خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ جلسہ سالانہ یوکے 7؍ ستمبر2012ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی جماعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ’’یہ قوم جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے، وہ قوم ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر بڑے بڑے فضل کرے گا‘‘۔

(ملفوظات جلد 4صفحہ 145ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا: ’’ ہماری جماعت میں بھی ہزارہا ایسے آدمی ہیں جن کو الہام اور رؤیا کے ذریعہ سے یہ اطلاع ملی ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانِ مبارک سے تصدیق کی ہے کہ یہ سلسلہ منجانب اللہ ہے اور یہی ذریعہ اُن کی بیعت کا ہوا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد4صفحہ 233ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               اِس وقت مَیں اُن چند لوگوں کا ذکر کروں گا یا اُن کے واقعات بیان کروں گا جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا یا اُس قوم میں شامل کیا جس کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور اُن پر اُس کے فضل ہوئے اور اُن پر بھی ہوتے رہیں گے جو اس قوم کا حصہ بنتے رہیں گے۔ یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں اس قوم کا حصہ بنے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، اُن لوگوں کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ انہوں نے امام الزمان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے صحابہ سے ملنے کا درجہ پایا۔ اُن لوگوں کی بیعت سے پہلے کی زندگیاں بھی ایسی تھیںکہ جب اُن کے واقعات پڑھو تو لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کی خوبیوں کی وجہ سے ہی جو اُن میں پہلے سے موجود تھیں، پکڑ کر اپنے مامور کے قدموں میں لا ڈالا۔ جیسا کہ میں نے کہا، اس وقت میں اُن لوگوں کے چند واقعات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، جو یقینا حضرت مسیح موعود    علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا بھی ایک ثبوت ہے اور ہمارے لئے ازدیادِ ایمان کا باعث بھی ہے۔

               پہلی روایت جو مَیں نے لی ہے یہ حضرت میاں عبدالرزاق صاحبؓ کی ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ 1900ء میں (سن انیس سو میں)مَیں کچھ بیمار ہو گیا تھا۔ آٹھ دن کے بعد میں چلنے پھرنے لگ گیا۔ اُن دنوں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میری چارپائی پر بیٹھے ہیں اور ساتھ ہی کوئی تحریر کرتے ہیں کہ یہ حضرت مرزا صاحب ہیں۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں تجارتی کاروبار کے لئے دہلی چلا گیا۔ اُن دنوں میں بارش بہت ہوتی تھی۔ مجھ کو کبھی کبھی بخار بھی ہو جاتا تھا۔ واپسی پر کہتے ہیں کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میں قادیان جا کر حضرت خلیفہ نورالدین صاحب کے آگے اپنی بیماری کی حالت بتا کر علاج کا بندوبست کروں۔ پھر مَیں قادیان سیدھا آ گیا اور صبح سے لے کر بارہ بجے تک مولوی صاحب بیماروں کو دیکھتے رہے۔ جب میری باری آئی تو خود ہی میرے دل میں خیال آیاکہ مجھے بیماری تو کوئی ایسی ہے نہیں اس لئے اپنی بیماری کا ذکر نہیں کیا۔ اتنے میں مسجد مبارک میں اذان ہوئی۔ مَیں نماز پڑھنے چلا گیا۔ اندر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے۔ جب مَیں نے حضرت صاحب کو نماز پڑھتے دیکھا تو مَیں نے سوچاکہ یہ چہرہ جھوٹ بولنے والا نہیںہے۔ اس سے پہلے مَیں لوگوں کی بحثیں سنتا تھا۔ اُس وقت یہ خیال آیا کہ لوگ جھوٹ بہتان لگاتے ہیں۔ اُسی وقت فوراً دل نے گواہی دی کہ اس وقت بیعت کر لو۔ اگر کوئی بات قرآن و حدیث کے خلاف ہوئی، پھر بھی پتہ لگ جائے گا۔ اُسی وقت حضرت صاحب نماز کے بعد اندر تشریف لے گئے تو میں مولوی عبدالکریم صاحب کے پاس جا بیٹھا۔ مَیں مولوی عبدالکریم صاحب کو جانتا تھا مگر مجھے وہ نہ پہچان سکے۔ جب مَیں نے سیالکوٹ کا ذکر کیا اور اپنے والد صاحب کا نام لیا تو خوشی سے فرمانے لگے کہ آپ تو میرے دوست کے لڑکے ہیں۔ پھر مَیں نے عرض کیا کہ میری بیعت کروا دی جائے۔ انہوںنے کہا کچھ دن یہاں رہو۔ سوچ سمجھ کر بیعت کرو۔ مَیں نے اصرار کیا بہت دنوں سے گھر سے آیا ہوا ہوں، میری آج بیعت کروا دیں تو چلا جاؤں۔ انہوں نے کہا کہ شام کے وقت آپ کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کر دیں گے۔ شام کے وقت نماز کے بعد حضرت صاحب شاہ نشین پر بیٹھ گئے اور مولوی عبدالکریم صاحب بھی ساتھ بیٹھ گئے اور مَیں حضرت صاحب کے پاؤں دبانے لگ گیا۔ جناب مولوی صاحب نے میرے لئے عرض کی کہ یہ ہمارے ہمسائے اور میرے دوست کے لڑکے ہیں، ان کی بیعت ہو جانی چاہئے۔ حضرت صاحب نے فرمایا یہ کب آئے ہیں۔ مولوی صاحب نے عرض کیاکہ آج آئے ہیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کچھ دن ٹھہریں پھر بیعت ہو گی۔ مولوی صاحب نے کہا میں نے آگے (پہلے) اس کو کہا تھا مگر وہ کاروبار کی وجہ سے جلدی جانا چاہتا ہے۔ حضرت صاحب نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا یہاں کچھ دن ٹھہرو۔ میں نے کہا کل کا دن انشاء اللہ ٹھہر جاؤں گا۔( چنانچہ اگلے دن ان کی بیعت ہوئی۔ )

(ماخوذاز رجسٹر روایات صحابہ۔ غیر مطبوعہ جلد 5صفحہ 88۔89،روایت حضرت میاں عبد الرزاق صاحبؓ)

               مولوی مہر الدین صاحب شاگرد حضرت مولوی برہان الدین صاحب ؓ  جہلمی (ان کے بارے میں) بیان کرتے ہیں کہ مَیں ایک روز حسبِ معمول جہلم سبق کے لئے مولوی صاحب کے ہاں حاضر ہوا تو معلوم ہوا کہ آپ ڈپٹی راجہ جہانداد خان صاحب کی کوٹھی پرگئے ہوئے ہیں۔ مَیں اپنا سامان شیخ قمر الدین صاحب کی دوکان پر رکھ کر ڈپٹی صاحب کی کوٹھی پر پہنچا۔ دروازے پر اُن کا نوکر کھڑا تھا۔ میں نے اُس سے کہا کہ اندر جاؤ اور جو لال داڑھی والا انسان( یعنی مولوی برہان الدین صاحب) بیٹھا ہے اُس کو جا کر کہو کہ مہر دین لالہ موسیٰ سے آیا ہے۔ السلام علیکم عرض کرتا ہے۔ جواب میں آپ نے پیغام بھیجا کہ اُس کو اندر آنے دو۔ میں نے وہاں پہنچ کر السلام علیکم کہا۔ پھر راجہ جہانداد نے کہا کہ یہ بھی احمدی ہے؟ مَیں نے کہا ہاں۔ انشاء اللہ اپنے اعتقاد کے لحاظ سے مولوی صاحب سے آگے ہوں۔اس نے کہا کہ بھائی محمدی کیوں نہ رہا؟ مَیں نے کہا کہ اب احمدیت کا وقت ہے۔( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد بھی ہے اور احمد بھی ہے۔ مطلب یہ تھا کہ یہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احمدیت کی شان دکھانے کا زمانہ ہے۔ یہ غیر احمدی تو ہمیںپہلے ہی مرزائی قادیانی کہتے تھے۔اب گزشتہ دنوں ایک رپورٹ آئی کہ مولوی نے بڑے زور سے یہ تقریر کی ہے کہ ان کو کبھی احمدی نہ کہو۔ احمدی ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ مسلمان ہو گئے۔ ان کو قادیانی یا مرزائی کہا کرو۔ تو بہرحال کہتے ہیں مَیں نے اُنہیں کہا اب احمدیت کا وقت ہے۔) مولوی صاحب نے فرمایا کہ کیا گاڑی میں کچھ وقت ہے۔ میں نے عرض کیا کہ پندرہ منٹ ہیں۔ راجہ صاحب نے کہا کہ آج تم نہ جاؤ۔ یہاں ہی رہ جاؤ۔ میں نے کہا کہ وجود وقف کر دیا ہوا ہے اس لئے مَیں رہ نہیں سکتا۔ اس جگہ پر ایک سید صاحب بھی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق مولوی صاحب سے مناظرہ کر رہے تھے اور راجہ پیندے خان صاحب دارا پوری بھی وہاں موجود تھے۔ سید صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب! آپ مرزا صاحب کے فریب میں آگئے۔ کیونکہ آپ کو مرزا صاحب نے کہا کہ مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ یہ بات نہیں بلکہ جب مرزا صاحب نے براہینِ احمدیہ کتاب لکھی۔ مَیں نے اس کتاب کو پڑھا تو مَیں نے خیال کیا کہ یہ شخص آئندہ کچھ ہونے والا ہے۔ اس لئے میں اس کو دیکھ آؤں۔ مَیں اُن کو دیکھنے کے لئے قادیان پہنچا تو مجھے علم ہوا کہ آپ ہوشیار پور تشریف لے گئے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ بار بار آنا مشکل ہے۔ اس لئے ہوشیار پور جا کر دیکھ آؤں۔ مَیں نے اُن کا پتہ پوچھا تو کسی نے بتلایا کہ جس بیل گاڑی پر گئے ہیں اُس کے بیل سفید ہوں گے، واپس آ رہی ہو گی، اُن سے راستہ پوچھ لینا کہ کہاں ہیں۔ کہتے ہیںدریا کراس (Cross)کرنا تھا۔ جب ہم دریا میں بیٹھے تو بیل گاڑی کی جو کشتی تھی وہ ہمارے سے کچھ فاصلے پر گزر گئی جس سے مَیں راستہ معلوم نہ کر سکا۔ خیر جب مَیں ہوشیار پور پہنچا تو مرزا اسماعیل بیگ حضور کے ہمراہ بطور خادم تھے۔ حضور کو انگریزی میں الہام ہوا تھا جس کا ترجمہ کروانے کے لئے وہ جا رہے تھے کہ مجھے ملے۔مَیں نے اُن سے پوچھا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ شہر میں تلاش کر لیں۔ کہتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ حضرت صاحب نے (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے) منع کیا تھا یا کوئی اور بات تھی کہ مجھے انہوں نے پتہ نہیں بتایا۔ آخر مَیں پوچھ کر آپ کے مکان پر پہنچا اور دستک دی۔ خادم آیا اور پوچھا کون ہے۔مَیں نے کہا برہان الدین جہلم سے حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لئے آیا ہے۔ اُس نے کہا کہ ٹھہر جاؤ میں اجازت لے لوں۔ جب وہ پوچھنے گیا تو مجھے اُسی وقت فارسی میں الہام ہوا کہ جہاں تم نے پہنچنا تھا پہنچ گیا ہے اب یہاں سے نہیں ہٹنا۔ خادم کو حضرت صاحب نے فرمایا کہ ابھی مجھے فرصت نہیں۔ اُن کو کہہ دیں پھر آئیں۔ خادم نے جب مجھے یہ بتلایا تو مَیں نے کہا کہ میرے گھر دور ہیں مَیں یہاں ہی بیٹھتا ہوں۔ جب فرصت ملے گی تب ہی سہی۔ جب خادم یہ کہنے کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت صاحب کو بھی عربی میں الہام ہوا کہ مہمان آوے تو مہمان نوازی کرنی چاہئے۔ جس پر حضرت صاحب نے خادم کو حکم دیا کہ جاؤ اور جلدی سے دروازہ کھول دو۔ میں جب حاضر ہوا تو حضور بہت خندہ پیشانی سے مجھے ملے اور فرمایا کہ ابھی مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ مجھے فارسی میں یہ الہام ہوا کہ اس جگہ سے جانا نہیں۔ مَیں چند دن حضرت صاحب کے پاس رہا اور حضرت صاحب کے حالات دیکھے کہ تین تین وقت تک آپ نے کھانا نہیں کھایا اور نماز کے وقت جلد ی سے باہر تشریف لاتے اور فرماتے کہ تھوڑا پانی لاؤ میں نے وضو کرنا ہے۔ نماز ہمارے ساتھ ادا کر کے پھر اندر تشریف لے جاتے۔ وہاں مرزا اعظم بیگ ہوشیار پوری مہتمم بندوبست تھا۔ وہ میرا واقف تھا۔ میں اُن سے ملنے کے لئے گیا۔ اُس نے پوچھا کہ مولوی جی آپ کیسے آئے تو میں نے کہا حضرت مرزا صاحب کو دیکھنے کے لئے آیا ہوں۔ اُس نے پوچھا کونسے مرزا صاحب؟ میں نے کہا مرزا غلام احمد قادیانی۔ اُس نے کہا کہ آدمی تو بہت اچھا تھا لیکن خراب ہو گیا ہے۔ میں نے کہا کس طرح؟ اُس نے کہا کہ بچپن کی حالت میں ہی لڑکوں سے کھیلا نہیں کرتا تھا۔ اس کا والد اُس پر ناراض ہی رہتا تھا کہ تم باہر ہی نہیں نکلتے۔ میں نے کہا الحمد للہ۔ اُس نے کہا کہ الحمد للہ کا کونسا موقع ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت کیا ہے؟ مَیں نے کہا جس زمانے کا میں واقف نہیں تھا اُس کے متعلق تم نے شہادت دے دی کہ آپ بچپن میں ہی نیک تھے اور موجودہ حالت میں نے خود دیکھ لی ہے۔ اُس نے کہا کہ موجودہ حالت آپ نے کیا دیکھی ہے؟ مَیں نے کہا کہ تین تین وقت کھانا نہیں کھاتے اور نماز باقاعدہ ہمارے ساتھ پڑھتے ہیں اور باقی وقت تنہائی میں رہتے ہیں۔ عصر کے وقت کوٹھے پر اس تیزی سے ٹہلتے ہیں جیسے کوئی پچاس میل کا سفر کرنا ہے۔ میرا قیافہ یہ بات کہتا ہے کہ یہ دور پہنچنے والا آدمی ہے۔ اُس نے کہا کہ خراب اس لئے ہو گیا ہے کہ کہتا ہے کہ نجات میرے قدموں میں ہے۔ میں نے کہا کس جگہ کہا ہے؟ اُس نے کہا کہ اشتہار دیا ہوا ہے۔ میں نے کہا وہ اشتہار لاویں۔ دوسرے دن وہ اشتہار لے آئے جس کو مَیں نے پڑھا۔ اشتہار وہ تھا جو براہینِ احمدیہ کے متعلق حضرت نے دیا تھا۔یعنی یہ اشتہار تھا کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے رسول ہیں۔ مَیں اُس کی صداقت پر تین صد دلیلیں دیتا ہوں۔ جو شخص میرے دلائل کے رُبع کو توڑ دے، چوتھا حصہ بھی توڑ دے تو میں اُس کو دس ہزار کی جائیداد پر قبضہ دے دوں گا۔ مَیں نے کہا آپ کو یہ دھوکہ لگ گیا ہے۔ جب وہ جائیداد پر قبضہ دینے کو تیار ہے تو فنا فی الرسول ہو چکا ہے اور اُس کے قدم اپنے نہ رہے بلکہ رسول کے قدم ہو گئے۔ اُس نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی اُس کی امّت میں ہو گئے ہو۔ میں نے کہا کہ میں تو تیار ہوں لیکن ابھی وہ بناتے نہیں۔ کیونکہ بیعت ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 222تا225۔ روایات مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بیان کردہ مولوی مہرالدین صاحب شاگرد)

                لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ زبردستی یا بیوقوف لوگ بیعت کر لیتے تھے۔حالانکہ بڑے بڑے علماء تھے جو بیعت کرنے والے تھے اور اُن کی بیعت کی جو حالت ہے وہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آجکل کے علماء تو ان کے پاسنگ بھی نہیں ہیں۔

               پھر حضرت بہاول شاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں بٹالہ سے چلا اور لوگوں سے مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت حالات دریافت کرنے شروع کئے تو جو بھی ملتا وہ یہی کہتا کہ وہاں مت جاؤ۔ وہ ایسے ہیں، ویسے ہیں۔ تم بھی برے یعنی کافر ہو جاؤ گے۔ مگر مَیں اُن کو کہتا کہ اب تو مَیں آ گیا ہوں۔ جو بھی خدا کرے۔ اگر سچ ہوا تو پھر مَیں خدا کے فضل سے مولویوں سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ آخر میں 11؍ ستمبر 1898ء کو دارالامان پہنچا۔ تھوڑا سا دن باقی تھا۔ حضور مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک کے اوپر تشریف فرما تھے۔ حضرت خلیفہ اول ،مولوی عبدالکریم صاحب، مفتی محمد صادق صاحب اور بھی چند اصحاب حاضر خدمت تھے۔ ایک مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم لدھیانوی سیڑھیوں کے قریب مسجد مبارک کے اوپر کھڑے تھے۔ یہ مولوی عبدالحق صاحب کے صَرف و نحو کے استاد تھے اور مجھ سے بھی واقف تھے۔ وہ بڑی خوشی سے اور تپاک سے مجھ سے ملے اور مجھے اُنہیں دیکھ کر بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ تم بیعت کرنے کے لئے آئے ہو؟ میں نے کہا دعا کروانے کے لئے آیا ہوں۔ پھر فرمایا کہ تم مولویوں سے ڈرتے ہو؟ میں نے کہا نہیں مولویوں سے تو نہیں ڈرتا۔ حضور کی سچائی تو مجھے حضور کے چہرہ مبارک کو دیکھنے سے ہی ظاہر ہو گئی کہ’’ یہ منہ جھوٹے والا نہیں‘‘۔ یہ منہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہے۔ اتنے میں سورج غروب ہونے کے قریب چلا گیا۔ ایک اور شخص کئی روز سے حضور کی خدمت میں بیعت کے لئے آیا ہوا تھا، اُس نے عرض کیا کہ حضور میری بیعت لے لیں۔ میں نے گھر کو واپس جانا ہے۔ حضور نے جواب فرمایا کہ اور ٹھہرو، خوب تسلی کرنی چاہئے۔ پھر اور باتوں میں مشغول ہو گئے۔ مولوی عبدالقادر صاحب نے میری نسبت حضور کی خدمت میں خود ہی عرض کیا کہ یہ شخص بیعت کرنا چاہتا ہے۔ حضور اُسی وقت جو کسی قدر اونچے بیٹھے تھے، نیچے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آؤ جس نے بیعت کرنی ہے۔ وہ شخص تو پہلے ہی پاس بیٹھا ہوا تھا۔ میں سیڑھیوں پر سے کھڑا حضور کی طرف چلا۔ دو تین ہاتھ کے فاصلے پر رہا تو میرے دل پر ایسی کشش ہوئی جیسے کوئی رسّہ ڈال کے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ میری چیخیں نکل گئیں اور بے اختیار ہو کر حضور کے پاس بیٹھا اور خوشی سے حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے اور ہم دونوں شخصوں نے بیعت کی اور بعد میں حضور سے مقدمے کے بارے میں دعا کے لئے عرض کیا۔ (ان کاکوئی مقدمہ بھی تھا ) حضور نے دعا کی۔ اس کے بعد میں دس روز تک حضور علیہ السلام کی خدمتِ اقدس میں ٹھہرا اور اُس وقت ہم لوگ حضور علیہ السلام کے ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھایا کرتے تھے۔ حضور علیہ السلام کا چہرہ مبارک ایسا روشن تھا کہ سب خَلق سے نیارا ، الگ اور علیحدہ اور ممتاز تھا اور روشنی کی جوت کو مات کرتا تھا۔ حضور سے اور قادیان سے ایسی محبت ہو گئی کہ واپس گھر جانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ قادیان بالکل بہشت کا نمونہ دکھائی دیتا تھا۔ یہاں ہر وقت سوائے خدا کے ذکر کے دنیا کے ذکر و فکر کی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی۔ ہر طرف سے سَلَاماً سَلَاماً  کی آواز آتی تھی۔ میرے سارے غم و اندوہ دور ہو گئے۔ اُس وقت حضور علیہ السلام پر قتل کا جھوٹا مقدمہ جو پادریوں کی سازش سے ایک لڑکے ذریعے چل رہا تھا یا چل چکا تھا۔ میں بھی اُس وقت لڑکا تھا۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب اور ایک اور صاحب نے ازروئے مصلحت مجھے فرمایا کہ آپ نے حضرت صاحب کی بیعت اور زیارت کر لی ہے۔ اب آپ گھر کو جائیے۔ پھر کسی وقت آکر زیارت کر لینا۔ اس حکم پر میں دوسرے روز گھر کو واپس ہو گیا۔ بیعت کرنے پر میری حالت بالکل تبدیل ہو گئی۔ خدا کے ساتھ ایسی محبت اور عشق پیدا ہو گیا کہ رات دن سوائے اُس کے ذکر کے سونے کوبھی دل نہ چاہتا تھا۔ اگر سوتا تھا تو دھڑ دھڑا کر، گھبرا کر اُٹھتا تھا جیسے کوئی اپنے پیارے سے علیحدہ ہو گیا ہوتا ہے۔ میرے دل کی عجیب حالت تھی۔ گاہ گاہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی دل کو پکڑ کر دھوتا ہے۔ خشوع و خضوع ہر روز بڑھتا جاتا تھا۔ یہ حضور کی توجہ کا اثر تھا۔ ایک دن خشوع کی حالت میں ایسا معلوم ہوا کہ میرا دل چیرا گیا اور اُس کو اُٹھا کر دھو دیا گیا اور ایک نئی روح اُس میں داخل ہو گئی ہے جسے روح القدس کہتے ہیں۔ میری حالت حاملہ عورت کی طرح ہو گئی۔ مجھے اپنے پیٹ میں بچہ سا معلوم ہوتا تھا۔ میرا وجود ایک لذت سے بھر گیا اور نورانی ہو گیا اور نور سینے میں دوڑتا معلوم ہوتا تھا۔ ذکر کے وقت زبان میں ایسی لذت پیدا ہوتی تھی جو کسی چیز میں وہ لذت نہیں تھی۔ میرے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو بھی نماز میں بہت لذت آتی تھی اور خوش ہو کر کہتے تھے کہ کیسی اچھی نماز پڑھائی ہے۔

               یہ پاک تبدیلیاں تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر اُن لوگوں میں پیدا ہوئیں۔

               جس مقدمے کا انہوں نے پہلے ذکر کیا ہے کہتے ہیں مقدمہ تو خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں سے میرے قادیان دارالامان پہنچتے ہی ختم ہو گیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچانے کے لئے ایک سبب بنایا تھا جس کے ذریعے اپنے ناچیز بندے کو آسمانوں کی سیر کرائی اور اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔ میں مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کو لے کر اکیلا مسجد میں بیٹھتا اور خوب غور سے مطالعہ کرتا۔ حضور مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل کو قرآن شریف کی آیتوں کے مطابق پاتا۔ ایک دن میں ایک مخالف کی کتاب دیکھ رہا تھا اور دل میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ کیسے عالم ہیں جو ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی نیند آ گئی اور سو گیا اور الہام ہوا۔ بَلْ عَجِبُوْا اَنْ جَآئَ ھُمْ مُنْذِرٌ۔ یہ الہام میرے دل پر اس طرح داخل ہوا جیسے کوئی چیز نالی کے راستے داخل ہوتی ہے اور دل پر آتے ہی زبان پر جاری ہو گیا اور اس الہام کے یہ معنی سمجھائے گئے کہ یہ عالم ایک ایسی قوم ہیں جب ان کے پاس ڈرانے والی قوم آئی (یعنی نبی) تو یہ تعجب ہی کرتے رہے ہیں۔ میں اپنے الہاموں اور خوابوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھتا رہتا تھا۔ اب دیر ہونے کے سبب وہ سب یاد نہیں رہے۔ کچھ کا انہوں نے ذکر کیاہے۔ اب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں پر مولوی جو اعتراض کرتے ہیںتواس لئے کہ وہ لوگ صرف اعتراض کی چیزیں تلاش کرنا چاہتے ہیں اور آجکل ٹی وی چینل پر بھی اس کا پروپیگنڈہ ہوتا ہے، غلط رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ جب ہمارے جو لوگ ہیں( ٹیمیں بنائی گئی ہیں) جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن کے ٹیلیفون بند کر دئیے جاتے ہیں اس لئے کہ اُن کے پاس جواب نہیں۔ بہرحال فرماتے ہیں کہ اُن کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ دیکھو مرزا مزار میرا، مل کھلا دربار تیرا۔ اس وقت میں سارے قرآن شریف پر حاوی تھا۔ جب کوئی کسی قسم کا اعتراض مسیح موعود علیہ السلام پر کرتا، اُس کے جواب کے لئے جھٹ قرآنِ شریف کی آیت میرے سامنے آ جاتی اور میں قرآنِ شریف سے اس کا جواب دیتا۔ ایک دفعہ ایک مولوی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت قرآنِ شریف سے دکھاؤ جہاں موت کالفظ آیا ہو۔ میں نے کہا دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَإِنْ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ (النساء:160)۔ یعنی اب کوئی بھی اہل کتاب قرآنِ شریف کے اس فیصلہ کو پڑھ کر کہ عیسیٰ علیہ السلام سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرے بلکہ اپنی طبعی موت سے مرے ہیں۔ طبعی موت پر ایمان لانے سے پہلے اس بات پر ایمان لائیں گے کہ سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرے۔ یہ علمی بحث اُن کی شروع ہو گئی کہ بہٖ کی ضمیر وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ  کی طرف ہے اور مَوْتِہٖ سے عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت مراد ہے جس کی عیسیٰ علیہ السلام قیامت کو گواہی دیں گے کہ میں سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرا بلکہ قرآنِ شریف کے فیصلہ کے مطابق طبعی موت سے مرا ہوں۔ وہ مولوی اس بات کو سن کر جھٹ بھاگ گیا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیر مطبوعہ جلد 4۔ صفحہ 108تا112)

حضرت جان محمد صاحبؓ ولد عبدالغفار صاحب ڈسکوی فرماتے ہیں کہ ڈسکہ پہنچ کر ضمیر نے ملامت کی کہ زندگی کا کیا اعتبار ہے۔ پھر دل میں آیا کہ استخارہ کر لینا چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا فرمان مبارک ہے کہ ہر ایک کام میں استخارہ کر لینا چاہئے۔ سجدہ میں رب العالمین کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں کرنی شروع کیں۔ الٰہی تو ہادی ہے۔ اگر یہ سلسلہ تیری ہی طرف سے ہے تو مجھے ہدایت دے اور میری رہنمائی کر۔ چند روز کے بعد میرے مرشد حضرت پیر حسنین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ المہاروی نقشبندی مجددی، آپ کا وصال ہو چکا ہوا تھا، خواب میں نہایت محبت سے جیسا کہ اپنی زندگی میں پیش آیا کرتے تھے ملے۔ اور فرمایا کہ آج اُن کا راج ہے فوراً بیعت کر لے۔ پھر چند روز کے بعد ایک نورانی بزرگ بمعہ حضرت شاہ صاحب ایک جگہ تشریف فرما دیکھے۔ حضرت شاہ صاحب مؤدب دو زانو ان نورانی بزرگ کی خدمت میں بیٹھے تھے ۔ اُن بزرگ نے حضرت شاہ صاحب کو میری طرف اشارہ کر کے فرمایا آپ نے اس شخص کو بیعت کے لئے نہیں کہا۔ شاہ صاحب نے جواباً عرض کیا کہ میں نے ان کو تاکیداً کہہ دیا ہے مگر معلوم نہیں کہ یہ کیا سوچ رہا ہے۔ پھر نورانی بزرگ نے فرمایا کہ ان کو کہہ دیں کہ جلدی بیعت کر لے ورنہ پچھتائے گا۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ پھر چند روز کے بعد تیسرے بزرگ جن کے نورانی چہرے کی میں تاب نہ لا سکا، بمعہ پہلے دو بزرگوں کے رؤیاء میں دیکھے۔ اور پہلے دونوں بزرگ تیسرے بزرگ کے حضور مؤدّب بیٹھے تھے۔ یہ تیسرے بزرگ دوسرے سے مخاطب ہوئے اور فرمایا۔ آپ نے شاہ صاحب سے نہیں کہا کہ اس شخص کو بیعت کرنے کی تاکید کریں۔ دوسرے بزرگ نے عرض کیا کہ شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ میں نے کہہ دیا ہے مگر خبر نہیں یہ کس سوچ میں ہے۔ اس کے بعد تیسرے بزرگ نے نہایت رعب دار آواز میں فرمایا۔ جلدی بیعت کر لے ورنہ پچھتائے گا۔ آپ نے ایسے زور سے فرمایا کہ میں کانپ کر اُٹھ بیٹھا۔ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ آپ کیوں کانپ اُٹھے ہیں؟ میں نے حقیقت اُس سے بیان کی تو میری بیوی نے کہا جب آپ کو بار بار بیعت کی تاکید ہوتی ہے تو پھر آپ کیوں بیعت نہیں کر لیتے؟ یہ فروری 1901ء تھا اور وہ مردم شماری کے دن تھے، میں نے پٹواری کو مذہب کے فرقے کے خانے میں احمدی لکھوا دیا کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان کردیا ہوا تھا جو میں نے اخبار الحکم میں پڑھا تھا کہ اس مردم شماری میں جو احمدی ہیں یا احمدیت کے قریب ہیں وہ مذہب کے فرقے کے خانے میں احمدی درج کرائیں تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں میں وہ بھی آ جائیں۔ میں نے اپنے بیوی بچوں کے نام بھی احمدی لکھوا دئیے۔ کہتے ہیں کہ 25؍ اپریل 1901ء میں مَیں دس روز کی رخصت لے کر قادیان دارالامان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جَرِیُ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُن دنوں حضور پُر نور کی صحت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت اچھی تھی۔ جناب مسجد مبارک کی چھت پر حلقہ خدام میں نماز مغرب کے بعد عشاء کی نماز تک شاہ نشین پر آرام فرماتے اور کلماتِ طیبات سنایا کرتے تھے۔ گویا عجیب نورانی وقت گزرتا تھا۔ جب حضور انور نماز مغرب کے بعد شاہ نشین پر رونق افروز ہوئے تو اس احقر العباد نے مؤدبانہ کھڑے ہو کر بیعت کی درخواست کی۔ حضرت اقدس دُرّ افشاں نے فرمایا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ اس عاجز نے عرض کیا کہ حضور! میں اینگلو ورنیکلر مڈل سکول ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں اوّل مدرس فارسی ہوں۔ حضور نے فرمایا پھر آپ رخصت لے کر آئے ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ کل سے دس روز کی رخصت ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ بہت دن ہیں، آپ یہیں ٹھہریں، میں بیٹھ گیا اور میرا ایمان بڑھ گیا اور دل نے گواہی دی کہ حضور صادق ہیں اور صحبت سے فیضیاب ہونے کا سبق سکھاتے ہیں۔ پانچ روز گزرنے کے بعد پھر میں نے بیعت کی درخواست کی۔ حضور اقدس نے فرمایا آپ کی رخصت میں کتنے دن باقی ہیں۔ میں نے عرض کیا پانچ دن۔ حضرت نے فرمایا بہت دن ہیں اور ٹھہریں۔ حضور نے ان دنوں ایسے ایسے کلمات طیبات ارشاد فرمائے جن باتوں کی نسبت میںپوچھنا چاہتا تھا وہ اکثر ان دنوں حل ہو گئیں اور مجھے سوال کرنے کی نوبت نہ آئی۔ میں حضور کے بہت نزدیک بیٹھا کرتا تھا، اس خیال سے کہ حضور کے لباسِ مبارک سے برکت حاصل کروں اور جسمِ مبارک کو چھؤا کروں۔ اس لئے جب کبھی موقع ملتا، قدمِ مبارک بھی دبایا کرتا تھا۔ جب رخصت کا ایک دن باقی رہاتو اس پُر تقصیر گناہگار نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ حضور میری رخصت کا ایک دن باقی ہے اور پرسوں میں نے سکول میں حاضر ہونا ہے، میری بیعت منظور فرمائی جائے۔ حضور پُر نور نے فرمایا آ جائیں۔ حضور نے ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیعت لی اور دعا فرمائی۔

(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیر مطبوعہ ، جلد 7صفحہ 37-38)

 حضرت غلام مجتبیٰ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد مولوی محمد بخش صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ مجھے متعدد مرتبہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت خواب میں مختلف پیرائیوں میں ہوئی۔ ایک دفعہ تو میں مدینہ مکرمہ میں پہنچا اور وضو کر کے دو نفل پڑھے اور روضۂ مبارک کے پاس پہنچا تو وہاں نور کے ہلّے جیسے سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے چل رہے تھے۔ میں بھی اُنہی میں داخل ہو کر ویسی ہی ٹھاٹھوں میں شامل ہو گیا۔ اور پھر یہی نظارہ مجھے بیداری میںہوا جبکہ میں مغرب کی نماز کے بعد نفل پڑھ رہا تھا۔ پس مَیں جب 1906ء میں رخصت پر آیا تو میرے دونوں بڑے بھائی غلام حا میم صاحب اور غلام یٰسین صاحب قاری بیعت کر چکے تھے۔ چندروز تو میں نے اُن کے ساتھ نماز نہ پڑھی مگر مجھے انجامِ آتھم پڑھنے کے لئے دیا گیا ۔( یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب ہے) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو چیلنج مباہلہ دیا تھا،جب پڑھا تو بے اختیار ہو گیا اور میں نے قاری غلام یٰسین صاحب سے درخواست کی کہ چلو اس بزرگ کو دیکھیں۔ ہم غالباً تینوں بھائی قادیان پہنچے تو لوگ بھی مسجد مبارک میں ہی جو کہ اس وقت بہت ہی چھوٹی سی تھی، بیٹھے تھے۔ہم بھی بیٹھ گئے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو لوگ کھڑے ہو گئے۔ اس واسطے اُس وقت تو چہرہ مبارک نظر نہ آیا۔ لیکن جب حضرت اقدس اندر کی کوٹھی میں بمعیت حضرت خلیفہ اول بیٹھ گئے تو اُس وقت اُس کوٹھڑی کا وہی نظارہ دکھایا گیا جیسا کہ میں نے خواب میں مدینہ منورہ پہنچ کر دیکھا تھا۔ اُس وقت میرا دل یقین سے پُر ہو گیا اور پھر بڑھ کر حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی اور حضور نے چین کی بابت چند استفسار فرمائے۔( یہ چونکہ ہانگ کانگ بھی رہے تھے، وہاںگئے تھے ) اس وقت رقّت سے جب وہ وقت یاد آتا ہے تو میرے آنسو نہیں تھمتے۔ رخصت مانگنے کے وقت حضور مسجد مبارک میں تشریف لائے اور دعا کے بعد ہمیں رخصت کیا۔

(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ، غیر مطبوعہ ، جلد 7صفحہ 117)

حضرت محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد فخر الدین صاحب فرماتے ہیں کہ میں 1893ء میں پہلی دفعہ دارالامان میں آیا تھا، اُن دنوں میں نے خواب میں دیکھا کہ جانب جنوب مشرق ایک بڑا ہجوم ہے، لوگ حلقہ باندھے کھڑے ہیں، میں تماشا کا خیال کرکے ادھر آ گیا۔ اُس وقت میں اپنے آپ کو ایک چھوٹا سا بچہ خیال کرتا تھا اور بچوں کی طرح ہی میں نے تماشا دیکھنے کی غرض سے اپنا سر لوگوں کی ٹانگوں میں گھسیڑ دیا۔ جب لوگ نیچے دیکھنے لگے تو میں آگے ہو گیا۔ جب اس حلقے کے اندر ہو گیا تو وہاں اس قدر روشنی تھی کہ آنکھیں دیکھنے سے عاجز رہ جاتی تھیں۔ اُس وقت میں نے آنکھیں نیچی کر کے ایک آدمی سے پنجابی میں کہا کہ ’’بھائی ایتھے کی اے‘‘۔ اُس نے جواب دیا کہ ’تینوں نہیں پتہ‘۔ مَیں نے کہا نہیں۔ وہ آدمی بولا مسیح آ گیا ہے ’’اے اوسے دی روشنی اے اور اوسے دا ای رولا اے‘‘ مَیں خواب میں بیدار ہو گیا ۔( یہ سارا نظارہ خواب میں دیکھ رہے تھے) اس کا ذکر میں نے اپنے مولوی صاحب سے کیا وہ سن کر بڑے خوش ہوئے اور فرمایا کہ اب کیا دیر ہے؟ میں نے کہا کہ کوئی دیر نہیں۔ جب میں بیعت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور حاضر ہوا۔ بدقسمتی سے( یعنی میری بدقسمتی سے) ایک شخص بیعت کر رہا تھا۔ جب حضور نے فرمایا کہ کہو، ’دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘ تو میرے دل نے جو میرے حالات سے واقف تھا، مجھے کہا کہ یہاں یہ اقرار کرنا اور گھر جا کر اس کو پورا نہ کرنا درست نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اپنی اصلاح کرتے رہو۔ (اب وہ لوگ بھی جو جھجکتے ہیں، ڈرتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے، اُن کے لئے بھی اس میں سبق ہے) کہتے ہیں جب دین کو دنیا پر مقدم کر سکو گے، تب بیعت کر لینا۔ اسی خیال میں دن گزرتے گئے۔ لوگوں سے تصدیق پر بحث مباحثہ ہوتے رہے۔ لوگ کہتے کہ یہ مرزائی ہے مگر جب یہاں جلسہ پرآتا تو میرا نام ہی کسی شمار میں نہ آتا۔ پھر مجھے تکلیف ہوتی کہ میں دھوبی کے کتیّ کی طرح کسی طرف کا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مرزائی ہے، یہ کہتے ہیں غیر احمدی ہے۔( جب غیر احمدیوں میں جاؤ تو کہتے ہیں کہ مرزائی ہے۔ احمدیوں میں آؤ تو کہتے ہیں غیر احمدی ہے، بیعت نہیں کی۔) آخر ستمبر 1900ء موسمی تعطیلات میںجب آیا تو اُس وقت تک بھی اپنی بیعت کا خیال نہ تھا۔ رخصت کا آخری دن تھا۔ شام کی نماز کے بعد حضور شاہ نشین پر تشریف فرما تھے اور جانبِ جنوب مشرق شاہ نشین پر نصف لیٹا ہوا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ حضرت بیعت کرنے والے آ جائیں؟( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا کہ حضور! بیعت کرنے والے آ جائیں؟ )حضور نے فرمایا آ جائیں۔ بس اس آ جائیں میں ہی میں لپٹا گیا اور سب کے آگے یہاں سے میں ہی تھا جو بیعت کرنے والے تھے۔حضور نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ بس پکڑ لیا۔ میں دوسرے روز سیالکوٹ چلا گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ جس خیال میں سات برس ضائع کئے ہیں وہ خیال ہی غلط تھا۔ اقرار تو آپ لیتے تھے کہ کہو دین کو دنیا پر مقدم کروں گا، مگر اصل بات یہ تھی کہ وہ مقدم آپ کرا لیتے تھے۔ یہ قوتِ قدسی تھی۔

(ماخوذاز رجسٹر روایات صحابہ، غیر مطبوعہ، جلد 7صفحہ 132۔133)

اگر نیت نیک ہو تو پھر اس طرح اللہ تعالیٰ بھی فضل فرما دیتا ہے۔

حکیم عطاء محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد حافظ غلام محمد صاحب فرماتے ہیں کہ میرا وطن لاہور ہے۔ میری عمر قریباً پندرہ سال کی تھی کہ والد صاحب کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ والد مرحوم نے چونکہ صوم و صلوٰۃ کے پابند کیا ہوا تھا مگر اُن کی فوتیدگی کے بعد آہستہ آہستہ اس قدر سستی ہو گئی کہ نماز کا بھی خیال نہ آتا تھا۔ عرصے کے بعد میں اپنے گھر کی سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا کہ مغرب کی نہایت خوش الحان اذان کی آواز میرے کانوں میں پہنچی۔ آواز نہایت دلکش اور سریلی تھی جس کے اثر سے میری حالت بجلی کی طرح بدل گئی اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ سرور سے آنکھوں میں پانی اتر آیا اوردل نے یہ کہنا شروع کیا کہ ایک وقت وہ تھا کہ پنجگانہ نمازوں کو باقاعدہ ادا کیا جاتا تھا۔ اس حالت میں میرے آنسو نکل پڑے اور دل خود بخود دعا کی طرف لگ گیا۔ غرض سیڑھیوں پر ہی خوب رویا۔ اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت مانگی اور اُسی حالت میں بغیر کھانا کھانے کے غم فکر میں سو گیا۔ رات کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کو ہمارے محلے کے نمازی پکڑ کر مسجد کی طرف نماز کے لئے لے جا رہے ہیں اور میں اُن سے بھاگنا چاہتا ہوں۔ راستے میں ایک اونچی جگہ پر نہایت خوش رُو انسان بیٹھا ہوا نظر آیا جس کا چہرہ نہایت نورانی تھا اور نور کی شعاعیں چہرہ اور منہ سے نکل نکل کر لوگوں کے دلوں پر پڑ رہی تھیں اور لوگ اس نور کی کشش کے ساتھ کھینچے ہوئے اُس کے ارد گرد حلقہ باندھے بیٹھے ہیں۔ میں نے اُس نورانی شخص کو دیکھ کر شور مچایا کہ میری مدد کرو۔ انہوں نے فرمایا کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ لوگ مجھے زبردستی نماز کے لئے لے جا رہے ہیں اور میں جانا نہیں چاہتا تو پھر اُس نورانی انسان نے دیکھ کر اشارہ سے فرمایا اسے چھوڑ دو۔ اور مجھ کو اُن لوگوں کے پاس بٹھا دیا جو کہ اُن کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ اور وہ تمام اشخاص جو مجھ کو پکڑ کر لے جا رہے تھے یہ حال دیکھ کر اُن سب کے چہرے دھوئیں کی طرح سیاہ ہو گئے اور پھر بالکل غائب ہو گئے۔ جب میری آنکھ کھلی تو عجیب حالت تھی۔ دل میں اُس شخص کے دیکھنے کی تڑپ اور اُن نورانی شعاعوں کا سرور تمام جسم میں سنسنی، غرض اُس حالت کا نقشہ میری قلم ادا نہیں کر سکتی۔ اُسی حالت میں مَیں نے اُٹھ کر وضو کیا اور 1894ء کے بعد جبکہ میرے والد فوت ہوئے تھے پھر 1901ء میں نماز نہایت خشوع کے ساتھ ادا کی اور اسی سرور کی حالت میں باہر نکلا تو صوفی احمد دین صاحب ڈوری باف نے مجھ کو آواز دی کہ خلیفہ صاحب یہ حرف مجھ کو بتا جاویں۔ کہتے ہیں کہ چونکہ میرے والد صاحب اور دادا صاحب حافظ قرآن تھے اور استاد تھے اس لئے اہل محلہ مجھے بسبب استاد کا بیٹا ہونے کے خلیفہ ہی کہا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے اُن کو حرف بتا دیا اور یاد کروایا۔ صوفی صاحب نے نہایت محبت کے ساتھ فرمایا کہ خلیفہ صاحب کبھی کبھی میرے پاس آ جایا کرو اور مجھ کو قرآن شریف تھوڑا تھوڑا بتلاتے رہا کرو۔ میں نے اُن سے رات کی خواب بیان کی۔ انہوں نے کہا آپ فوراً اسٹیشن بٹالہ سے اتر کر قادیان جائیں اور اُس نورانی شخص کو حالتِ بیداری میں دیکھ لیں۔ اگر واقعی وہی ہوئے تو پھر اُن کی بیعت میں شامل ہو جائیں۔ میں فوراً دوسرے دن پروانہ وار صوفی احمد صاحب سے راستہ کا پتہ دریافت کر کے قادیان پہنچا۔ مسجد اقصیٰ میں مولوی محمد اسماعیل صاحب سرساوی بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے ایک لڑکے کے ساتھ مجھ کو مہمان خانے میں پہنچا دیا۔ وہاں پر حافظ حامد علی صاحب نے ہاتھ منہ دھلا کر کھانا کھلایا۔ اس کے بعد میں مسجد نبوی میں جا کر بیٹھا ( یعنی مسجد مبارک میں جا کے بیٹھا) تو مولوی محمد احسن صاحب سے ملاقات ہوئی۔ا تنے میں حضور کچھ پروف لے کر تشریف لائے۔ میری جونہی آپ پر نظر پڑی تووہ خواب والا نورانی انسان بیداری میں دوبارہ نظر آیا۔ اُسی دن بوقت شام بغیر کسی دلیل اور شک و شبہ کے بیعت کر لی اور میری عمر اُس وقت غالباً بیس اکیس سال کی ہو گی۔ الحمدللہ۔

(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہ ، غیر مطبوعہ، جلد 7صفحہ 174۔175)

حضرت میاں رحیم بخش صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص تاج الدین یہاں رہتا ہے۔ بڑا سخت مخالف ہے۔ اُس کے دو لڑکے احمدی ہیں۔ اُس نے بیعت سے ایک سال پہلے مجھے کہاکہ ملک جاپان مذہب کی تلاش میں ہے۔ صرف ایک شخص مرزا غلام احمد کافی ہے اسلام کی طرف سے۔ اس کے مقابل میں کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ کہنے لگا میں نے اُس کی باتیں سنی ہیں، خواہ اُسے ولی سمجھو یا جادوگر سمجھو لیکن جو شخص اُس کے پاس جاتا ہے اُسی کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ بات سن کر مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں اب اس شخص کو ضرور دیکھوں گا۔ میں اسی شوق میں تھا کہ مجھے ایک شخص محمد ابراہیم احمدی ملا۔ چند باتیں میری اُن سے ہوئیں۔ میں قائل ہو گیا۔ رات کو مجھے خواب آئی کہ ہم چاروں بھائی ایک پہاڑ کی غار میں بھولے ہوئے ہیں، راستہ نہیں ملتا۔ میں ایک طرف سے چڑھ کر اوپر آ گیا ہوں۔ مَیں نے دیکھا کہ ریل چل رہی ہے مگر زمین سے بہت اونچی ہے۔ میں حیران ہوں کہ کیسے چڑھوں؟ اوپر ایک شخص کھڑا ہے وہ کہتا ہے کہ نیچے جو رسّی آسمان سے لٹک رہی ہے اُسے پکڑو، تب اوپر چڑھ سکتے ہو۔ صبح ابراہیم صاحب میرے پاس آئے۔ میں نے خواب سنائی۔ انہوں نے قرآن نکال کر مجھے بتایا کہ  وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہ  کا مفہوم ہے۔ میں نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ (یعنی اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسّی کو پکڑو جو نبی کی بیعت ہے)۔ جواب آیا کہ بیعت منظور ہے مگر قادیان میں ضرور آؤ۔ خیر میں نے حضرت صاحب کو دیکھا۔ حضور مجلس میں آکر بیٹھ گئے۔ میں سامنے کھڑا تھا۔ میری داڑھی، سر اور مونچھیں منڈھی ہوئی تھیں۔ حضرت صاحب سر نیچے کر کے بیٹھے تھے۔ میں نے دل میں کہا کہ جب تک میں اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھوں گا یقین کامل نہیں ہوگا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے چہرہ اُٹھا کر دیکھا۔ میں نے دل میں کہا کہ آپ صادق ہیں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد سر اُٹھا کر دیکھا۔ میں نے کہا:  اٰمَنَّا وَ صَدَقْنَا  آپ صادق ہیں۔ تیسری دفعہ پھر دیکھا۔ میں تو قربان ہی ہو گیا۔ پھر نماز کھڑی ہوئی۔ حضرت صاحب نماز پڑھتے ہی اندر جانے لگے۔ ایک شخص دروازے کے پاس کھڑا ہو گیا، عرض کی کہ حضور! میرے لئے دعا کریں۔ فرمایا آپ تو میری بیعت میں ہیں، مَیں تو دشمنوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں۔ پھر میں واپس گجرات آ گیا۔                                                                  (ماخوذاز رجسٹر روایات صحابہؓ ، غیر مطبوعہ، جلد 10صفحہ 88,85,84,82)

حضرت چوہدری محمد دین صاحب ٹیلر ماسٹر بیان کرتے ہیں کہ میں 1903ء میں راولپنڈی میں تھا کہ سنا کہ حضرت صاحب جہلم مقدمہ کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔ میں جہلم سحری کے وقت سٹیشن پر اترا۔ میرے ساتھ ایک سیالکوٹ کا خوجہ تھا۔ میں نے اُس سے کہا کہ تم کہاں جاتے ہو۔ کہنے لگا کہ مرزا صاحب کو دیکھنے چلا ہوں۔ میں نے کہا کیا دیکھنے جاتا ہے۔ کہنے لگا کہ انہوں نے ہاتھوں میں گتھلیاں ڈالی ہوئی ہیں اور منہ پر کپڑا ڈالے رکھتے ہیں۔ یعنی نعوذ باللہ کچھ نقص ہے اس کی وجہ سے چھپایا ہوا ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر؟ اُس نے پھر یہی بات دہرائی۔ مجھے اُس پر غصہ آیا اور کہا کہ چلو میں تمہیں ابھی دکھاتا ہوں۔ جب ہم کوٹھی کے پاس پہنچے تو وہ کھسک گیا۔ فجر کا وقت تھا۔ کوٹھی کے اندر مولوی محمد احسن صاحب وعظ کر رہے تھے۔ میں نے خیال کیا کہ یہ مرزا صاحب ہیں۔ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں جانتے تھے لیکن یہ یقین تھا کہ وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ مولوی احسن صاحب وعظ کر رہے تھے میں سمجھا کہ یہی مرزا صاحب ہیں (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں)۔ جب انہوں نے وعظ میں حضرت صاحب کا ذکر کیا تو میں سمجھا کہ یہ مرزا صاحب نہیں ہیں۔ اس کے بعد روٹی کا وقت ہوا۔ سیالکوٹ کے ایک منشی عبداللہ تھے وہ بھی روٹی کھا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہا کہ آپ بھی بیٹھ کر روٹی کھالیں۔ میں نے کہا اچھا۔ مگر میں نے کھائی نہیں۔ میں مرزا صاحب کی تلاش میں تھا۔ میں کوٹھی میں گیا تو مرزا صاحب، حضرت مولوی نورالدین صاحب وغیرہ کھانا کھا رہے تھے۔ میرے خیال میں اُس وقت آیا کہ اگر مجھے کوئی کہے کہ اس جگہ کھانا کھا لو تو میں بیٹھ جاؤں۔ میں یہ خیال ہی کر رہا تھا کہ اُسی منشی عبداللہ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ یہاں بیٹھ جاؤ اور کھانا کھا لو۔ میں اُس جگہ بیٹھ گیا۔ حضرت صاحب بھی اُس جگہ کھانا کھا رہے تھے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اگر مرزا صاحب کی پلیٹ سے کوئی لقمہ مل جائے تو بڑا خوش قسمت ہوں گا۔ اُسی وقت مولوی عبدالکریم صاحب نے حضرت صاحب کے آگے سے وہ پلیٹ اُٹھا لی کیونکہ وہ کھانا کھا چکے تھے۔ خود بھی اُس میں سے تبرک کھایا اور وہ پلیٹ گھومتی گھومتی میرے پاس پہنچ گئی۔ چنانچہ مجھے بھی اُس میں سے ایک لقمہ مل گیا۔ اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ جن لوگوں نے بیعت کرنی ہے وہ کر لیں۔ بیشمار لوگ بیعت کے لئے جمع ہو گئے۔ میں بہت دور بیٹھا ہوا تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اگر حضرت صاحب کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی جائے تو وہ ٹھیک ہو گی اور میں ایسا ہی کروں گا۔ جو منتظم تھے وہ کہنے لگے کہ بھائی ذرا آگے آگے ہو جاؤ۔ آگے ہوتے ہوتے میں حضرت صاحب کے نزدیک پہنچ گیا اور جو کچھ میرے دل میں خیال آیا تھا خدا نے پورا کر دیا اور میرا ہاتھ حضرت صاحب کے ہاتھ پر رکھا گیا۔ باقی لوگوں نے میرے ہاتھ پر اور کندھوں پر اور پگڑیوں کے ذریعے بیعت کی۔ پھر حضور کچہری میں تشریف لے گئے۔                                                                           (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ، غیر مطبوعہ جلد 10صفحہ 162تا164)

 تو یہ خواہشیں جو نیک دل سے اُٹھی تھیں کس طرح اللہ تعالیٰ انہیں پوری فرماتا چلا گیا اور اُس کا وہ اعتراض بھی واضح ہو گیا کہ جھوٹ تھا۔

حضرت نور محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ کمترین نے بیعت سال 1905ء میں کی جبکہ میری عمر تیس سال کی تھی۔ میرا ایک چھوٹا بھائی مسمّٰی میاں نور احمد جو مجھ سے چھوٹا تھا وہ ایک پرائیویٹ سکول واقع موضع بستی وریام کملانہ تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ میں مدرس تھا۔ اُس نے 1900ء میں بوساطت مولوی محمد علی صاحب ساکن موضع مذکور بیعت کی تھی جو کہ بہت نیک اور مخلص اور بطور پروانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سچا عاشق تھا۔ جس کے بارے میں ایک پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب حقیقۃ الوحی صفحہ 324، نشان 141 میں درج ہے۔ وہ بھائی مرحوم مجھے تبلیغ کرتا رہا مگر میں نہ مانتا۔ آخر اُس نے مجھے ایک حمائل شریف مترجم ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب دی۔ (قرآن کریم کا ترجمہ جو شاہ رفیع الدین صاحب کا تھا وہ دیا) کہ اس کی تلاوت روز بلا ناغہ کرتے رہو اور خدا سے دعا بہت مانگتے رہو اور ایک طریق استخارہ بتایا کہ چالیس روز استخارہ کرو۔ا ُس کے کہنے پرمیں تلاوت قرآن کریم اور دعا اور استخارہ میں لگ گیا۔ خدا کے فضل و کرم سے قرآنِ شریف سے مجھے امداد ملتی گئی اور استخارہ کے چالیس دن بھی قریب آنے شروع ہو گئے۔ مجھے تو پروانہ وار بیعت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کا از حد شوق ہو گیا۔ میرا بھائی مرحوم گو مجھ سے پچیس میل کے فاصلے پر تھا، میں بوجہ دوری اپنے بھائی میاں نور احمد صاحب مرحوم سے تو نہ مل سکا مگر بوجہ عشق مولوی محمد فاضل صاحب احمدی جو کہ پہلے سے بیعت کر چکے تھے اور جو کہ تین میل کے فاصلے پر تھے کو کہا کہ میری بیعت جلد کرواؤ۔ وہ مجھے لے کر قادیان دارالامان آئے مگر حوصلہ دلاتے دلاتے چار پانچ دن ٹھہرا کے رکھا۔ مگر بے تابی عشق کی وجہ سے خود بیعت کی کوشش کی۔ چار پانچ روز مسجد مبارک میں حضرت اقدس کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتا رہا اور ایک موقع تاڑ لیا۔ حضرت صاحب ہمیشہ پانچ وقت ایک ہی جگہ امام کے دائیں جانب نماز ادا کرتے تھے۔ حضور کی ایک ہی جگہ مقرر تھی۔ چوتھے روز اپنے ساتھی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ظہر کی نماز کی اذان سے پہلے حضرت صاحب کی جائے نماز کے ساتھ جگہ بنا کر بیٹھ گیا۔ بعدہٗ اذان ہوئی۔ نمازی آنے شروع ہو گئے حتی کہ مسجد پُر ہو گئی۔ حضور کی تشریف آوری پر نماز کھڑی ہو گئی۔ میں نے حضور کے دوش بدوش ہو کر نماز ادا کی۔ بعد فراغت نماز سب سے پہلے مصافحہ کیا اور بیعت کی درخواست کی۔ اسی اثناء میں میرے ساتھ حضرت اقدس کا سلسلۂ کلام شروع ہو گیا۔ اُس وقت اخبار البدر ، الحکم جاری تھیں۔ بدر کا نامہ نگار سلسلہ کلام تحریر کرتا گیا اور یہ مکالمہ اخبار البدر میں تین صفحات میں درج ہے۔ تاریخ اشاعت یاد نہیں تاہم 1905ء تھا۔ سن تلاش کی گئی مگر مل نہ سکنے کی وجہ سے مختصر جو مجھے یاد ہے سپردِ قلم ہے۔ کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کیا نام ہے؟ اس کے جواب میں عرض کیا میرا نام نور محمد ہے۔ ذات کے بارے میں عرض کی کہ کھوکھر قوم سے ہوں۔ پھر آپ نے سوال کیا کہ کونسے ضلع سے؟ جس پر گزارش کی کہ حضور ضلع ملتان کا رہنے والا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ کیاکام کرتے ہیں؟ تو عرض کیا کہ حضور! ملتان کی طرف ایک سیّد صاحب ہیں ۔ سید والا کوئی گاؤں ہوگا جو  ملتان کی طرف ہے۔ ان کے ایک موضع میں جائیداد پر منشی و مختار ہوں۔ پھر آپ نے فرمایاکہ سیّد صاحب کیا مذہب رکھتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ وہ شیعہ مذہب سے متعلق ہیں۔ آپ فرمانے لگے کہ آپ کے ساتھ مخالفت تو نہیں کریں گے؟ میں نے جواب دیا کہ حضور! مخالفت میں تو ملازمت لے لیں گے؟ اگر مخالفت کریں گے تو وہ میرے رازق تو نہیں ہیں )۔ میرا رازق خدا ہے۔ حضور نے فرمایا کیا آپ کا علاقہ نہری ہے یا چاہی ہے یا بارانی؟ میں نے عرض کی کہ چاہی اور نہری ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ آپ کے علاقے میں کونسی جنس کی پیدائش ہوتی ہے؟ نہر کونسے دریا سے نکلتی ہے اور کیا نام ہے؟ جواباً عرض کیا کہ حضور ہر جنس کی پیدوار کی جاتی ہے۔ نہر کا نام سدنائی ہے اور دریائے راوی سے نکلتی ہے۔ مختلف معلومات ہوتی رہیں۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ زمین بڑی لائق ہے۔ میں نے حضور کی تصدیق کی۔ اس کے بعد حضور نے میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا اور باقی بیعت کنندگان کو فرمایا کہ پگڑیاں دراز کر لیں۔ جو احباب میرے قریب تھے اُن میں سے کسی نے میرے پشت پر ہاتھ رکھا، کسی نے سر پر اور کسی نے بازوؤں پر۔ جودُور تھے انہوں نے پگڑیاں دراز کر لیں۔ حضرت اقدس آواز سے الفاظِ بیعت پڑھتے گئے اور ہم دہراتے رہے۔                                                    (ماخوذاز رجسٹر روایات صحابہ ، غیر مطبوعہ، جلد 1صفحہ 146۔148)

حضرت میاں عبداللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کو صرف حضرت    مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہی پہچانا ہے۔ میری عمر صرف بارہ تیرہ برس کی تھی کہ مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ خدا اور رسول اور ربّ جو ہر وقت لوگ کہتے رہتے ہیں، کوئی کہتا ہے اللہ چاہے، کوئی کہتا ہے خدا کی مرضی، کوئی کہتا ہے ربّ دے گا۔ وہ کون ہے اور کہاں رہتا ہے، کیا کھاتا ہے؟ اس کا ماں باپ کہاں رہتا ہے؟ اس کی شکل کیسی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بچپن کے سوال اُٹھے تھے۔ اسی عرصے میں کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام سنا کہ آپ بڑے بزرگ صاحبِ علم ہیں۔ تب میں چل کر آپ کی خدمت میں جموں گیا۔(اللہ تعالیٰ کی پہچان کی یہ جو جستجو تھی ، اُس کے جاننے کے لئے بالکل نوجوانی میں چل کے جموں چلے گئے۔) آپ نے دریافت کیا کہ کس طرح آئے ہو؟ میں نے عرض کی کہ زیارت کے لئے۔ دوگھنٹے آپ کی مجلس میں بیٹھ کر اجازت لے کر واپس چلا آیا مگر مجھے معلوم ہوا کہ یہ کوئی نیک شخص ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد مجھے خبر ہوئی کہ قادیان میں ایک مرزا غلام احمد صاحب بڑے صاحب علم ہیں۔ میں نے آپ کی خدمت میں خط لکھا۔ آپ مجھے بتائیں کہ خلف الامام اَلْحَمْد پڑھنا درست ہے؟ رفع یدین کرنی جائز ہے؟آمین بالجہر کہنا درست ہے؟ آپ نے جواب لکھا کہ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُوْلِ (سورۃالنساء:60)۔ جب کوئی جھگڑا کسی بات پر چھڑ جائے تو اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو۔ اَلْحَمْد پڑھنا فرض ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ اَلْحَمْد پڑھنا فرض ہے۔ رفع یدین وغیرہ جھگڑا کے لئے نہ ہو، اخلاص سے کرو۔ (یہ تو فرض ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنی ہے۔ باقی جھگڑے وغیرہ کے لئے نہ ہو۔ ضدّوں میں نہ ہو۔ اگر سمجھتے ہو کہ اخلاص ہے تو اس سے کرو) اُسی دن سے میں نے الحمد شریف امام کے پیچھے پڑھنا شروع کیا اور بے شک و شبہ پڑھتا رہا۔ مگر اس کے سال بعد مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اس کی جگہ بھی مَیں ہی آیا ہوں۔ میں نے یہ سن کر بہت فکر کیا کہ بڑے بڑے علماء اُن کے مرید بھی ہیں اور مخالف بھی ہیں۔ جیسے کہ مولوی نورالدین صاحب شاہی حکیم جموں نے آپ کی بیعت کر لی ہے اور میاں نذیر حسین صاحب دہلوی نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ میں ان علماء کا معتقد تھا اس لئے بہت ہی فکر دامنگیر ہوا اور رات دن میں اسی فکر میں رہتا کہ خداوندا مجھے خود تو کوئی علم نہیں اور علماء کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ کہتا ہے، کس طرح فیصلہ ہو۔ اسی خیال میں ایک دن خواب میں دیکھا راجپوتانہ کی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر چلا جا رہا تھا( واقعہ شاید بیان کر رہے ہیں)۔ کہتے ہیں راجپوتانہ کی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر چلا جا رہا تھا کہ ایک خیال مجھ پر غالب آ گیا اور میں چلتا چلتا ٹھہر گیا تو غیب سے زور کی یہ آواز آئی کہ دعا کرو۔ یہ آواز سن کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی اور تھوڑی دیر تک میں بھاگتا ہی چلا گیا اور مسجد میں جا کر سر سجدہ میں رکھ دیا اور دعا مانگنی شروع کر دی اور ان الفاظ میں دعائیں مانگنی شروع کر دیں کہ الٰہی مجھے تو کوئی علم نہیں، تُو سب کچھ جانتا ہے۔ اگر یہ تیرا سچا مہدی ہے تو مجھے اپنے فضل سے سمجھ عطا فرما تا کہ میں ان کی بیعت کر لوں۔ اگر سچا نہیں تو مجھے ان سے بچا۔ غرض مجھے چار ماہ دعائیں مانگتے مانگتے گزر گئے اور میں نے بڑے دردِ دل اور جوش اور عاجزی سے دعائیں کیں تو ایک دن کا ذکر ہے کہ میں حافظ محمد صاحب لکھو کے کی تصنیف ’احوال الآخرت‘ میں علاماتِ مہدی پڑھ رہا تھا۔ جب میں نے یہ شعر پڑھا کہ تیرھویں چن ستیویں سورج گرہن ہوسی اوس سالے

 ( یہ پنجابی کا ہے) کہ جو حدیث ہے اس کے مطابق تیرہ تاریخ کواس سال چاند کو اور ستائیسویں تاریخ کو سورج کو گرہن ہو گا ۔تو مجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح بتایا جس طرح کوئی استاد شاگرد کو بتاتا ہے۔ فرمایا مرزا غلام احمد ہی مہدی ہے اور مجھے حضرت مرزا غلام احمد کا نام کہ اس وقت یہ سچا مہدی ہے مفصل طور پر بتایا گیا، کوئی شک و شبہ نہ رہا۔

(ماخوذاز رجسٹر روایات صحابہؓ، غیر مطبوعہ، جلد 2صفحہ 137۔140 )

 بہر حال یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے خوابوں اور الہاموں کے ذریعے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے کے بارے میں بتایا۔ ان کی نیک فطرت کی وجہ سے ان کو بار بار خوابوں اور رؤیا اور الہامات کے ذریعہ سے بیعت کرنے کی تلقین کی جس کے ذریعہ سے انہوں نے صداقت کو پایا۔

اللہ تعالیٰ ان صحابہ کی اولادوں کو بھی اپنے باپ دادوں کی قربانیوں اور نیکیوں کو جاری رکھنے اور اُن کی لاج رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں سے ہر ایک کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اخلاص و وفا کے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنے بیعت کے حق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارا اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا ہو۔ جو روحانی انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لانا چاہتے تھے، ہم میںبھی وہ انقلاب آئے اور حقیقت میںہم ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ ایسے افراد مَیں اپنی جماعت میں چاہتا ہوں۔ اب اس زمانے میں ہم میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واسطے سے ہی عشقِ رسول اور اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس میں بھی ہم بڑھتے چلے جائیں۔

اب دعا کر لیں اور سب سے بڑی دعا یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ جلد دنیا کو اس عاشقِ رسول اور غلامِ صادق کی بیعت میں آنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ جو خاص طور پر مسلم اُمّہ مخالفت کر کے اپنی دنیا و عاقبت بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ عقل دے۔ دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں