الفضل اخبار کی خوبصورت یادیں

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 29؍ستمبر2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم عاصم جمالی صاحب اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں کہ یہ ناچیز اب زندگی کے تریسٹھویں سال میں ہے۔ سن ساٹھ کے دہاکے میں مجھے اپنے والد محترم چودھری محمد عبدالغنی صاحب کے ساتھ جھنگ کے چھوٹے سے شہر سے جا کر سرگودھا اور لاہور کے بڑے شہروں میں رہنے کا موقعہ میسر آیا۔ یہ میری تعلیم کے پرائمری درجے سے نکل کر ہائی سکول اور کالج کی تعلیم کے سال تھے۔ الفضل اگرچہ جھنگ میں بھی والد صاحب منگواتے تھے اور میں اس میں سے کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا تھا لیکن اس کی قدر وقیمت سے آگاہ نہ تھا۔جب والد صاحب مرحوم کا تبادلہ ڈی سی آفس جھنگ سے کمشنر آفس سرگودھا ہوا تو ہم سرگودھا میں نیوسول لائنز کے علاقہ میں رہتے تھے۔ ان دنوں سائیکل سے گر کر میرا بایاں بازو ٹوٹ گیا تھا۔ نیوسول لائنز میں ہی احمدیہ مسجد کے بنائے جانے کے وہ ابتدائی ایام تھے جس میں مٹی وغیرہ ڈھونے میں، مَیں بھی اپنے والد صاحب اور بھائیوں کے ہمراہ حصہ لیتا تھا۔ پکی اینٹوں کا ایک تھڑا اور محراب بن گئے تو ہم وہاں نمازیں بھی ادا کرنے لگے۔

حضرت مرزا عبدالحق صاحب

بازو ٹوٹنے کے باعث کافی دنوں تک جب مسجد میں نہ جاسکا تو ایک روز شام کو مشفقی مرزا نثار احمد صاحب ابن حضرت مرزا عبدالحق صاحب میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور جاتے ہوئے مجھے حضرت مسیح موعود کی تصنیف ’’کشتی نوح‘‘ سے ماخوذ ’’ہماری تعلیم‘‘ اور ٹالسٹائے کا ناول ’’وار اینڈ پیس‘‘ دے گئے کہ لیٹا لیٹا میں ان کا مطالعہ کیا کروں۔ ان ہی ایام میں مجھے الفضل کی اہمیت کا بھی احساس ہوا۔ بعد میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب کی ذاتی لائبریری میں اس کے فائل سال بہ سال جلدیں بندھوا کر رکھے ہوئے دیکھے تو الفضل کے مقام و مرتبے کا احساس پیدا ہوگیا۔ چنانچہ تب سے میں نے بھی الفضل کے پرچوں کو سنبھال کر رکھنا شروع کردیا۔

پھر ہم والد صاحب کے تبادلہ کے باعث لاہور میں چوبرجی گارڈنز اسٹیٹ کے کوارٹرز میں فروکش ہوگئے تو اسلامیہ پارک کی احمدیہ مسجد میں مکرم شیخ عبدالقادر صاحب محقق کی گفتگو اور گاہے بگاہے تقاریر سنتا تھا۔ شیخ صاحب مرحوم سے تبادلہ خیال کے دوران ہی یہ خیال آیا کہ الفضل کا ایک انڈکس بنایا جائے۔ اس امر کو شیخ صاحب موصوف نے بہت سراہا۔ پھر میں بینک کی ملازمت کے جھمیلوں میں پڑگیا مگر الفضل کے تمام شماروں کو محفوظ کرتا رہا۔ اسی دوران مارچ2000ء میں دل کے بائی پاس آپریشن کے عمل سے گزرنا پڑا تو شفایاب ہونے پر شکرانے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کے313؍اصحاب کے احوال کو باقاعدہ طور پر لکھنا شروع کیا اور پھر نومبر2002ء میں مکرم نصراللہ خان ناصر کے ساتھ مل کر ان اصحاب کے کام کو الفضل اور دیگر رسائل و کتب کو کھنگال کر ترتیب دے دیا گیا۔ ’’جواہر الاسرار‘‘ کے بارے میں مضامین کا سلسلہ شائع ہوتا رہا جو بعد ازاں اضافے کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کردیا گیا۔ بحمداللہ یہ ہے ایک مختصر روئیداد میری زندگی میں الفضل کے کردار کی۔ وگرنہ

من آنم کہ من دانم

اپنا تبصرہ بھیجیں