میری تعلیم و تربیت میں الفضل کا کردار
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 17؍نومبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرمہ صادقہ کریم صاحبہ رقمطراز ہیں کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو پیارے ابا جان چودھری عبدالکریم صاحب کو گھر میں اخبار پڑھتے اور بچوں کو سناتے پایا۔ میں ابھی اردو صحیح طورپر نہ پڑھ سکتی تھی کہ اباجان الفضل تھما دیتے اور پہلا صفحہ بڑی محنت اور حوصلے سے سنتے اور درستی فرماتے جاتے۔ پھر جوں جوں پڑھنے میں روانی آتی گئی روزانہ اخبار پڑھنے کی تاکید کرتے اور جائزے کے طورپر چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھ کر اپنی تسلی کرلیتے اور درست جواب پر بہت خوشی کا اظہار کرتے اور وقتاً فوقتاً انعام سے بھی نوازتے۔ جب میں تیسری جماعت میں تھی تو تلفظ اور زیادہ تر الفاظ کے معانی مَیں اس حد تک جان چکی تھی کہ میری ٹیچرکہتیں کہ تم نویں کلاس کی طالبات جتنی اردو جانتی ہو۔ اسی لیے میری ہوش میں املاء میں کبھی غلطی نہ ہوئی۔ لیکن الفضل کا اصل فائدہ یہ ہوا کہ جماعت کا پورا تعارف حاصل ہوگیا۔ دینی احکام سے نہ صرف آگاہی ہوئی بلکہ الحمدللہ کہ ان پر عمل کرنے کا سلیقہ بھی آگیا۔ اپنے بزرگوں کے حالات اور قربانیاں پڑھ کر دل میں یہی عزم تھا کہ ایسے ہی بننے کی کوشش کرنی ہے۔ خلفائے وقت سے محبت اور ان کے ہر حکم کو حرز جان بنانے کا شوق بھی الفضل کے مطالعہ کا ہی مرہون منت ہے۔ مضامین لکھنے والوں اور نظمیں کہنے والوں سے ایک غائبانہ محبت پیدا ہوئی اور ان کے لیے دعائیں کرنے کی عادت پڑی کہ ؎
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
الفضل کے ذریعے احباب جماعت سے اس قدر غائبانہ تعارف حاصل ہوا کہ اکثر لوگ حیران ہو جاتے ہیں۔ میرے دل میں پیار اور نرمی کے جذبات بھی الفضل کے ہی مرہون منت ہیں۔ یقین جانیے مجھے یوں لگتا ہے کہ میری تربیت ماں باپ نے تو کی ہوگی لیکن الفضل کی بھی شکرگزار ہوں۔
میرا تعلق تدریس کے پیشہ سے تھا۔ الفضل نے قدم قدم پر میری راہنمائی فرمائی۔ ہر روز تازہ مواد میسر آجاتا اور ہر موضوع پر علم میں اتنا اضافہ ہو جاتا کہ مَیں اعتماد سے کلاس میں جاتی اور نصاب کے علاوہ بھی بہت سی باتیں بچوں کو بتاتی تو اُن کے چہروں پر خوشی اور ان سے شکرگزاری کے جملے سنتی۔
جب پورا اخبار پڑھنے کی عادت پختہ ہوگئی کہ کوئی حصہ بھی رہ جائے تو تشنگی نہیں مٹتی۔ 1955ء سے لے کر 2012ء تک اس روحانی نہر سے مستفیض ہورہی ہوں۔ سوائے اس وقفے کے جو جبری بندش رہی۔ پیارے والد کے لیے دعاگو ہوں کہ الفضل کی چاٹ انہوں نے ہی مجھے لگائی۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب وہ سروس میں آئے تو پہلی تنخواہ ملنے پر ہی الفضل جاری کروا لیا تھا۔ غالباً 1922ء سے وہ الفضل سے استفادہ کر رہے تھے جو نومبر1978ء میں اُن کی وفات کے بعد بھی آتا رہا۔
