اخبار الفضل کی اہمیت

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 17؍نومبر2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم منیر احمد ملک صاحب (امریکہ) بیان کرتے ہیں کہ خاکسارنے ہوش سنبھالا تو روزنامہ الفضل کو زندگی کا جزو بنے دیکھا ہے۔ محترم والد صاحب نماز فجر مسجد اسلامیہ پارک لاہور میں ادا کرکے تشریف لاتے تو بے چینی سے الفضل کا انتظار کرتے جو ہر صبح اخبار والا تقسیم کرتا تھا۔ ناشتہ کے دوران والد صاحب حضرت خلیفۃالمسیح کی صحت سے متعلق خبر اور حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد پڑھ کر سناتے۔ تب تک ہم پانچ بہن بھائی اپنے سکول کے لیے روانہ ہوجاتے۔ والدین ساری الفضل کا مطالعہ کرکے ایسی تحریر جو بچوں سے متعلق ہوتی اس کی نشاندہی کرتے اور شام کو والدہ صاحبہ مجھے بلند آواز سے وہ تحریر پڑھنے کے لیے ترغیب دلاتیں اور یہی ہر روز کی روٹین تھی جس سے الفضل پڑھنے کا شوق پیدا ہوا بلکہ بڑھتا گیا۔
ہم پانچوں بہن بھائی تعلیم کے مختلف مدارج میں تھے اور تعلیم کے سارے اخراجات کا بوجھ والد صاحب کے اکیلے کندھوں پر تھا۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک قریبی دوست سے مشورہ کے لیے کیا جس نے اخراجات کو کم کرنے کے لیے باقی باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا کہ الفضل اخبار کی خریداری کو کچھ عرصہ کے لیے بند کر دیں۔ مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے جواباً کہا کہ مَیں الفضل (یعنی اللہ تعالیٰ کا فضل) گھر آنے سے روک دوں یہ ممکن نہیں۔
اُس وقت احمدیوں کا مرکز سے رابطے کا واحد ذریعہ الفضل اخبار ہی تھا۔ ہنگامی اور نامساعد حالات میں تو الفضل کی ضرورت اور اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ 1953ء میں جبکہ میری عمر 9 برس تھی تو فسادات میں الفضل ہی واحد ذریعہ تھا جو خلیفۂ وقت کا پیغام اور ہدایات احمدیوں تک پہنچاتا تھا۔ ایسے میں حکومت نے الفضل بند کر دیا تو اس کی جگہ ہفت روزہ ’’فاروق‘‘ آگیا جس کے صفحہ اوّل پر جلی حروف میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا یہ پُرشوکت پیغام درج تھا کہ خدا میری مدد کو دوڑا ہوا آرہا ہے۔ والد صاحب نے بلند آواز میں یہ پیغام پڑھ کر سنایا تو دل اس یقین سے پُر ہو گیا کہ خداوند کریم ہماری خود حفاظت فرمائے گا۔ الفضل کے ذریعہ حضورؓ کی یہ ہدایت بھی ملی کہ احمدی اپنے گھروں میںہی رہیں۔
والد صاحب فائلوں میں الفضل محفوظ بھی کرتے جاتے تھے۔ چنانچہ اس ماحول نے طبعاً الفضل سے ایک محبت پیدا کردی۔ اور اس کے مطالعہ نے میرے علم میں اتنا اضافہ کیا کہ 1962ء میں جب خاکسار اسلامیہ کالج لاہور میں F.A کا طالبعلم تھا تو چاروں سمسٹرز میں اور 400 طلبہ میں اسلامیات میں اوّل رہا اور گورنر پنجاب ملک امیر محمد خان صاحب کے ہاتھوں انعام حاصل کیا۔ اگرچہ اُس وقت اسلامیات کے ہمارے پروفیسرخالد بزمی صاحب تھے جو بدقسمتی سے احمدیت کے شدید مخالف تھے اور اس کا اظہار کئی بار مختلف پیرایہ میں کلاس میں کرتے تھے۔ انہیں اس بات کا قطعاً علم نہ تھا کہ میں بفضل خدا احمدی ہوں۔ میرے کلاس فیلو ہمیشہ پوچھتے کہ مَیں اسلامیات کا پرچہ کیسے حل کرتا ہوں۔ کاش مَیں یہ انہیں بتا بھی سکتا کہ میرا پرچہ حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات کی روشنی میں حل ہوتا تھا جس کی ایک وجہ الفضل کا باقاعدہ مطالعہ تھا۔
1979ء میں خاکسار امریکہ منتقل ہوگیا تو الفضل سے رابطہ منقطع ہوگیا جس کا طبیعت پر ہمیشہ بوجھ رہتا۔ بہرحال پھر یہ تعلق جب بحال ہوا تو قلمی خدمت بھی کرتا رہا۔ الغرض الفضل سے میرا تعلق نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں