جبری بندش کا اختتام — ’’یوم مسرّت‘‘

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 20؍اکتوبر2025ء)

عبدالمالک صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں شامل اشاعت ایک مضمون کے مطابق اخبار الفضل جب چار سالہ جبری بندش کے بعد دوبارہ جاری ہوا تو احمدیوں کے دلی جذبات کی کیفیت اور ایمان افروز ردّعمل کی روداد مکرم عبدالمالک صاحب مرحوم نمائندہ الفضل برائے لاہور کے قلم سے یوں بیان کی گئی کہ 23؍نومبر1988ء بروز بدھ شام ساڑھے تین بجے الفضل کے ایک کارکن تشریف لائے اور الفضل کے دوبارہ اجراء کی خوشخبری سناکر کہا کہ احباب سے رابطہ قائم کرکے پہلے پرچے کے لیے اشتہار حاصل کیے جائیں۔ اس وقت خیال تھا کہ پرچہ 26؍نومبر کو شائع ہوگا۔ اس لحاظ سے صرف اسی دن کی رات میرے پاس تھی۔ ہماری گفتگو کے دوران کمرے میں موجود مکرم حمید احمد صاحب نے کہا کہ کیا مَیں بھی مبارک باد کا کوئی اشتہار دے سکتا ہوں؟ مَیں نے عرض کیا: فوراً دیں۔ انہوں نے اسی وقت جیب سے تین سو روپے نکالے اور میرے ہاتھ پر رکھ دیے۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ پھر تو موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ دوسرا قطرہ اسی کمرے میں بیٹھے ہوئے مکرم چودھری عبدالرشید صاحب مینیجر شاہنواز میڈیکل سٹورز تھے۔ اس کے بعد خاکسار نے الفضل کے کارکن کو ساتھ لیا اور بازاروں کا چکر لگایا۔ پھر ٹیلیفون پکڑلیا اور رات نو دس بجے تک جس شخص سے بھی رابطہ کیا اور اسے الفضل کے جاری ہونے کی مبارک باد دی اس نے بےاختیار ہو کر کہا کہ میرا بھی اشتہار دے دیں۔ غرضیکہ چند گھنٹوں میں اشتہارات کا ڈھیر لگ گیا۔ میں نے سوچا کہ ابھی تک کوئی پیمانہ ایسا ایجاد نہیں ہوا جس سے احباب جماعت کی اس بےساختہ محبت اور خوشی کا اندازہ لگایا جاسکے جو انہیں الفضل کے جاری ہونے پر ہوئی۔ بعض لوگوں کی آنکھوں میں فرط جذبات سے آنسو آگئے۔ بعض بےاختیار بغل گیر ہوجاتے اور اللہ تعالیٰ کی حمد میں ان کی زبانیں رواں ہوجاتیں۔ وقت قلیل تھا اس لیے جلدی میں کئی لوگوں سے رابطہ نہیں ہوسکا جنہوں نے بعد میں گلہ بھی کیا۔ اللہ ان سب کو جزائے خیر دے۔

جبری بندش کا اختتام — ’’یوم مسرّت‘‘” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں