خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ17؍ اکتوبر 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں غزوۂ تبوک کے بارے میں مختصر ذکر ہوا تھا اس کی کچھ مزید تفصیل آج بیان کروں گا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس غزوہ یعنی
غزوۂ تبوک کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو ابو عامر مدنی جو خزرج قبیلہ میں سے تھا اور یہودیوں اور عیسائیوں سے میل ملاقات کی وجہ سے ذکرو وظائف کرنے کا عادی تھا اور اِس کی وجہ سے لوگ اس کو راہب کہتے تھے مگر مذہباً عیسائی نہیں تھا۔ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں پہنچ جانے کے بعد مکہ کی طرف بھا گ گیا تھا۔ جب مکہ بھی فتح ہو گیا تو یہ سوچنے لگا کہ اب مجھے اسلام کے خلاف شورش پیدا کرنے کے لیے کوئی اور تدبیر کرنی چاہیے۔ آخر اس نے اپنا نام اور طرز بدلی اور مدینہ کے پاس قُبا نامی گاؤں میں جا کر رہنا شروع کیا۔ سالہا سال باہر رہنے کی وجہ سے اور کچھ شکل اور لباس میں تبدیلی کر لینے کی وجہ سے مدینہ کے لوگوں نے عام طور پر اس کو نہ پہچانا۔ صرف وہی منافق اِس کو جانتے تھے جن کے ساتھ اِس نے اپنا تعلق پیدا کر لیا تھا۔ اس نے مدینہ کے منافقوں کے ساتھ مل کر یہ تجویز کی کہ میں شام میں جا کر عیسائی حکومت اور عرب عیسائی قبائل کو بھڑکاتا ہوں اور ان کو مدینہ پر حملہ کرنے کی تحریک کرتا ہوں۔ اِدھر تم یہ مشہور کرنا شروع کر دو کہ شامی فوجیں مدینہ پر حملہ کر رہی ہیں۔ ‘‘ جو مدینہ میں منافق ہیں وہ یہ مشہوری شروع کر دیں۔’’اگر میری سکیم کامیاب ہو گئی تو پھر بھی ان دونوں کی مٹھ بھیڑ ہو جائے گی‘‘ آپس میں جنگ ہو جائے گی’’ اور اگر میری سکیم کامیاب نہ ہوئی توان افواہوں کی وجہ سے مسلمان شاید شام پر جا کر خود حملہ کر دیں اور اس طرح قیصر کی حکومت اور ان میں لڑائی شروع ہو جائے گی اور ہمارا کام بن جائے گا۔ ‘‘ اس فتنہ پرداز نے یہ کہا کہ دونوں صورتوں میں ہمیں فائدہ ہے۔ ’’چنانچہ یہ تحریک کر کے یہ شخص شام کی طرف گیا اور مدینہ کے منافقوں نے روزانہ مدینہ میں یہ خبریں مشہور کرنی شروع کر دیں کہ فلاں قافلہ ہمیں ملا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ شامی لشکر مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ دوسرے دن پھر کہہ دیتے تھے کہ فلاں قافلہ کے لوگ ہمیں ملے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ مدینہ پر شامی لشکر چڑھائی کرنے والا ہے۔ یہ خبریں اتنی شدت سے پھیلنی شروع ہوئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ آپؐ اسلامی لشکر لے کر خود شامی لشکروں کے مقابلہ کے لیے جائیں۔ یہ وقت مسلمانوں کے لیے نہایت ہی تکلیف کا تھا۔ قحط کا سال تھا۔ پچھلے موسم میں غلہ اور پھل کم پیدا ہو اتھا اور اس موسم کی اجناس ابھی پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ ‘‘فصل ابھی کٹی نہیں تھی۔ ’’ستمبر کا آخر یا اکتوبر کا شروع تھا جب آپ اِس مہم کے لیے روانہ ہوئے۔ منافق تو جانتے تھے کہ یہ سب شرارت ہے اور یہ کہ انہوں نے یہ سب چالاکی اس لیے کی ہے کہ اگر شامی لشکر حملہ آور نہ ہوا تو مسلمان خود شامیوں سے جا لڑیں اور اس طرح تباہ ہو جائیں۔ مؤتہ کی جنگ کے حالات ان کے سامنے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کو اتنے بڑے لشکر کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ وہ بہت کچھ نقصان اٹھا کر بمشکل بچے تھے۔ اب وہ ایک دوسری مؤتہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نعوذ بِاللہ’’ ان کے خیال میں ‘‘شہید ہوجائیں ۔ اس لیے ایک طرف تو منافق روزانہ یہ خبریں پھیلاتے تھے کہ فلاں ذریعہ سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ دشمن حملہ کرنے والا ہے، فلاں ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ شامی فوجیں آرہی ہیں اور دوسری طرف لوگوں کو ڈرا رہے تھے کہ اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ آسان نہیں۔ تمہیں جنگ کے لیے نہیں جانا چاہیے۔ ان کارروائیوں سے ان کی غرض یہ تھی کہ مسلمان شام پر حملہ کرنے کے لیے جائیں تو سہی، لیکن جہاں تک ہو سکے کم سے کم تعداد میں جائیں تاکہ ان کی شکست زیادہ سے زیادہ یقینی ہو جائے۔ ‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ 359-360)تھوڑے ہوں گے تو شکست یقینی ہو جائے گی۔
بہرحال آمدہ خبروں کے پیش نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم حالات و واقعات کا جائزہ لے کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر آپؐ نے رومیوں سے مقابلہ کرنے میں تاخیر کی یا ان کو مسلمانوں کے زیر اثر علاقوں میں داخل ہونے کا موقع دیا تو اس کے نقصان زیادہ ہوں گے اس لیے
آپؐ نے تنگی اور شدت کے باوجود یہ طے کیا کہ رومیوں کو پیش قدمی کی مہلت دیے بغیر خود ان کے علاقے میں جا کر ان کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑی جائے۔(ماخوذاز خاتم النبیین ﷺ ازمحمدابوزُہرۃ جلد3صفحہ951-952دارالفکر العربی2012ء)
حضرت مصلح موعودؓ نے اس کو ایک اَور جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ افواہیں پہنچیں تو آپؐ نے یہ حکم دیا کہ بجائے اس کے کہ رومی ہم پر چڑھ آئیں اور حملہ کر دیں ہمیں چاہیے کہ سرحد پر ہی جا کر ان کو روکیں۔ آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا۔ ‘‘(خطباتِ محمود،جلد22صفحہ135،خطبہ جمعہ14مارچ1941ء)
پہلا ایک حوالہ میں نے تاریخ کی ایک کتاب سے دیا تھا۔ یہ اتنا سا حصہ حضرت مصلح موعودؓ کا ہے۔ بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عموماً جنگی مہمات کو قدرے خفیہ رکھا کرتے تھے لیکن خیبر کی مہم کے بعد تبوک کی مہم ایسی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام اعلان فرمایا اور راستے کی مشکلات اور دشمن کی کثرت کا پہلے سے بتاتے ہوئے تیاری کرنے کی تلقین فرمائی۔(صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب من اراد غزوۃ فورَّی بغیرھا۔ حدیث 2948۔ مترجم جلد5صفحہ 303) یہ روایت بخاری میں آئی ہے۔
ساتھ ہی آپؐ نے مکہ اور دوسرے عرب قبائل میں آدمی بھیجے کہ وہ لوگ لشکر میں شریک ہوں۔ دوسری طرف آپ نے مخیر لوگوں کو تاکید فرمائی کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں۔( السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ183،غزوہ تبوک، دارالکتب العلمیۃ2002ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قبائل کو شریکِ جنگ ہونے کا پیغام بھیجا اور ان کی طرف اپنے سفیر بھیجے جیسا کہ ذکر ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت بُرَیْدَہ بن حُصَیْبکو قبیلہ بنو اَسْلَمْ کی طرف، حضرت ابورُھْم غِفاری کو اپنی قوم بَنُوْ غِفَار کی طرف، حضرتابووَاقِد لَیْثِیکو اپنی قوم لَیْثکی طرف، حضرت ابوجَعْد ضَمْریکو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ حضرت رَافِعْ بن مَکِیْث کو جُہَیْنَہ کی طرف بھیجا۔ اسی طرح حضرت نُعَیْم بن مسعودکو اَشْجَعْ اور بُدَیْل بن وَرْقَاء، عَمْرو بن سالم اور بُسْر بن سُفیان کو بنوکَعْب بن عَمْرْوکی طرف بھیجا اور اسی طرح عباس بن مِرْدَاسْکو بنو سُلَیْم کی طرف روانہ کیا۔(ماخوذ از امتاع الاسماع جلد 2 صفحہ 47 غزوہ تبوک۔ الخبر عن الغزو و البعثۃ الی القبائل۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت1999ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد 9 صفحہ 465۔ ناشر: بزمِ اقبال لاہور)
مدینہ میں اس وقت ایک سخت خوف و ہراس کی فضا تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ طاقتور دشمن کسی وقت بھی حملہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ بخاری کی ایک روایت کے مطابق حضرت عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ ہم آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ ایک غسّانی بادشاہ نے ہمارے ساتھ جنگ کے لیے اپنے گھوڑوں کو نعل بھی لگوا لیے ہیں یعنی پوری تیاری کر لی ہے اور بخاری کی ہی ایک روایت میں حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ ہم ایک غسّانی بادشاہ سے خوفزدہ تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ ہم پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس فضا میں ہمارے سینے خوف سے بھر گئے تھے ۔(صحیح بخاری،كِتَاب المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابُ الغُرْفَةِ وَالعُلِّيَّةِ المُشْرِفَةِ وَغَيْرِ المُشْرِفَةِ فِي السُّطُوحِ وَغَيْرِهَاحدیث نمبر2468،کتاب التفسیر بَابُ تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَحدیث نمبر4913)
بہرحال اس کے باوجود صحابہؓ کی تیاری اور مالی قربانی کا ایمان افروز مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ اس خوف و ہراس کے ساتھ ساتھ مدینہ کو اس وقت سخت قحط سالی کا سامنا تھا اور فصلیں اور پھل پکنے کو تھے ۔ اس قحط سالی میں لوگ اپنی فصلیں سمیٹنے کی فکر اور تیاری میں تھے کہ جہاد پر نکلنے کا اعلان ہو گیا۔ پھر شدید گرمی کا موسم اور سینکڑوں میل کا سفر، زادِ راہ کی تنگی اس کے علاوہ تھی۔ ان سب مسائل کے ہوتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جب جہاد پر جانے کا اعلان ہوا تو اخلاص و وفا کے پیکر جاںنثار اپنی تیار فصلوں اور پکے ہوئے پھلوں کو چھوڑ کر سفر کی تیاری کرنے لگے۔ گو کہ اتنے لمبے سفر کی تیاری ان مخلص لیکن غریب صحابہ کے لیے کوئی آسان کام نہیں تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشکلات کی ان گھڑیوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی قربانی کی عام تحریک کرتے ہوئے امراء کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور سواری مہیا کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔ مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ۔ جو شخص جیشِ عُسْرت یعنی جنگِ تبوک کو سازو سامان سے لیس کرے گا اسے جنت ملے گی۔(صحیح بخاری ،کتاب الوصایا، بَابُ إِذَا وَقَفَ أَرْضًا أَوْ بِئْرًا…نمبر2778)
اس موقع پر جو شخص سب سے پہلے مال لے کر آیا وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ آپؓ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے کہ نہیں؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ چھوڑ آیا ہوں۔
ایک روایت میں حضرت عمرؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ ہم صدقہ کریں اور اس وقت میرے پاس مال تھا۔ میں نے کہا اگر میں ان سے کبھی سبقت لے جا سکا تو آج کے دن میں ابوبکر سے سبقت لے جاؤں گا۔ کہتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ میں نے عرض کیا جتنا لے کے آیا ہوں اتنا ہی گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔ اور حضرت ابوبکرؓ وہ سب لے آئے جو ان کے پاس تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اےابوبکر!تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے سامنے پوچھا ۔ انہوں نے عرض کیا میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا ہے۔ حضرت عمر ؓکہتے ہیں مَیں نے کہا کہ اللہ کی قسم !میں ان سے کسی چیز میں کبھی بھی سبقت نہیں لے جا سکتا۔(سنن الترمذی ابواب المناقب باب رجاءہ ان یکون ابو بکر ممن یدعی من جمیع ابواب الجنة حدیث 3675)( شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ69دارالکتب العلمیۃ1996ء)
اس واقعہ کو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اپنے الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ’’ ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں۔ مجھے خیال آیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں آج میں ان سے بڑھوں گا۔ یہ خیال کر کے میں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لے آیا۔ وہ زمانہ اسلام کے لیے انتہائی مصیبت کا دور تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ابوبکرؓ گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسولؐ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ آج میں نے سارا زور لگا کر ابو بکر ؓسے بڑھنا چاہا تھا مگر آج بھی مجھ سے ابوبکر بڑھ گئے۔ ‘‘(فضائل القرآن (3)، انوار العلوم جلد11صفحہ577)
حضرت عثمان ؓکی مالی قربانی کے متعلق ایک روایت ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن خَبَّابْ ؓنے اس کو بیان کیا ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا اور آپ عُسْرَہْ کے لشکر کے بارے میں تحریک فرمارہے تھے تو حضرت عثمان بن عَفَّان ؓکھڑے ہوئے۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ذمہ سو اونٹ ان کے پالانوں اور کجاووں سمیت اللہ کے راستے میں ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کے بارے میں تحریک فرمائی تو حضرت عثمان بن عَفَّان پھر دوبارہ کھڑے ہوئے۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ذمہ دو سو اونٹ ان کے پالانوں اور کجاووں سمیت اللہ کے راستے میں ہیں۔ یہ بات سننے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر لشکر کے بارے میں دوبارہ تحریک فرمائی تو حضرت عثمان بن عَفَّانؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ذمہ تین سو اونٹ ان کے پالانوں اور کجاووں سمیت اللہ کی راہ میں راستے میں ہیں۔ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ منبر سے اتر رہے تھے اور آپ فرما رہے تھے کہ مَا عَلٰی عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ھٰذِہٖ۔ مَا عَلٰی عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ھٰذِہٖ۔ عثمان پر کوئی گرفت نہیں جو بھی اس نے اس کے بعد کیا۔ عثمان پر کوئی گرفت نہیں جو بھی اس نے اس کے بعد کیا۔
ایک دوسری روایت میں ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن سَمُرَہْ ؓنے بیان کیا کہ جب انہوں(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) نے جیش عُسْرَة کی تیاری کروائی تو حضرت عثمان نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ہزار دینار پیش کیے اور انہیں آپؐ کی گود میں ڈال دیا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ انہیں (ان دیناروں کو ) اپنی گود میں الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْیَوْمِ۔ کہ عثمان کو کوئی ضرر نہ پہنچے گا جو اس نے آج کے دن کے بعد کیا۔ دو مرتبہ یہ فرمایا۔
ایک روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ نے اس موقع پر دس ہزار دینار عطا کیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کے لیے یہ دعا کی: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا عُثْمَانُ مَااَسْرَرْتَ وَمَا اَعْلَنْتَ وَمَا ھُوَ کَائِنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَا یُبَالِیْ مَا عَمِلَ بَعْدَھَا ۔ کہ اے عثمان !اللہ تجھ سے مغفرت کا سلوک فرمائے جو تُو نے مخفی طور پر کیا اور جو تُو نے اعلانیہ کیا اور جو قیامت تک ہونے والا ہے۔ اس کے بعد وہ جو بھی عمل کرے اسے کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے۔
ایک روایت کے مطابق آپؓ نے اس جنگ کی تیاری کے لیے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے پیش کیے۔ ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر حضرت عثمانؓ کے حق میں یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ ارْضَ عَنْ عُثْمَانَ فَاِنِّیْ عَنْہُ رَاضٍ ۔ کہ اے اللہ !تُو عثمان سے راضی ہو جا کیونکہ میں بھی اس سے راضی ہوں۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے غزوہ تبوک کے موقع پر اتنی رقم خرچ کی کہ کوئی اَور صحابی اتنی رقم خرچ نہ کر سکا۔(سنن الترمذی ابواب المناقب عن رسول اللّٰہﷺ باب فِیْ عَدِّ عُثْمَانَ تَسْمِیتَهُ شَهِیْدًا وَ تَجْهِیْزَهُ جَیْشَ الْعُسْرَةِ، حدیث 3700، 3701)(السیرۃ النبویہ لابن اسحاق،جلد2صفحہ596-597دارالکتب العلمیۃ 2004ء)(ماخوذ از شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ69 تا 71، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)(السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ 184، غزوہ تبوک، دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
حضرت عثمان ؓکا ایک تجارتی قافلہ ملک شام سے بہت سارا نفع لے کر واپس آیا تو انہوں نے ایک تہائی فوج کے جملہ اخراجات اپنے ذمہ لے لیے۔ انہوں نے کہا 3/1فوج کا خرچ مَیں برداشت کروں گا۔ آپ نے دس ہزار سے زائد فوج کا سامان مہیا کیا اور اس چیز کا اہتمام کیا کہ ہر فوجی کے لیے ایک ایک تسمہ بھی آپ کے روپے میں سے خرچ ہو یعنی کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی۔ اس پر ان کے دس ہزار دینار خرچ ہوئے جو اونٹوں اور گھوڑوں کے علاوہ تھے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ایک سو گھوڑے اور دیگر سامان کے ساتھ ساتھ ایک ہزار دینار بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے۔ یہ ایک ہزار دینار ان دس ہزار دینار سے الگ تھے جو انہوں نے دس ہزار فوجیوں کی تیاری پر خرچ کیا تھا۔ اس موقع پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے ایک سو اوقیہ چاندی پیش کی۔ بعض روایات کے مطابق دو سو اُوْقِیَہ چاندی پیش کی۔ یہ اُوْقِیَہ بھی ایک وزن ہے جو ساڑھے دس تولے کے برابر ہوتا ہے یعنی دس سو پچاس یا اکیس سو تولے تک چاندی یا اگر آجکل کے زمانے میں دیکھیں توسوا کلو گرام یا اڑھائی کلو گرام چاندی۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان بن عَفَّان اور عبدالرحمٰن بن عوف زمین پر اللہ کے خزانوں میں سے خزانے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے بہت مال دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے چار سو اوقیہ سونا پیش کیا تھا یعنی بتالیس سو تولے سونا بعض نے نو سو اونٹ پیش کرنے کا بھی بیان کیا ہے۔ بہرحال بہت قربانیوں کا ذکر ہے۔
ایک روایت کے مطابق حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میرے پاس آٹھ ہزار درہم ہیں۔ مَیں نے چار ہزار درہم گھر والوں کے لیے رکھ لیے ہیں اور چار ہزار آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں برکت کی دعا دیتے ہوئے فرمایا: بَارَکَ اللّٰہُ فِیْمَااَمْسَکْتَ وَفِیْمَا اَعْطَیْتَ۔ یعنی جو مال تم نے گھر والوں کے لیے رکھا ہے اور جو اللہ کی راہ میں دیا ہے اللہ سب میں برکت دے۔
حضرت عاصِم بن عَدِیؓ نے ستر وَسْقْ کھجوریں پیش کیں۔ ایک وَسْقْ ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع قریب تین سیر کا ہوتاہے یعنی کُل تقریباً بارہ ہزار چھ سو کلو گرام کھجوریں بنتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قربانیوں کے، زیادہ قربانیوں کے، مال لانے والوں میں سے حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ، حضرت طلحہ بن عُبَیْدُاللہؓ، حضرت سعد بن عُبَادَہؓ اور حضرت محمد بن مَسْلَمَہؓ کے نام بھی ملتے ہیں۔(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ69دارالکتب العلمیۃ1996ء)(السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ 183-184، غزوہ تبوک، دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)( سیرت الحلبیہ مترجم جلد سوئم نصف اوّل صفحہ 396۔397دارالاشاعت 2009ء)(غزوات النبیﷺ ازعلامہ برہان الدین حلبی،مترجم اردو صفحہ 686دارالاشاعت2001ء)(اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ457مکتبہ دارالسلام)(سیر الصحابہؓ جلد 1 صفحہ 161دارالاشاعت کراچی 2004ء)(صحیح مسلم ۔ نور فاؤنڈیشن۔ جلد 12صفحہ 184)( فرہنگ سیرت صفحہ 49زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003،)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ایک وہ زمانہ تھا کہ الٰہی دین پر لوگ اپنی جانوں کو بھیڑ بکری کی طرح نثار کرتے تھے مالوں کا توکیا ذکر، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنا کُل گھر بار نثار کیا حتی کہ سوئی تک کو بھی گھر میں نہ چھوڑا اور ایسا ہی حضرت عمرؓ نے اپنی بساط و انشراح کے موافق اور عثمانؓ نے اپنی طاقت و حیثیت کے موافق عَلٰی ہٰذَا الْقِیَاسِ۔ عَلٰی قَدْرِ مَرَاتِبْ ۔ تمام صحابہ اپنی جانوں اور مالوں سمیت اس دین الٰہی پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ‘‘
پھرآپؑ نے فرمایا کہ’’…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران:93)۔ جب تک تم اپنی عزیز ترین اشیاء اللہ جل شانہ کے راہ میں خرچ نہ کرو تب تک تم نیکی کو نہیں پا سکتے۔‘‘(ملفوظات جلد5صفحہ192حاشیہ، ایڈیشن 2022ء)اور نیکیوں کو پانے کے لیے صحابہ خرچ کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ‘‘صحابہ نے بعض دفعہ اپنے گھر کا مال و اسباب بیچ کر جنگ کے اخراجات پورے کیے بلکہ یہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض دفعہ انہوں نے اپنی جائیدادیں بیچ کر دوسروں پر خرچ کردیں اور ان کےلیے تمام ضروریات مہیا کیں۔ ‘‘یعنی جنگ پہ جانے والوں کے لیے۔ ’’چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ نے فرمایا کہ فلاں سفر پر ہماری فوج جانے والی ہے مگر مومنوں کے پاس کوئی چیز نہیں۔ کیا کوئی تم میں سے ہے جو ثواب حاصل کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ سنتے ہی اٹھے اورآپ نے اپنا اندوختہ نکال کر وہ رقم مسلمانوں کے اخراجات کےلیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو فرمایا عثمان ؓنے جنت خرید لی۔‘‘(خطبات محمود جلد19صفحہ98-99)
حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے بھی مالی قربانیوں کے ضمن میں اپنے ایک خطبہ میں اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’ایک موقعہ پر جنگ کی تیاری کے لیے بہت سے اموال کی ضرورت تھی اور ان دنوں کچھ مالی تنگی بھی تھی اور دنیا ایسی ہی ہے۔ کبھی فراخی کے دن ہوتے ہیں اور کبھی تنگی کے دن ہوتے ہیں۔ اس موقعہ پر بھی تنگی کے ایام تھے اور جنگی ضرورت تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے سامنے ضرورت حَقَّہ کو رکھا اور مالی قربانی پیش کرنے کی انہیں تلقین کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو اپنا سارا مال لے کر آ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لے کر آگئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میری یہ پیشکش قبول کر لی جائے کہ میں دس ہزار صحابہؓ کا پورا خرچ برداشت کروں گا اور اس کے علاوہ آپ نے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے دیے۔ اسی طرح تمام مخلص صحابہ نے اپنی اپنی توفیق اور استعداد کے مطابق مالی قربانیاں پیش کیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بہترین نتائج نکالے۔ ‘‘(خطبات ناصر جلد2صفحہ 341، خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 18 اکتوبر 1968ء)
اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد اس بات کو سمجھتے ہیں کہ مالی قربانیوں کی کیا اہمیت ہے۔
اکثر واقعات میں بیان کرتا ہوں۔ بعض لوگ حقیقت میں اپنے پاس جو کچھ ہو وہ قربان کر دیتے ہیں۔
امراء کو بھی، صاحبِ حیثیت لوگوں کو بھی حضرت ابوبکرؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓ کے نمونے سامنے رکھنے چاہئیں اور پھراپنی قربانیوں کے معیار کو بڑھانا چاہیے۔
غریب اور اوسط درجے کے تو باقی قربانیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے امراء ایسے ہیں جو اعلیٰ معیار کی قربانی کرنے والے ہیں۔ جو کمزور ہیں انہیں بھی دین کی اشاعت کے لیے آگے آنا چاہیے۔ اس زمانے میں ان کو بھی یہ موقع ہے کہ قربانیاں کریں۔ صحابہؓ نے جس حد تک ممکن تھا کچھ نہ کچھ پیش کیا اور غریب اور مجبور سپاہیوں کے لیے سواریاں اور تلواریں اور دیگر آلاتِ حرب مہیا کیے۔ بعض غریب صحابہؓ یا صحابیاتؓ جب ایک ایک دو دو مُدّ غلہ پیش کرتے تو ان کے دل بھر جاتے کہ کاش ان کے پاس زیادہ ہوتا تو اسے بھی پیش کر دیتے مگر منافق ان پر ہنستے اور کہتے کہ یہ لوگ ان مٹھی بھر دانوں سے قیصر کو شکست دےد یں گے۔ مُدّتوچھوٹا سا ہی ایک پیمانہ ہے مٹھی بھر مٹھیوں کے برابر۔ منافقین کے اس طنز کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُھْدَھُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْھُمْ ۔ سَخِرَ اللّٰہُ مِنْھُمْ ۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (التوبۃ:79)
وہ لوگ جو مومنوں میں سے دلی شوق سے نیکی کرنے والوں پر صدقات کے بارہ میں تہمت لگاتے ہیں اور ان لوگوں پر بھی جو اپنی محنت کے سوا اپنے پاس کچھ نہیں پاتے۔ پس وہ ان سے تمسخر کرتے ہیں۔ اللہ ان کے تمسخر کا جواب دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب مقدر ہے۔
محنت کر کے مالی قربانی کرنے والوں میں حضرت ابوعَقِیْلؓ بھی تھے جنہوں نے تمام رات کنوئیں سے پانی نکالا اور دو صَاعْ کھجوریں حاصل کیں۔ ایک صَاعْ تقریباً اڑھائی کلو کا ہوتا ہے یعنی کل پانچ کلو کھجوریں حاصل کیں۔ ان میں سے ایک صَاعْ اہل خانہ کے لیے رکھ لیا اور ایک صَاعْ کھجوریں، یہ قربانی جو وہ کچھ کر سکتے تھے، لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔( اسد الغابۃ جلد6صفحہ 215۔ ابو عقیل۔ دار الکتب العلمیۃ2003ء)(اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ 458مکتبہ دارالسلام)
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ بیان فرمایا کہ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ چندہ کی تحریک کی تو ایک صحابی نے جا کر کچھ مزدوری کی۔ شاید کسی کے کنوئیں پر جا کر پانی نکالا اور اس کے عوض اسے آدھ سیر یا تین پاؤ غلہ ملا جو اس نے لا کر چندہ میں ڈال دیا۔ اس وقت ہزاروں روپیہ کی ضرورت تھی۔ منافق ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ یہ لڑائی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ جنگ تبوک کا واقعہ ہے جو رومیوں سے درپیش تھی اور رومن حکومت اس وقت ایسی ہی تھی جیسی آج انگریزی حکومت ہے۔‘‘ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا اس وقت انگریزوں کا اس دنیا پہ راج تھا ’’اور اتنی بڑی حکومت سے لڑائی کے لیے اس صحابی نے چند مٹھی جَو لا کر دیے۔ منافق اس پر ہنستے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ان کو کیا علم ہے کہ خدا کی نظر میں اس جَو کی کیا قیمت ہے۔ یہی جَو تھے جن سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور رومیوں کو شکست ہو گئی اور نہ صرف رومیوں کو بلکہ ایرانیوں کو بھی جن کی حکومت بھی رومی حکومت کے مقابل کی تھی مسلمانوں نے شکست دی۔ ‘‘(خطبات محمود جلد 17 صفحہ 46-47)
ایک صحابی ؓکا ایک عجیب واقعہ کا بھی ذکر ہے ۔جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ اس جنگ میں تیاری کے لیے مخلص صحابہ ؓکسی نہ کسی رنگ میں سفر کی تیاری اور مالی قربانی کی اس تحریک میں شامل ہونے کے لیے اپنی سی کوششوں میں مصروف تھے۔ مالدار اصحاب اپنا مال و دولت پیش کر رہے تھے۔ غریب و نادار صحابہؓ محنت مزدوری کر کے جو بھی معمولی سی اجرت ملتی تھی وہی پیش کر رہے تھے۔ ان حالات میں ایک صحابی حضرت عُلْبَہْ بن زیدؓ کا ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا معصومانہ انداز اپنایا جو دوسرے سب لوگوں سے مخلص اور انوکھا تھا۔ وہ بھی نادار اور مخلص تھے۔ پیش کرنے کو پاس کچھ بھی نہیں تھا اور نہ ہی اتنی طاقت تھی کہ وہ جہاد میں شریک ہو سکتے۔ چنانچہ وہ ایک رات نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور گریہ و زاری کرتے ہوئے عرض کی کہ اے اللہ!تُو نے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے لیکن میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اتنا سازو سامان نہیں کہ جو وہ مجھے عطا کر سکیں اور میں جا کے لڑوں۔ اور تیرے نبی نے مالی قربانی کی تحریک فرمائی ہے میں اس میں شامل بھی نہیں ہو سکتا البتہ میں اپنی جان مال اور عزت پر ہونے والے ہر ظلم و زیادتی کو معاف کر کے وہی مسلمانوں پر صدقہ کرتا ہوں۔ جب صبح ہوئی تو یہ دیگر صحابہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آج رات اپنی عزت کا صدقہ کرنے والا کہاں ہے؟ کوئی کھڑا نہیں ہوا ۔ آپؐ نے پھر فرمایا لیکن کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ بالآخر حضرت عُلْبَہْ کھڑے ہوئے اور آپؐ کو ساری بات بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَبْشِرْ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ کُتِبْتَ فِی الزَّکَاۃِ الْمُتَقَبَّلَۃِ
کہ خوش ہو جاؤ ۔مجھے اس ذات کی قَسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ان لوگوں میں لکھ دیے گئے ہو جن کا صدقہ قبول کیا گیا ہے۔(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر جزء 4صفحہ 9۔ذکر غزوۃ تبوک …۔ دار المعرفۃ بیروت 1976ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 463-464۔ ناشر: بزمِ اقبال لاہور)
کیا خوبصورت اور انوکھا اخلاص اور قربانی کا جذبہ ہے! اور اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اور اس کو سب حالات کا علم ہے اس نے بھی ان کا یہ جذبہ قبول کیا اور اس کی اطلاع بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ عورتیں بھی اس موقع پر پیچھے نہیں رہیں
انہوں نے اس جنگ کی تیاری کے لیے اپنے زیورات پیش کر دیے ۔چنانچہ حضرت اُمِّ سِنَانْ اَسْلَمِیَّہْ بیان کرتی ہیں۔ میں نے حضرت عائشہؓ کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک کپڑا بچھا ہوا دیکھا جس میں خوشبو ،بازو بند ،کنگن ،کانٹے ،انگوٹھیاں اور پازیبیں بھی تھیں جو سب عورتوں نے مسلمانوں کے جہاد کی تیاری کے لیے دی تھیں۔(کتاب المغازی جلد2صفحہ 380-381، غزوہ تبوک، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2013ء)
بہرحال ایک طرف تو مخلصین اور مومنین کا حال یہ تھا اور دوسری طرف اس موقع پر منافقین نے بھی اپنا پورا زور لگایا تھا اور ایک پہلو سے منافقین کی طرف سے یہ آخری چال اور سازش تھی اور منافقین کو اپنی کامیابی پر پورا یقین تھا۔ وہ اس یقین پر قائم تھے کہ مسلمان شام کی طرف اس لمبے سفر پر روانہ ہو کر ہی رہیں گے اور وہ اس شیطانی یقین پر بھی قائم تھے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ نہیں آ سکیں گےاس لیے اب ان کی پوری کوشش تھی کہ مسلمان کم سے کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلیں اور ان کی سوچ کے مطابق مسلمانوں کی تعداد جتنی کم ہو جائے گی لشکر میں اتنا ہی چھوٹا لشکر ہو گا اور اس لشکر کی شکست اور موت یقینی ہوگی۔ اس لیے انہوں نے موجود حالات کی تنگی اور سفر کی تکلیفوں اور مشکلات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ وہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے لگے۔ مختلف بہانوں سے انہیں ورغلاتے رہے کہ وہ شامل نہ ہوں جیسے یہ کہ اتنی شدید گرمی ہے، سفر بہت لمبا ہے، ذرائع سفر بہت محدود ہیں۔ مدینہ کی آبادی کا اکثریتی حصہ چونکہ زراعت پیشہ تھا ان کی فصلیں تیار تھیں اور یہ فصلیں قحط کے زمانے میں تیار ہو رہی تھیں۔ پھر وہ مدینہ میں جگہ جگہ مسلمانوں سے یہ باتیں کرتے کہ تم لوگوں کو پتہ نہیں کہ اب جس فوج سے سامنا ہو گا وہ کتنی سخت اور جنگجو ہے۔ ان کے ساتھ جنگ کوئی آسان کام نہیں ہے ہم تو تم سب کو دیکھ رہے ہیں کہ یا تم لوگ مارے جاؤ گے یا سب ان کے قیدی بن جاؤ گے۔ یہ منافقین کہا کرتے تھے۔ ہرچند کہ منافقین کے اس پراپیگنڈے کا اعلیٰ درجہ کے اور مخلص مومنین پر کوئی اثر نہیں ہوا لیکن بعض کمزور ایمان والوں کے دل اتنے خوفزدہ ہوئے کہ وہ جنگ پر نہ جانے کے لیے مختلف بہانے اور عذر پیش کرنے لگے۔ گو کہ ایسے عذر کرنے والوں میں سے اکثریت منافقین کی ہی تھی۔
قرآن کریم نے منافقین کے اس پراپیگنڈے اور بہانوں کے ساتھ پیچھے رہنے کا ذکر اس طرح کیا ہے
کہ
فَرِحَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ بِمَقۡعَدِہِمۡ خِلٰفَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ وَکَرِہُوۡۤا اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَاَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَقَالُوۡا لَا تَنۡفِرُوۡا فِی الۡحَرِّ ؕ قُلۡ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَفۡقَہُوۡنَ ۔ فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا وَّلۡیَبۡکُوۡا کَثِیۡرًا ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ۔ (التوبۃ:81-82)
جہاد سے پیچھے چھوڑے ہوئے منافق اللہ کے رسول کے حکم کے خلاف چل کر اپنی جگہ بیٹھ رہنے پر بہت خوش ہیں اور انہوں نے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کے ساتھ جہاد کرنے کو برا سمجھا تھا اور ایک دوسرے سے کہا تھا کہ ایسی شدید گرمی میں جنگ کے لیے اکٹھے ہو کر مت نکلو۔ تو ان سے کہہ دے کہ جہنم کی آگ اس گرمی سے زیادہ سخت ہے۔ کاش کہ وہ سمجھتے۔پس چاہیے کہ اپنی اس فریب دہی پر وہ تھوڑا ہنسیں اور اپنے عمل کی جزا پر زیادہ روئیں۔
روایات کے مطابق یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جہاد پر نہ جانے کے لیے کوئی نہ کوئی عذر پیش کرتے اور اس کی اجازت طلب کرتے کہ ہم جہاد پر نہ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اجازت دے دیتے تھے۔ اسّی سے زائد لوگ ایسے تھے کہ جنہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے جہاد پر نہ جانے کی اجازت حاصل کی۔ یہ ان منافقین کے علاوہ تھے جو عبداللہ بن اُبَیّ وغیرہ کے ساتھ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ان تمام بہانوں کی پردہ دری کرتے ہوئے قرآن کریم میں کھول کر بتا دیا تھا کہ ان کا پیچھے رہ جانا ان کے ایمانوں کی کمزوری کی وجہ سے ہے اور یہ اپنے بہانوں میں جھوٹے ہیں اور قرآن کریم میں جب ان کے متعلق آیات نازل ہوئیں تو آئندہ کے لیے بھی ہر ایک کو تنبیہ کر دی گئی کہ جب امام کی طرف سے کوئی تحریک یا آواز بلند ہو تو کیسے لبیک کہتے ہیں۔ آگے بڑھنا چاہیے اور جیسے تیسے بھی ہو اس میں شمولیت کی حتّی المقدور تیاری کرنی چاہیے۔ چنانچہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے:
لَوۡ کَانَ عَرَضًا قَرِیۡبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوۡکَ وَلٰکِنۡۢ بَعُدَتۡ عَلَیۡہِمُ الشُّقَّۃُ ؕ وَسَیَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَوِ اسۡتَطَعۡنَا لَخَرَجۡنَا مَعَکُمۡ ۚ یُہۡلِکُوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ۚ وَاللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ۔ عَفَا اللّٰہُ عَنۡکَ ۚ لِمَ اَذِنۡتَ لَہُمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَتَعۡلَمَ الۡکٰذِبِیۡنَ۔ لَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَاَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَاللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ۔ اِنَّمَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَارۡتَابَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ فَہُمۡ فِیۡ رَیۡبِہِمۡ یَتَرَدَّدُوۡنَ۔ وَلَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً وَّلٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ فَثَبَّطَہُمۡ وَقِیۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِیۡنَ ۔ لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا وَّلَا۠اَوۡضَعُوۡا خِلٰلَکُمۡ یَبۡغُوۡنَکُمُ الۡفِتۡنَۃَ ۚ وَفِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ ؕ وَاللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ۔ لَقَدِ ابۡتَغَوُا الۡفِتۡنَۃَ مِنۡ قَبۡلُ وَقَلَّبُوۡا لَکَ الۡاُمُوۡرَ حَتّٰی جَآءَ الۡحَقُّ وَظَہَرَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَہُمۡ کٰرِہُوۡنَ ۔ (التوبۃ:42تا48)
اگر فاصلہ نزدیک کا ہوتا اور سفر آسان ہوتا تو وہ ضرور تیرے پیچھے چلتے لیکن مشقت اٹھانا ان سے بہت دور ہے۔ وہ ضرور اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہمیں توفیق ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ نکلتے۔ وہ اپنی ہی جانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ یہ یقینا ًجھوٹے لوگ ہیں۔ اللہ تجھ سے درگزر کرے۔ تُو نے انہیں اجازت ہی کیوں دی یہاں تک کہ ان لوگوں کا تجھے اچھی طرح پتہ لگ جاتا جو سچ کہتے تھے اور تُو جھوٹوں کو بھی پہچان لیتا۔ جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں وہ تجھ سے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے سے رخصت نہیں مانگتے۔ اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ صرف وہی لوگ تجھ سے رخصت طلب کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں مبتلا ہیں اور وہ اپنے شک میں متردد پڑے ہوئے ہیں۔ اور اگر ان کا (جہاد پر) نکلنے کا ارادہ ہوتا تو وہ ضرور اس کی تیاری بھی کرتے لیکن اللہ نے پسند ہی نہیں کیا کہ وہ (اس اعلیٰ مقصد کے لیے) اٹھ کھڑے ہوں اور اس نے انہیں (وہیں) پڑا رہنے دیا اور (انہیں )کہا گیا بیٹھے رہو بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تم میں شامل ہو کر (جہاد پر) نکلتے تو بدنظمی کے سوا تمہیں کسی چیز میں نہ بڑھاتے اور تمہارے درمیان تیز تیز سواریاں دوڑاتے تمہارے لیے فتنہ چاہتے ہوئے جبکہ تمہارے درمیان ان کی باتیں بغور سننے والے بھی ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ یقیناً پہلے بھی وہ فتنہ چاہتے تھے اور انہوں نے تیرے سامنے معاملات الٹ پلٹ کر پیش کیے۔ یہاں تک کہ حق آ گیا اور اللہ کا فیصلہ ظاہر ہو گیا جبکہ وہ اسے سخت ناپسند کر رہے تھے۔
پس منافقوں کا حال اللہ تعالیٰ نے اس میں کھول کر بیان کر دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ تُو نے ان کے جھوٹے عذر کو مان لیا۔ اگر نہ مانتا اور اجازت نہ دیتا تو ان کی منافقت کا پول سب پر ظاہر ہو جاتا، ضرور کھل جاتا۔ جنگ پر تو انہوں نے پھر بھی نہیں جانا تھا لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کا نہ جانا ہی بہتر ہے کیونکہ اگر کسی وجہ سے چلے بھی جاتے تو جنگ کے دوران ایسی حرکتیں کرتے جن سے مسلمانوں کو نقصان پہنچنا تھا۔ بہرحال ان منافقوں کی خواہش کے مطابق تو نتائج ظاہر نہیں ہوئے۔(اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ461-462مکتبہ دارالسلام)( دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 474بزم اقبال لاہور)
اس کی باقی تفصیل بھی ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
مَیں نے گذشتہ خطبہ میں ربوہ کی مسجد میں حملے کا ذکر کیا تھا۔ جو احمدی خدام زخمی ہیں ان کے لیے دعا بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہر پیچیدگی سے بھی بچائے۔ اس قسم کے جو حادثات ہوتے ہیں ان کے بعد میں بھی بعض دفعہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اس وقت تین خدام زیادہ زخمی ہیں اور اس وجہ سے ہسپتال میں ابھی داخل ہیں اور باقی جو پانچ تھے ان کو علاج کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے لیکن ابھی ان کا علاج بھی جاری ہے اور جو زخم ہیں ان کو heal ہوتے ہوئے بہرحال وقت لگے گا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو شفائے کاملہ عطا فرمائے اور آئندہ ہر شر سے، ہر نقصان سے ہرجگہ افراد جماعت کو بچائے۔
نماز کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ یہ مکرم سام علی نینا (Sam Ali Nena) صاحب مارشل آئی لینڈ ز کے تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی تراسی سال کی عمر میں کیلیفورنیا امریکہ میں وفات ہوئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا اسلام سے پہلی بار تعارف حافظ جبرئیل سعید صاحب جو ہمارے مربی سلسلہ تھے ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں 1980ء کی دہائی میں ہوا اور اس وقت انہوں نے اسلام قبول کر لیا، احمدیت قبول کرلی۔ بڑی مخالفت ہوئی لیکن بڑی استقامت کے ساتھ اپنے ایمان پر ڈٹے رہے۔ ایک سینیٹر نے پارلیمنٹ میں اسلام کو غیر قانونی اور دہشت گردی سے وابستہ مذہب قرار دیا تو آپ نے نہایت جرأت کے ساتھ مقامی اخبار میں پیغام دیا کہ ہم احمدی مسلمان ہیں اور ہمارا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔آپ کا یہ جرأت مندانہ بیان جماعت کے لیے تقویت کا باعث بنا۔ اس نے تو کوشش کی تھی کہ قانون کو پاس کرائے لیکن بہرحال آپ کی کوششوں سے یہ نہیں ہو سکا۔ آپ مقامی معاشرے میں بااثر شخصیت کے طور پہ جانے جاتے تھے۔
فلاح الدین شمس صاحب نائب امیر امریکہ کہتے ہیں کہ مجھے پانچ سال تک مارشل آئی لینڈ زمیں کام کرنے کی توفیق ملی۔ وہاں جاتا تھا کیونکہ یہ جزیرہ امریکہ کے سپرد تھا۔ سام صاحب حافظ جبرئیل صاحب کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے۔ شروع میں چار پانچ گھرانے احمدی تھے اور جماعت بہت چھوٹی سی تھی۔ رجسٹرڈ بھی نہیں تھی لیکن بہرحال بڑی محنت سے حافظ صاحب کی اور ان کی کوشش سے جماعت وہاں رجسٹر ہو گئی۔ حافظ صاحب واپس آ گئے تو بڑا عرصہ لمبا عرصہ وہاں کوئی مربی نہیں تھا اور اس پر سام صاحب نے خود ہی اپنی وفات تک وہاں اپنی جماعت کو سنبھالا اور یہ تبلیغ بھی کرتے رہے اور جماعت کے نام کو انہوں نے کبھی ماند نہیں پڑنے دیا۔ بڑی گرمجوشی سے جماعتی تعاون کرتے تھے جب بھی یہاں مرکز سے وفد جاتا تھا تو ان کی مدد کرتے تھے اور ہمیشہ آگے بڑھ کے انہوں نے کام کیا اور نتیجہ خیز کام کیا۔
مارشل آئی لینڈز میں جماعت قائم کرنے میں اول مقام رکھتے ہیں۔ زیادہ تر نومبائعین آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں احمدی مسلمان ہوئے تھے۔ آپ مارشل آئی لینڈز کے صدر جماعت بھی رہے ہیں۔ پھر یہ شمس صاحب کہتے ہیں کہ کوسرائے (Kosrae) میں مشن قائم کرنے گیا تو وہاں بھی سام صاحب نےمدد کی۔ ان کے کچھ دوست تھے وہ شامل ہوئے اور وہاں اللہ کے فضل سے مشن ہاؤس خریدا گیا اور عمارت بنائی گئی۔ اسی طرح کریباتی (Kiribati) میں ان کے ذریعہ سے مشن قائم کرنے میں مدد ہوئی۔ پھر ایک اَور جگہ بھی ان کے ذریعہ سے مشن قائم کرنے میں مدد ہوئی۔ کہتے ہیں میں نے ایک دفعہ سام صاحب سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے، آپ کی کون سی نیکی ہے جس کی وجہ سے آپ کو تین جزیروں میں جماعت کے قیام اور مرکزی کردار ادا کرنے کی توفیق ملی ہے تو انہوں نے بڑی عاجزی سے کہا یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان ہے میرا تو کوئی کمال نہیں ہے۔
قاسم چودھری صاحب مربی سلسلہ مارشل آئی لینڈزکہتے ہیں رکاوٹوں کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے۔ اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر قربانیاں کیں اور ان کی اہلیہ کی قربانی سے ایک زمین وقف ہوئی۔ ان کی اہلیہ نے اپنا قطعہ زمین دیا جس پر آج جزائر مارشل آئی لینڈز میں پہلی مسجد بھی قائم ہے۔ ان کا اپنے الفاظ میں قبول اسلام کا واقعہ اس طرح ہے۔ کہتے ہیں کہ 1987ء میں مَیں اور میری بیوی نَیری لانگ آئی لینڈ کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔ ایک صبح کہتے ہیں اپنے کمرے سے باہر نکلاتو ایک لمبے افریقی شخص کو دیکھا۔ میں نے سلام کیا انہوں نے سلام کیا اور تعارف ہوا تو پتالگا وہ حافظ جبرئیل سعید صاحب ہیں جو مائیکرونیشیا کے پہلے مبلغ تھے۔ بہرحال ملاقاتیں ہوتی رہیں، تعلقات بڑھتے رہے۔ جبرئیل صاحب نے انہیں اسلام کی تبلیغ کی اور بائبل کی آیات دکھائیں اور یہ بتایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد بائبل میں ایک نبی کے آنے کی بشارت دی گئی ہے اور مجھے تعجب ہوا کہ یہ صرف ایک آیت نہیں بلکہ کئی آیتیں ہیں حتٰی کہ عہد نامہ جدید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود John 7:16 میں فرماتے ہیں: مجھے جانا ہے اور وہ کسی کو میرے بعد بھیجے گا۔ کہتے ہیں یہ وہ حقائق تھے جو میں نے پہلے کبھی نہیں سنے تھے اور حافظ صاحب نے مجھے نہایت وضاحت سے بتایا۔ ہر بات بائبل سے بتاتے تھے اور آخر اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور حقائق کو دیکھا تو میرا دل اسلام کی طرف مائل ہو گیا اور میں نے اسلام قبول کر لیا۔ کہتے ہیں اسی دوران میں جب میں نے قبول کر لیا اور لوگوں کو پتا لگا تو سرکاری افسران نے کہا کہ ہم اسلام کو کبھی مارشل آئی لینڈز میں پھیلنے نہیں دیں گے۔ کہتے ہیں میں نے اس پہ حافظ صاحب کو فون کیا وہ اس وقت وہاں سے جا چکے تھے تو انہوں نے کہا آپ فکر نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ رستے کھولے گا اور کہتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے رستے کھولے کہ ایک دن گھر میں بیٹھا ہوا تھا تو ایک شخص اٹارنی جنرل کے دفتر سے آیا اور مجھے کہنے لگا کہ آپ کی جماعت کے قیام کی رجسٹریشن منظور ہو گئی ہے۔ کہاں تو وہاںبڑے لوگ روکنا چاہتے تھے اور کہاں اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ خود ہی رجسٹریشن کی منظوری کے سامان بھی فرما دیے اور وہ ان کے گھر پہنچ گئی اور کہتے ہیں میں نے فوری طور پر وہ کاپی حافظ صاحب کو بھجوا دی۔ پھر کہتے ہیں بہرحال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے سمجھ لیا کہ احمدیت دیگر مسلمانوں سے ممتاز ہے اور مجھے اس پر بڑا فخر ہے۔ ہمیشہ میرے دل میں ایک آواز اٹھتی تھی کہ میں احمدی مسلمان ہوں اور اس پر فخر ہوتا تھا۔ کہتے ہیں بیس سال تک کوئی مبلغ یہاں نہیں آیا اور میں بڑا پریشان تھا۔ حافظ صاحب نے کہا آپ خلیفہ وقت کو خط لکھتے رہیں تو کوئی نہ کوئی انتظام ہو جائے گا۔ بہرحال کہتے ہیں کہ 2004ء میں مجھے مرکز سے ہدایت آئی کہ ایک اجنبی شخص آ رہا ہے اس کو ایئر پورٹ سے آپ لے لیں تو کہتے ہیں میں وہاں ایئر پورٹ پہ گیا تو کچھ دیر بعد ایک صاحب مسکراتے ہوئے باہر آئے اور میرا نام پوچھا۔ میں نے کہا سام۔ انہوں نے جواب دیا میرا نام کوثر ہے۔ یہ انعام الحق کوثر صاحب تھے اور کہتے ہیں اس دن سے ہم دونوں بھائیوں کی طرح ہو گئے۔ ہم نے اکٹھے ہو کر کوسرائے اور پونپئی کا سفر کیا۔ ہفتہ وہاں قیام کیا اور جب ہم علیحدہ ہوئے تو اس طرح ہمارے تعلقات تھے جس طرح ہم ایک دوسرے کو بہت عرصہ سے جانتے ہیں۔ یہ اسلامی بھائی چارہ تھا۔ کہتے ہیں اللہ کے فضل سے مسلمان ہونے کے بعد میرے دل کو سکون اور روح کو اطمینان ملا۔ نماز نے مجھے بدل دیا۔ میری بیوی نے بھی میرے اندر یہ تبدیلی محسوس کی۔ اس کے بعد سے جب بھی مجھے کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو میں اللہ سے مانگتا اور اللہ فوراً اسے پوری کر دیتا۔ بارہا میں نے اس نصرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ہر دعا میں اللہ کا شکر ادا کیا ہے۔
آپ کی نواسی جولیا کہتی ہیں کہ بڑے مخلص مسلمان تھے جو اپنے ایمان سے تسلی اور طاقت حاصل کرتے تھے۔ اکثر وقت عبادت میں گزارتے اور قرآن کریم کی تلاوت کو بےحد عزیز رکھتے تھے۔ مختلف اسلامی کتب کا مطالعہ کر رہے ہوتے تھے۔ اکثر ہم نے انہیں گہری سوچ اور فکر میں ڈوبا ہوا پایا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے خاندان کے کچھ لوگ احمدی نہیں ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی توفیق دے کہ ان کی نسل میں سےوہ بھی احمدی ہو جائیں۔
