خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ3؍ اکتوبر 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حنین کی جنگ کے بعد اس میں حاصل ہونے والے مالِ غنیمت اور اس کی تقسیم کا ذکر
ہو رہا تھا۔ اس بارے میں مزید واقعات یوں بیان ہوئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح حنین کے بعد تمام اموالِ غنیمت جِعْرَانَہمقام پر جمع کرنے کا حکم دیا اور یہ حکم دیتے ہوئے آپؐ نے طائف کا رخ فرمایا اور کم و بیش ایک ماہ بعد طائف سے واپس جِعْرَانَہتشریف لائے اور یہاں پہنچ کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اموالِ غنیمت تقسیم نہیں فرمائے بلکہ کچھ دن انتظار فرمایا۔ بعض کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ چودہ دن تک انتظار فرمایا کہ شاید بنو ھَوازِن تائب ہو کر واپس آئیں گے اور ان کے اہل و عیال اور مال مویشی ان کو واپس لوٹا دیے جائیں گے۔ اِدھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا انتظار کرتے رہے اُدھر بنو ھَوَازِن اس کشمکش میں رہے کہ ہمارا جانا فائدہ مند بھی ہو گا یا نہیں۔جب دیکھا کہ وہ لوگ نہیں آ رہے توآخر کار اتنے انتظار کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اموالِ غنیمت اور قیدیوں کو تقسیم فرما دیا۔ جب یہ سب تقسیم ہو چکی تو بنو ھوازن کے چودہ معززین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ اسلام قبول کر چکے تھے اور انہوں نے بتایا کہ ہمارا سارا قبیلہ بھی اسلام قبول کر چکا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کی درخواست کرتے ہوئے عرض کی کہ اے اللہ کے رسولؐ! ہم خاندانی لوگ ہیں اور باعزت ہیں۔ جس مصیبت اور پریشانی سے ہم دوچار ہیں وہ آپؐ سے پوشیدہ نہیں۔ آپؐ ہم پر احسان کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔ اس وفد کا سردار اَبُو صُرَدْ زُہَیْر بِنْ جَرْوَلْ تھا۔ یہ خطیب اور شاعر بھی تھا۔ اس نے بڑے دلنشین اور دل پر اثر کرنے والے انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور رحم کی اپیل کی اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ان گرفتار ہونے والوں میں آپ کی پھوپھیاں، آپ کی خالائیں اور آپ کی بہنیں بھی ہیں جو آپ کی پرورش کرتی رہی ہیں اور آپ کو کھلاتی پلاتی رہی ہیں۔ اس نے یوں کیوںکہا؟ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بَنُوْسَعْد کے قبیلے میں رضاعت کا زمانہ گزارا تھا اور وہاں پرورش پائی تھی اور آپ کے رضاعی والدین کا تعلق بَنُوْسَعْد سے تھا جو بنوھوازن کی شاخ تھی۔ پھر اس نے کہا کہ اگر ہم نے دودھ پلانے کا احسان غَسَّانِی بادشاہ حارث بن اَبِی شِمْریا عراق کے بادشاہ نعمان بن مُنْذِر پر کیا ہوتا اور ہم پر اس طرح کی مصیبت آئی ہوتی تو وہ ہم پر ضرور رحم کرتے اور آپؐ تو سب سے بڑھ کر رحم کرنےو الے اور جُود و سخا کے مالک ہیں۔ اس کے بعد اس نے آپؐ کی مدح اور توصیف میں ایک قصیدہ بھی کہا۔ اس وفد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی چچا بھی تھے۔ انہوں نے بھی کچھ اس طرح کے ملے جلے جذبات پر تقریر کی اور یہ بھی کہا کہ جب آپ بچپن میں ہمارے پاس تھے تب بھی میں نے آپؐ کو دیکھا تھا۔ آپؐ بہت ہی اچھے تھے۔ پھر آپؐ کی جوانی کے عالم میں مجھے آپؐ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔ جوانی میں بھی کوئی شخص آپؐ سے بڑھ کر نیک طبع اور شریف النفس نہ تھا۔ آپؐ تو مجسم خیرو بھلائی ہیں اور جُود و سخا کے دریا ہیں۔ ہم آپؐ کے اپنے اور آپؐ ہی کے خاندان سے ہیں لہٰذا ہم پر احسان کریں۔ اللہ آپ کو اس احسان مندی کا بدلہ ضرور دے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دردمندانہ التجائیں سنیں اور ان کی درخواست کو ردّتو نہ فرمایا بلکہ فرمایا: مَیں نے تو بہت دنوں تک تمہارا انتظار کیا یہاں تک کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب تم نہیں آؤ گے اور اب تم دیکھ رہے ہو کہ قیدیوں میں سے میرے پاس بہت ہی تھوڑے رہ گئے ہیں۔ باقی سب تقسیم ہو چکے ہیں اور میرے نزدیک سب سے پسندیدہ بات وہ ہے جو سب سے زیادہ سچی ہو۔ لہٰذا اب تم دو چیزوں میں سے ایک چیز کا انتخاب کر سکتے ہو۔ قیدی مردو عورتیں یا مال و اسباب۔
ان میں سے جو لینا ہے لے سکتے ہو۔ مَیں نے تو تمہارا بہت انتظار کیا تھا۔ چاہتا تو یہ تھا کہ تمہیںدونوں دے دوں۔ بنوھَوَازِن کے وفد نے جب ساری صورتحال دیکھی تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم اپنے قیدی یعنی اپنے مرد اور عورتیں واپس لینا چاہتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصہ میں آنے والے جو قیدی ہیں وہ تو آپ کے ہی ہوئے یعنی میں ان کو تو آزاد کرتا ہوں، تمہیں واپس دے دیتا ہوں۔ اور دوسرے قیدیوں کے متعلق مَیں باقی مسلمانوں سے بات کروں گا جو ان کومیں دے چکا ہوں اور ساتھ ہی وفد کے لوگوں کو اس کا ایک حل بھی بتایا کہ تم لوگ کس طرح کیا کرنا۔ تم نماز ظہر کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہنا کہ ہم مسلمانوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سفارش کرنے والا بناتے ہیں اور مسلمانوں کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کراتے ہیں کہ ہماری اولاد اور ہماری عورتوں کو چھوڑ دیا جائے اور ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کے سامنے اپنے اسلام قبول کرنے کا اظہار کر دینا اور کہنا کہ ہم تمہارے بھائی ہیں۔ پھر میں لوگوں سے تمہاری سفارش کر دوں گا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سفارش کر دوں گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کریمانہ انداز، جُود و سخا کا ایک پیارا انداز ہے کہ خود ہی قیدیوں کی رہائی کا طریق سکھلا رہے ہیں کہ عام مسلمانوں کی عزتِ نفس کا بھی خیال رہے کیونکہ قیدی تو اب ان کی ملکیت ہو چکے تھے اور ھوازن کی عزت افزائی بھی ہو جائے۔ اہلِ وفد نے اسی طرح ظہر کی نماز کے بعد کھڑے ہو کر عرض کیا جس طرح پر آپؐ نے فرمایا تھا۔ بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
تمہارے بھائی تائب ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ میں ان کے قیدی انہیں واپس کرنا چاہتا ہوں۔ جو بھی اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے کر سکتا ہے اور جو ان کے عوض ہم سے کچھ لینا چاہےوہ ایسا بھی کر سکتا ہے۔ میں اوّلین حاصل ہونے والے غنائم میں سے اس کا حق واپس کر دوں گا
اورساتھ ہی اپنے اور اپنے خاندان یعنی بنو عبدالمطلب کے قیدی واپس کرنے کا اعلان فرمایا۔ صحابہ کرام ؓتو اپنی جانوں اور اپنے بیوی بچوں اور ماں باپ سے بھی بڑھ کر آپؐ سے محبت کرنے والے تھے۔ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ آپ کی خوشی کی خاطر ہم خوش دلی سے اپنے قیدی ھوازن کو واپس کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس جذبے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے لیکن آپ نے مناسب سمجھا کہ سب کی رضامندی اور خوش دلی معلوم ہو جائے۔ چنانچہ فرمایا: مجھے یہ پتانہیں چل رہا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی کیونکہ عام مجمع میں سب بول رہے تھے۔ اس لیے تم واپس جاؤ اور تمہارے سردار اور نگران میرے پاس آ کر اپنے لوگوں کا موقف پیش کریں۔ آپ کے اس ارشاد پر سب لوگوں نے خوشی خوشی اپنے قیدی واپس دینے کا اظہار کیا اور ان کے نگرانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کر دیا اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عظیم احسان اس دشمن قوم پر ہوا کہ تمام قیدی بغیر کسی عوض معاوضہ کے واپس کر دیے اور اپنے مخلص وفاشعار محبت کرنے والے صحابہ کے جذبات کا بھی اس طرح خیال رکھا کہ آپؐ نے فرمایا کہ ہر ایک قیدی کے بدلے میں چھ چھ اونٹ دیے جائیں گے۔ حضرت عمر کی محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نمونہ تھا کہ قیدیوں کی اس آزادی کے وقت وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ جب واپس آئے تو دیکھا کہ غلام خوشی سے جھوم رہے ہیں، قیدی خوشی سے جھوم رہے ہیں۔ پوچھنے پر پتاچلاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قیدی آزاد کر دیے ہیں تو انہوں نے یہ سنتے ہی کسی قسم کی مزید جستجو اور تحقیق کی ضرورت نہ سمجھی اور فوراً اپنے بیٹے سے کہا کہ اے عبداللہ !جاؤ اور میری اس لونڈی کو آزاد کر دو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرمائی تھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو ھوازن کے ان قیدیوں کو نہ صرف بغیر کسی عوض معاوضہ کے آزاد فرما دیا بلکہ انہیں کپڑے بھی عطا کیے
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیداً فرمایا۔ فَلَایَخْرُجُ الْحُرُّ مِنْہُمْ اِلَّاکَاسِیًاکہ ان میں سے کوئی بھی آزاد ہونے والا نئے لباس کے بغیر نہ جائے۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل کے لیے نئے کپڑوں کی خریداری کے لیے ایک صحابی بُسْر بِنْ سُفیان کو بھیجا تو وہ نئی چادریں لے کر آئے اور ہر قیدی کو نیا لباس بھی دیا گیا۔(صحیح بخاری کتاب العتق باب من ملک من العرف رقیقا حدیث 2539-2540)(ماخوذاز سیرت النبی لابن ہشام صفحہ130دارالکتب العلمیۃ2001ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 309تا314 بزم اقبال لاہور)(غزوہ حنین ازباشمیل صفحہ266نفیس اکیڈمی)
روایت کے مطابق تین افراد ایسے تھے کہ انہوں نے اپنے قیدی واپس دینے سے انکار کر دیا۔ اَقْرَعْ بِنْ حَابِس نے کہا کہ جہاں تک میرے اور بنو تمیم کا تعلق ہے ہم انکار کرتے ہیں۔ عُیَیْنَہ بِنْ حِصْن فَزَارِی نے کہا کہ میں اور میرا قبیلہ بنوفَزَارَہ انکار کرتے ہیں اور عباس بن مِرْدَاس نے کہا کہ میں اور بنوسُلَیْم قیدی واپس نہیں کریں گے لیکن بنوسُلَیْم نے سنتے ہی اپنے سردار کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جو کچھ ہمارا ہے وہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا۔ بعض دوسری روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنو ھوازن کے تمام قیدی آزاد ہیں اور جو اپنا قیدی آزاد نہیں کرنا چاہتا اس کو اس کے بدلے بیت المال سے چھ جوان اونٹ بطور معاوضہ دیے جائیں گے۔ چنانچہ اس پر وہ سب لوگ بھی راضی ہو گئے جو اپنے قیدی دینے کو تیار نہ تھے اور یوں بنوھوازن کے چھ ہزار قیدی آزاد کر دیے گئے۔
بعض روایات کے مطابق عُیَیْنَہ بِنْ حِصْن فَزَارِی نے اپنا قیدی پھر بھی واپس نہ کیا لیکن اس نافرمانی کی وجہ سے اس کو سخت شرمندگی اٹھانی پڑی اور وہ خیرو برکت سے بھی محروم رہا۔
چنانچہ لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ سب نے اپنے قیدی واپس کر دیے ہیں سوائے عُیَیْنَہ کے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اسے گھاٹے میں رکھے۔ اس کے قیدی کا واقعہ یوں ہے کہ اس نے جوان عورت کے بجائے ایک بوڑھی عورت کو بطور قیدی کے لیا تھا اور لوگوں کے پوچھنے پر بتایا کہ اس کے خاندان والے جب اس کو چھڑانے کے لیے آئیں گے یعنی اس بڑھیا کو تو مجھے اس کا منہ مانگا فدیہ ملے گا کیونکہ اس کی آل اولاد کثیر تعداد میں ہو گی۔ اب جب سارے قیدی آزاد کر دیے گئے لیکن اس نے آزاد کرنے سے انکار کر دیا تو اس بوڑھی عورت کا بیٹا عُیَیْنَہ کے پاس آیا اور اس کو کہا کہ سو اونٹ کے عوض ہماری والدہ کو آزاد کر دو۔ عُیَیْنَہ نے سوچا کہ ابھی یہ قیمت کو مزید بڑھائے گا۔ چنانچہ اس نے آزاد کرنے سے انکار کر دیا جس پر اس کا بیٹا واپس چلا گیا۔ کچھ دیر بعد جب عُیَیْنَہ کو یہ احساس ہوا کہ وہ دوبارہ واپس نہیں آئے گا تو عُیَیْنَہ خود اس کےبیٹے کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ جتنے اونٹ تم دے رہے تھے کیا اب بھی دیتے ہو تو اس لڑکے نے کہا کہ اب تو میں پچاس اونٹ دوں گا۔ اس طرح کرتے کراتے دس اونٹوں تک بات پہنچ گئی۔ وہ کچھ اَور مانگتا اور پھروہ کہتا اچھا میں یہ بھی نہیں دیتا۔ تو کہتا اچھا پھر اتنے دے دو۔ آخر کم ہوتے چلے گئے۔ آخر کار بات یہاں تک پہنچی کہ عُیَیْنَہ کہنے لگا کہ بڑھیا میرے سے مفت ہی لے جاؤ۔ اس پر لڑکا کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہر قیدی کو آزاد کرنے کے ساتھ لباس بھی دیا ہے اور یہ بڑھیا تو اس سے محروم رہ گئی۔ لہٰذا تم اس کے لیے لباس بھی دو۔ عُیَیْنَہ کہنے لگا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں میں تو پہلے ہی بہت غریب ہوں۔ میں نے لالچ کیا تھااس میں بھی مارا گیا لیکن لڑکا بضد رہا کہ کچھ نہ کچھ تو ضرور دو۔ آخر عُیَیْنَہ کو اپنی چادر دینی پڑی اور یوں وہ لڑکا اس قیدی عورت کو بھی لے کر گیا اور ساتھ لباس بھی اور جاتے جاتے یہ بھی اس شخص عُیَیْنَہ کو کہتا گیا کہ تمہارا دماغ فہم و فراست سے بالکل خالی ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھانے کی تم میں بالکل صلاحیت نہیں اور اس کے دوسرے ساتھی بھی اس پر طعن و تشنیع کرتے رہے۔(سبل الھدیٰ ،جلد5صفحہ393-394دارالکتب العلمیۃ1993ء)(غزوۂ حنین ازباشمیل صفحہ295-297نفیس اکیڈمی)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ314-315 بزم اقبال لاہور)(غزوات النبی ﷺ ازعلی بن برہان الدین حلبی مترجم اردو صفحہ680 - 681دارالاشاعت2001ء)
لالچ سے آخر اس کو کچھ بھی نہ ملا۔ بنو ھَوَازِن کے سردار اور مالک بن عوف کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو ھوازن کے وفد سے ان کے سردار مالک بن عوف کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ طائف میں بَنُو ثَقِیْف میں ہے۔ آپؐ نے ان سے کہا کہ اسے اطلاع دو کہ اگر وہ آپ کی اطاعت و فرمانبرداری قبول کرتے ہوئے آجائے تو اس کے اہل و عیال جو قیدی ہو چکے تھے وہ بھی اسے واپس کر دیے جائیں گے۔ بعض روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اہل و عیال کے لیے یہ خاص حکم دیا تھا کہ وہ بطور غلام وغیرہ کے کسی کو نہ دیے جائیں اور ان کی رہائش کا انتظام مکہ میں اُمِّ عبدُاللّٰہ بنتِ اَبِیْ اُمَیَّہ کے ہاں کر دیا گیا۔ انہوں نے اسے فوراً اطلاع پہنچائی۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے لیے اسی وقت تیار ہو گیا لیکن بَنُو ثَقِیْف سے اس وجہ سے ڈر گیا کہ اگر انہیں علم ہو گیا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا رہا ہے تو کہیں وہ اسے قید نہ کر دیں۔ اس لیے اس نے ایک گھوڑا اور اونٹ تیار کیا اور رات کی تاریکی میں طائف سے نکل کر جِعْرَانَہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے اہل و عیال بھی لوٹا دیے اور ایک سو اونٹ تحفةً بھی دیے۔ آپ کی بخشش و عنایت دیکھ کر وہ مسلمان ہو گیا اور پھر ساری عمر ایک مخلص مسلمان رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں اس کو قوم ھوازن کے مسلمانوں کا حاکم اور اس کی فوج کا سالار بنا دیا۔(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ 299-300نفیس اکیڈمی)(السیرۃ النبویہ لابنِ ہشام صفحہ 797أمر اموال ھَوَازِن وسبایاھا، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
یہ وہی مالک بن عوف تھا جو سارے بنو ھَوَازِن اورثَقِیْف اور دوسرے قبیلوں کو اکٹھا کر کے لے آیا تھا کہ مسلمانوں کو نیست و نابود کر دے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کا پیاسا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور عفو و درگزر کا کمال یہ ہے کہ آپ اس کی رشد وہدایت کے پیاسے تھے اور جب وہ ہدایت کا طالب ہو کر آیا تو نہ یہ کہ سب کچھ معاف کر دیا بلکہ اسے وقت کی بیش قیمت دولت کے لحاظ سے سو اونٹ بھی عطا فرما دیے۔
اس جنگ کے قیدیوں میں ایک خاتون شَیْمَاء بھی تھیں، یہ ان کا لقب تھا ان کا اصل نام حُذَافَہ تھا۔ جب وہ گرفتار ہوئیں تو گرفتار کرنے والوں سے کہنے لگیں کہ میں تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن ہوں مگر صحابہ نے نہ مانا۔ انصار کی ایک جماعت نے پکڑا اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اس نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)میں آپ کی رضاعی بہن ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے دانتوں کا نشان دکھایا اور کہا کہ آپؐ نے مجھے اس وقت کاٹا تھا یعنی بچپن میں اس وقت دندی کاٹ لی تھی جب میں آپ کو اپنی گود میں اٹھائے ہوئے تھی۔ بعد میں واقعہ آپ کو بھی یاد آیا ہو گا اور کہتی ہیں ہم اس وقت بکریاں چراتے تھے اور آپ کا رضاعی باپ میرا حقیقی باپ آپ کی رضاعی ماں میری حقیقی ماں ہے۔ یا رسول اللہ! یاد فرمائیں کہ میں آپ کے لیے بکریوں کا دودھ دوہتی تھی۔
آپؐ نے علامت سے پہچان لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے کھڑے ہوئے اور اپنی چادر بچھا دی۔ فرمایا اس پر بیٹھو۔ آپؐ نے انہیں خوش آمدید کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اس سے رضاعی والدین کے بارے میں پوچھا۔ اس نے بتایا کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم بہتر سمجھو تو ہمارے پاس ٹھہر جاؤ۔ تمہیں عزت اور اکرام اور محبت ملے گی اور اگر تم اپنی قوم کے پاس واپس جانا چاہتی ہو تو میں تمہارے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں تم وہیں چلی جاؤ۔
اس نے کہا کہ میں اپنی قوم کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں۔ بہرحال انہوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تین غلام اور ایک لونڈی عطا کی اور انہیں ایک یا دو اونٹ دینے کا حکم فرمایا۔ آپ اس وقت حُنَین میں تھے۔ اس لیے آپ نے انہیں فرمایا جعرانہ چلی جاؤ اور اپنی قوم کے پاس رہو۔ مَیں طائف جا رہا ہوں۔ چنانچہ وہ جعرانہ آ گئیں۔ آپؐ نے جعرانہ میں ان سے ملاقات کی اور انہیں بکریاں اور بھیڑیں بھی عطا کیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا جو مانگو تمہیں دیا جائے گا اور جو سفارش تم کرو گی وہ قبول کی جائے گی تو انہوں نے اپنی قوم بنو سعد کے ایک شخص جس کا نام بَجَاد تھا اس کی سفارش کی۔ اس شخص نے ایک مسلمان کو قتل کر کے اس کو جلا دیا تھا اور بھاگ گیا تھا لیکن صحابہ نے اس کو پکڑ لیا تھا۔ اب جب شَیْمَاء نے اس کی معافی کی سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا ۔(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ389-390نفیس اکیڈمی)(سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العبادجلد 5 صفحہ 333 دار الکتب العلمیۃ1993ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺجلد9 صفحہ318-319 بزم اقبال لاہور)
تفصیل تو نہیں ہے لیکن پھر آپؐ نے بعد میں یقینا ًاس کی دیت وغیرہ بھی ادا کی ہو گی۔ ابوداؤد کی روایت کے مطابق جعرانہ کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ کا بھی آپ سے ملنا بیان ہوا ہے۔ یہ کہا گیا ہے لیکن یہ کہتے ہیں کہ اس کی سند کمزور ہے۔ والدہ نہیں ملی تھیں۔ ممکن ہے کہ رضاعی والدہ کا ملنا کسی اَور موقع کی بابت ہو یا راوی کو غلطی بھی لگی ہو کیونکہ عمومی روایات کے مطابق جنگ حنین سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ کی وفات ہو چکی تھی۔(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ289نفیس اکیڈمی)(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی برّالوالدَین حدیث 5144)(ماخوذاز سیرت ابن کثیر جلد3 صفحہ690 دارالمعرفہ بیروت لبنان1976ء)(فتح الودود جلد7صفحہ410 مکتبہ جائزۃ دبی الدولیۃ للقرآن الکریم)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی اس وقت اہلِ مکہ نے اعلان کیا تھا کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اس کو سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔ یہ واقعہ بڑا مشہور ہے۔کئی دفعہ بیان بھی ہو چکا ہے ۔ یہ سن کر سراقہ بن مالک جو تھا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کیا اور آپؐ تک پہنچا لیکن اس وقت معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی اور سراقہ کو بےبس کر دیا۔ اس وقت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا تھا کہ سراقہ تیرا اس وقت کیا حال ہو گا جب کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھوں میں ہوں گے۔ اس وقت اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان کی ایک تحریر بھی لکھ کر دی جانے کی درخواست کی تھی وہی سراقہ وہی امان نامہ لیے جعرانہ مقام پر حاضر ہوا اور اسلام قبول کر لیا۔(ماخوذاز دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 9 صفحہ 306-307 بزم اقبال لاہور)
اس موقع پر حضرت عمر ؓکی ایک نذر کا بھی ذکر ملتا ہے جو انہوں نے مانی تھی۔ حضرت عمر ؓنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ! دور جاہلیت میں میں نے ایک نذر مانی تھی کہ میں مسجد حرام میں ایک دن اعتکاف کروں گا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ارشاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ جائیں اور نذر پوری کریں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ گئے اور اپنی نذر پوری کی۔(صحیح بخاری کتاب الاعتکاف باب من لم یر علیہ اذا اعتکف حدیث2042)(فتح الباری کتاب المغازی جلد8 صفحہ43قدیمی کتب خانہ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی جعرانہ میں ہی تھے کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے ارادے سے یہاں سے مکہ تشریف لے گئے اور روایات کے مطابق رات کو گئے اور اسی رات کو ہی واپس تشریف لائے۔ آپ چونکہ بہت تھوڑے وقت کے لیے گئے تھے اس لیے لوگوں نے یہی سمجھا کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں تشریف ہی نہیں لے گئے۔(غزوات النبی ﷺ ازامام حلبی مترجم اردو،صفحہ683دارالاشاعت2001ء)(عمدۃ القاری کتاب الحج جلد9 صفحہ301داراحیاء التراث2003ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9 صفحہ375 بزم اقبال لاہور)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ واپسی کے بارے میں لکھا ہے کہ ذوالقعدہ کے بارہ دن ابھی باقی تھے اور جمعرات کا دن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ واپسی کا سفر شروع فرمایا۔ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عَتَّابْ بِنْ اَسِیْدکو مکہ کا عامل مقرر فرما چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ حضرت مُعَاذ بِنْ جَبَل اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کو پیچھے چھوڑا تا کہ وہ لوگوں کو قرآن اور دین کی تعلیم دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جانور اپنے ساتھ رکھے تا کہ راستے میں ملنے والے لوگوں کو عطا کر سکیں۔ آپ وادی جعرانہ سے چلے۔ سَرَ ف سے ہوتے ہوئے پھر مَرُّالظَّہْرَان پہنچے اور پھر نو دن کے سفر کے بعد مدینہ پہنچ گئے۔ ذوالقعدہ کی تین راتیں ابھی باقی تھیں۔
ان ساری مہمات اور فتح مکہ، فتح ھوازن اور اہلِ طائف پر حملے میں دو ماہ اور سولہ دن صَرف ہوئے۔(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العبادجلد 5صفحہ406-407دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ 306-307نفیس اکیڈمی)
مستشرقین اعتراضات کرتے ہیں انہوں نے فتح مکہ، غزوۂ حنین، غزوۂ طائف وغیرہ کے بارے میں اعتراض کیا ہے۔ گو مستشرقین کو کوئی حقیقی بات تو قابلِ اعتراض نہیں ملی البتہ ان کے ایک دو اعتراض ایسے ہیں جن کو مَیں بیان کر دیتا ہوں۔ چنانچہ ولیم منٹگمری واٹ جو عصرِ حاضر کا مستشرق ہے یہ کہتا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ سوائے چند ایک عورتوں کے جو کبار صحابہؓ کو دی گئیں باقی لوٹ کا مال اور قیدی مسعود بن عَمْرْو غِفَارِی کی نگرانی میں جعرانہ میں رکھے گئے۔(Muhammad at Madina by W.Montgomery Watt Page73 Chapter The Battle of Hunayn, The Consolidation of Victory Oxford University Press Karachi 2006)
اسی طرح سر ولیم میور لکھتا ہے کہ قیدیوں میں سے تین خوبصورت عورتیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئیں آپ نے ان میں سے ایک حضرت علی، ایک عثمان اور ایک حضرت عمر کو عطا کر دی اور حضرت عمر نے اپنے حصہ والی عورت اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو دے دی۔ باقی دو کے بارے میں معلوم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ بہرحال لکھتا ہے کہ اس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کا اندرونی علم ہو جاتا ہے کہ آپ ایسی قیدی لڑکیاں ان کو دے رہے ہیں جن میں سے ایک آپ کی بیوی کا والد ہے اور دو آپ کی بیٹیوں کے خاوند ہیں۔(The Life of Mahomet by Sir William Muir page 435 Chapter The Hawazinite Prisoners Released, Mahomet Presents Female Slaves to Ali, Othman and Omar London Smith, Elder, & CO., 15 Waterloo Place 1878)
یعنی کہ خویش پروری کی ہے جو پہلے دے دیا۔ پھر اعتراض سے یا شرارت سے ایک واقعہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں بھی کوئی وزن نہیں ہے کیونکہ غزوہ حنین کے موقع پر قیدیوں کی اس طرح کی تقسیم جس میں لونڈیوں کو اس طرح دینے کا بیان ہو اس کا ذکر سیرت حَلَبِیَّہ،طبقات اِبْنِ سَعْد میں نہیں ملتا البتہ مال کی تقسیم کا ذکر ملتا ہے۔ طبقات ابنِ سعد میں لکھا ہے کہ اس روز مسلمانوں کو چھ ہزار قیدی ملے۔ مشرکین مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے اور کہا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ لوگوں میں سب سے بہتر ہیں۔ آپ نے ہمارے مال عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ جس کے پاس ان میں سے کچھ ہو اور اس کا دل واپس کرنے پر راضی ہو تو یہ راستہ بہتر ہے۔ جو راضی نہ ہو تو وہ ہمیںدے دے یہ ہم پر قرض ہو گا۔ جب ہم کچھ پائیں گے تو یہ قرض ادا کر دیں گے۔ انہوں نے کہا: یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم! ہم راضی ہیں اور تسلیم کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: مجھے نہیں معلوم شاید تم میں سے کوئی ایسا موجودہو جو راضی نہ ہو جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے لہٰذا تم اپنے نمائندے بھیجو جو ہمارے پاس اسے پیش کریں۔ آپ کے پاس نمائندے پیش کیے گئے کہ وہ لوگ راضی ہیں اور تسلیم کرتے ہیں۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعدالجزء 2 صفحہ118 غزوہ رسول اللہ ﷺ الیٰ حنین دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
پہلے غزوۂ حنین کے قیدیوں کے انتظامات اور ان کی رہائی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیمانہ حکمتِ عملی کے بارے میں مستند تاریخوں کے حوالے سے تفصیل بیان ہو چکی ہے۔ اس تاریخی حقیقت سے خود سر ولیم میور بھی بخوبی آگاہ ہے۔ اسی وجہ سے میور اس تفصیل کو باوجود اپنی معترضانہ طرز پر بیان کرنے کے اس سچائی کے اظہار سے رک نہیں سکا۔ وہ لکھتا ہے کہ حنین کے تمام قیدی آزاد کر دیے گئے تھے۔(The Life of Mahomet by Sir William Muir page 435 Chapter The Hawazinite Prisoners Released, Mahomet Presents Female Slaves to Ali, Othman and Omar London Smith, Elder, & CO., 15 Waterloo Place 1878)
اس کا یہ بیان بذاتِ خود اس کے اعتراض کی تردید کرتا ہے۔ اس غزوہ کے واقعات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ ابتدامیں قیدیوں کو نگرانی کے لیے صحابہ کے سپرد کیا گیا تھا لیکن ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ انتظامات کو آخری شکل دے کر ان سب کو حضرت مسعود بن عمرو غِفَاری کی زیر نگرانی جعرانہ بھجوا دیا گیا تھا۔ پھر جب طائف سے واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھوازن والوں سے گفت و شنید کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص رحیمانہ حکمتِ عملی کے ساتھ ہر شخص کے سپرد قیدی کو آزاد کروا دیا تھا۔ پہلے بیان شدہ تفصیل میں یہ سب کچھ بیان ہو چکا ہے میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے اور معروف مستشرق منٹگمری واٹ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کیونکہ وہ اسی جگہ لکھتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لمبے عرصہ بعد سننے والوں نے ایسے قصوں میں حاشیہ آرائی کی ہے یا ممکن ہے کہ یہ قصے خود ساختہ و خود تراشیدہ ہوں۔(Muhammad At Medina by W.Montgomery Watt page 73 Chapter The Battle of Hunayn, The Consolidation of Victory Oxford University Press Karachi 2006)
ایک اور اعتراض مارگولیس نے طائف کے سردار مالک بن عوف نصری کے بارے میں کیا ہے کہ اسے یعنی مالک بن عوف کو جبراً مسلمان بنا لیا گیا تھا۔(Mohammed And The Rise of Islam by D.S Margoliouth Page 403 Chapter The Taking of Meccah G.P Putnam’s Sons New York and London The Knickerbocker Press Third Edition)
مارگولیس کا یہ اعتراض بالکل بے بنیاد ہے اور مستشرقین کے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق عمومی رویہ کی مثال ہے کہ کس طرح اس رحمۃ للعالمین کی شفقت کے واقعہ کو بھی جبر کا رنگ دیا جاتا ہے جس کا حقیقت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل سیرت ابن ہشام میں درج ہے کہ جب حضرت رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد ھوازن کی رحم کی اپیل قبول فرماتے ہوئے ان کے قیدی اور اموال انہیں واپس کر دیے تو جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے آپ کو طائف میں موجود سردار مالک بن عوف کا بھی خیال آیا اور آپ نے ان سے پوچھا کہ مالک بن عوف کا تو بتاؤ کہ اس کا کیا حال ہے؟ عرض کیا گیا وہ ثقیف کے ساتھ طائف میں ہے۔ تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی رحم کا ایک بار پھر مالک بن عوف کے حق میں مظاہرہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا کر اسے خبر کرو کہ اگر وہ اسلام قبول کر لے تو اس کے اہل و عیال اور مال اسے لوٹا دیے جائیں گے۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ فرمایا کہ اسے ایک سو اونٹ بھی دیے جائیں گے۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فاتح ہیں کوئی غرض یا فائدہ مالک بن عوف سے آپؐ کو مطلوب نہیں ہےاور کسی بھی قانون کے تحت مالک بن عوف کے تعلق میں آپؐ ایک ذرّے کے بھی ذمہ دار نہیں ہیں لیکن اپنے ازلی جذبہ رحم کے ساتھ اسے اسلام قبول کرنے کا پیغام بھجواتے ہیں اور اس کے اہل و عیال اور مال اوراونٹ عطا کرنے کا وعدہ فرماتے ہیں۔
ادھر مالک کے دل میں بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام پہلے ہی گھر کر چکا تھا چنانچہ جب اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام ملا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے روانہ ہوا۔ طائف سے چل کر جعرانہ یا مکہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ ملے۔ مالک اب مسلمان ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے اہل اور ان کے اموال اور مزید سو اونٹ عطا فرمائے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرتے وقت انہوں نے اشعار بھی کہے جن میں سے ایک شعر یہ تھا کہ
مَا اِنْ رَاَیْتُ وَلَا سَمِعْتُ بِمِثْلِہٖ
فِی النَّاسِ کُلِّھِمْ بِمِثْلِ مُحَمَّدٍ
کہ میں نے سب لوگوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا شخص نہ کبھی دیکھا ہے اور نہ کبھی اس پائے کے شخص کے متعلق سنا ہے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 797امر اموال ھَوَازِن و سبایاھا…دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء )
تو یہ تھے کُل واقعات حُنَین کے۔بعد میں باقی سَرِیَّات ان شاء اللہ بیان ہوں گے۔
اس وقت میں دو مرحومین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا جنازہ بھی بعد میں پڑھاؤں گا۔ پہلا ہے مکرم ڈاکٹر لئیق احمد فرخ صاحب۔ یہ کینیڈا میں تھے۔ وہاں فوت ہوئے۔ انہوں نے کافی سال واقف زندگی ڈاکٹر کے طور پر افریقہ میں خدمت انجام دی ہے۔ ان کی گذشتہ دنوں تراسی سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ مرحوم موصی بھی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ مجلس نصرت جہاں کے تحت 1974ء میں یہ گھانا بھجوائے گئے۔ 1978ء تک وہاں سینٹرل ہسپتال میں خدمت انجام دیتے رہے۔ تین سال وقف کی تکمیل کے بعد ان کی خرابی صحت کی وجہ سے انہوں نے رخصت چاہی تو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ان کو مزید ایک سال کام کرنے کے لیے کہا۔ بڑے بڑےComplicatedکیس ان کے پاس آتے تھے۔ جو مشکل کیس تھے ان کے پاس آتے تھے۔ یہ بعض کیسز refer کرتے تھے کہ دوسرے ہسپتال، سرکاری ہسپتال میں لے جائیں لیکن مریض کہتا تھا کہ نہیں اگر میں نے علاج کرانا ہے تو احمدیہ ہسپتال سے اور احمدی ڈاکٹر سے کرانا ہے اور کئی ایسے آپریشن ہوئے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوئے جن کی امید بھی نہیں ہوتی تھی۔ بہرحال ایسا ہی ایک کیس آیا جو Strangulated ہرنیا کا تھا۔ بڑا مشکل کیس تھا اس کو آپ نے کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے کامیاب کیا۔ 84ء میں یہ دوبارہ افریقہ میں گیمبیا بھجوائے گئے۔ اور 1993ء تک انہوں نے وہاں وقف کیا اور بڑی وقف کی روح کے ساتھ خدمت کی۔
ان کے بیٹے نے لکھا ہے اور بہت صحیح باتیں لکھی ہیں کہ بڑے خاموش طبیعت کے آدمی تھے۔ دعا گو عاجزی اور انکساری اور صبر و استقامت کی مثال تھے۔ پوری زندگی خدمت انسانیت میں گزاری۔ وقف کے دوران خاص طور پر گیمبیا کے چھوٹے اور پسماندہ گاؤں انجوارا میں حالات بہت مشکل تھے۔ کھانے کو بھی کچھ نہیں ہوتا تھا، گرمی بھی تھی۔ بجلی پانی کچھ بھی نہیں تھا لیکن وہاں خدمت کرتے رہے۔ کہتے ہیں میں بھی بیمار تھا اور میرے پاؤں میں چھالے نکل آتے تھے تو مجھے اٹھا کے سکول لے کے جاتے تھے۔ گاڑی میں بٹھاتے اور وہاں سکول میں چھوڑ کے جاتے لیکن کبھی شکوہ نہیں کیا۔ پھر کہتے ہیں کہ جب حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1988ء میں وہاں دورہ کیا ہے تو خاص طور پر ان کے گھر گئے اور گھر میں وہاں بیٹھنے کی کرسیاں بھی نہیں تھیں لیکن بہرحال حضور نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ کھانا بھی کھاؤں گا اور باقی سب سٹاف کو کہا کہ باہر جاؤ اور یہ کہتے ہیں ان کے لیے بڑا اعزاز تھا۔ ہمارے لیے بڑی سعادت کا باعث تھا۔ لاہور میں ملازمت کے دوران ایک واقعہ بیان کیا کرتے تھے کہ میرا بلڈپریشر بہت لو ہو گیا اور میز پر لیٹ گیا اور مجھے لگ رہا تھا کہ وفات ہونے والی ہے۔ ڈاکٹرز اپنے آپ پر کچھ وہم بھی کرتے ہیں اور پتابھی ہوتا ہے لیکن اسی دوران میں آپ کو آواز آئی کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ کینیڈا جا کے آئے گا اور کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے پھر کمال رنگ میں کئی سالوں بعد اس کو وہاں پورا کیا۔
ایک دفعہ جب یہ گھانا سے واپس آئے ہیں تو 1978ء میں ان کی جماعت کا وفد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو ملنے گیا۔ خلیفة المسیح الثالث نے کہا کہ تم واپس آ گئے ہو؟ مَیں تمہیں دوبارہ بھیجوں گا جہاں سے آئے ہو تو کہتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آئی کیونکہ میں تو دوبارہ وقف نہیں کر رہا تھا لیکن 1983ء میں سیکرٹری نصرت جہاں ربوہ کا خط ملا کہ تمہاری تقرری زیر غور ہے اس لیے آؤ اور 1984ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوبارہ گیمبیا افریقہ بھجوا دیا اور کہتے ہیںیہ مجھے عجیب لگا۔ میرے لیے معجزہ تھا کہ ایک خلیفہ نے ایک بات کی دوسرے نے اس کو پورا کر دیا۔
وہاب آدم صاحب مرحوم سابق امیر گھانا کہا کرتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب جب بھی کسی مریض کی نازک حالت دیکھتے تو فوراً نفل پڑھنے لگ جاتے تھے۔
مَیں بھی ان کے قیام کے دوران گھانا میں رہا ہوں۔ مَیں نے ان کے ساتھ وقت گزارا ہے ۔مَیں نے ان کو دیکھا ہے۔ انتہائی شریف النفس، عاجز اور خدمت کرنے والے انسان تھے۔ واقفین کا بہت احترام کرنے والے تھے۔ مہمان نوازی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی بلکہ دونوں میاں بیوی مہمان نواز ہیں۔ بہت خصوصیات ایسی تھیں جو بہت کم لوگوں میںہوتی ہیں
داؤد حنیف صاحب جو آجکل جامعہ کینیڈا کے پرنسپل ہیں گیمبیا میں امیر جماعت ہوتے تھے ۔ کہتے ہیں ہر وقت خدمت انسانیت کے لیے تیار رہتے تھے۔ نہ رات دیکھتے، نہ دن دیکھتے صرف یہ دیکھتے کہ کوئی مصیبت زدہ ہے تو فوراً اس کی خدمت کرنی ہے۔ جس علاقے کے ہسپتال میں ان کو لگایا گیا وہاں چھوٹا سا علاقہ تھا۔ دو فیریاں تبدیل کر کے وہاں جانا پڑتا تھا اور رہائش بھی ان کی پرانے متروک سٹور میں تھی جس کو صفائی کر کے گھر کے طور پہ بنایا گیا تھا لیکن بڑی خوشی سے وہاں رہے۔ نہ بجلی تھی، نہ پانی تھا، نہ ٹیلیفون تھا۔ کنویں یا دریاسے خود پانی لانا پڑتا تھا۔ موم بتی یا لالٹین استعمال کی جاتی تھی۔ سرجری عموماً دن کے وقت سورج کی روشنی میں کرتے تھے اور اپنے جوآپریشن کے انسٹرو منٹس تھے ان کو گیس کے چولہے پر سٹیریلائز کر لیا کرتے تھے ۔ ایسے حالات میں خدمات بجا لاتے رہے۔ آجکل تو ڈاکٹر اس کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہوں گے۔ ان کو پتابھی نہیں ہے کہ یہ کس طرح ہوتا ہے۔ یہ وہیں مقیم تھے کہ ایک دفعہ چوروں نے وہاں ایک گھر میں ڈکیتی کی اور لوگوں کا شور پڑا۔ لوگوں نے چوروں کو گھیر لیا اس پر انہوں نے اپنے کٹلس جو تلوار نما ان کا ایک ہتھیار ہوتا ہے وہ نکالا اور ایک شخص کے مارا اس کے سر پہ شدید زخم آیا۔ فوری طور پر رات کو ڈاکٹر صاحب کو بلایا گیا۔ انہوں نے فوری طورپر اس کی سرجری کی اور ٹارچ لائٹ اور موم بتی کی روشنی میں اس کا آپریشن کیا جس کا آج تصور بھی نہیں ہو سکتا اور اللہ کے فضل سے سرجری کامیاب ہوئی اور وہ مریض بچ گیا۔
ایک دفعہ ایک غریب شخص ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا۔ کہتا تھا کہ میرا گاؤں بہت دور ہے۔ ٹرانسپورٹ بھی میسر نہیں ہے۔ مریض میں لا نہیں سکتا۔ آپ مہربانی کریں مریض کو دیکھ لیں۔ وہ اسی وقت اس کے ساتھ چل پڑے اور مریض کو دیکھا اور اس کا علاج کیا وہ ٹھیک ہو گیا۔ اس علاقے کا جو ممبر آف پارلیمنٹ تھا اس کو یہ پتالگا تو وہ اس بات پہ آپ کا شکریہ ادا کرنے آپ کے کلینک میں آیا اور جب بھی وہ آتا تو ہمیشہ آپ کے پاس ضرور ملنے کے لیے آتا اور اس بات کا اظہار کرتا کہ حقیقی رنگ میں انسانیت کی خدمت آپ ہی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ بیوی بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور انہیں صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ حمید احمد غوری صاحب حیدرآباد انڈیا کا ہے۔ یہ بھی گذشتہ دنوں چوہتر سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور ایک بیٹی اور چار بیٹے ہیں پوتے پوتیاں ہیں۔ سب بچے کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت کر رہے ہیں۔ انعام غوری صاحب ناظر اعلیٰ قادیان کے چھوٹے بھائی تھے۔ صمد غوری صاحب مبلغ سلسلہ اور صدر جماعت البانیہ کے یہ والد تھے۔ صوم و صلوٰة کے پابند تہجد گزار تھے۔ آپ کو قرآن مجید سے بےحد محبت تھی، پڑھتے رہتے تھے۔ حفظ کرنے کی بھی کوشش کرتے تھے۔ جب تک صحت رہی نوافل ادا کرنے کے بعد فجر سے پہلے محلے میں احمدی گھروں میں جا کر نماز کے لیے دستک دیتے ہوئے مسجد جاتے تھے۔ فجر کی نماز پہ لوگوں کو بلاتے۔ حج اور عمرے کی سعادت بھی ان کو نصیب ہوئی۔ خلافت کے حکموں پر چلنے والے تھے اور ہر چھوٹے سے چھوٹا حکم یا بڑے سے بڑا حکم بھی تھا تو کوشش یہ ہوتی تھی کہ میں اس پہ عمل کروں اور کیونکہ جماعت میں خطبات بھی دیتے تھے تو کہتے کہ خود عمل کروں گا اور پھر جماعت کو بتاؤں گا اور اس پر یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب بھی ہوتے تھے۔
ہومیو پیتھی کا علاج بھی کیا کرتے تھے۔ گھر میں دوائیوں کا ذخیرہ رکھا ہوا تھا۔ مریضوں کو مفت دیا کرتے تھے۔ مالی قربانی میں پیش پیش رہتے۔ ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ میرا بقایا ہو گیا تھا حصہ آمد کا تو مرحوم سیکرٹری مال کے پاس گئے اوراس کی طرف سے وہ چندہ ادا کر دیا اور اس کے بعد تنبیہ کی کہ آئندہ سے یہ تمہارا بقایا نہ ہو۔ پہلے چندہ دیا کرو۔ بہت صلہ رحمی کرنے والے اور بار بار اپنے رشتہ داروں کو گھر پر اکٹھا کرتے تھے۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ مرکزی نمائندوں اور مبلغین کی بہت عزت کرتے تھے۔ نائب امیر حیدرآباد اور سیکرٹری تعلیم القرآن اپنے حلقے کے صدر جماعت بھی رہے۔ ناظم انصار اللہ بھی رہے۔ نائب صدر مجلس انصار اللہ جنوبی ہند کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ بہرحال کافی ان کی جماعتی خدمات بھی ہیں۔ یہاں بھی ایک دفعہ جلسہ میں شامل ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بیٹے جنازے میں شریک نہیں ہو سکے تھے جو البانیہ میں مبلغ سلسلہ ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ بہرحال ان کی نمازجنازہ بعد میں پڑھاؤں گا۔
