ربوہ اور الفضل کی انفرادیت

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 13؍اکتوبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم انیس احمد ندیم صاحب صدر و مبلغ انچارج جاپان لکھتے ہیں کہ ایک غیرازجماعت دوست انور صاحب سے ملاقات ہوئی تو دورانِ تعارف خاکسار نے جب احمدیت کے بارے میں بتایا تو موصوف کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ کو مَیں بچپن سے جانتا ہوں، زمانہ طالب علمی میں میرے ایک احمدی دوست کے ہاں رسالہ تشحیذ الاذہان آتا تھا تو مزے مزے کی کہانیاں اور لطائف ہم مل کر پڑھا کرتے تھے۔ پھر ہم جوان ہوئے اور ہوسٹل شفٹ ہوگئے تو یہ سلسلہ الفضل میں تبدیل ہوگیا اور الفضل کا مستقل مطالعہ میرا معمول بن گیا۔
پاکستان میں قانونی پابندیوں کی وجہ سے الفضل نے ایک نئی لغت متعارف کروائی ہے۔ بعض الفاظ اور اصطلاحات تو اصل سے بھی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے مربیان کو ہدایت فرمائی ہوئی ہے کہ جس علاقہ میں جائیں وہاں کی جماعت کی تاریخ سے واقفیت حاصل کریں۔ خاکسار کو بطور مربی سلسلہ ملتان اور جاپان میں خدمت کی توفیق ملی ہے۔ چنانچہ دونوں جگہ کی تاریخ احمدیت بھی مرتب کی۔ اس تدوین میں بلاشبہ سب سے نمایاں کردار روزنامہ الفضل کا ہی رہا۔ ایک بار میلسی (ملتان) کی جھنڈیر ریسرچ لائبریری میں گیا تو وہاں کی انتظامیہ نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل تک الفضل ہماری لائبریری کی زینت ہوا کرتا تھا اور مکرم چودھری نذیر صاحب سابق امیر جماعت بہاولپور مسلسل کئی سال انہیں الفضل مہیا کرتے رہے ہیں۔
ایک دفعہ ایک غیراز جماعت دوست ملنے آئے تو انہوں نے جب الفضل میں یہ اعلان پڑھا کہ مجھے بازار سے کچھ نقدی، موبائل یا پرس ملا ہے، جس کا ہو و ہ نشانی وغیرہ بتا کر حاصل کرلیں۔ تو وہ دوست کہنے لگے کہ شاید ربوہ ہی وہ واحد شہر ہو یا الفضل وہ واحد اخبار ہو جس میں اس طرح کے اعلان شائع ہو رہے ہیں۔ گویا یہ اہلِ ربوہ کی دیانت کا ایک اعتراف ہے جس کا برملا اظہار ان اعلانات سے ہوتا ہے۔
الفضل کے ساتھ میرا تعلق اور لگاؤ بچپن سے ہی رہا ہے۔ سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں یہ خزانہ کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ والد صاحب اور نانا جان الفضل کے مستقل قارئین میں سے تھے جس کے اثرات اور گھریلو ماحول کا اثر تھا کہ یہ دلچسپی نسلوں میں بھی منتقل ہوئی۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جن گھروں میں الفضل آتا ہےیا انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے پڑھا جاتا ہے تو ایسے گھروں کا تربیتی معیار اور جماعت سے تعلق ایسے گھروں سے نسبتاً بہتر ہوتا ہے جہاں الفضل نہیں پڑھا جاتا۔
جاپان کے سابق مبلغ مکرم مغفور احمد منیب صاحب نے بتایا کہ 1980ء کے اوائل میں جب کہ وہ یوکوہاماشہر میں مقیم تھے اور زبان سیکھنے کے لیے ایک سکول میں داخلہ لے رکھا تھا تو اُن ایام میں الفضل کے ہفتہ وار بنڈل کے علاوہ ایسا کوئی ذریعہ نہ تھا جس سے پاکستان کے حالات سے آگاہی ہوسکتی۔ چنانچہ ڈاکیے کا شدّت سے انتظار ہوتا اور بعض دفعہ تو اُس دن سکول سے چھٹی کو بھی جی چاہتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈاکیا آکر چلا جائے اور انتظار مزید لمبا ہو جائے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں