الفضل کی بندش اور ہمارا قانون
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 20؍اکتوبر2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی کا مضمون ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے جس میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ نے روزنامہ الفضل کے ڈیکلریشن کی منسوخی کا حکم غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کردیا جس کے نتیجے میں تین سال گیارہ ماہ اور نو روز کی جبری بندش ختم ہوئی۔ عدالت عالیہ کے جج جناب جسٹس ضیاء محمود مرزا نے یہ فیصلہ جماعت احمدیہ کی طرف سے دائر کردہ ایک رِٹ پٹیشن پر 20؍نومبر 1988ء کو صادر کیا۔ جس کے بعد 28؍نومبر 1988ء سے الفضل کا ازسرِنَو اجراء ہوا۔
تاریخی حقائق یہ ہیں کہ 29؍اگست1984ء کو روزنامہ الفضل کو حکومت پنجاب کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اظہار وجوہ کا ایک نوٹس جاری کیا گیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ الفضل کے مختلف شماروں میں مبیّنہ طور پر قابلِ اعتراض مواد شائع کیا گیا ہے اس لیے کیوں نہ آپ کو تیس ہزار روپے کی ضمانت داخل کرنے کا حکم دیا جائے۔ جس قابل اعتراض مواد کا ذکر کیا گیا تھا وہ یہ الفاظ تھے:
٭… نماز تراویح کے بارے میں ضروری اعلان۔
٭… میں بنی نوع انسان سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔
٭… اعمال کے باغ کی سرسبزی…۔
٭…اخبار احمدیہ۔ پیارے ابا جان مرحوم کا ذکر خیر۔
٭… اخبار احمدیہ۔علم کے تین مدارج۔
15؍ستمبر کو جماعت احمدیہ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ متذکرہ بالا نوٹس قانون کی متعلقہ دفعات پر غور کیے بغیر جاری کیا گیا ہے اور یہ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کی متعلقہ دفعہ کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔
4؍دسمبر 1984ءکو الفضل کے پبلشر مسعود احمد صاحب دہلوی اور پرنٹر کو ہوم ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ دس روز کے اندر تیس ہزار روپے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ کے پاس جمع کرائیں۔ اس نوٹس پر تاریخ اجراء 4؍دسمبر1984ء درج تھی۔ لیکن یہ 15؍دسمبر 1984ء کو ملا۔ اسی دوران 8؍دسمبر کو الفضل کے پرنٹر اور ضیاءالاسلام پرنٹنگ پریس کے کیپر کو اظہار وجوہ کا نوٹس دیا گیا کہ وہ12؍دسمبر کو ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب کے پاس حاضر ہوکر و جہ بیان کریں کہ کیوں نہ ان سے تیس ہزار روپے کی ضمانت طلب کی جائے۔ یہ نوٹس بھی میعاد گزر جانے کے بعد موصول ہوا۔ اچانک 12؍دسمبر1984ء کو چنیوٹ کے ریذیڈنٹ مجسٹریٹ نے ہوم ڈیپارٹمنٹ کےآرڈر مجریہ 10-12-84 کے تحت پریس کو تین ماہ کے لیے سربمہر کردیا۔ (یعنی نوٹس موصول ہونے سے تین روز پہلے)۔
22؍دسمبر کو ادارہ الفضل نے پریس کو سربمہر کرنے کے متذکرہ بالا آرڈر کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رِٹ پٹیشن نمبر 5562/84 دائر کی۔ 23؍جنوری1985ء کو یہ رِٹ پٹیشن زیر سماعت تھی کہ اسی دوران ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ نے الفضل کا ڈیکلریشن منسوخ کردیا۔ اس طرح الفضل کی اشاعت جو پریس کے سربمہر ہونے کی وجہ سے جبراً بند تھی پریس کی مُہر کھل جانے کے بعد بھی جاری نہ ہوسکی اور طویل عرصہ اخبار بند رہا۔ پھر (جنرل ضیاءالحق کی ہلاکت کے بعد) 20؍نومبر 1988ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ہوم ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کے پریس کو سربمہر کرنے اور ڈیکلریشن کی منسوخی کے ہر دو احکامات کوغیر قانونی قرار دے دیا۔ اور 28؍نومبر کو الفضل کا از سرِنو اجراء ہوا۔
عدالت عالیہ میں رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران الفضل کی طرف سے درج ذیل وکلاء پیش ہوتے رہے:
-1عابد حسین منٹو۔سینئر ایڈووکیٹ،سپریم کورٹ۔
-2مبشر لطیف ایڈووکیٹ ،سپریم کورٹ۔
-3اے وحید سلیم ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ۔
اسی طرح مرزا نصیر احمد ایڈووکیٹ لاہور۔ مختار احمد بٹ ایڈووکیٹ لاہور اور مبارک احمد طاہر مشیر قانونی صدر انجمن احمدیہ ربوہ مختلف مشوروں میں شریک رہے۔
