۃ بیروت)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ393دار السلام)(منتهى السؤل على وسائل الوصول إلى شمائل الرسولﷺ جلد3صفحہ166دارالمنھاج)(فرہنگ سیرت صفحہ 24 زوار اکیڈمی کراچی)
یہ لکھا ہے کہ عوام الناس میں قصیدہ بردہ کے نام سے ایک اَور قصیدہ بھی زیادہ معروف ہے۔ وہ امام شرف الدین بُوصِیْری کا قصیدہ ہے۔ اس کو بھی قصیدہ بردہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ قصیدہ لکھا تو انہیں خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک اوڑھائی جو ان کی بیداری کے وقت بھی ان کے شانے پر موجود تھی۔ کہا جاتا ہے کہ امام بُوصِیْری مفلوج تھے اور اس چادر کی برکت سے شفا یاب ہو گئے۔(دیوان امام بوصیری صفحہ32-33دار السلام پرنٹنگ پریس لاہور)
بہرحال یہ ایک کہانی ہے جو بیان کی جاتی ہے۔ ایسی کہانیاں بھی آ جاتی ہیں۔ بہرحال کچھ اَور شدید مخالفین کے قبول اسلام کا بھی ذکر ہے اور کس طرح ان کو معافی ملی، وہ ذکر بھی آئندہ کروں گا۔
اگلے جمعہ سے ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ اس کے لیے بھی دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے جلسے کو بابرکت فرمائے اور ہر پروگرام کو اپنے فضلوں سے نوازتا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہر شریر اور نقصان پہنچانے والے اور یا کسی بھی نقصان پہنچانے کی نیت رکھنے والے کے شر سے بچائے۔ جو مہمان اندرون ملک سے آ رہے ہیں یا بیرون ملک سے آ رہے ہیں انہیں خیریت سے اللہ تعالیٰ لائے اور یہاں انہیں ہر طرح سے اپنی حفاظت میں رکھے۔ لوگوں کے جو ذاتی مہمان جلسہ کے لیے آ رہے ہیں یا جماعتی انتظام کے تحت مہمان نوازی کے شعبہ کے تحت ان کا انتظام ہو گا ان کی مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی اللہ تعالیٰ ہر میزبان کو توفیق عطا فرمائے۔ کارکنان جو بڑے شوق اور جذبے سے اپنے آپ کو جلسہ کی ڈیوٹیوں کے لیے پیش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بے لوث ہو کر اپنے اپنے شعبہ میں خدمت کی توفیق دے اور نہایت عزت و احترام اور نرمی اور خوش مزاجی سے وہ مہمانوں کی خدمت کریں۔
بعض دفعہ کام کی زیادتی اور نیند کی کمی کی وجہ سے بعض کارکنوں کی خوش مزاجی متاثر ہو جاتی ہے لیکن ہر کارکن کو جس کی کسی بھی شعبہ میں ڈیوٹی ہے، یہ سوچ کر یہ دن گزارنے چاہئیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دی ہے اس کا موقع دیا ہے۔ اس لیے اس کے لیے ہم ہر قربانی کرتے ہوئے اپنے خدمت کے جذبے کو قائم رکھیں گے اور کسی قسم کی بدمزاجی نہیں دکھائیں گے اور ہمیشہ ہمارے چہروں پر مسکراہٹ رہے گی۔ نوجوان بچیاں ہیں یا عورتیں ہیں یا نوجوان لڑکے ہیں یا بڑی عمر کے مرد ہیں۔ افسر ہیں یا معاون ہیں۔ کھانا پکانے اور لنگر کا انتظام چلانے والے کارکن ہیں یا کھانا کھلانے والے ہیں۔ سیکیورٹی والے ہیں یا پارکنگ والے ہیں۔ صفائی اور ہائی جین کے کارکن ہیں یا اندرونی اور بیرونی ڈسپلن قائم کرنے والے ہیں یا گیٹ کی انٹری کے اوپر جو لوگ متعین ہیں، بچوں کی مارکی میں ڈیوٹی دینے والی بچیاں ہیں یا مین جلسہ گاہ میں ڈیوٹی دینے والی لڑکیاں اور لڑکے اور مرد ہیں، عورتیں ہیں۔ سب کو ہمیشہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کام سرانجام دینے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔
لیکن ساتھ ہی گہری نظر بھی ہر ایک پہ رکھنی چاہیے تا کہ کسی کو بھی کوئی شر پھیلانے کی جرأت پیدا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ سب کارکنوں کو احسن رنگ میں خدمت کی توفیق دے اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنیں۔