الفضل سے تربیت
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24؍جولائی 2024ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے حوالے سے مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھے الفضل پڑھنے کی عادت بچپن میں پیدا ہوئی کیونکہ والد محترم میاں فضل الرحمٰن صاحب بسمل سابق امیر جماعت احمدیہ بھیرہ الفضل منگواتے اور باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے۔ الفضل کے مطالعہ نے ہی مجھ میں لکھنے کا شوق بھی پیدا کردیا۔

۱۹۶۷ء میں مجھے ایک یوگوسلاوین فرم میں ملازمت ملی تو چند ماہ بعد ایک غیرازجماعت انجینئر حبیب الرحمٰن بھی میرے ساتھ متعیّن ہوئے۔ پہلے ہی دن انہوں نے میرے پاس الفضل دیکھا تو مجھ سے لے کر پڑھا۔ اس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا خطبہ جمعہ بھی شائع ہوا تھا۔ پڑھ کر کہنے لگے کہ مجھے آپ کی جماعت سے دیرینہ تعارف ہے بلکہ حضرت نواب محمدعلی خان صاحب کے خاندان سے دُور کا تعلق بھی ہے اور مَیں نے آپ کے خلیفہ ثانی کے کئی خطبات اس سے پہلے پڑھے ہیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریر میں بھی بڑا جذب اور روانی ہے لیکن خلیفہ ثانی کی تحریر پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے اور آج خلیفہ ثالث کا خطبہ پڑھ کر بھی مجھ میں وہی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔
میرے والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ جوانی میں انہیں حقّہ پینے کی عادت پڑ گئی۔ انہی دنوں اپنے ایک زیرتبلیغ دوست کو آپ نے الفضل کا وہ شمارہ دیا جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا حقّہ نوشی کے مضرّات سے متعلق مضمون شائع ہوا تھا۔ وہ مضمون پڑھ کر میرے والد صاحب کو کہنے لگے کہ آپ مجھے احمدی بنانا چاہتے ہیں، پہلے یہ مضمون تو پڑھیں اور اپنا حال دیکھیں۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے اسی وقت توبہ کی اور حقّہ توڑ دیا اور پھر زندگی بھر اس کے قریب نہیں گیا۔ پھر وہ صاحب بھی احمدی ہوگئے اور بعد میں اُن کے ایک بیٹے (مکرم عبدالرشید یحییٰ صاحب) کو مبلغ سلسلہ امریکہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔