نصف صدی سے زائد کا قصہ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 3؍نومبر2025ء)

لطف الرحمٰن محمود صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم لطف الرحمٰن محمود صاحب ’’الفضل‘‘ سے وابستہ اپنی ساٹھ سالہ یادوں کو بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ اِس وقت میری عمر 75؍سال ہے۔ مَیں نے میٹرک تک کی تعلیم بھیرہ میں حاصل کی۔ مسجد نور بھیرہ میں جمعہ پڑھنے جاتے تو امیر جماعت الفضل سے حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ بلند آواز میں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ان خطبات کی گونج کی یاد اب بھی تازہ ہے۔ یہ الفضل سے میرا پہلا تعارف تھا۔ ہمارے محلّہ کی مسجد فضل میں الفضل بذریعہ ڈاک آتا تھا۔ میرے والد بزرگوار پروفیسر میاں عطاءالرحمٰن صاحب لاہور سے گرمیوں کی تعطیلات میں بھیرہ آیا کرتے تھے۔ وہ ظہر اور عصر کے وقت مسجد میں آکر اذان دیتے اور باجماعت نماز کے بعد اخبار الفضل سے بعض حصے پڑھ کر سناتے۔ احباب ان کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے۔ تعطیلات میں یہ ان کامعمول تھا۔ الفضل کی اہمیت کا یہ تاثر ایسا تھا کہ اخبارات کی افادیت میرے دل میں قائم ہوگئی اور میرے شوق کو دیکھ کر میری والدہ مرحومہ نے مجھے روزانہ اخبار لگوادیا جس کی قیمت غالباً دو آنے ہوا کرتی تھی۔
میٹرک کے بعد ربوہ کے کالج میں داخلہ میری زندگی کا غالباً سب سے اہم واقعہ ہے جس نے میری سوچ، مزاج اور شخصیت کو یکسر بدل دیا۔ نیکی میں مسابقت، ظاہر و باطن کی سادگی، دینی اور علمی ماحول، اس بستی کی شہریت کے عناصرترکیبی تھے۔ خوش قسمتی سے اس ماحول میں مجھے خیرخواہ اساتذہ، نیک ہمسائے اور اچھے دوست میسر آئے۔ دوستوں میں محمد شفیق قیصر اور شاہد احمد کو مطالعہ کا شوق تھا۔ انہوں نے مجھے بھی اسی رنگ میں رنگ دیا۔ ان دوستوں نے مجھے مرکز کی ایک اَور نعمت کی لذّت سے بھی آشنا کیا اور وہ تھی حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کی زیارت اور صحبت سے استفادہ۔ سب سے بڑا اعزاز حضرت مصلح موعودؓ کی اقتدا میں نمازوں کی ادائیگی اور براہ راست آپؓ کے خطابات و خطبات سے مستفید ہونا تھا۔
اخبار بینی کا مضمون نویسی سے ایک بین السطور مخفی رشتہ ہے جو آہستہ آہستہ اجاگر ہوتا ہے۔ شفیق قیصر صاحب جامعہ احمدیہ کے جریدہ ’’مجلۃالجامعہ‘‘ کے حلقہ مدیران میں شامل کرلیے گئے اور عاجز کو کالج کے میگزین ’’المنار‘‘ کے ادارۂ تحریر میں شمولیت کا اعزاز ملا۔ ہم ’’تشحیذالاذہان‘‘ اور ’’خالد‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ شاہد احمد (ابن حضرت چودھری علی محمد صاحبؓ بی اے بی ٹی سابق ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز) مجھے ایک اَور جہانِ گم گشتہ میں بھی لے گئے۔ قصرخلافت سے ملحقہ خلافت لائبریری میں الفضل کے پرانے فائل دستیاب تھے جو علم و عرفان اورجماعتی تاریخ کا ایک نادر ذخیرہ تھے۔ مجھے بھی اس مخزن سے مستفیض ہونے کاموقع ملا۔ محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی تاریخ احمدیت کا مطالعہ کرتے ہوئے الفضل میں پڑھے ہوئے وہ واقعات یاد آجاتے ہیں۔ پھر الفضل کے خاص نمبر بھی خاص چیز ہوتے۔ مثلاً خاتم النبیینؐ نمبر (31؍مئی 1929ء) کے لیے متعدد غیرازجماعت مشہور ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنے مضامین اور منظومات بھجوائیں۔ الفضل میں علامہ اقبال کے اشعار دیکھ کر بھی خوشی ہوتی۔ اس زمانے میں اختلافات نے گہرے تعصبات کا روپ نہیں دھاراتھا اور اہل دانش وسعتِ قلبی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ پاکستان ریلوے کا ضخیم ٹائم ٹیبل خوبصورت کتابی شکل میں شائع ہوتا تھا۔ اس میں پورے صفحے کا اشتہار سالہاسال تک شائع ہوتا رہا ہے جس میں الفضل کی امتیازی خصوصیات کا ذکر موجود ہوتا تھا۔
الفضل میں میرے نام کی اشاعت کی ابتدا خبروں سے ہوئی۔ 1957ء یا 1958ء میں ربوہ کے نواحی علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچا دی۔ پانی اترتے ہی خدام کی ٹیمیں منہدم مکانات کی مرمت کے لیے جانا شروع ہو گئیں۔ ایک ایسا ہی گروپ اس عاجز کے ساتھ گیا۔ شام کو ہم لَوٹے تو محترم شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر نے الفضل میں یہ خبرعاجز کے نام کے ساتھ شائع کی۔ پھر احقر کو بی ایڈ کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں اوّل آنے پر کانووکیشن کی تقریب میں جناب امیر محمد خان گورنر پنجاب نے گولڈمیڈل عطا فرمایا تو یہ خبر الفضل میں شائع ہوئی۔ ایک اَور خوشگوار یاد یہ ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے یکم جون 1969ء کو مسجد مبارک میں اس خادم کے نکاح کا اعلان فرمایا۔ یہ خطبۂ نکاح الفضل 29؍جولائی1969ء میں شائع ہوا۔

محترم شیخ مبارک احمد صاحب

میرا تعلق پنجاب کے جس علاقے سے ہے اس کی پنجابی کو بھی درست نہیں مانا جاتا۔ مگر ربوہ کے علمی و ادبی ماحول کا فیض تھا کہ مَیں نے اردو میں مضامین لکھنے شروع کردیے جن میں سے بعض ’’الفضل‘‘ میں بھی شائع ہوئے۔ چند خطوط ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ اور روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہوئے۔ الفضل میں پہلا مضمون غالباً محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سے سواحیلی ترجمہ قرآن کے موضوع پر انٹرویو کی شکل میں تھا۔ پھر بعض مرحومین کی یاد میں مضامین لکھنے کا موقع بھی ملا۔ سیرالیون کے مربی یوسف خالد ڈوروی (Dorwie)، احمد تیجان جالو (Jalloh) پرنسپل احمدیہ سیکنڈری سکول Bo، عرب نژاد احمدی تاجر جمال سکائیکی (Sakaikay) کے ذکرخیر پر الفضل نے خاکسار کے مضامین شائع کیے۔

شیخ خورشید احمد صاحب

غالباً 1961ء یا 1962ء کی بات ہے کہ محترم شیخ خورشید احمد صاحب نائب ایڈیٹر الفضل دو ماہ کی رخصت پر تشریف لے گئے۔ ہائی سکول میں ان دنوں میں تعطیلات تھیں چنانچہ خاکسار کو عارضی طور پر الفضل کے دفتر بھیج دیا گیا۔ وہ میری علمی و ادبی زندگی کے بہترین دن تھے۔ مجھے جناب شیخ روشن دین تنویر صاحب اور محترم مسعود احمد دہلوی صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کاموقع ملا۔ یہ باغ و بہار شخصیات علم وادب، فن صحافت پر اتھارٹی اورجماعتی روایات کے حامل، محافظ اور امین تھے۔

شیخ روشن دین تنویر صاحب

ہیوسٹن کے ماہرامراض قلب محترم ڈاکٹر شیخ اعجاز احمد صاحب نے مجھے بتایا کہ مشہور صحافی جناب قاسمی صاحب ہیوسٹن (Houston) تشریف لائے تو ایک تقریب میں صحافت کے کسی پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احمدیوں نے مرزا صاحب کی نبوت تو چلالی مگر الفضل نہ چلاسکے۔ (قاسمی صاحب سے منسوب یہ بات اس سے پہلے مولانا عبدالمجید سالک صاحب نے بھی کہی تھی۔) ڈاکٹر صاحب نے اُن سے عرض کیا کہ الفضل اب بھی ربوہ سے شائع ہورہا ہے بلکہ الفضل کا انٹرنیشنل ایڈیشن لندن سے شائع ہورہا ہے۔

مسعود احمد دہلوی صاحب

الفضل کے انتظار کی لذت کی کیفیت اُن سے پوچھیئے جنہوں نے حیات مستعار کا زیادہ حصہ مرکز سے دُور دیگر ممالک و امصار و دیار میں گزارا ہے۔ پھر ورائٹی کا یہ عالم آپ کو کسی اَور اخبار میں نظر نہیں آئے گا۔ ولادت اور وفات کی خبریں، نکاح اور رخصتی کے اعلانات، نظام وصیت سے وابستگی کی اطلاعات، حتیٰ کہ وفات کے بعد تقسیم ترکہ کی تفصیل اور ورثاء کی فہرستیں، مقدس اقتباسات، مقالات اور شذرات ان کے علاوہ۔ مجھے سیرالیون میں 29؍سال رہنے کا موقع ملا۔ اس لمبے عرصے میں مرکز سے دوری اور مہجوری کے باوجود الفضل کے ذریعے دوستوں کی غمی، خوشی کی خبریں باقاعدگی سے ملتی رہیں۔ اس کے بعد امریکہ میں سترہ سال بیت گئے ہیں۔ قریباً نصف صدی پر پھیلے ہوئے اس عرصے میں الفضل سے خبریں اور اطلاعات پڑھ کر مبارکباد اور حسب موقع تعزیت کے خطوط لکھنے کی توفیق ملتی رہی۔ بیماروں کی شفا اور درازیٔ عمر کے لیے ہمیشہ دعا کی توفیق ملی۔ مجھے یقین ہے کہ اکنافِ عالم میں ایسا کرنے والے ہزاروں قارئین ہوں گے۔
الفضل کے مطالعہ کی سب سے بڑی برکت خلفائے کرام سے گہری محبت و عقیدت کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ دوسری بڑی نعمت مرکز سلسلہ سے محبت اور تعلق کی شکل میں ہویدا ہوئی۔ ربوہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی دعاؤں، جدوجہد، محبت اور گہری توجہ کا ثمرہ ہے۔ 1948ء میں اس کی داغ بیل ڈالی گئی۔ 1954ء میں عاجز کو پہلی مرتبہ اس کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ 1955ء میں ہماری فیملی ربوہ منتقل ہو گئی۔ اگر آج مجھے دین کی شدبد ہے تو وہ اسی بستی کا فیض ہے۔
الفضل کے مطالعہ سے دینی اور علمی معلومات میں تسلسل سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ تحصیل علم کی ایک نہ ختم ہونے والی تڑپ مہیا ہوگئی۔مشنوں کی رپورٹس سے احساس ہوتا کہ ہم بھی اس وسیع تر جدوجہد کا حصہ ہیں۔ اگرچہ ہماری حیثیت ایک معمولی سے پتے کی ہے مگر ایک عظیم شجرسایہ دار کا حصہ ہیں۔
یہ بھی الفضل کا فیض تھا کہ دوردراز ممالک میں مقیم جماعت کے ممتاز خدام کی رحلت کی خبر پڑھ کر یوں محسوس ہوتا کہ اپنے گھر کا کوئی بزرگ داغ مفارقت دے گیا ہے۔ بلامبالغہ عمری عبیدی صاحب (مشرقی افریقہ)، جناب بشیر آرچرڈ (برطانیہ) اور محترم عبدالسلام میڈسن (سکینڈے نیویا) کے سانحہ ارتحال کی خبر پڑھ کر میرے دلی جذبات کی یہی کیفیت تھی۔ الفضل کے مطالعہ سے معاندین کے مخالفانہ رویے کا علم ہوتا تو لازماً اس کا دل پر اثر ہوتا۔ الفضل ان تمام خبروں کا نہ صرف ریکارڈ رکھتا ہے بلکہ دعا کی تحریک بھی ہوتی ہے۔
بہت سے اخبارات جو اپنے وقت میں بڑی کامیابی سے چل رہے تھے اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ زمیندار، امروز، کوہستان، پاکستان ٹائمز اور سول اینڈ ملٹری گزٹ، اپنے عہد کے مشہور اخبارات تھے۔ اسی طرح ہفت روزہ جرائد اور ماہوار رسائل، قندیل، اقدام، نقاد وغیرہ کا بڑا مقام تھا۔ نقوش نے اپنے خاص نمبروں کی وجہ سے بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ مگر یہ سب ختم ہوچکے ہیں۔ امریکہ کے مشہور ہفت روزہ نیوزویک نے جس کا مَیں تقریباً پچیس سال تک قاری رہا ہوں اپنی اشاعت بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ الفضل اسی طرح زندہ و پائندہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں