الفضل کے درویش کراچی میں

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 29؍ستمبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے متبادل کے طور پر کراچی سے المصلح کی اشاعت کے زمانے میں الفضل کے کارکنان کے بارے میں مکرم بشیرالدین سامی صاحب کے مشاہدات پر مبنی ایک مضمون ’’الفضل کے درویش‘‘ شامل ہے جس میں الفضل کے عملے کی اَن تھک کاوشوں کی مختصر تصویرکشی کی گئی ہے۔

بشیرالدین سامی صاحب

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ کراچی سے ان دنوں خدام الاحمدیہ کا ترجمان پندرہ روزہ المصلح نکلا کرتا تھا جس کی ادارت میں فیض عالم چنگوی اور تاثیر احمدی شامل تھے۔ یہ حضرات بخوشی ایک طرف ہٹ گئے اور ان کی جگہ الفضل کے سٹاف نے لے لی ۔ یوں الفضل نے المصلح کا پیرہن اختیار کیا۔ مکرم روشن دین صاحب تنویر ، مسعود احمد خان صاحب دہلوی، شیخ خورشید احمد صاحب اور محمد احمد صاحب پانی پتی جیسے صاحب طرز ادیب اور اخبار نویس آ موجود ہوئے۔ اسی دَور میں ہمیں بھی روشن دین تنویر سے ملنے کی سعادت ملی۔ مگر حسرت ہی رہی کہ ہم کبھی کسی مجلس میں بھی اُن کو دیکھ پاتے۔ انہوں نے احمدیہ ہال کے پچھواڑے ایک کمرہ کو اپنا مسکن اور دفتر بنائے رکھا۔ وہ تو تھے بھی اپنی جگہ خاموش طبع اور تنہائی پسند انسان ، ان کے خرام میں بھی تو کوئی آواز نہ تھی۔ اسی ماحول میں ایک مسعود احمد خان دہلوی بھی تھے بولتے کم تھے۔ آس پاس کو پڑھتے زیادہ تھے۔ کہیں کہیں ایک آدھ فقرہ چست کر دیا۔ ان کے ساتھیوں میں ایک شخصیت اللہ بخشے محمد احمد پانی پتی کی بھی تھی۔ جنہوں نے احمدیہ ہال کے بازو میں سٹور نما کمرہ میں ایک چٹائی کو دفتر بنا رکھا تھا۔ ایک ہاتھ میں عربی کی کوئی پرانی کتاب تھامے رکھتے دوسرے ہاتھ میں قلم ہوتا جو رہٹ کی طرح علوم و فنون کے خزانے قرطاس پر انڈیلتا چلا جاتا۔ ترجمہ کرنے میں ایسی مہارت اور روانی تھی کہ دیکھنے والا محسوس کر سکتا تھا کہ محمد احمد پانی پتی کو ایک دوڑ سی لگی ہے۔ وقت نے بھی یہی بتایا۔ واقعی وہ دوڑ تھی۔ زندگی نے وفا نہ کی۔ نوجوانی میں ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اور اپنے کام سے اردو بازار لاہور کے کتب فروشوں کی الماریاں بھر گئے۔
باوجود تنگی داماں، انتظامی لحاظ سے ایک مولوی عبداللہ اعجازتھے جنہوں نے دفتری آن بان کو بنا رکھا تھا۔ اسی طرح عملہ میں ایک نہایت ہر دلعزیز، سادہ اور منکسر المزاج ہستی منشی سبحان علی صاحب کی تھی۔ جتنے خوش طبع تھے۔ اتنے ہی خوش نویس تھے۔ کراچی کی ہر ادا انہیں بھلی لگتی تھی۔ خاص طور پر موسم سے بہت خوش تھے۔ ایک روز وہ کسی مارکیٹ سے کالے رنگ کا سیکنڈ ہینڈ مخملی کوٹ خرید کر پہن آئے۔ ان کا گزر تنویر صاحب کے سامنے سے ہوا تو فقرہ چست ہوا:کیا خوب! منشی صاحب! آپ تو بالکل بیگم لیاقت علی لگ رہے ہیں۔
دراصل منشی صاحب نے جو کوٹ پہن رکھا تھا وہ لیڈیز کوٹ تھا۔ بہت دیر تک عملے میں ان کے ساتھ یہ چھیڑ رہی۔ لیکن ان کی ہمت کی بھی داد دینا پڑے گی۔ انہوں نے وہ کوٹ اتارا نہیں۔ انہوں نے تو آخر اسے خرید کر ہی پہنا تھا۔
الفضل کا سٹاف ایک سال تک کراچی میں رہا۔ ان کی مستقل مزاجی، لگن، اَن تھک محنت اور ذمہ داری کے احساس نے ایک لمحہ بھی انہیں اجنبی مہمان ہونے کا کوئی تصور پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ المصلح کے نام کے سوا انہوں نے کراچی کی جماعت سے اپنے لیے کسی سہولت کی خواہش نہ کی۔ کس حال میں وہ کراچی آئے۔ کس حال میں وہ واپس گئے۔ یہ سب اثاثے وہ اپنے ساتھ ہی لے گئے اور ہمیں خواب دیکھنے کے لیے چھوڑ گئے۔ اللہ اللہ، کتنے خوددار، کتنے حوصلہ مند، کتنے درویش صفت تھے وہ لوگ!

جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں