خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ22؍ اگست 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جنگوں کے یا غزوات کے ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے ذکر ہورہا تھا ۔ اسی ضمن میں آج غزوۂ حنین کا ذکر بھی کروں گا۔ یہ غزوہ شوال آٹھ ہجری میں پیش آیا۔ اس کو غزوہ حنین کیوں کہا جاتا ہے؟ اس لیے کہ حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک بستی کا نام ہے جو مکہ سے قریباً چھبیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ غزوہ اسی جگہ پر ہوا تھا اس لیے اس کو غزوۂ حنین کہا جاتا ہے۔ اس غزوہ میں شامل بڑا قبیلہ ہَوَازِن تھا اس لیے اس کو غزوۂ ہَوَازِن بھی کہاجاتا ہے۔ بعض نے اس کو غزوۂ اَوْطَاس بھی کہا ہے کیونکہ دشمن کی فوج کا ایک حصہ حنین سے بھاگ کر اوطاس نامی وادی میں چلا گیا تھا اور مسلمانوں نے وہاں پہنچ کر دشمن کو شکست دی تھی۔ اس لیے بعض نے یہ نام دیا ہے جبکہ اکثر مصنفین نے سریّہ اوطاس کا الگ ذکر کیا ہے۔(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ151دار الکتب العلمیۃ، بیروت)(غزوات النبی ﷺ علامہ برہان الدین حلبی،مترجم اردوصفحہ623)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ221 بزم اقبال لاہور)(طبقات الکبریٰ جلد دوم صفحہ114دار الکتب العلمیۃ بیروت)
غزوہ حنین کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح ہے:
أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ۔لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّیَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ۔ ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَعَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَعَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ ثُمَّ یَتُوۡبُ اللّٰہُ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔(التوبۃ :25تا 27)
یقیناً اللہ بہت سے میدانوں میں تمہاری مدد کر چکا ہے اور خاص طور پر حنین کے دن بھی جب تمہاری کثرت نے تمہیں تکبر میں مبتلا کر دیا تھا۔ پس وہ تمہارے کسی کام نہ آ سکی اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل کی اور ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور اس نے ان لوگوں کو عذاب دیا جنہوں نے کفر کیا تھا اور کافروں کی ایسی ہی جزا ہوا کرتی ہے۔ پھر اس کے بعد بھی اللہ جس پر چاہے گا توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جائے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب مکہ فتح ہو گیا اور اس وقت تک عرب کے بڑے بڑے قبائل یا اسلام لے آئے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں چلے آئے لیکن مکہ کے قریب ہی بسنے والے بنو ہَوَازِن اور بنو ثقیف جو کہ نہایت سرکش اور جنگجو قبائل تھے انہوں نے نہ صرف یہ کہ اطاعت قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ان کے سردار جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے مکہ سمیت عرب کے قبائل کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لیا ہے۔ اب وہ یقیناً ہماری طرف پیش قدمی کریں گے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ قبل اس کے کہ وہ ہماری طرف بڑھیں ہم خود ان پر حملہ آور ہو جائیں۔ خود انہوں نے تصور کر لیا اور یہ بھی کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ ابھی تک اناڑی لوگوں سے پڑا ہے ہمارے ساتھ ابھی تک ان کا واسطہ نہیں پڑا۔ بنو ہَوَازِن کے ساتھ قبیلہ ثقیف ،نَصْر اور جُشَم کے تمام جنگجو افراد جمع ہو گئے۔ قبیلہ سعد بن بکر اور بنو ہِلَال میں سے کچھ لوگ جمع ہوئے۔(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ310دارالکتب العلمیۃ بیروت)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو ہَوَازِن نے دراصل اس سے بہت پہلے ہی مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کر دی تھی کیونکہ جب انہوں نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آہستہ آہستہ یہود سمیت دوسرے قبائل کو اپنے تابع کرتے چلے جا رہے ہیں تو ان کو فکر لاحق ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ بت پرستی ختم ہو جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سمیت سب پر غالب آ جائیں اس لیے ضروری ہے کہ ان کا راستہ روکا جائے۔ چنانچہ اس کے لیے انہوں نے تیاری شروع کر دی اور عروہ بن مسعود کی قیادت میں ایک وفد اُردن کے شہر جُرَش کی طرف بھیجا تا کہ وہاں سے اسلحہ اور جنگی ہتھیار وغیرہ لےکرآئے اور بنو ہَوَازِن کی ان تیاریوں کا علم اس طرح ہوا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے لیے مدینہ سے مکہ کی طرف روانگی کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہراول دستے کے طور پر کچھ لوگوں کو لشکر کے آگے آگے روانہ کر دیا۔ اس ہراول دستے نے ہَوَازِن کے ایک آدمی کو گرفتار کر لیا جو کہ ایک جاسوس تھا اور ہَوَازِن کی طرف سے مسلمانوں پر نظر رکھنے کے لیے پھر رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس سے پوچھا اور اچھی طرح پوچھ گچھ کی تو اس نے بتایا کہ بنوہَوَازِن نے بہت سی فوج جمع کی ہے اور بنو ثقیف کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے اور بھاری ہتھیار اور اسلحہ کے لیے جُرَشْ کی طرف وفد بھیجا ہے۔(تاریخ طبری جلد2صفحہ166-167دارالکتب العلمیۃ بیروت)(امتاع الاسماع جلد1 صفحہ356دار الکتب العلمیۃ بیروت)(ماخوذاز غزوہ حنین ازباشمیل صفحہ83تا 85نفیس اکیڈمی کراچی)(ماخوذ از اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ240 دار السلام)
بنو ہَوَازِن انہی تیاریوں میں تھے کہ مکہ بغیر کسی خاص مزاحمت کے بآسانی فتح ہو گیا جس کی وجہ سے ہَوَازِن نے اپنی طاقت کے غرور میں یہ فیصلہ کیا کہ ہم خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے مقابلہ کے لیے نکلیں اور جیسا کہ ان کا زعم تھا کہ ہم ہیں جو مسلمانوں کو مغلوب کر کے ان کا قلع قمع کرسکتے ہیں۔ ان سب قبائل نے قبیلہ ہَوَازِن کے سردار تیس سالہ جوان مالک بن عوف کو اپنا سپہ سالار اور سردار بنایا اور بیس ہزار کا لشکر تیار ہو کر حنین کی طرف بڑھنے لگا۔ بنو ہَوَازِن کے سردار مالک بن عوف نے اس جنگ کی تیاری کے لیے ایک ایسا قدم اٹھایا جو عرب کی تاریخ میں شاید ہی پہلے کسی نے اٹھایا ہو اور وہ یہ کہ سپہ سالار نے ہر قبیلے کے ہر فرد کو یہ حکم دیا کہ وہ لڑائی کے لیے اپنے گھر سے اکیلے نہیں نکلے گا بلکہ اپنے بیوی بچے یہاں تک کہ اپنے مال مویشی سب کچھ ساتھ لے کر نکلے اور اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اس کے لشکر کا ہر سپاہی جان توڑ کر مردانہ وار جنگ کرے گا۔ اس کے ذہن میں یہ ہو گا کہ اس کے لیے بھاگنے کی کوئی راہ نہیں ہے کیونکہ اس کے بیوی بچے مال مویشی سب اس کے ساتھ ہیں۔ اس جنگ میں ایک بوڑھے سردار دُرَیْد بن صِمَّہ کے لڑائی سے روکنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ ہَوَازِن کے ساتھ تھا۔ لکھا ہے کہ بنو جُشَم میں ایک شخص دُرَیْد بن صِمَّہ تھا جس کی عمر سو سال سے زائد تھی۔ وہ بوڑھا شخص تھا جس کی بصارت ختم ہو چکی تھی۔ اس میں لڑائی کی قوت نہ تھی مگر تجربہ کار تھا اور جنگی مہارت سے خوب واقف تھا۔کسی زمانے میں بہادری اور شہسواری میں اس کی شہرت ہوا کرتی تھی ۔ انہوں نے اس کو بھی ساتھ لے لیا تا کہ اس کے تجربے اور مہارت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ جب مالک بن عوف نے لوگوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلنے پر اتفاق کر لیا اور لوگ اپنے اموال، اپنی عورتوں، اپنے بیٹوں کو لے کر نکلے یہاں تک کہ وہ اوطاس کی وادی میں پہنچ گئے اور وہاں خیمہ زن ہو گئے۔ بوڑھے دُرَید بن صمہ نے نیچے اتر کر زمین کو اپنے ہاتھ سے چھوا اور کہا تم کس وادی میں ہو؟ تو انہوں نے کہا وادیٔ اَوطاس میں۔ اس نے کہا یہ سختی کے لحاظ سے گھوڑوں کے چلنے کے لیے اچھی جگہ ہے۔ کوئی ہرج نہیں ہے۔ اتنی نرم نہیں کہ سُم دھنس جائیں مگر یہ بچوں کے رونے کی آوازیں، اونٹوں، گدھوں، بکریوں اور گائیوں کی آوازیں کیوں سن رہا ہوں؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ مالک بن عوف کے حکم پر سب بچوں، عورتوں اور مال مویشی کو ساتھ لایا گیا ہے تو دُرَید نے مالک سے کہا تو اپنی قوم کاسردار ہے آج کے دن کا اثر بقیہ دنوں پر ہے۔ یہ بچوں، اونٹوں، گدھوں، بکریوںاور گائیوں کو ساتھ کیوں لایا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں ہر انسان کے پیچھے اس کے اہل و عیال کو کھڑا کر دوں تا کہ وہ دشمن کے ساتھ بے جگری سے لڑے۔ دُرَید نے کہا یہ نہایت غلط رائے ہے۔ اللہ کی قَسم! تم محض بھیڑوں کو چرانا جانتے ہو یعنی اس نے کہا تمہیں لڑائی نہیں آتی۔ تمہیں لڑائی کا کچھ معلوم نہیں۔ پھر کہا کیا شکست خوردہ جماعت کو کوئی چیز واپس مل سکتی ہے۔ سنو لڑائی میں تمہارے نفع کے لیے صرف یہی بات ہے کہ آدمی کا نیزہ اور اس کی تلوار کام آئے گی اور اگر لڑائی کا فیصلہ تمہارے خلاف ہوا تو تم اپنے بیوی بچوں اور مال سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ اے مالک! تُو نے ہَوَازِن کی جماعت اور گھوڑوں کو آگے کیوں نہ کیا۔ اموال، عورتوں اور بچوں کو قوم کے قلعوں میں بھیج دو۔ پھر گھوڑوں پر سوار ہو کر ان سے لڑواور پیادہ فوج گھوڑوں کے درمیان ہوگی۔ اگر تم کو کامیابی ہوئی تو یہ لوگ، بچے اور مال مویشی تم سے آ ملیں گے۔ اور اگر تم ناکام رہے تو تم ان کے پاس چلے جانا۔ اس طرح تیرے اہل و عیال اور تمام مویشی بچ جائیں گے۔ مالک بن عوف نے کہا اللہ کی قسم !میں ایسا نہیں کروں گا اور نہ ہی اپنا فیصلہ تبدیل کروں گا۔ تم بوڑھے ہو گئے ہو تمہاری عقل ماری گئی ہے۔ دُرَید نے کہا اے ہَوَازِن کے گروہ! اللہ کی قسم !یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ یہ شخص تمہاری عورتوں کو بے عزت کر دے گا اور یہ شخص تم کو دشمن کے حوالے کر کے خود ثقیف کے قلعوں میں جا کر چھپ جائے گا۔ پس تم واپس لَوٹ جاؤ اور اس کو چھوڑ دو۔یوں اس نے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس پر مالک نے جو سردار بنایا گیا تھا اپنی تلوار نکالی اور کہا اے ہَوَازِن کے گروہ !اللہ کی قسم! تمہیں میری اطاعت کرنی پڑے گی ورنہ میں اپنا سارا بوجھ اس تلوار پر ڈال کر اس کو اپنے سینے سے پار کر دوں گا یعنی خود کشی کرلوں گا۔ بنو ہَوَازِن نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا اللہ کی قسم !اگر ہم نے مالک کی نافرمانی کی تو وہ اپنے آپ کو مار دے گا حالانکہ وہ نوجوان ہے اس کی عمر تیس سال کے قریب تھی تو پھر ہم دُرَید کے ساتھ باقی رہ جائیں گے اور وہ بوڑھا ہے اس کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کی جا سکتی۔ تم مالک کے ساتھ اتفاق کر لو۔ چنانچہ یہی ہوا۔ مالک نے دُرَید سے پوچھا کہ کیا اس کے علاوہ کوئی اَور بھی رائے ہے تو دُرَید نے کہا کہ ہاں کمین گاہوں میں اپنے افراد کو چھپا دو جو تمہارے مددگار ثابت ہوں۔ اگر دشمن نے تم پر حملہ کر دیا تو یہ ان کے پیچھے سے حملہ کر دیں گے۔ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ حملہ کر سکو گے۔ اگر تم نے حملہ کیا تو پھر ان میں سے ایک بھی پیچھے نہ ہٹے گا۔ اس وقت مالک نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ گھاٹیوں اور وادیوں کے دامنوںمیں چھپ جائیں۔ پہلا حملہ ہی یکبارگی سے کر دیں تا کہ اسلامی لشکر کو شکست دے سکیں۔(سیرت ابن ھشام صفحہ761-762دار الکتب العلمیۃ بیروت)(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ 151-152دار الکتب العلمیۃ، بیروت)(تاریخ الخمیس جلد2،صفحہ 508-509دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ311-312دار الکتب العلمیۃ بیروت)(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ 78 نفیس اکیڈمی کراچی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ہَوَازِن کی تیاری کی خبر بھی ملی۔ پہلے بھی کچھ بیان ہوئی ہے۔ جس کی تفصیل یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں ان واقعات کی خبر پہنچی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائل ہَوَازِن کے لشکر کے حالات کے جائزہ کے لیے حضرت عبداللہ بن ابوحَدْرَدْ اسلَمِی کو بھجوایا تھا۔ ایک تو اس جاسوس نے کچھ خبر دی تھی کہ اسلحہ اکٹھا ہو رہا ہے۔ اب جب یہ تیاری ہو گئی تو پھر اس کے لیے آپؐ نے اپنا ایک آدمی بھجوایا کہ خبر لاؤ جو عبداللہ بن ابو حدرد اسلمی تھے۔ وہ ان ہَوَازِن کے لوگوں کے لشکر میں داخل ہو گئے اور ان میں چل پھر کر ہر قسم کی معلومات جمع کیں۔ وہ ایک یا دو دن ان میں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ انہوں نے مالک کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا جو اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے یہ کہہ رہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس سے پہلے کسی ایسی قوم سے قتال نہیں کیا جو جنگی فنون سے آشنا ہو۔ انہوں نے ایسی قوم کے جوانوں سے لڑائی کی ہے جن کو لڑائی کا علم نہیں ہے تو وہ ان پر غالب آ گئے ہیں۔ پس جب صبح ہو گی تو تم اپنے مویشیوں اور اپنی عورتوں کی صفیں اپنے پیچھے بنا لو پھر ایک دفعہ ہی حملہ کر دینا اور تم اپنی تلواروں کی نیام توڑ دینا اور بے نیام بیس ہزار تلواروں سے لڑو اور ایک مرد کے حملے کی طرح حملہ کرو اور تم جان لو کہ غلبہ وہی پائے گا جو پہلے حملہ کرلے گا۔ پھر عبداللہ بن ابو حدرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو ساری خبر دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبوراً مقابلے کی تیاریاں کیں۔( شرح العلامۃ الزرقانی جزء3صفحہ-500 501غزوہ حنین دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت النبیؐ از شبلی جلد اوّل صفحہ 355دار الاشاعت کراچی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو ہَوَازِن سے مقابلے کے لیے مکہ سے روانگی سے قبل جائزہ لیا تو متوقع جنگ کے لحاظ سے اسلامی فوج کے پاس سامان جنگ بہت کم تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے مالدار رئیس صَفْوَان بن اُمَیَّہ جو اس وقت تک ابھی مشرک ہی تھا اس سے کچھ ہتھیار بطور قرض مانگے۔ تو اس نے آپؐ سے کہا: کیا آپ میرا مال عاریتاً لینا چاہتے ہیں یا غصب کرنا چاہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ہم تو یہ عاریۃً مانگ رہے ہیں اور ان کی واپسی کے لیے ضمانت ہے۔ اس پر وہ دینے کے لیے تیار ہو گیا اور اس نے ایک سو زرہیں دیں جن کے ساتھ خَود اور ڈھالیں وغیرہ بھی تھیں۔ بعض روایات کے مطابق اس اسلحہ کو منتقل کرنے کے لیے اس نے اونٹ بھی ساتھ دیے۔ جنگ کے بعد صفوان کی زرہیں واپس کرنے کے لیے اکٹھی کی گئیں تو ان میں سے کچھ زرہیں کم تھیں۔ چونکہ زرہیں واپس کرنے کی ضمانت دی گئی تھی اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صَفْوَان سے بات کی کہ ان کی قیمت لے لو لیکن اب صفوان وہ صفوان نہیں رہا تھا جو زرہیں دیتے وقت تھا۔ صَفْوَان جنگ حنین میں ساتھ تھا گو کہ وہ اس وقت بھی مشرک ہی تھا اور حنین کے واقعہ کے بعد اس نے اسلام قبول کر لیا تھا یعنی جنگ میں شامل تو ہوا تھا لیکن مشرک تھا لیکن حنین کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زرہوں کی قیمت دیے جانے کا فرمایا تو صفوان کہنے لگا: لَا ۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لِأَنَّ فِی قَلْبِی الْیَوْمَ مَالَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ۔ نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیونکہ میرے دل کی کیفیت جو آج ہے وہ اس دن نہیں تھی۔ اور زائد لینے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح آپ نے اپنے چچا زاد بھائی نَوفَل بن حارث سے بھی تین ہزار نیزے مستعار لیے اور فرمایا: میں تیرے ان نیزوں کو دشمن کی پشت میں دھنستا ہوا دیکھتا ہوں۔ آپ کے اس فرمان میں یہ خبر تھی کہ دشمن شکست کھا کر بھاگے گا اور بھاری جانی نقصان اٹھائے گا۔ اسی طرح ابن ابی ربیعہ سے بھی کچھ اسلحہ مستعار لیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کی جھلک قابل غور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا تھا اب یہ ایک مفتوح قوم تھی اور جنگی دستور اور رواج کے مطابق فاتح ہی مفتوح قوم کے اموال کا مالک ہوا کرتا ہے لیکن اب جب جنگ کے لیے ہتھیاروں کی ضرورت پڑی تو ایک ایک ہتھیار ادھار لیا گیا اور اس وعدے کے ساتھ کہ ہم جتنے ہتھیار لے رہے ہیں اتنے ہی واپس کریں گے۔ اسی طرح ابوجہل کے سوتیلے بھائی عبداللہ بن ابی ربیعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس چالیس ہزار درہم قرض لیے۔ روایت میں ہے کہ یہ فتح مکہ کے دن مسلمان ہو گئے تھے۔
ایک روایت کے مطابق آپؐ نے قریش کے تین افراد سے قرض لیا۔ آپؐ نے صَفْوَان بن اُمَیَّہ سے پچاس ہزار درہم، عبداللہ بن ابی ربیعہ سے چالیس ہزار درہم اور حُوَیْطِبْ بن عبدالْعُزّٰی سے چالیس ہزار درہم قرض لیا۔ یہ کل ایک لاکھ تیس ہزار درہم بنتے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق نقد قرض آپ نے فتح مکہ کے موقع پر ضرورتمند صحابہ کی مدد کے لیے لیا تھا جو آپ نے ان کے درمیان تقسیم کیا تھا اور ہر ایک شخص کو کم و بیش پچاس درہم دیے گئے تھے اور ایک روایت کے مطابق بنو جَذِیْمَہ کے مقتولین کی دیت کا معاوضہ وغیرہ ادا کرنے کے لیے یہ رقم قرض کے طور پر لی گئی تھی۔ ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ضروریات کے لیے یہ رقم قرض کے طور پر لی ہو جس میں مالی معاونت اور دیتوں کی ادائیگی شامل ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ واللہ اعلم۔(دائرہ معارف سیرت محمدﷺ جلد 9 صفحہ 236تا 238بزم اقبال لاہور)(السیرۃ الحلبیہ جلد 3صفحہ 153دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سنن ابوداؤد، کتاب البیوع ، باب فی تضمین … حدیث3563)(مسند الامام احمدبن حنبل جلد5صفحہ 614-615حدیث16524عالم الکتب بیروت )(الاستیعاب جلد3صفحہ896-897دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ258دار الکتب العلمیۃ بیروت)(غزوہ حنین، ازباشمیل صفحہ 43نفیس اکیڈمی کراچی)
اس کی باقی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔ نماز کے بعد میں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ایک مکرم خواجہ مختار احمد صاحب بٹ کا ہے جو خواجہ عبدالرحمٰن صاحب سیالکوٹ کے بیٹے تھے۔ گذشتہ دنوں یہ بانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ قانون کی تعلیم حاصل کی۔ پھر ایئرفورس میں چلے گئے۔ وہاں رسالپور سے انہوں نے ایئر فورس میں ٹریننگ لی اور 1974ء تک پاک فضائیہ میں بطور قانونی افسر نمایاں خدمات بجا لاتے رہے۔ اسی سال دیگر احمدی افسران کے ساتھ ان کو بھی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔
1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات کے نہایت نازک دور میں آپ نے حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیر راہنمائی جماعت کے قانونی کمیشن میں خدمت کی اور جماعت کی کوششوں کے سلسلہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے سے ملاقات بھی کی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گہرا تعلق تھا اور Essence of Islam کی پہلی جلد کی تیاری میں حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحب کی معاونت کا بھی ان کو موقع ملا۔ مرکزی سطح پر آپ بطور ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن اور کافی سال دارالقضاء ربوہ میں بطور قاضی بھی خدمت بجا لاتے رہے۔
قضاء میں ان کے ساتھ میں نے بھی کچھ عرصہ کام کیا ہے۔ بڑے صائب الرائے تھے اور بڑے عاجز انسان تھے اور خلافت سے ان کا تعلق تو ہمیشہ سے تھا اور بعد میں تو میرے ساتھ بھی بڑا تعلق رہا۔
2002ء میں یہ کینیڈا منتقل ہو گئے تھے۔ وہاں ریجنل امیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ نمازوں اور تلاوت قرآن کریم کے پابند، مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے مخلص فدائی احمدی تھے۔ آپ کی زندگی خلافت کے ساتھ وفاداری، عاجزی اور اخلاص کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں اور نواسے نواسیاں، پوتے پوتیاں ہیں۔
ان کی اہلیہ امة القیوم صاحبہ غلام احمد اختر صاحب مرحوم کی بیٹی ہیں۔ یہ غلام احمد اختر صاحب ریلوے میں تھے۔ ڈائریکٹر کے بڑے عہدے پہ تھے اور حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے دور میں یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ ناظر اعلیٰ بھی رہے ہیں ۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ساتھ سٹیج پر تقریروں میں سیکیورٹی کی ڈیوٹی بھی دیتے رہے۔ بہرحال خدمت کرنے والا خاندان تھا۔ یہ خواجہ مختار صاحب ڈاکٹر زاہد خان صاحب جو صدر قضاء بورڈ یوکے ہیں ان کے سسر تھے۔ خواجہ صاحب کی بیٹی عائشہ خان لکھتی ہیں کہ میں نے ہمیشہ انہیں خلافت کا اطاعت گزار پایا۔ تینوں بہن بھائیوں کی تربیت اسی نہج پر کی۔ یہ ہمیں کہا کہ جماعت اور خلافت کی اطاعت کے علاوہ ہماری زندگی کا اَورکوئی مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ آپ نے 1974ء میں ایئر فورس کی نوکری کےاچانک ختم ہو جانے اور پھر وکالت کی پرائیویٹ پریکٹس میں کچھ اتنی کامیابی نہ ملنے پر بھی کبھی صبر اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل نہیں چھوڑا۔ کسی انسان کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور اپنی حاجات اللہ تعالیٰ کے حضور ہی پیش کرتے رہے۔ کہتی ہیں جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ان کو عبادت گزار ہی دیکھا ہے اور نیکی کے سب کاموں میں حصہ لیتے ہی پایا ہے۔ چندہ ہمیشہ مہینے کے شروع میں دے دیا کرتے تھے اور اگر پیسے ہوتے تو پیشگی چندہ ادا کر دیا کرتے تھے۔ تعلقات نبھانے میں بہت بڑھ کر تھے۔ خلافت سے وفا کا تعلق تو تھا ہی جیسا کہ میں نے کہا۔ غیر معمولی تعلق تھا۔ نظام جماعت کے بھی انتہائی پابند تھے بلکہ ان کے باقی بھائی بھی نظام جماعت اور خلافت سے انتہائی اخلاص کا تعلق رکھنے والے ہیں کیونکہ ان کے والد صاحب نے ان کی تربیت کی۔ تو یہ پورا خاندان ہی اللہ کے فضل سے انتہائی وفا کا تعلق رکھنے والا ہے۔ ان کی اہلیہ بھی جیسا کہ میں نے بتایا اختر صاحب کی بیٹی ہیں یہ بھی خدمت گزار خاندان ہے۔ بہرحال ان دونوں میاں بیوی کی تربیت کی وجہ سے بچے بھی جماعت سے اخلاص کا تعلق رکھنے والے ہیں اور خدمت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو، بچوں کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی بھی توفیق دے اور مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
دوسرا جنازہ ہے، ذکر ہے سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ نذیر احمد صاحب۔ یہ انڈیا کی ہیں۔ یہ بھی گذشتہ دنوں پچھتر سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے شامل ہیں۔ طاہر احمد طارق صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد قادیان کی والدہ تھیں۔ بطور جماعتی نمائندہ یہ طاہراحمد صاحب یہاں انگلستان میں آئے ہوئے تھے۔ پیچھے سے ان کی والدہ کی وفات ہو گئی۔ اس لیے یہ ان کے جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے۔ یہ بھی خدمت کرنے والا خاندان ہے۔ ان کے چھوٹے بیٹے، طاہر صاحب کے بھائی شبیر احمد صاحب بھی سلسلہ کے معلم ہیں اور اسی طرح ان کی بیٹی بھی مبلغ سلسلہ جبار صاحب کی اہلیہ ہیں۔ باقی دو بیٹے جو ہیں وہ بھی جماعت کی خدمت کرنے والے ہیں۔ کافی خدمت گزار خاندان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔
طاہر احمد طارق صاحب لکھتے ہیں کہ گذشتہ پچیس سال سے سانس کی تکلیف میں مبتلا تھیں اور بڑے صبر اور وقار سے اپنا بیماری کا عرصہ گزارا۔ کبھی شکوہ شکایت نہیں تھا۔ ان کا تعلق چار کوٹ راجوری، جموں کشمیر سے تھا۔ خاندان میں احمدیت کا نفوذ حضرت قاضی محمد اکبر بھٹی صاحبؓ صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوا۔ پھر ان کے خاندان میں احمدیت پھیلی۔ بہت دیندار اور نماز اور روزہ کی پابند تھیں۔ معمولی پڑھی ہوئی تھیں لیکن بچپن میں ہمیں جب شام ہوتی تو قرآنی دعائیں، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں، احادیث اور انبیاء کے واقعات سناتیں۔ طبیعت کے اندر نفاست کا بہت زیادہ عنصر تھا۔ ملنسار اور اپنے تمام عزیزو اقارب سے محبت و شفقت کا سلوک کرنے والی تھیں۔ خلافت اور نظام سلسلہ سے بہت محبت تھی اور خود اپنے شوق سے ہمیں وقف کیا اور وقف کو نبھانے کی ہمیشہ تلقین کرتی رہیں۔ اور ہمیں قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے روزانہ تیار کر کے بھجواتیں اور اسی طرح دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی۔ ساری اولاد کو اچھی تعلیم دلوائی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔