خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ جولائی 2025ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج شام سے ان شاء اللہ جلسہ سالانہ برطانیہ کی کارروائی باقاعدہ شروع ہو گی۔ یہ جلسہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ہے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں جماعت کی علمی، اخلاقی اور روحانی حالت کی بہتری کے لیے پروگرام ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب شامل ہونے والوں کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس وقت مَیں

جلسہ میں ڈیوٹی دینے والوں اور شامل ہونے والوں سے کچھ باتیں کروں گا۔اسلام میں مہمانوں کی عزت و تکریم کی بہت تاکید ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی بہت تاکید فرمائی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہمان کو جائز حق دو۔(مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار و الضیف … حدیث 47)

اور یہ جائز حق حالات کے مطابق کچھ دن کی مہمان نوازی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی نصیحت کا اثر تھا کہ صحابہ ؓ قربانی کر کے بھی مہمان نوازی کرتے تھے۔ اس وقت ابتدائی زمانے میں صحابہ کے حالات ایسے نہیں تھے کہ کشائش ہو اور آرام سے دو وقت کا کھانا بھی میسر ہو۔ صحابہؓ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر، اپنا حق چھوڑ کر مہمان نوازی کیا کرتے تھے

اور اس حوالے سے صحابہ کی مہمان نوازی کی ایک مشہور روایت ہے کہ ایک صحابی کے گھر مہمان آیا جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابی کے ساتھ بھیجا تھا اور انہوں نے جب پتہ کیا تو ان کی بیوی نے بتایا کہ گھر میں صرف بچوں کے لیے تھوڑا سا ہی کھانا ہے لیکن انہوں نے مہمانوں کی خاطر بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا اور مہمان گھر لے آئے۔ خود بھی چراغ بجھا کر کھانا نہیں کھایا بلکہ مہمان کے سامنے یہ ظاہر کیا کہ جیسے خود بھی کھا رہے ہیں۔ خود بھی بھوکے سو گئے اور بچے بھی بھوکے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر اس فعل کو اس قدر سراہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی اطلاع دی۔ جب اگلے دن صبح وہ صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے تو آپ نے فرمایا۔ تم نے جو رات کو مہمان کو کھانا کھلایا اور اس کے کھلانے کی جو تدبیر تم نے اختیار کی تھی اس سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا اور بڑا ہنسا تو یہ مہمان نوازی کا مقام ہے۔ (مسلم کتاب الاشربۃ باب اکرام الضیف و فضل ایثارہ حدیث نمبر 2054)۔ پس آجکل ان دنوں میں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے جو مہمان جلسہ سننے آرہے ہیں ان کی ہر طرح سے خدمت اور مہمان نوازی کرنا ہر کارکن، ہر ڈیوٹی دینے والے اور ہر اس افسر کا فرض ہے جو کسی بھی محکمے یا شعبہ میں کام کر رہا ہے۔ان دنوں میں خاص طور پر محنت، صبر اور دعا سے کام لیں۔

مہمانوں کی طرف سے اگر کبھی کوئی سخت بات بھی سنیں تو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے صَرفِ نظر کریں۔ یہاں مختلف شعبہ جات ہیں۔ مَیں نے پچھلے خطبہ میں بھی مختصراً بیان کیا تھا کہ ہر شعبہ کا افسر اور اس کے معاونین اپنے فرائض خوش اسلوبی اور خوش خلقی سے ادا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بھی اس بارے میں بےشمار واقعات ہیں۔ آپ خاص طور پر یہ ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ مہمانوں سے حسن سلوک کس طرح کرنا ہے۔ آپؑ کے ارشادات اور واقعات آپ کی سیرت کی کتب میں مختلف پیرایوں میں مختلف جگہوں پر بیان ہوئے ہیں۔ آسام سے آئے ہوئے مہمانوں کی مہمان نوازی کا بھی

ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپ نے کس طرح ان کی خاطرداری کی۔ یہ واقعہ ہم سنتے ہیں ا ور اس سے محظوظ ہوتے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ان کا خیال رکھا لیکن یہ تمام کارکنوں تمام ڈیوٹی دینے والوں اور ان تمام لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔

واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ ایک دفعہ آسام سے کچھ مہمان آئے اور جب لنگر خانے میں اپنی سواری سے اترے اور ان کو کہا کہ سامان اتارو تو لنگر خانہ کا جو عملہ تھا ان کا رویہ کوئی مناسب نہیں تھا۔ اس کی وجہ سے وہ ناراض ہو گئے اوراسی ٹانگے پر بیٹھ کر واپس روانہ ہو گئے جس پر وہ آئے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اس کا علم ہوا تو آپؑ بہت ناراض ہوئے کہ ایسی صورت کیوں پیداہوئی کہ مہمان ناراض ہو کر چلا گیا۔ آپ فوری طور پر اس طرح گھر سے نکلے کہ جلدی میں ٹھیک طرح سے جوتے پہننا بھی مشکل تھا اور ان کے پیچھے تیز تیز قدموں سے چل پڑے۔ حالانکہ مہمان ٹانگے پر سوار تھے گھوڑا گاڑی جسے کہتے ہیں اور کافی دور نکل چکے تھے لیکن آپ پیدل ہی بڑی تیز رفتاری سے ان کے پیچھے گئے۔ روایت میں آتا ہے کہ قادیان کے قریب سے گزرنے والی نہر پر پہنچ کر آپ ان تک پہنچ گئے اور انہیں روک لیا۔ پھر آپ انہیں واپس لے کر آئے۔ آپ جس انداز سے انہیں واپس لائے اس میں بھی مہمان کی عزت اور تکریم کا ایک عجیب اظہار تھا۔ آپ نے مہمانوں سے فرمایا کہ آپ اپنی سواری پر بیٹھے رہیں، ٹانگے پر بیٹھے رہیں اور میں پیدل آپ کے ساتھ چلوں گا۔ بہرحال آپؑ کے اس خلق کو دیکھ کر مہمان بھی شرمندہ ہو گئے اور عرض کیا کہ ہم ٹانگے پر بیٹھ کر سفر نہیں کر سکتے۔ ہم بھی آپ کے ساتھ پیدل چلتے ہیں۔ بار بار یہی کہتے رہے کہ حضور ہم نہیں بیٹھیں گے۔ ہم آپ کے ساتھ ہی چلیں گے۔ بہرحال قادیان واپس آ گئے۔ لنگر میں آ کے آپ نے خود مہمانوں کا سامان اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن چونکہ کارکنان کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اور وہ بہت زیادہ شرمندہ تھے انہوں نے فوری طور پر آگے بڑھ کر سامان اتارنا شروع کر دیا۔ پھر ان لوگوں کی خوراک کے بارے میں بھی کیونکہ وہ آسام کے لوگ تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ان کے لیے خاص خوراک کا انتظام فرمایا۔(ماخوذ از سیرت المہدی از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اےحصہ چہارم صفحہ 56تا57روایت 1069)

یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ لنگر خانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا جویہ ارشاد ہے کہ ایسے مہمانوں کی مہمان نوازی کرو وہاں یہ بھی ارشاد ہے کہ جلسہ کے دوران ایک ہی طرح کا کھانا پکا کرے جو تمام مہمانوں کو کھلایا جائے کیونکہ وہ لوگ کافی تعداد میں ہوتے ہیں اس لیے مختلف انتظام مشکل ہوتا ہے۔(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ149)

اسی طرح مہمان نوازی کی ایک اَور مثال حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے یاد ہے ایک دفعہ مَیں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا۔ غالباً 1897ء یا 1898ء کا واقعہ ہو گا۔ مجھے حضرت صاحب نے مسجد مبارک میں بٹھایا جو اس وقت ایک بہت چھوٹی سی جگہ تھی۔ بعد میں اس کی Extension ہوئی تو مسجد تھوڑی سی بڑی ہوئی تھی۔ اسے وسیع کیا گیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ آپ یہاں بیٹھیں میں آپ کے لیے کھانا لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے۔ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ آپ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے مگر چند منٹ کے بعد جب کھڑکی کھلی جو مسجد اور آپ کے گھر کے درمیان میں دیوار تھی اس میں کھڑکی تھی۔ کھڑکی کی طرح کا چھوٹا دروازہ تھا۔ تو وہ کہتے ہیں میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام خود اپنے ہاتھ میں کھانے کی طشتری یا ٹرے اٹھائے ہوئے میرے لیے کھانا لے کر آئے ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کھانا کھائیں میں ابھی پانی لے کر آتا ہوں۔ کہتے ہیں اس وقت بے اختیار رِقّت سے میرے آنسو نکل گئے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے مقتدا اور پیشوا ہو کر ہمارے لیے یہ خدمت بجا لاتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی کس قدر خدمت کرنی چاہیے۔(ماخوذ از ذکرِ حبیب از مفتی محمد صادق صاحب ؓ صفحہ 327)

یہ ایک اسوہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی سیرت میں ہمیں مہمان نوازی کے ایسے بہت سارے واقعات ملتے ہیں۔ آپؑ نے لوگوں کو ایک دفعہ

’’فرمایا میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس لیے ہمیشہ تاکید کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے۔ مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے دل ٹوٹ جاتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد5صفحہ111ایڈیشن2022ء)

پھر آپؑ نے فرمایا کہ بعض مہمان بہت جذباتی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جیسا کہ میں نے ابھی آسام کے لوگوں کی مثال دی ہے۔ مختلف قوموں کے اپنے اپنے طریقے اور حالتیں ہوتی ہیں۔ بعض بہت جلد جذباتی ہو جاتے ہیں۔ غصہ میں بھی آ جاتے ہیں تو آپ نے فرمایا یہ نہ سمجھو کہ وہ جذباتی کیوں ہوئے اور غصہ میں کیوں آئے۔ مہمان کا دل تو شیشے کی طرح ہے ایک آئینے کی طرح ہے ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے اس سے پہلے کہ اسے ٹھیس پہنچے اور وہ ٹوٹے تم اس کی حفاظت کا سامان کرو۔

پس یہ ہے وہ اسوہ اور نصیحت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے ہمیں فرمائی ہے۔ ایک واقعہ بیان ہوتا ہے کہ ایک دفعہ بہت سارے مہمان آئے ہوئے تھے۔ آپ نے لنگر خانے کے انچارج میاں نجم الدین سے فرمایا ’’دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔‘‘ بعضوں کو جانتے ہو بعضوں کو نہیں۔ ’’اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔‘‘(ملفوظات جلد5صفحہ353۔ایڈیشن2022ء)

سب کی عزت و اکرام کرنا ضروری ہے۔ یہ نہیں دیکھنا کہ کوئی غریب ہے یا امیر ہے۔ کوئی امریکہ سے آیا ہوا ہے یا کوئی پاکستان سے آیا ہے۔ کوئی افریقہ سے آیا ہے یا کسی اَور ملک سے یا یہیں کا رہنے والا ہے۔ آجکل یہ خیال رکھنا چاہیے کہ سب مہمان ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بلانے پر جلسہ سننے کے لیے آئے ہوئے ہیں، اس لیے ان کی عزت اور اکرام کرنا، ان کی تواضع اور مہمان نوازی کرنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

تودیکھیں آپ نے کس طرح مہمانوں کی خدمت کی نصیحت فرمائی۔ آپ نے اپنے کارکنوں سے یہ بھی فرمایا کہ مجھے تم پر حسنِ ظن ہے کہ تم مہمانوں کی صحیح طرح خاطر داری کر رہے ہو گے اور ان کی خدمت کرتے رہو گے۔ پس ہر کارکن کو ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ جس جگہ اور جس شعبہ میں بھی اس کی ڈیوٹی ہے وہاں وہ مہمانوں کی مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے خواہ وہ کھانا کھلانے کی مارکی میں ہوں یا دیگر دوسری جگہوں پر۔ انہیں بھرپور کوشش کرنی چاہیے جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں مختلف شعبہ جات ہیں۔ ٹکٹ بنانے سے لے کر جلسہ گاہ تک آنے کے جتنے شعبے ہیں ان سے مہمانوں کا کارکنوں سے واسطہ پڑتا ہے وہاں ہر ایک کارکن کو اپنی خوش اخلاقی اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کھانا پکانے اور کھانا کھلانے کے شعبے ہیں ان شعبوں کو بھی مہمان نوازی کا حق ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ بڑا اہم حصہ ہے مہمان نوازی کا۔ کوشش یہ ہو کہ مہمانوں کو ایک تو یہ ہے کہ پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے اور عزت سے کھلایا جائے، لنگر خانے میں کام کرنے والوں کو عمدہ قسم کا کھانا پکانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اللہ کے فضل سے وہ کوشش کرتے بھی ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ضرورت کے مطابق کھانا میسر ہو اور کم نہ پڑ جائے۔

صفائی ستھرائی کے شعبہ میں بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ صفائی بھی ایمان کا حصہ ہے۔ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفائی ایمان کا حصہ ہے۔(مسلم کتاب الطھارۃ باب فضل الوضوء حدیث 223)

اس لیے اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ اس چیز میں ماحول کی صفائی بھی شامل ہے اور ہمارے دوسرے جو انتظامات ہیں، غسل خانے وغیرہ ہیں ان کی صفائی بھی شامل ہے۔

جلسہ گاہ میں پھر مختلف پروگراموں کے لیے لوگوں کو لاتے ہوئے جو کارکن ہیں وہ نرمی اور پیار سے توجہ دلائیں۔ بعض لوگوں کو صحیح ادراک نہیں ہوتا اور وہ پوری طرح جلسہ نہیں سنتے۔ یہاں جو بیٹھے ہوئے ہیں، ڈسپلن والے ہیں ان کو بھی عورتوں میں بھی مردوں میں بھی چاہیے کہ کوشش کریں کہ ان کو پیار اور نرمی سے سمجھائیں۔ تربیت کا شعبہ بھی اس لیے کام کر رہا ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو جلسہ گاہ میں بٹھا کر جلسہ سنائیں۔ اس وقت بازار بھی بند ہوں گے اور ہونے چاہئیں۔بہرحال ہر جگہ اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ کارکن ان دنوں میں خوش اخلاقی کا ایک خاص نمونہ دکھائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جو حسن ظن فرمایا ہے اس پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔

اسی طرح مَیں بعض باتیں مہمانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ گو چند ایک غیر از جماعت مہمان بھی یہاں آتے ہیں لیکن ان کے لیے تو ایک خاص شعبہ علیحدہ قائم ہے اور ان کی خاص طور پر مہمان نوازی کی جاتی ہے کیونکہ یہ غیر ہیں لیکن ان چند ایک کے علاوہ تمام مہمان جن کی اکثریت جو ہے وہ احمدی احباب کی ہے۔

آپ لوگ یہاں جلسہ سننے کے لیے آئے ہیں اس لیے اس بات کو اہمیت نہ دیں کہ انتظام آپ کے لیے صحیح ہوا ہے یا نہیں ہوا۔ آپ کی مہمان نوازی صحیح ہوئی ہے یا نہیں ہوئی یا کسی کارکن نے کیسا رویہ اختیار کیا ہے۔ اصل مقصد تو روحانی مائدے کو حاصل کرنا ہے اور آپ لوگوں کو اسی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

گو میزبانی کرنے والوں کو جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور وہ کرتے ہیں لیکن اسی طرح شامل ہونے والوں کا بھی یہ کام ہے کہ اگر کارکنان میں کوئی کمزوریاں یا کوتاہیاں یا کمیاں رہ گئی ہوں تو اُن سے صَرفِ نظر کریں۔

ان میں سے جو کوئی صفائی کے محکمے میں کام کر رہے ہیں وہ کوئی تربیت یافتہ لوگ تو نہیں ہیں یا ڈسپلن کے محکمے میں جو کام کر رہے ہیں وہ پولیس کے کارکن تو نہیں ہیں یا گیٹ پر ڈیوٹی دینے والے جو ہیں وہ trained تو نہیں ہیں یا ٹریفک کنٹرول کرنے والے ہیں وہ بھی کوئی ٹرینڈ پولیس والے تو نہیں ہیں جو ٹریفک کنٹرول کر رہے ہیں۔ یہ سب لوگ والنٹیئر ہیں مہمانوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو انہوں نے پیش کیا ہے۔ ان میں سے بعض سیکنڈری سکول کے بچے ہیں۔ بعض یونیورسٹیوں کے نوجوان طالب علم ہیں۔ کچھ دوسرے پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور اچھے خاصے پیشوں میں کام کرنے والے اور اچھی پوزیشنوں والے لوگ ہیں۔ یہ سب ایک جذبے سے خدمت کر رہے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے۔ پس!ان کے جذبے کو سراہتے ہوئے ان سے بھرپور تعاون کریں اور ان کی کمزوریوں سے صَرفِ نظر کریں۔ جب آپ ایسا کریں گے تو آپ اس مقصد کو پا لیں گے، اس مقصد کو پانے والے ہوں گے جس کے لیے آپ لوگ یہاں آئے ہیں اور اس سے آپس کے تعلقات میں مزید نکھار بھی پیدا ہو گا۔

سب مہمانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے اور وہ مقصد اعلیٰ اخلاق اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے ہی پورا ہو سکتا ہے۔

کھانے کی مارکی میں ہر مہمان کا فرض ہے کہ کھانا کھانے کے بعد جلدی سے مارکی خالی کر دیں تاکہ دوسرے لوگ بھی آ کر کھانا کھا سکیں۔بعض دفعہ جگہ کم اور مہمان زیادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے باری باری یا شفٹوں میں کھانا کھلانا پڑتا ہے۔ تو اس بات کا خیال رکھیں کہ کھانا کھانے کے فوراً بعد مارکی سے نکلنے کی کوشش کریں نہ کہ وہیں کھڑے ہو کر گفتگو میں یا باتوں میں وقت گزاریں۔ باہر آ کر آپ نے باتیں کرنی ہیں تو کریں اور اپنا وقت گزاریں۔ اسی طرح کارکن پلیٹوں میں کھانا ڈال کر دیتے ہیں۔ آپ اگر مطالبہ کریں گے تو جیسا کہ ان کو بھی کہا ہوا ہے وہ آپ کو کھانا دیں گے آپ کے مطالبے پہ۔ لیکن کھانا ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ رزق کی ہمیشہ قدر کرنی چاہیے۔ بعض لوگ ذرا سی بھی روٹی جلی ہوئی ہو یا کچی ہو تو اسے نکال کر پھینک دیتے ہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اگر وہ کھانے کے قابل ہے تو کھا لی جائے سوائے اس کے کہ کوئی بہت بیمار ہو اور اس کے لیے وہ تکلیف کا باعث بنے۔عمومی طور پر تو مشینوں سے روٹی اچھی پک کر آ رہی ہوتی ہے، میں نے چیک بھی کی ہے لیکن بعض دفعہ خراب روٹیاں بھی آ جاتی ہیں جب تک روٹی بہت زیادہ جلی ہوئی یا بہت کچی نہ ہو اسے ضائع کرنے سے بچیں۔ اسی طرح سالن کو بھی ضائع ہونے سے بچائیں ضائع کرنے سے بچائیں۔ ایک تو یہ رزق کا ضیاع ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے دوسرے وہی کھانا اَور کسی دوسرے کے کام آ سکتا ہے۔

دوسرے یہ بھی ایک مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جو کھانا پلیٹوں میں بہت زیادہ بچ جاتا ہے اس کو کوڑے میں پھینکنا، اس کا ڈسپوزل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے صفائی کے شعبہ پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور انہیں بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے مہمانوں کو چاہیے کہ جلسہ سالانہ کے ان دنوں میں کھانے کو برکت سمجھ کر کھائیں اور اسے ضائع نہ کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی مثال یہ تھی کہ ایک دفعہ آپ کے کھانے کا انتظام نہ ہو سکا اور انتظام کرنے والے بھول گئے اور آپ بھی مصروف تھے۔ آپ نے جب اپنے کھانے کے بارے میں پوچھا تو سب پریشان تھے۔ کھانا ختم ہو چکا تھا۔ آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں۔ دستر خوان پر جہاں لوگوں نے کھانا کھایا ہے وہاں اگر روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے اور سالن ہے تو وہی لے آؤ میں وہی کھا لوں گا۔ چنانچہ آپ نے وہ ٹوٹے ہوئے ٹکڑے جو لوگ چھوڑ کر گئے تھے وہی کھا لیے۔ (ماخوذ از سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 322)یہ آپؑ کا اسوہ حسنہ ہے جو آپ نے ہمارے لیے قائم فرمایا۔ پس

ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم نے رزق کو ضائع ہونے سے بچانا ہے اور اس طرح کام سمیٹنے والوں کے لیے بھی آسانی پیدا کرنی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کھانے کو ضائع مت کرو۔(ماخوذ از سنن الترمذی کتاب الاطعمۃ باب ما جاء فی اللقمۃ تسقط حدیث 1803)(ماخوذ از سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب نھی عن القاء الطعام حدیث 3353)

کھانے کی قدر کرتے ہوئے اسے کھاؤ اور جو پیش کیا جائے اسے خوشی سے کھاؤ۔ بیشک آپ کا یہ فرمان جو ہے وہ مہمانوں کے لیے خاص طور پر ہے۔ اس لیے کہ وہ ان مہمانوں کے لیے ہے جو اس پر عمل کرتے ہیں اور اپنے ساتھ برکتیں لے کر آتے ہیں لیکن اس کو ثابت کرنے کے لیے ہر مہمان کو بھی اس کا نمونہ بننا چاہیے۔

ایسا مہمان جو برکتیں لانے والا ہو وہ مہمان بنیں اور ایسے مہمان نہ ہوں جو گھر والوں کے لیے پریشانی کا باعث ہوں بلکہ ان کو پریشانی سے نکالنے والے ہوں۔ ہم یہاں آئے ہیں تو جلسے کے تحت ایک انتظام ہے اور ڈیوٹیاں دینے والے ڈیوٹیاں دے رہے ہیں لیکن شامل ہونے والے اور کام کرنے والے سب احمدی ہیں اور ہم سب کا مقصد ایک ہے کہ ہم نے یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تعلیم اور اسلام کی تعلیم کے مطابق اپنی اخلاقی، روحانی اور علمی اصلاح کرنی ہے۔ چاہے وہ ڈیوٹی دینے والے ہوں یا مہمان سب کا یہی کام ہے کہ وہ اس کے لیے کوشش کریں۔ بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ کھانے میں کمی ہو جاتی ہے۔ کارکنوں اور لنگر خانے کی کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ کھانے میں کسی قسم کی کمی نہ ہو لیکن بعض اوقات بڑے مجمع میں اندازے غلط ہو جاتے ہیں اور کمی ہو بھی سکتی ہے۔ اس بارے میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ آپ نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہے اور تین کا کھانا چار کے لیے کافی ہے۔(مسلم کتاب الاشربۃ باب فضیلۃ المواساۃ فی الطعام القلیل…حدیث 2058 )

ایک اور روایت میں اس طرح آتا ہے کہ ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے اور دو کا چار کے لیے اور چار کا آٹھ کے لیے کافی ہے۔(مسلم کتاب الاشربۃ باب فضیلۃ المواساۃ فی الطعام القلیل……حدیث 2059)پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔

ایک بات جو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں وہ یہ کہ ڈیوٹی دینے والوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ کھانے کی مارکی اور دیگر جگہوں پر بھی صفائی کا خیال رکھیں۔ صفائی کے حوالے سے بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ آسانی پیدا کرنی ہے۔ سڑکوں اوررستوںپر گند نہ پھینکیں اس میں بھی اس بات کا خیال رکھیں۔ بعض لوگ بازار سے اشیاء خرید کر کھاتے ہیں، جہاں بیٹھیں وہاں کھانے پینے کے بعد اس کے جو خالی پیکٹ ہیں اور لفافے ہیں ادھر ادھر پھینکنے کی بجائے ڈسٹ بن میں ڈالیں تا کہ کام سمیٹنے والوں کے لیے بھی آسانی پیدا ہو اور کم وقت میں زیادہ کام کر کے انتظام کو زیادہ صحیح طور پر چلایا جا سکے۔ پھر یہ ہے کہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہر طرف سے ہونا چاہیے۔

میں نے کارکنوں کو بھی کہا ہے اور مہمانوں کو بھی چاہیے کہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ (مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار و الضیف … حدیث 47) پس کبھی ناراضگی کی ایسی صورت پیدا بھی ہو تو بجائے غصے کے، اظہار کے بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے کے خاموشی اختیار کریں اور استغفار کریں اور دعائیں پڑھیں۔

اسی طرح بچوں کے کھانے کے بارے میں بھی بتا دوں اس میں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے۔ بعض دفعہ لوگ بچوں کو پلیٹ بھر کر کھانا دے دیتے ہیں اور بچے اتنا کھا نہیں سکتے جس سے کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ تو یہاں بھی جیسا میں پہلے کہہ آیا ہوں کھانا ضائع ہونے سے بچائیں اور بچوں کو تھوڑا تھوڑا ڈال کر دیں چاہے بار بار ڈال کر دینا پڑے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسہ کے مقصد کو آپ نے پورا کرنا ہے اور ان برکات کو سمیٹنے اور ان سے اپنی جھولیاں بھرنے کی کوشش کرنی ہے جو برکات اس جلسہ کی ہیں اور جن کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس جلسہ کا اجرا فرمایا تھا۔

آپ نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا تھا کہ جلسہ میں بیٹھ کر آرام سے جلسہ سنو اور صرف تقریروں وغیرہ اور اچھائی یا برائی کو نہ دیکھو بلکہ اس بات کو دیکھو کہ جو بات بیان کی جا رہی ہے وہ اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق ہے اور اس پر ہم نے عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے نہ یہ کہ کون بیان کر رہا ہے اور کس طرح بیان کر رہا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’سب صاحبان متوجہ ہو کر سنیں۔ میں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لیے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل و قال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آ کر اس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کر رہا ہے۔ الفاظ میں کیسا زور ہے۔ میں اس بات پر راضی نہیں ہوتا۔ میں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلّف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا یہی اقتضا ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لیے ہو۔ جو بات ہو خدا کے واسطے ہو۔‘‘(ملفوظات جلد1صفحہ360۔ایڈیشن2022ء)

اورفرمایا کہ مسلمانوں میں گراوٹ کی وجہ یہی بنی ہے کہ وہ بڑی بڑی کانفرنسیں اور انجمنیں کرتے ہیں۔ مجلسیں ہوتی ہیں اور بڑے بڑے بولنے والے لسَّان لیکچررز اپنے لیکچر پڑھتے ہیں۔ شاعر اپنی قوم کے بارے میں شعر کہتے ہیں اور ان باتوں پر وہ نعرے لگا لیتے ہیں لیکن بعد میں کوئی اثر نہیں ہوتا اور قوم پھر صرف ان نعروں کی وجہ سے ہی تنزل کا شکار ہو جاتی ہے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد1صفحہ362۔ایڈیشن 2022ء)

پس یہ وہ تعلیم ہے اور اخلاص کا یہ معیار ہے جسے ہر شخص اور ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ صرف ہم نے نعرے لگانے کے لیے یا پسند کے لیے باتیں نہیں سننی بلکہ اللہ اور رسول کے واسطے ان پر عمل کرنے کے لیے باتیں سننی ہیں اور اسی مقصد کے لیے ہر احمدی کو یہاں آنا چاہیے اور آپ آئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اسی مقصد کے لیے آئے ہوں گے۔ جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو کام ہو اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اور جو بات ہو خدا کے واسطے ہو۔ ہر ایک کو اس اصول کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اس بارے میں بھی یاد رکھیں کہ ہمیں اپنے دن ذکر الٰہی میں گزارنے چاہئیں۔

جلسہ سنتے ہوئے بھی اپنی زبانوں کو ذکر الٰہی سے تر رکھیں۔ بعد میں چلتے پھرتے ملتے جلتے بھی لوگوں سے جب باتیں کر رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی خالصةً دینی باتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی باتیں ہوں۔ قرآن و حدیث اور مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مقاصد کو پورا کرنے والی باتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دین کے لیے دعائیں کرنے کی طرف توجہ ہو۔

ذکر الٰہی ہی ہے جو انسان کے خیالات کو بھی پاک کرتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے افضال کا وارث بنا دیتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ بڑے خوبصورت انداز میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایاہے کہ ذکر الٰہی کرو اور خاص طور پر جب مجلسیں لگی ہوں تو ان میں ذکر الٰہی کرو تو اس کا فائدہ اللہ تعالیٰ نے کیا بتایا ہے۔ اس کا فائدہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اُذْکُرُوا اللّٰہَ یَذْکُرْکُمْ۔کہ اگر تم ذکر الٰہی کرو گے تو خدا تمہارا ذکر کرنا شروع کر دے گا۔ پس جس بندے کا خدا ذکر کررہا ہو اس سے زیادہ خوش قسمت اور کون ہو سکتا ہے جس کا آقا اسے یاد کرے اور بلائے۔ ذکر الٰہی تو بہت بڑی نعمت ہے۔ آپ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہیں خواہ کوئی انعام ملے یا نہ ملے تم ذکر الٰہی میں مشغول ہو جاؤ۔ اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جائے گا اور پھر تمہیں یاد رکھے گا۔(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد4صفحہ258 خطبہ جمعہ فرمودہ25دسمبر1914ء)

اور جب اللہ تعالیٰ یاد رکھتا ہے تو پھر یہ نہیں کہ وہ بغیر انعاموں کے چھوڑ دیتا ہے وہ انعامات سے بھی نوازتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے کے لیے ان خاص دنوں میں ان باتوں کو خاص طور پر یاد رکھیں اور توجہ دیں۔ شامل ہونے والے اور ہر کام کرنے والے سب لوگ ان باتوں کی طرف توجہ دیں کہ ہم نے اپنی زبانوں کو ذکر الٰہی سے تر رکھنا ہے اور جب یہ ہو گا تو پھر ایک ایسا ماحول پیدا ہو جائے گا جو یقینا ًوہ ماحول ہے جس کی خاطر یہ جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں :’’سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہیے اور پورے غور اور فکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا ہے۔ اس میں غفلت، سستی اور عدم توجہ بہت برے نتیجے پیدا کرتی ہے۔ جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جاوے تو غور سے اس کو نہیں سنتے ہیں۔ ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں، دل رکھتے ہیں پرسمجھتے نہیں۔ پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑی غور سے سنو کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔‘‘(ملفوظات جلد2صفحہ 479۔ایڈیشن 2022ء)

ان تین دنوں میں فائدہ تبھی پہنچ سکتا ہے جب ہم ان باتوں کو غور سے سنیں اور پھر ان پر عمل کرنے کا عہد بھی کریں اور اس کے لیے اپنے دلوں کو پاکیزہ رکھنے کی خاطر ذکر الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر بھی رکھیں۔ جلسہ میں بیٹھ کر بھی ذکر الٰہی کرتے رہیں۔ دعائیں کرتے رہیں۔ درود پڑھتے رہیں اور پھر جب تقریریں سنیں اس کاخاص اثر بھی آپ پر ہو گا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس بارے میں بڑی فکر کا اظہار فرمایا ہے کہ اگر تم جلسہ کی کارروائی توجہ سے نہیں سنتے تو تمہارے یہاں جلسہ پر آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس بات کو خاص طور پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا مقصد اپنی اصلاح کرنا ہے۔ اپنے دینی علم کو بڑھانا ہے۔ اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنا ہے اور اس کے لیے ہم نے بھرپور کوشش کرنی ہے۔ اخلاقی طور پر اپنی حالت کو بہتر کرنا ہے۔ اپنے دوستوں اور بھائیوں کے لیے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور دل کی رنجشوں کو دور کرنا ہے یہ بھی ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ یہ جو ماحول پیدا ہوا ہے جس میں اتنے ہزار لوگ جمع ہیں یہ بھی ایک ایسا ماحول ہے کہ اگر اس میں ایک دوسرے سے بھائی چارے اور محبت کا سلوک کریں گے تو وہ حالات اور ماحول پیدا ہو گا جس میں محبت، پیار، اخوت اور بھائی چارہ ہو گا جو اسلامی تعلیم کا خاصہ ہے اور اسی پر عمل کرکے ہی انسان اللہ تعالیٰ کے نزدیک سرخرو اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والا ہو سکتا ہے۔ آپؑ نے اپنی بہت ساری تقریروں میں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جلسہ پر آنے کا ایک مقصد اعلیٰ اخلاق کا حصول ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اس اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہر طرف سے ہوناچاہیے۔

بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنجشیں اور لڑائیاں پیدا ہو جاتی ہیں حتّٰی کہ بعض دفعہ کارکنوں میں بھی لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہونا چاہیے۔

ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پس اس طرف کارکن بھی اور مہمان بھی دونوں توجہ دیں کہ ہمارے اخلاق ہمیشہ اعلیٰ ہوں اور ہر شر سے بچنے کے لیے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیے۔

اسی طرح جلسہ کے بارے میں بعض اَور باتیں بھی کہنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جلسہ کے دنوں میں آپ لوگ جہاں کہیں بھی قیام کریں۔ جب مسجدوں میں جاتے ہیں خاص طور پر لندن میں بیت الفتوح میں یا مسجد فضل میں، اسلام آباد ہے یا یہاں ہے تو اپنے ہمسایوں کا بھی خیال رکھیں اور اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے رہیں۔

سڑکوں کے قوانین کی پابندی کریں۔ رش کی وجہ سے بعض دفعہ ٹریفک زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے لوگوں کے گھروں کے سامنے کسی قسم کا گند نہ ڈالیں۔ بچوں والی خواتین کے لیے علیحدہ مارکیاں بنائی گئی ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی کہہ دوں کہ عورتوں کو بغیر ضد کیے انہی بچوں والی مارکیوں میں رہنا چاہیے اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہاں شور نہ مچائیں کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بچے تو کم شور مچاتے ہیں لیکن عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ چونکہ وہ اس مارکی میں آ گئی ہیں اس لیے ان کے لیے یہ باتیں کرنا جائز ہو گیا ہے۔ انہیں باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور تقریروں کی طرف توجہ دینی چاہیے اور جو پروگرام ہو اسے غور سے سننا چاہیے۔ اور جب وہ خود اپنا نمونہ دکھائیں گی تو بچے بھی خاموشی سے سنیں گے۔ بعض مائیں تو ماشاء اللہ ایسی ہیں جو بچوں کی اس طرح تربیت کرتی ہیں یا ان کی توجہ بٹانے کے لیے ان کے ہاتھ میں کوئی چیز دے دیتی ہیں جس سے بچے اس میں مصروف رہتے ہیں اور مائیں آرام سے پروگرام بھی سن لیتی ہیں لیکن بعض ایسی بھی ہیں جو آپس میں باتیں کرتی رہتی ہیں اس کی انتظامیہ شکایت کرتی ہے۔ تو یہ شکوہ کبھی پیدا نہ ہونے دیں۔ اور جب انہیں روکا جاتا ہے تو پھر آگے سے ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ قصور دونوں طرف سے ہو رہا ہوتا ہے۔ اگر کسی کارکن نے سختی سے بات کی ہے تو مہمان نےبھی سختی سے جواب دے کر معاملے کو مزید بگاڑا ہے۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ کسی بھی طرف سے بگاڑ پیدا نہ ہو بلکہ محبت اور پیار کی فضا قائم ہو۔

اسی طرح پارکنگ اور گیٹ سمیت تمام انتظامات ہیں، مہمانوں کو کارکنان سے تعاون کرنا چاہیے تاکہ سارے انتظامات بڑے آرام سے اور رواں طریقے سے چل سکیں۔ اسی طرح مہمانوں کو اپنے ارد گرد کے ماحول پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اگر کوئی مشکوک چیز دیکھیں تو فوراً اطلاع دیں۔ ایک دوسرے پر نظر رکھنے سے کوئی شریر شرارت کا ارادہ رکھنے والا بھی ہو تو باز آ جاتا ہے یا محتاط ہو جاتا ہے اور اسے شرارت کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ اس لیے ہر آنے والے کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس نے بھی ماحول کو محفوظ رکھنے اور اس کی حفاظت کے لیے اپنے ارد گرد نظر رکھنی ہے۔ اسی طرح ڈسپلن قائم کرنے والی انتظامیہ ہے اس سے بھی لوگوں کو بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ اپنے کارڈ ہمیشہ اپنے پاس رکھیں اور چیک کروائیں۔ جو لوگ قیام گاہوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ کوشش کریں کہ اپنی کوئی قیمتی چیز وہاں چھوڑ کر نہ آئیں۔ یہاں حفاظت کا انتظام بیشک ہے لیکن پھر بھی اپنی قیمتی اشیاء مثلاً رقم وغیرہ جو ہے اپنے ساتھ ہی لے کر آئیں تا کہ کسی قسم کے نقصان کا احتمال نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ سب لوگ اس جلسہ سے بھرپور فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ اس کی برکات سے فائدہ اٹھانے والے ہوں اور جب یہاں سے واپس جائیں تو اپنی جھولیاں بھر کر واپس جائیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے آپ لوٹیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندگی میں آپ پر اور آپ کی نسلوں پر فضل فرماتا رہے۔ ہمیشہ احمدیت کا ایک کارآمد وجود بن کر دنیا میں آپ زندگی بسر کرنے والے ہوں۔ آپ کی نسلیں بھی اس طرح ایک پاک اور کارآمد وجود بن کر دنیا میں زندگی گزارنے والی ہوں اور اللہ کرے کہ تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے۔

آخر میں یہ بھی بتا دوں کہ گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی مختلف شعبوں کی نمائشیں ہیں اور اچھی معلوماتی اور علم میں اضافہ کا ذریعہ ہیں، دلچسپ ہیں۔ انہیں بھی دیکھنے کی کوشش کریں۔ ایک جگہ ساری نمائشیں جمع ہیں۔ اسی طرح بک سٹال پر نئی کتب بھی آئی ہوئی ہیں وہاں بھی ضرور جائیں۔ وقفہ میں صرف بازاروں میں ہی نہ پھرتے رہیں یا وہیں کی، بازاروں کی خرید و فروخت نہ کریں بلکہ اس روحانی مائدے سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں