اخبار الفضل قادیان کا خاتم النبیّین ؐ نمبر

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل یکم ستمبر2025ء)

1928ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے سیرۃ النبیﷺ کے جلسوں کی بنیاد رکھی اور پھر الفضل اخبار نے ’’خاتم النبیّینؐ‘‘ نمبر شائع کرنا شروع کیا۔ اس حوالے سے بعض تبصرے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں ’’اخبار الفضل کی خدمات۔ معاصرین کی نگاہ میں‘‘ کے عنوان سے شامل اشاعت ہیں۔
٭… اخبار ’’مشرق‘‘ گورکھپور 21؍جون 1928ء میں لکھتا ہے: 12؍جون کو خاتم النبیّین نمبر الفضل نے شائع کیا ہے۔ اس میں حضرت رسول کریم ﷺ کے سوانح حیات و واقعات نبوۃ پر بہت کثرت سے مختلف اوضاع و انواع کے مضامین ہیں اور ہر مضمون پڑھنے کے قابل ہے۔ ایک خصوصیت اس نمبر میں یہ ہے کہ ہندو اصحاب نے بھی اپنے خیالات عالیہ کا اظہار فرمایا ہے جو سب سے بہتر چیز ہندوستان میں بین الاقوام اتحاد پیدا کرنے کی ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مردوں سے زیادہ عورتوں نے اپنے پیغمبر کے حالات پہ بہت کچھ لکھا ہے۔ اس نمبر کی قیمت 4 آنے کچھ بھی نہیں ہے۔ ہماری رائے ہے کہ 17؍جون کو جو لیکچر دیے جائیں ان سب کو ایک بڑی کتاب میں طبع کرنا چاہیے۔ …بہرحال جماعت احمدیہ نہایت اہم اور ضروری کام کررہی ہے۔
٭… جناب محمد بخش صاحب حنفی چشتی (سرگودھا)تحریر فرماتے ہیں:الفضل کا خاتم النبیّیننمبر بہزار شکریہ قبول ہوا۔ حضرت نبی مبارک ﷺ کے شان مبارک میں احمدی فضلاء کے مضامین خاص کر طبقۂ نسواں کے بیش بہا اورقابل لاکھ لاکھ تحسین کے ہیں لاریب جماعت احمدیہ جملہ فرقہ اسلامیہ میںترقی اور اشاعت اسلام میں پہلی قطار میں ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ ایسا عمدہ قیمتی نمبر4آنے کا پرانے خریداروں کو کس طرح مفت دے کر ایسے عظیم خرچ کا الفضل اور جماعت نے بارعظیم اٹھایا۔ (الفضل 31؍جولائی 1928ء)
٭…جناب لالہ رام چند صاحب منچندہ بی اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ لاہور تحریر فرماتے ہیں: میں نے اہل قلم کے قیمتی مضامین کو جو تمام کے تمام حضرت رسول اللہ ؐکی پاک ذات اور سوانح عمری کے متعلق ہیں، نہایت ہی مسرت اور دلچسپی سے پڑھا اور اپنی واقفیت کو بہت زیادہ بڑھانے کا نادر موقعہ حاصل کیا جس کے لیے میں آپ کا نہایت ہی مشکور ہوں۔ اور اس لیے بھی کہ آپ نے میرے مضمون کو اس قدر اہمیت دی اور اپنے قیمتی اخبار کے ایک نمایاں صفحہ پر زینت بخشی۔ جس ارادے سے آپ نے مجھے ارشاد فرماکر مضمون حضرت کی پاک ہستی کے متعلق مانگا، مَیں اس کی دل سے قدر کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لکھے پڑھے ہندوؤں کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کے مشن کے متعلق صحیح صحیح واقفیت ہو اور وہ ہندو ہوتے ہوئے بھی اُن کی عزت کریں اور اُن کے کام کی قدر۔ اس وقت دونوں ہندو مسلم دل و دماغ تعصب کے روگ سے میلے ہورہے ہیں اور انصاف اور حق کو برطرف کرکے سوائے ایک دوسرے کے لیڈروں کی برائیوں کے اَور کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ اس صدیوں کی مَیل کو دُور کرنا بےشک مشکل کام ہے اور مَیں چاہتا تھا کہ اس کی ابتدا مسلمان بھائیوں کی طرف سے ہو۔ خوشی کا مقام ہے کہ اس کا آغاز ہوگیا اور کچھ سالوں کے بعد اپنا اثر دکھلائے گا اور اگر استقلال کے ساتھ اس کو جاری رکھیں تو آج سے تیس سال بعد کئی ہندو گھرانوں میں پیغمبر صاحب کی برسی منائی جائے گی اور جو کام مسلم بادشاہ ہندوؤں سے نہیں کراسکے وہ آپ کراسکیں گے۔ ملک میں امن ہوگا، خوشحالی ہوگی، ترقی اور آزادی ہوگی اور ہندو مسلم باوجود مذہبی اختلاف کے بھائیوں کی طرح رہیں گے۔ …میں شکریہ کے ساتھ اس نیازنامہ کو ختم کرتا ہوں۔ (الفضل 11؍جون 1929ء)
٭…ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی جناب محمد یعقوب (از منصوری) لکھتے ہیں: آپ کا عنایت نامہ اور الفضل کا رسولؐ نمبر پہنچے۔ الفضل کا یہ پرچہ کیا باعتبار مضامین کے اور کیا باعتبار چھپائی وغیرہ کے نہایت عمدہ ہے اور میں آپ کو اس کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔ (الفضل18؍جون1929ء)
٭…انگریزی اخبار انڈین ’’ڈیلی ٹیلیگراف‘‘لکھنؤ 14؍جون 1929ء میں لکھتا ہے: قادیان کے اخبار الفضل نے اپنا خاص نمبر 76 صفحہ کا بہت قلیل قیمت پانچ آنے پر بانی اسلام کے یادگاری دن شائع کیا ہے۔ یہ خاص نمبر محمد ﷺ کی سیرت کے متعلق مسلم و غیرمسلم معززین کے مضامین اور نظموں پر مشتمل ہے اور قابل دید ہے۔ (ترجمہ ماخوذ)
٭…معاصر ’’کشمیری‘‘ (لاہور) 14؍جون 1929ء میں رقمطراز ہے: الفضل کے خاتم النبیّینؐ نمبر کی کئی دنوں سے دھوم تھی۔ آخر 31؍مئی کو یہ نمبر دیدہ زیب جاذب توجہ شکل اور صوری و معنوی خوبیوں کے ساتھ شائع ہوگیا۔ اس میں تیس مَردوں کے مضامین ہیں جن میں چار ہندو بزرگ بھی ہیں اور ایک عیسائی ہے باقی مسلمانوں کے مضامین ہیں۔ جن میں زیادہ حصہ احمدیوں کا ہے۔ چودہ خواتین نے رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ سیرت پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ آنحضرتؐ کا عورتوں اور بچوں سے کیا سلوک تھا۔ سترہ نظمیں ہیں جو مسلم و غیرمسلم اصحاب کی طرف سے ہیں۔ اس نمبر میں رسول کریمؐ کی زندگی پر ہر پہلو سے بحث کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ انسان تھے تو کس قسم کے تھے نبی تھے تو کس قسم کے تھے اور خاوند تھے تو کس قسم کے تھے۔ بیماروں سے بوڑھوں سے اپنوں سے غیروں سے غلاموں سے کس قسم کے پاکیزہ خصائل کا برتاؤ کرتے تھے۔ نظم و نثر کا یہ پاکیزہ مجموعہ جس کا حجم بڑے سائز کے 76 صفحہ تک ہے صرف پانچ آنہ میں مہتمم الفضل قادیان ضلع گورداسپور سے مل سکتا ہے۔
٭…اخبار سیاست لاہورلکھتا ہے: ’’قادیان کے مشورے سے ہر سال ایک مقررہ تاریخ پر تمام ہندوستان میں جلسے ہوتے ہیں جن میں رسول ﷺ (فداہ ابی و امی) کے اسوہ حسنہ پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ امسال 2؍جون کو یہ جلسے ہوئے اس موقعہ پر قادیان کے اخبار الفضل نے خاتم النبیّینؐ نمبر نکالا تھا۔ یہ نمبر ہماری نظر سے گزرا ہے۔ اس میں ملک کے بہترین انشاء پردازوں کے قلم سے اسوہ حسنہ رسول پاک کے متعلق مضامین موجود ہیں ہر مضمون اس قابل ہے کہ موتیوں سے تولا جائے۔ فاضل مدیر کی محنت قابل داد ہے کاغذ دبیز اور سفید، کتابت و طباعت دیدہ زیب۔‘‘ (16؍جون 1929ء)
٭…اخبار منادی دہلی 21؍جون 1929ء میں لکھتا ہے: ’’اس سال بھی اخبار الفضل کا خاتم النبیّینؐ نمبر نہایت قابلیت اور عرق ریزی سے مرتب کیا گیا ہے جو … 74 صفحات پر مشتمل ہے۔ مختلف اقوام کے اکابر و مشاہیر کے لکھے ہوئے 36 مضمون اور 16 نظمیں درج کی گئی ہیں۔ یہ مضمون مختلف عنوانوں کے ماتحت لکھے گئے ہیں اور ان میں رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مبارک زندگی کے ہر پہلو پر مبصرانہ خامہ فرسائی کی گئی ہے جس کے مطالعہ سے گوناگوں معلومات کے حصول کے علاوہ ایمان بھی تازہ ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس اخبار کا یہ نمبر اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس کا مطالعہ کرے۔…‘‘
٭…اخبار مشرق (گورکھپور) لکھتا ہے: الفضل قادیان یہ پرچہ سہ روزہ قادیان سے نکلتا ہے اور سلسلہ احمدیہ کا آرگن ہے۔ آجکل مسلمانان ہند کے متعلق اس کا نقطۂ خیال بہت صحیح ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہر انجمن اسلامیہ اور ہر مسجد میں اس کی رسائی ہو۔ عقائد سے کوئی واسطہ نہ رکھو، نہ ان کو پڑھو، صرف اتحاد بین المسلمین کے مسئلہ کو دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے۔ آٹھ روپے سالانہ قیمت ہے اور اسلامی جذبات کی پوری تائید کرتا ہے اور حضور انور ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا بڑا متبع ہے۔ (بحوالہ الفضل 2؍ستمبر1927ء)
٭… حکیم محمد عبدالرحمٰن صاحب (مالک دواخانہ رحمانی ضلع حصار) لکھتے ہیں: الفضل …میری نگاہ سے گزرا۔ میں آپ کے آزاد اور پابندِ شریعت اور سچے خیالات کو نہایت عقیدت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور پرچہ ہٰذا کو مسلمانوں کا سچا رہبر سمجھتا ہوں۔ جی چاہتا ہے کہ آپ کے پرچے اور خیالات کی تبلیغ کروں۔ چندہ سالانہ دس روپے پرچہ کی خوبیوں اور عظمت کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ (الفضل19؍جون 1930ء)
٭…مولوی محمد سلیمان صاحب غوری (اسلامیہ سکول فاضلکا) رقمطراز ہیں کہ اس شورش اور فتنۂ کانگریس کے ایام میں مسلمانوں کو آپ کے اخبار کی راہنمائی کی ازحد ضرورت ہے۔ مگر مسلمان ابھی ایسے تنگ نظر ہیں کہ مخالف عقیدہ جماعت کے اعلیٰ نمونہ کو بھی دیکھ کر عبرت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ قادیان سے خواہ کیسی ہی بہی خواہِ اسلام آواز اٹھے، ان کے دماغوں میں نہیں سماتی۔ (الفضل19؍جون 1930ء)

اپنا تبصرہ بھیجیں