Translation of The Address by Hadhrat Khalifatul Masih V at Peace Symposium on 24-03-2012

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج  ایک سال گز رنے کے بعد  پھر میرے لئے خوشی کا موقع ہے کہ میں  اس تقریب میں اپنے معزز مہمانوں کو خو ش آ مدید کہوں۔ میں آپ سب کا  نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت خرچ کر کے یہاں کے تحت آپ سب جو مختلف طبقا تِ فکر، قوموں اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں یہا ں اسوقت میرے سا منے موجود  بیٹھے ہیں۔

حضور نے فر مایا:  ہر سال جب ہم  یہ  جذبات  لے کر  اکٹھے ہو تے ہیں  تو اظہار بھی یہ سب کی طرف سے ہوتا ہے کہ  ہم   اپنی زندگیوں میں وہ وقت دیکھ سکیں کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ اور میں ہر سال آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ ا ٓپ  پر امن رجحانات کو  فروغ دینے کے لئے جو بھی اور جہاں بھی کوشش کر سکیں  ضرور کریں۔مزید بر آں  آپ میں سے جو کسی سیا سی  پا ر ٹی سے تعلق رکھتے ہیں یا کسی حکو متی  ادارہ  سے  منسلک ہیں وہ قیامِ امن کے پیغام کو  اپنے حلقہ اثر میں  فروغ دیں۔ یہ ایک نہا یت ضروری امر ہے کہ  ہر شخص کو احساس دلایا جائے کہ قیامِ امن کے لئے، آج کی دنیا میں پہلے سے بھی بہت بڑھ کر،  اعلیٰ اخلاق اور  با اُصول  ٹھوس اقدا مات کی ضرورت ہے۔ جہاں تک جما عت احمد یہ کا تعلق ہے  ہمیں جہاں بھی  اورجب بھی کوئی موقعہ میسر ہو ہم کھل کر اپنے نقطہ نگا ہ سے لو گوں کو آگاہ کر تے ہیں کہ دنیا کو اس تبا ہی اور بر بادی سے ،  جس کی طرف دنیا  نہا یت تیزی سے بڑھ رہی ہے ، بچا نے کی صر ف ایک ہی  صو رت ہے۔ اور وہ  صورت یہ ہے کہ دنیا میں محبت، با ہمی ہمدر دی، اور بھا ئی چا رہ کے سا تھ رہنے کے طور طر یق کو اپنا یا جائے۔سب سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ دنیا اپنے خالق و مالک کو پہچان لے جو کہ ایک وا حد خدا ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ خالق کی پہچان ہمیں اسکی مخلوق سے محبت اور ہمدردی کی طرف لے جا تی ہے۔ اور جب یہ جذبہ ہما ری زند گیو ں کا حصہ بن جا تا ہے تب ہم خدا تعالیٰ کی محبت کے قابل اور سزاوار ہو جا تے ہیں۔ ہم مستقل طور پربآواز بلند  دنیا کو امن کی طر ف بلا تے چلے جا تے ہیں۔اس کے پیچھے یہی جذبہ کار فر ما ہے کہ ہمارے دل  دکھی انسانیت  کی تکلیف کے احساس سے تڑ پتے ہیں اوریہ کرب کا احساس ہمیں وہ جذبے فر اہم کرتا ہے کہ ہم کو شش اور جد و جہد کریں کہ جس سے انسان ان دکھوں سے آزاد ہو کر دنیا میں سکون کی زند گی بسر کر سکے۔انہی کو ششوں کی ایک جھلک ہماری آج کی تقریب بھی آپ کی خد مت میں پیش کر رہی ہے۔کیونکہ یہ بھی ان کو ششوں کاایک حصہ ہے

حضور نے مز ید فر ما یا:  جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آپ سب تو ان خیالات کے حامی  اور ان اعلیٰ اقدار کے خواہاں ہیںاس سلسلہ میں میںَ نے بار بار سیا سی  اور مذہبی رہنماؤں کوتوجہ دلائی ہے کہ قیامِ امن کے لئے کو ششیں کرنا از بس ضروری ہے مگر ان تمام کوششوں کے با وجود  ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بے چینی، اور خلفشار مسلسل  بڑھتا اور پھیلتا جارہا ہے۔بعض ملکوں میں  شر پسند  لوگ  مختلف حلقوں اور گروہوں میں ٹکراؤ اور تصادم کی صورتِ حال پیدا کر رہے ہیں۔بعض ممالک میں عوام حکومت سے لڑ  رہے ہیں اور بر عکس صورتِ حال میں حکمر ان عوام  پر حملہ آور نظر آتے ہیں۔ دہشت گرد عنا صر  بغاوت اور لا قا نونیت  کی بھٹی کو اپنے مفا دات حاصل کرنے کے لئے  بھڑکا  رہے ہیں جس کے نتیجہ میں معصوم عو رتیں بچے اور بو ڑھے  ہلاک ہو رہے ہیں۔بعض ممالک میں سیا سی جماعتیں  اپنے ذاتی مفادات حاصل کر نے کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے  لڑنے میں اپنی سا ری طاقت خرچ کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ آپس میں مل کر  ملک و قوم کو  بہتری کی راہوں پر گامزن ہونے میں ممد و معاون ہوں۔

حضور نے فر مایا:  ہم یہ بھی د یکھتے ہیں کہ بعض ممالک اور حکومتیں مستقل طور پر دوسرے ممالک کے قدرتی ذخائر کی طرف  للچا ئی نظر وں اور حاسدانہ  رویہ کے ساتھ دیکھ  رہے  ہوتے ہیں۔جبکہ بڑی طاقتیں  اپنے تمام  وسا ئل بروئے کار لا کر،دوسرے تمام عوامل سے قطع نظر دنیا میں  اپنا اثر و رسوخ اور تسلط  قائم  رکھنے پر  مصرّ اور مصروف  ہیں۔اور اپنے مفا دات کے حصول میں کو ئی حربہ اور ہتھکنڈا  استعمال کر نے سے گر یز نہیں کرتیں۔ اس صورتِ حال میں  ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو جما عتِ احمدیہ اور نہ ہی آپ  میں سے اکثر اشخاص  اس امر کی طاقت  رکھتے ہیں کہ  مثبت تبد یلیوں کو  را ئج  کر سکیں۔ اسکی  وجہ یہ ہے کہ ہم  دنیا میں کوئی عہدہ  یا اقتد ار نہیں رکھتے۔ بلکہ میں تو یہانتک کہونگا  کہ وہ سیا سی شخصیا ت جن کے سا تھ ہما رے دو ستا نہ تعلقا ت ہیں، وہ  جب ہم سے ملتے ہیں تو یقین دہانی کر واتے ہیں کہ  وہ ہمارے خیا لات سے مکمل اتفاق رکھتے  ہیں ، وہ بھی جب  با اقتدار حلقوں میں جاتے ہیں تو آواز بلند کرنے کی استطاعت نہیں پا تے۔

  یا پھر انکی آواز کو دبا دیا جاتا ہے اور  اُنکے  خیالات کو  آگے پھیلنے سے روک دیا جا تا ہے۔اسکی  مختلف  وجوہات ہو سکتی ہیں کہ یا تو انہیں اپنی سیاسی جماعت کی اختیار کردہ پا لیسی  سے ہٹنے کی اجازت نہیں دی جاتی یا  بیرونی دبائو  جو حکو متوں کی طرف سے یا  سیا سی جتھوں کی طرف سے در پیش ہوتے ہیں،  وہ انہیں کسی بھی پیش رفت سے محروم رکھتے ہیں۔

حضور نے فرمایا: بہر حال  ہم جو ہر سال  اس امن کا نفر نس میں شریک ہو تے ہیں بلا شبہ  ہماری یہ تمنّا  ہے کہ دنیا میں امن کا قیام عمل میں آجائے۔ اور ہم اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ  باہمی  محبت،  ہمدردی اور برادرانہ  تعلقات کا قیام  ہونا چاہئے جو کہ تمام مذاہب  سے تعلق رکھنے  وا لوں کے در میان  ہو، تمام قو میتوں اور رنگ و نسل کے لوگوں کے درمیان ہو۔  الغرض دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں میں امن و اخوت کا قیام ہو۔ افسوس کہ ہما رے پاس نہ تو کوئی طا قت ہے نہ اختیار کہ ہم اپنی ان خوا ہشات اور اعلیٰ اقدار کو عملی صورت میں تمام دنیا  میں قا ئم کر سکیں۔ ہمارے پاس ایسے کو ئی ذ را ئع ہیں  نہ  وسا ئل، کہ ہم  وہ نتائج حا صل کر سکیں جن کی قیامِ امن کے سلسلہ میں ہم  تمنا  رکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے اسی ہال میں ہماری امن کانفرنس کے مو قع پر  جب میں نے تقر یر کی تو تفصیل سے اس با ت پر روشنی ڈالی کہ  دنیا میں قیا مِ امن کے لئے کیا ذرائع اور اقدامات کرنے چاہئیں۔ بعد میں ہمارے قابلِ  احترام دوست  لارڈ ایوبری  نے  کہا کہ یہ خطاب تو اقوامٕ متحدہ میںسنا جانا چاہئے تھا۔ یہ تو  انکے اپنے  اخلاق کی فیا ضی اور  اعلیٰ حوصلگی کی عکا سی ہے۔ بہر حال جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ محض تقا ریر کرنا  اورانکا  سُن  لیا جانا  ہر گز کا فی نہیں اور اس کے ساتھ امن کا قیام عمل میں نہیں آ سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ  اس امر کے حصول کے لئے مکمل انصاف  کا قیام  اور کل  انسانیت کو  یکسا ں سلوک مہیا  ہونے کی ضرورت ہے۔قرآنِ کریم نے اس بارہ میں بہت واضح ہدا یت عطا فر مائی ہے اور ایک اصول عطا فر مایا  ہے جو سنہری حوف میں لکھا جا نا چاہئے۔ چنا نچہ سورۃ  النساء  کی آیت نمبر   : 136 میں اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف  سے ہمیں ایک سنہری اُصول عطا فرمایا گیا ہے۔جہاں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان ہے کہ انصاف کے تقا ضے تمھیں بہر حال پو رے کر نے چاہئیں خواہ  اس کے لئے تمھیں اپنے  آپ کے خلاف  یا اپنے والد ین یا عز یز وں  دوستوں کے خلاف گواہ  بننا پڑ ے تو تم ضرور  فر ض شناسی کر تے ہوئے اس پر عمل کرو۔ یہ سچا  انصاف  ہے جس میں اپنے ذاتی مفا دات سے با لا ہو کر اجتماعی بہبود کے لئے قر با نی کر نے کا سبق سکھا یا گیا ہے۔ اگر ہم  اس اصول  کو  اجتما عی سطح پر رکھ کر جا ئزہ لیتے ہیں تو اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ  غیر منصفا نہ تجا ویز کو منوانے کے طریق جو قو موں نے اپنائے ہوئے ہیں جن کے پیچھے دولت اور اثر و رسوخ کا دبائو  ہوتا ہے  اس وطیرہ کو  کلیّتہََ  خیر با د کہنا ہو گا۔اسکے بجائے سب ملکوں کے نمائندوں اور سفیروں کو  انتہائی مخلصا نہ طریق پر آگے بڑھ کر  انصاف اور ہر ایک کو یکسا ں سلوک فراہم کرنے کے لئے جد و جہد کرنی چاہئے۔ ہمیں ہر قسم کے تعصبات اور ہر نوع کی تفر یق کو یکسر مٹانا ہو گا۔کیو نکہ یہ ہی ایک وا حد راستہ  ہے جس پر چل کر  امن کا قیام عمل میں لا یا جا سکتا ہے۔

حضور نے فر مایا: اگر ہم اقوامِ متحدہ  کی جنر ل اسمبلی  یا سیکیو رٹی کا ئو نسل  کی کا روائیو ں کا جا ئز ہ لیں تو  اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کی جا نے والی تقا ریر اور جا ری کئے جا نے والے بیا نات  کی بہت تعریفیں کی جا تی ہیں  اور داد  دی جاتی ہے مگر یہ تعر یف  بے معنی ہے کیوںکہ اصل فیصلے تو در اصل پہلے سے ہی کئے جا چکے ہو تے ہیں۔ چنا نچہ جب فیصلے بڑ ی طا قتوں کے دبا ئو کے تحت  انصاف اور  حقِ خود ارا دیت کے  تقا ضوں  کے  خلاف   کئے جا چکے ہوں تو  پھر  یہ دھو اں دھار تقا ریر کھو کھلی اور بے معنی ہو جا تی ہیں اور صرف عوام ا لناس کی آنکھوں پر پر دہ ڈالنے اور  دھو کہ دینے والی بات ہے۔  بہر حال اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم عا جز آ کر  ہا تھ پیر چھو ڑ  بیٹھیں۔ اور  تمام کو ششیں ترک کر دیں۔ اسکے بر عکس ہمارا  نصب العین یہ ہونا چاہئیے  کہ ہم  قانون کے  دائرہ میں رہتے ہو ئے  حکو مت کو یا د دہا نی کر وا تے رہیں کہ حالات ہم سے کیا تقا ضہ کرتے ہے۔ ہمیں ان گر وہوں اور اداروں کو بھی  مضبوط  اور  مر بو ط مشو رے دیتے رہنا چا ہئے  جو اس قسم کا نصب العین رکھتے ہیں ، تا کہ عا لمی سطح پر   انصاف  مہیا ہو  اور  دنیا میں امن کا قیام ممکن بنا یا جا سکے۔ صرف اس ہی صورت میں ہم دنیا  کو  امن و  آشتی کا گہوارہ  بنا دیکھ سکیں گے۔  لہٰذ ہ  ہم نہ تو اپنی کو ششوں کو ترک کر  سکتے ہیں  اور  نہ ہی کسی بھی صورت میں کرنا چاہئے۔ اگر ہم  ظلم و نا انصا فی کے خلا ف آواز  بلند کرنا چھو ڑ دیںتو  اُس صو رت  میں ہم بھی ان بے حس لو گوں میں شمار ہونگے جو اعلیٰ اخلا قی  قدروں سے قطعی  طور پرعا ری ہیں۔  ہمیں  قیامِ امن کی خا طر  خیالات کی تبدیلی اور عمل کے لئے  کو ششیں جاری رکھنا ہو نگی  قطع  نظر اس بات کے کہ ہما ری آواز سنی جا تی ہے یا  کو ئی اثر  پیدا کر تی ہے یا  نہیں۔

حضور نے فر مایا : مجھے ہمیشہ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ بغیر مذہب و ملت کی تفریق کے ،  صرف  شرفِ انسانی کو بلند کر نے کی خاطر اس امن کانفر نس میں بھا ری تعداد میں لوگ شر کت کر نے کے لئے آتے ہیں تا کہ وہ سنیں اور سیکھیں  اور اپنے خیا لات کا اظہار بھی کریں  کہ کس طرح دنیا میں امن اور با ہمی ہمدر دی کو فر و غ دیا جا سکتا ہے۔

حضور نے فر ما یا : ہمیں یاد رکھنا چا ہئے کہ جب  تمام انسا نی کو ششیں  بیکار ہو جاتی ہیں ، سب حیلے جاتے رہتے ہیں اسوقت  خدا تعالیٰ  دنیا کا خالق و مالک اپنی   قدرت کی تجلی  ظا ہر فر ما تا ہے اور انسا نوں کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا جا تا ہے۔   اس سے پہلے کہ خد تعالیٰ کی  تجلی کا ظہور ہو اور انسان  حکمِ  خدا  کے سا منے  مجبورہو کر  جھکا دیا جائے  اور تمام حقو ق کی ادائیگی مجبو ر ہو کر کر وائی جائے ۔ بہت بہتر ہو کہ  دنیا کے با سی  اپنی  مر ضی اور خود اختیا ری کے سا تھ  ان ضرو ری امور کی  پیر وی  کی طرف  متو جہ ہو جا ئیں۔ کیونکہ  جب خدا تعالیٰ کی  قہری تجلی  کا ظہو ر ہو تا ہے تو پھر  انسا نوں کو  نہا یت خوفناک  نتا ئج کا سا منا کرنا پڑ تا ہے۔آج کی دنیا میں ایک شد ید قہری تجلی کا ظہور  جنگِ عظیم  کی صورت  میں ظاہر ہونے کا اند یشہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ  اس قسم کی جنگ اور اسکی تباہ کار یاں صرف  اس جنگ تک محدود نہیں رہیں گی اور صرف اس وقت کے لو گوں تک  اثر انداذ  نہیں ہونگی بلکہ اسکے ہو لناک اثرات  اور تباہ کاریاں  کئی نسلوں تک کو تکلیفوں میں ڈال دینگی۔ صرف ایک ہو لنا ک اثر نئے پیدا ہو نے والے بچوں کی تکا لیف کا ہو گا ، نہ صرف اسو قت بلکہ مستقبل میں بھی۔ جو ہتھیار اسوقت انسانوں کے ہاتھ میں ہیں انکی تباہ کاری سے انسانوں کی کئی نسلیں بیمار اور معذور پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ جاپان وہ واحد ملک ہے جس نے اسوقت تک ایٹمی حملہ کا نشانہ بننے کی صعوبت اٹھائی اور حولناک نتائج سے دو چار ہونا پڑا جب جنگِ عظیم دوم میں اس پر ایٹم بمب گرایا گیا تھا۔آج بھی جب آپ جا پا ن  جا ئیں اور وہاں کے باشندوں سے ملیں توآپ دیکھیں گے کہ جنگ کے بارہ میں ایک کرب ،خوف اور شدید نفرت کا  جذبہ انکی آنکھوں سے جھلکتا نظر آتا ہے ۔حقیقتِ حال یہ ہے کہ وہ  ایٹم بمب  جو اُسوقت  جاپان پر گرائے گئے تھے اور انہوں نے شدید حولناک نتائج  پیدا کئے تھے، ن سے بھی کم طا قت کے حامل تھے جو ایٹمی ہتھیار اسوقت بعض چھو ٹے چھوٹے ممالک کو مہیا ہو چکے ہیں ۔بتایا جاتا ہے کہ سات نسلیں گزر جانے کے بعد بھی بعض نو ذائیدہ بچے  ایٹمی تباہ کاری کے اثرات سے معذوریاں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔

حضورِ انور نے فر مایا کہ اگر کسی شخص کو گولی مار دی جائے تو ہو سکتا ہے کہ طبی امداد مہیا ہونے پراسکی جان بچائی جا سکے۔مگر ایٹمی جنگ  میں صورتحال فرق ہو جا تی ہے۔ جو براہِ راست اسکی ذد میں ہوں وہ یا تو آناََ فاناََ ہلاک ہو جائیں گے یا بر فانی مجسموں کی طرح منجمد ہو جائیں گے یا انسان جھلس جائیں گے اس طرح کہ کھا لیں گَل جائیں گی۔  پینے کا پا نی، خو راک کی اجناس اور تمام سبزیاں تر کاریاں ایٹمی تابکاری سے نا قابلِ استعمال ہو جائیں گی۔  ان حولناک اثرات  سے جو بیما ریاں پیدا ہونگی انکا تو صرف ایک خاکہ ہی تصورجا سکتا ہے۔ ان جگہوں پر جہاں براہِ راست حملہ نہیں ہوگاوہاں فضائی بخارات اور اثرات کے ذریعہ بیماریوں کا تناسب بہت بڑھ جا ئیگااور آئندہ آنے والی نسلیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔

حضور نے فرمایا: جیسا میں پہلے کہہ آیا ہوںکہ اس قسم کی جنگ کے ساتھ جو تباہی اور بربادی ہو گی اسکے اثرات صرف اس جنگ تک محدود نہیں رہیں گے اور نہ ہی اس کے بعد کے عر صہ تک بلکہ  وہ خو فناک اثرات نسلاََ  بعدنسلاِِ چلتے چلے جائیں گے۔اس قسم کی جنگوں سے پیدا ہونے  والے خدشات در اصل ٹھوس حقا ئق کے غمازہیں  ۔مگر بعض خود غرض اور فہم نہ رکھنے والے لوگ  اپنی ایجادات پر فخر کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ ہماری یہ ایجادات دنیا کے لئے تحفہ ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہایٹمی طاقت دنیا کے لئے بہت خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے۔جسکی وجہ نا فہمی  کے نتیجہ میں غلط استعمال یا حادثات ہو سکتے ہیں۔اس قسم کی تباہ کاری، حادثہ کے نتیجہ میں چر نو بیل  (Chernobyl . ukraine) میں ہم  1986میں دیکھ چکے ہیں۔اور حال ہی میں گزشتہ سال جا پان میں جب سمند ری طوفان  طغیانی سیلاب کی صورت میں آیا تھا تو وہاں ایٹمی توانائی کے مراکز میں حادثات کے خدشات سے تمام جاپانی قوم حراساں تھی۔جب اس قسم کے حادثات ہوں تو اُن علاقوں میں انسانوں کی از سرِ نو آباد کاری بھی بہت ہی مشکل کام بن جاتی ہے۔جاپانی قوم کو اِس سلسلہ میں منفرد حیثیت حاصل ہے  اور جس حولناک نتیجہ کو اُنہیں سہنا پڑا تھا اُسکے باعث اُنکا خوف و حراس بہر صورت بجا ہے۔مانا کہ یہ بات درست ہے کہ جنگوں میں تو بہرحال لوگ مرتے  ہی ہیںاور جب جاپانی حکومت نے جنگِ عظیم دوم میں شمولیت کی تھی تو وہاں کی حکومت اور عوام کو یہ علم تھا کہ اِسکے نتیجہ میں بہت سی جانیں تلف ہو جانے کا اندیشہ ہے۔بتایا جاتا ہے کہ تین ملین (تیس لاکھ) افراد کی جانیں اس جنگ میں ضائع ہوئیںجو کہ مُلک کی آبادی کا چار فیصد حصہ تھا۔جبکہ دوسرے کئی ممالک  میں جو جانیں تلف ہوئیں اُنکا تناسب اِس سے کہیں زیادہ تھا، اسکے باوجود جنگ سے جو نفرت اور کراہت جاپانی قوم میں پائی جاتی ہے وہ دوسری قوموں کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔ اِسکی واضح وجہ یہ ہے کہ وہ جو دو ایٹم بمب  جنگِ عظیم دوم کے دوران اُن پر گرائے گئے تھے اُنکے حولناک نتائج آج بھی انہیں برداشت کرنے پڑ رہے ہیں اور روزمرہ زندگی میں ان سے دو چار ہونا پڑ تا ہے۔جاپانی قوم نے اپنے عظیم ہونے کا ثبوت اس حقیقت سے دیا ہے کہ بہت کم عرصہ میں انہوں نے اپنے شہروں کو ازسرِ نو آباد کر لیا ہے۔

حضور نے فرمایا:  اِس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ آج اگر دوبارہ  ایٹمی ہتھیار استعمال کئے گئے تو بعض ممالک پورے کے پورے صفحہ ہستی سے  مِٹ جائیں گے۔ ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔بہت محتاط اندازوں کے مطابق جنگِ عظیم دوم میں باسٹھ ملین ( 62,000,000 (    افراد  اپنی جان سے ہاتھ دھو  بیٹھے۔ ان ضائع ہونے والی جانوں میں سے چالیس ملین  ((40,000,000 عام شہری تھے ۔ اس تجزیہ سے ظاہر ہے کہ معصوم شہری جومارے گئے  انکی تعداد مرنے والے فوجیوں سے بہت زیادہ تھی۔شدید دردناک اور  حولناک تباہی انسانیت کو دیکھنی پڑی باوجود اسکے کہ سوائے جاپان کے باقی تمام ممالک میں جنگ کے دوران ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں ہوئے۔صر ف برطانیہ میں ہی پانچ لاکھ افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔یاد رہے کہ اُسوقت برطانیہ کی حکومت دنیا کے  بہت سے ممالک پر قائم تھی ، اسوجہ سے وہ تمام مما لک برطانیہ کی طرف سے لڑتے رہے۔ اگر اُنکے مرنے والوں کی تعداد کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد کروڑوں میں جا پہنچتی ہے۔صرف ہندوستانی باشندے جن کی جانیں تلف ہوئیں انکا شمار کیا جائے تو بتایا جاتا ہے کہ 1.6 ملین  (یعنی: سولہ لاکھ) افراد ہلاک ہو گئے۔اب تو صورتحال بدل چکی ہے اور وہی ممالک جو  برطانوی حکومت کا حصہ بنائیے جا چکے تھے وہ اب آزاد  حکو متیں بن چکے ہیں۔ اب جنگ ہوئی تو ہو سکتا ہے وہ  برطا  نیہ کے ہی خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔مزید بر آں یہ کہ جیسا میں نے پہلے بھی کہا ہے بعض  چھوٹے مما لک  نے بھی ایٹمی ہتھیار حاصل کر لئے ہیں۔ اس صورتحال میں شدید خوف کا مقام یہ ہے کہ وہ مہلک ہتھیار کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں جنہیںقابلیت حاصل نہ ہو کہ وہ سمجھ سکیںکہ ان ہتھیاروں کے استعمال کر نے کی صورت میں جو سنگین اورتباہ کن صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اُسکے خوفناک نتائج کیا ہونگے یا اپنی خود سری کے اندر وہ تمام نتائج سے لا پرواہ ہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ دھماکے کرنے والے یہ لوگ آنے والے مصائب اور خدشات سے قطعی طور پر بے بہرہ اور لا پرواہ ہیں۔

حضورِ انور نے بڑی طاقتوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فر مایا :  اگر بڑی طاقت رکھنے والی قومیں دوسروں سے انصاف نہیں کریں گی،  چھو ٹی قوموں کے مایوس کن حالات کا حل نہیںسو چیں گی،  وسعتِ قلبی کے مظہراور دانشمندای کے حامل رویے اختیار نہیں کریں گی تو صورتحال  بگڑتے بگڑتے تمام حدیں پھلانگ کر سب کے اختیار سے باہر ہو جائیگی۔اور اندیشہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں جو تباہی دنیاپر وارد ہو گی وہ ہر انسان کے تصور اور تخیل سے بھی بڑھ کر خوفناک اور مہلک ہوگی۔دنیا کے زیادہ تر باسی جو امن کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیںوہ معصوم بھی اس عا لم گیر تباہی کی لپیٹ میں آجائیں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا: میری یہ دلی خو اہش اور تمنا ہے کہ  دنیا کے تمام بڑے ممالک کے رہنما ان در پیش مسائل کی  حقیقت کوسمجھ جائیں اور بجائے حریفانہ طاقت کے مظاہرہ کے اور بزورِ بازو  مجبور کر کے  نیچا دکھاتے ہوئے خود غر ضی کے ساتھ  چھین جھپٹ کر وسائل کے حصول پر اطمینان محسوس کرنے کے، وہ کوشش کریں کہ اُنکے رویے اور لائحہ عمل ایسے ہوں جو انصاف کے قیام میں ممد و معاون بنیں تا کہ سب اقوام کو یکساں انصاف مہیا ہو۔

حضورِ انور نے حاضرین کو بتایا کہ حال ہی میں ایک بہت اعلیٰ عہدہ پر فائز  روسی  فوج کے کمانڈر نے ایک بیان میں بہت واضح الفاظ میں ایٹمی جنگ کے سنگین خطرہ کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ انکا خیا ل ہے کہ یہ جنگ ایشیا میں نہیں بلکہ یورپ کی سر حدوں پر ہو گی اور اسکی شروعات کے شعلے مشرقی  یورپ سے اٹھنے والی چنگاریوں سے بھڑ کیں گے۔حضور نے فرمایا: بعض لوگ اس بارہ میں کہیں گے کہ یہ تو اُُن صاحب کا ذاتی خیال ہے مگر حضور نے فرمایا میں ان کے اس خیال کو بعید از قیاس قرار نہیں دونگا۔بلکہ مزید بر آں یہ کہونگا کہ اگر یہ جنگ چھڑی تو اس خدشہ کے وسیع آثار ہیں کہ ایشیائی مما لک بھی  اس میں ملوث ہو جائیں گے۔

حضورِ انور نے ایک حالیہ رپورٹ کے بارہ میں فرمایا کہ اخبارات نے ا س بیا ن کی بہت تشہیر کی ہے جو حال ہی میں اسرائیلی ایجنسی  موساد  سے ریٹا ئر ہونے والے انکے افسر اعلیٰ نے  امریکن ٹیلی ویژ ن کے چینل:  CBS کو انٹر ویو دیتے ہوئے دیاتھا۔ اس بیان میں انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت ا یران پر حملہ کرنا چاہتی ہے مگر اس جنگ کا خاتمہ کیسے اور کہاں جا کر ہو اسکا اندازہ کرنا ہمارے لئے نا ممکن ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر انہوں نے کہا کہ میں پر زور طریق پراس قسم کے حملہ کی مخالفت کرتا ہوں۔حضورِ انور نے فرمایا : اور میرا اس ضمن میں خیال یہ ہے کہ اس قسم کا حملہ ا یٹمی  تبا ہی پر منتج ہوگا۔

حضورِ انور نے ایک اور حالیہ اشاعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کہ اس مضمون کے لکھنے والے  مبصر نے  تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دنیا کو اسوقت بھی عین اس ہی قسم کے حالات کا سامنا ہے جو  حالات 1932  میں در پیش تھے۔معاشی  میدان میں بھی اور سیاست میں بھی۔  تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ کئی ایک مما لک میں، اِس وقت بھی با لکل اُسی طرح عوام کو اپنے سیاسی نمائندوں اور حکو مت پرکسی قسم کا اعتماد یا اعتبار نہیںرہا۔بہت سے عوامل عکسی تصویر کی طرح  ہر ہر جائزہ میں وہی حالات سامنے لا تے دکھائی دیتے ہیں  جن کی وجہ سے دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی تھی۔حضور نے فرمایا: بعض لوگ اس تجزیہ نگار سے اتفاق نہیں کریں گے مگر میں خود اس خیال سے متفق ہوں اور اس وجہ سے یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کی حکو متوں کو نہایت تشویش اور فکر سے دنیا کی اس بگڑتی ہوئی صورتحال کی طرف متو جہ ہونا چاہئے۔ اسی طرح اسلامی ممالک  میں بھی  جہاں بھی غیر منصفانہ حکومتیں قائم ہیں،وہاں حکمران محض اپنی ذاتی طاقت کو  ہر قیمت  پر قائم رکھنے کے لئے کسی بھی کاروائی سے گریز نہیں کرتے۔انہیں بھی ہوش کرنی چاہئے وگرنہ وہ  اپنی بیو قوفی سے نہ صرف اپنی حکومت کا قلع قمع کر لیںگے بلکہ اپنی پوری قوم کو تباہ و برباد کر نے کا باعث بن جائیں گے۔

حضورِ انور نے فر مایا : ہم ممبرا نِ جماعت احمد یہ حتی الو سع ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ دنیا کو اور انسانیت کو تباہی سے بچایا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے وقت کے امام کی آواز پر لبیک کہا ہے۔انکا دعویٰ ہے کہ انہیں اللہ تبا ر ک تعالیٰ نے( آنحضرت ﷺ کی پیشنگو ئیوں کے مطابق) مسیح  آخر الزماںبنا کر دنیا میں بھیجا ہے اور وہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ  کے غلام کی حیثیت سے دنیا  میں سلامتی پھیلانے کے لئے آئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ محسنِ انسانیت  ہیں اور آپ حسن و احسا ن کو ہی  پھیلانے کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے۔ کیونکہ ہم اپنے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیمات پر دل و جان سے عمل پیرا ہیں  اس لئے  ہمیں دنیا کی پریشان کن حالت پر دلی تکلیف پہنچتی ہے۔یہ تکلیف ہی اس کا باعث بنتی ہے کہ ہم تکلیف اٹھا کر بھی ہر طرح کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کے دکھوں کا اذالہ کر سکیں اور دنیا کو تباہی سے بچا سکیں۔اس وجہ سے میں اور سب احمدی سعی کرتے ہیں کہ دنیا میں قیامِ امن کے لئے اپنی ذمہ داریاں  حتی المقدورادا کرتے رہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا:  ایک طریق جس سے میں دنیا میں قیامِ امن کی کوشش کر رہا ہوں وہ اہم رہنمائوں کو اس سمت میں توجہ دلانا ہے۔ چند ماہ پہلے میں نے پوپ کی خدمت میں اس موضوع کی طرف توجہ دلانے کے لئے خط لکھا تھا اور ایک احمدی نمائندہ کے ذریعہ دستی بھجوایا تھا۔ اس خط میں میَں نے پوپ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ دنیا کے سب سے بڑی تعداد میں، مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے رہنما ہونے کی حیثیت  رکھتے ہیں  اورانہیں دنیا میں قیامِ امن کے لئے نمایاں ہو کر میدانِ عمل میں آنا چاہئے  ۔اسی طرح  حال ہی میں جب یہ بات بہت زیادہ شدت سے منظرِ عام پر آتی رہی ہے کہ ایران اور اسرائیل میں حالات  مزید سے مزیدکشیدہ ہوتے ہوئے سخت خطر ناک   ہوتے جا رہے ہیں تو میں نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم  بن یامین  نیتھن یا ہو اور ایران کے صدر ا حمدی نجاد کو خطوط لکھے ہیں جس میں میَں نے دونوں رہنمائوں کو توجہ دلائی ہے کہ ساری انسانیت کی خاطر انہیں خطرات سے بے پرواہ ہو کر اور جلد بازی کے ساتھ جذباتی فیصلے نہیں کر نے چاہئیں۔ چند روز پہلے میں نے  امریکہ کے صدر با رک اوباما اور کینیڈا کے وزیرِ اعظم  اسٹیون  ہارپر کو بھی خط لکھے ہیں اور انہیں زور دے کر کہا ہے کہ وہ دنیا میں امن کے قیام کو ممکن بنانے کے لئے بھر پور کردار ادا کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو با حسن ادا کریں۔اسی طرح میں مزید بین الاقوامی رہنمائوں کو مستقبل میں خط لکھنے اور اس موضوع پر تنبیہ کر نے کا ارادہ رکھتا ہوں۔حضور نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ وہ میرے خطوط کو کوئی اہمیت دیں گے یا نہیں، مگر اُنکا  رَدِ عمل جو بھی ہو میں نے خلیفئہ وقت ہونے اور لاکھوں احمدیو ں کے روحانی پیشوا کی حیثیت سے احمدیوں کے احساسات اور جذبات کی  نمائندگی کرتے ہوئے  دنیا کے شدید خوفناک حالات کے بارہ میں تنبیہ کر دی ہے۔حضور نے فرمایا: یہاں میں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ میں کسی ذا تی  خوف کی وجہ سے ان جذبات کا اظہار نہیں کر رہا بلکہ اسکی وجہ انسانیت کے ساتھ سچی اور گہری ہمدردی ہے۔یہ  دلی ہمدردی تمام سچے مسلمانوں میں  آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ آنحضر ت ﷺ  کی تشریف آوری کا مقصد ہی حسن و احسان اور رحم کی تعلیم کو عام کرنا تھا۔

حضور نے فرمایا غالباََ آپ مہمانوں کو تو اس بات پر حیرت ہو رہی ہوگی کہ انسانیت کے لئے ہماری محبت دراصل آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کا ہی نتیجہ ہے۔ہو سکتا ہے کہ آپکے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ مسلمانوں کے دہشت پسند گروہ معصوم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں یا یہ سوال کہ مسلمان حکومتیں اپنی گدی کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے نہتے عوام کا قتلِ عام کرنے کا حکم کیسے دے دیتی ہیں؟ حضور نے فرمایا: میں یہ بات نہایت وضاحت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ظلم و بر بریت اسلامی تعلیمات کے صراصر خلاف ہے ۔ قرآنِ کریم کسی بھی قسم کی شدت پسندی یا دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔

حضورِ انور نے فرمایا: ہمارا ایمان ہے کہ اس زمانہ میں  خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی  ؑ کو مسیح آخر الزماں  اور مہدی  بنا کر  آنحضرت ﷺ کی کامل اطباع میںمبعوث فرمایا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ  کی بعثت کی غر ض ہی یہ کہ اسلام اور قرآنِ کریم کی حقیقی تعلیمات کو دنیا میں پھیلایا جائے۔آپکو اسلئے بھیجا گیا ہے تا خدا تعالیٰ اور بندہ میں تعلق پیدا ہو۔ آپکو اسلئے بھیجا گیا تاکہ دنیا سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔ آپکو اسلئے بھیجا گیا تاکہ تمام مذاہب کے بانیوں  اور تمام انبیاء علیھم السلام کی عزت  دنیا میں قائم کی جائے۔آپکو اسلئے بھیجا گیا کہ آپ دنیا کی توجہ اعلیٰ اخلاق کے حصول کی طرف مبذول کروائیںاور دنیا میں امن، آشتی، رحم اور باہمی اخوت  پھیلا ئیں۔ حضور ِ انور نے فرمایا کہ اگر آپ دنیا کے کسی بھی حصہ میں چلے جائیں، آپکو وہاں جو بھی سچے احمدی ملیں گے وہ اسی جذبہ سے سرشار ملیں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا: ہمارے لئے نہ تو انتہا پسند لوگ نمونہ ہیں اور نہ ہی ظالم مسلمان نمونہ ہیں۔ نہ ہی ہمارے لئے مغر بی طاقتیں نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ہم تو جس نمونہ کی تقلید دل و جان سے کرتے ہیں وہ  بانئی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا نمونہ ہے۔اور ہمارے لئے ہمارا مکمل لائحہء عمل قرآنِ حکیم میں موجود ہے۔لہٰذا اس امن کانفرنس کے ذریعہ میں تمام دنیا کو یہ ہی پیغام بھجوانا چاہتا ہوں کہ اسلام کی تعلیمات کا پیغام دراصل ہے ہی باہمی محبت، شفقت رحم اور صلح و آشتی سے گزر بسر۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک چھوٹی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو  اسلام کی ایک نہایت بگڑی ہوئی تصویر پیش کرتی ہے اور اُن غلط عقائد کے مطابق عمل پیرا بھی ہوتی ہے۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اس بات پر قطعی یقین نہ کریں کہ اسلام اس قسم کی تعلیمات کا حامل ہو سکتا ہے۔جس کی وجہ سے   مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کو جائز سمجھ لیا جائے جبکہ بیشتر مسلمان پُر امن زندگیاں گزار رہے ہیںاور چند غلط عقائد رکھنے والے عناصر کی  دہشت پسندی کی وجہ سے تمام مسلمانوں کو مظالم کا نشانہ بنایا جائے۔

حضور ِ انور نے فرمایا :   قۡرآنِ حکیم تمام مسلمانوں کے لئے نہایت مقدس  اور قابلِ تعظیم کتاب ہے اسلئے اس مقدس کتاب کی توہین کرنا یا جلانا ایسے اقدام ہیں جن سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونگے۔ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی اس قسم کی حرکت کسی نے کی ہے تو مسلمانوں میں سے شدت پسند لوگوں کی طرف سے جو ردِ عمل دکھایا جاتا ہے وہ بھی بالکل غلط اور نا مناسب ہوتا ہے۔  حال ہی میں دو ایسے افسوسناک واقعات افغانستان میں  ہوئے ایک میں قر ا  ٓنِ کریم امریکن فوجیوں نے جلائے اور دوسرے واقعہ میں گھر میں گھس کر نہتے معصوم بچوں اور عورتوں کو قتل کیا گیا۔ اسی طرح ایک ظالم شخص نے جنوبی فرانس میں بِلا وجہ بے قصور فرانسیسی فوجیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔اور پھر چند دن بعد اس شخص نے ایک اسکول میں داخل ہو کر تین معصوم یہودی بچوں اور انکے ٹیچر کو قتل کر دیا۔یہ سب باتیں ایسی ہیں جو بالکل غلط ہیں اور ا س قسم کے طرزِ عمل سے ہرگز امن کا قیام ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں اور بعض دوسرے ممالک میں مسلسل اس قسم کی ظالمانہ کاروائیاں ہوتی چلی جاتی ہیں۔اور اس سے اسلام دشمن عناصر کے ہاتھ ایک  جواز آجاتا ہے کہ نفرتوں کو ہوا دی جائے اور بڑے پیمانہ پر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کاروائیاں کی جائیں۔ یہ جو بر بریت کے مظاہرے  چھوٹے دائروں میں نظر آتے ہیں یہ ذاتی عناد کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ انکے پیچھے وہ  ظالمانہ پا لیسیاں ہوتی ہیں جو حکومتی سطح پر اختیار کی گئی ہوتی ہیں، نہ صرف ملک کے اندرونی معاملات میں بلکہ  بین الاقوامی سطح پر بھی۔ قرآنِ کریم نے تو ایک معصوم انسان کی جان لینے کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا: ایک مرتبہ پھر میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس بات کو بالکل واضح کر دینا چاہتا ہوں کہا کہ  اسلام ہرگز کسی ظلم یا ذیادتی کی اجازت نہیں دیتا خواہ وہ کسی بھی شکل یا طریق سے کی جائے۔ یہ اسلام کا ایسا واضح اور غیر متبدل حکم ہے جس میں کسی صورت میں  بھی فرار کی اجازت نہیں۔ قرآنِ حکیم اس بارہ میں مزید ہدایت فرماتا ہے کہ کوئی مُلک یا قوم جو تُم سے دشمنی رکھتی ہے ،ان کے معاملہ میں بھی تم انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دو۔ان سے ہر معاملہ میں انصاف کرو۔یہ نہ ہو کہ دشمنی  یا بدلہ لینے کے خیال سے تم انصاف سے ہٹو یا بے اعتدالی برتو۔ایک اور خاص ہدایت جو قرآنِ کریم نے فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں کی دولت اور ما ل و منال کی طرف حسد یا لالچ سے مت دیکھو۔

حضورِ انور نے فرمایا : میں نے چند ایک اُصول آپ کی خدمت میں پیش کئے ہیں مگر یہ ایسی اہمیت کے حامل ہیں جن سے معاشرہ میں  امن اور انصاف کے قیام کی بنیاد بنتی ہے۔میں دعا کرتا ہوں کہ دنیا میں انسان ان بنیادی باتوں پر عمل پیرا ہو جائیںتا کہ انسانیت تباہی کے اس گڑھے میں گرنے سے بچ جائے جس کی طرف بعض ظالم اور جھوٹے عناصر اسے دھکیل رہے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا میں اس بات پر معذرت خواہ ہوں کہ میں نے وقت زیادہ لے لیا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں امن کا قیام ایک بہت وسیع  اہمیت کا حامل مضمون ہے۔وقت کی پکار کو سننے کی ضرورت ہے اور یہ بات نہایت اہم ہے کہ ان باتوں پر بھر پور توجہ مرکوز کی جائے ورنہ  سب کچھ ہاتھ سے نکلنے کا اندیشہ ہے۔

اسکے بعد حضورِ انور نے فرمایا: اس سے پہلے کہ میں اپنی تقریر ختم کروں میں ایک نہایت اہم بات کرنا چاہونگا۔ جیسا کہ سب کو علم ہے ہم اس سال ملکہ الز بتھ دوم کی ڈائمنڈ جو بلی منا رہے ہیں۔ اگر ہم وقت کو پیچھے گھوم کر دیکھیں تو ایک سو پند رہ سال پہلے  ملکہ وکٹوریہ نے 1897 میں اپنی ڈائمنڈ جو بلی منائی تھی۔اُسوقت بانئی جماعت احمدیہ نے ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں پیغامِ مبارکباد بھیجا تھا۔اس پیغام میں آپ نے ملکہ عالیہ کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ فرمایا تھا اور ساتھ ہی حکومت ِ بر طانیہ کو اور ملکہ عالیہ کو لمبی زند گی کی دعا دی تھی۔ اپنے  پیغام میں حضرت مسیحِ موعود  ؑ نے  فرمایا تھا  کہ ملکہ وکٹوریہ کی حکومت کی سب سے  بڑی خوبی یہ ہے کہ  تمام لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہے۔آج کے زمانہ میں برطانوی حکومت بر صغیر پر قائم نہیں ہے مگر مذہبی آزادی برطانوی معاشرہ اور مُلکی قوانین کا گہرا حصہ ہے۔جسکے ذریعہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔اس آزادی کی ایک خوبصورت مثال اسوقت ہمارے سامنے ہے کہ ہم سب یہاں نہایت آزادی کے ساتھ جمع ہو کر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیںجبکہ ہمارا تعلق مختلف مذاہب، مختلف عقائد،  اور مختلف نظریات سے ہے۔ہمارے یہاں جمع ہونے کا واحد مقصد اور شوق یہ ہے کہ دنیا میں ہم قیمِ امن کی راہیں تلاش کریں۔

حضورِ انور نے فرمایا: جن الفاظ میں سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے  اُسوقت کی ملکہ کو  مبارکباد  اور دعائیں بھیجی تھیں اُ ن ہی الفاظ میں   مَیں  آج کی اس تقریب کے ذریعہ  ملکہ الزبتھ  کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔اورحضرت مسیح موعودکے الفاظ میں دعا دیتا ہوں:

 ’’ہماری محسنہ قیصرہ مبارکہ کو ہماری طرف سے خوشی اور شکر سے بھری ہوئی مبارکباد پہنچے۔ خُدا ملکہ معظمہ کو ہمیشہ خوشی سے رکھے۔‘‘

(ستارہ قیصریہ: روحانی خزائن: جلد:  12صفحہ:  254 مطبوعہ : قادیان)

حضرت مسیحِ موعود ؑ  نے آخر میں ملکہ وکٹوریہ کو  مزید دعائوں کا تحفہ پیش کیا ، سو حضورِ انور نے فر مایا : مَیں بھی ملکہ الزبتھ کو ان ہی الفاظ میں دعا دیتا ہوں:

 ’’ قادر و کریم اپنے فضل و کرم سے ہماری ملکہ معظمہ کو خوش رکھ جیسا کہ ہم اس کے سا یہء عاطفت کے نیچے خوش ہیں۔اور اس سے نیکی کر جیسا کہ ہم اس کی نیکیوں اور احسانوں کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘

( ستارہ قیصریہ: روحانی خزائن: جلد: 12 صفحہ:  284مطبوعہ: قادیان)

حضورِ انور نے فرمایا:  یہ ہی جذبات سب احمدیوں کے ہیں جو برطانوی شہری ہیں۔

آخر میں حضورِ انور نے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: میں تہہِ دِل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے آج یہاں تشریف لا کر اپنی محبت، خلوص اور بھائی چارہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔

اس کے بعد حضورِ انور نے دعا کروائی جس کے ساتھ اس تقریب کا اختتام ہوا  ۔ الحمد للہ

اپنا تبصرہ بھیجیں