خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ کینیڈا7جولائی 2012ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اپنی بات شروع کرنے سے پہلے مَیں یہ توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ یہاں اس وقت تو اللہ کے فضل سے آپ خاموشی سے بیٹھی ہوئی ہیں، لیکن کل جمعہ کی جو مجھے اطلاع تھی وہ یہی تھی کہ اتنی زیادہ خاموشی نہیں تھی۔ شاید آواز بھی ٹھیک نہیں تھی۔ اور خاص طور پر جو بچوں کا ماحول ہے اُس میں جس طرح مَیں نے پہلے ہی ڈیوٹی والی کارکنات کو کہہ دیا تھا کہ بچوں سے زیادہ ماؤں کو چُپ کرانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ مَیں نے سنا ہے کل بھی ماؤں کا شور تھا اور بڑی Relax ہو کر بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ حالانکہ خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے۔ تو آج اس وقت بھی بچوں کی مارکی میں، بچوں کے ہال میں جو مائیں ہیں وہ خاموشی سے سنیں، چاہے آواز آ رہی ہو یا نہ آ رہی ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شرائط بیعت کی چھٹی شرط میں جن امور کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے اُن میں سے ایک قسم وہ ہے جس سے ایک مومن کا بچنا ضروری ہے یعنی رسومات اور ہوا وہوس سے بچنا اور ایک مومن کو بہر حال اُن سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور دوسری قسم وہ ہے جس کو اپنائے بغیر ،اپنی زندگی کا حصہ بنائے بغیر کوئی عورت یا مرد حقیقی مومن نہیں کہلا سکتا، حقیقی احمدی نہیں کہلا سکتا ۔اور وہ قرآنِ کریم کی حکومت اپنے اوپر قائم کرنا، اُس کی تعلیم پر عمل کرنا اور اللہ اور اُس کے رسول کے حکموں پر عمل کرنا اور کامل اطاعت کرناہے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شرائط کے الفاظ پر اگر ایک حقیقی احمدی غور کرے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرے تو ایک عظیم روحانی انقلاب ہم میں پیدا ہو سکتا ہے، ہم تقویٰ کی راہوں پر چلنے والے ہو سکتے ہیں۔ اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد تھا۔

               آپ فرماتے ہیں کہ:’’مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوںکہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں‘‘۔ (کتاب البریّہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 291-292 حاشیہ)

پس یہ دو مقصد ہیں۔ ایمانوں کو مضبوط کرنا اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق پیدا کرنا کہ ہر ایک کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ہستی، اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایک یقین پیدا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تعلق پیدا ہو جائے۔

                فرمایا:’’ مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علّت غائی ہیں‘‘۔ (کتاب البریّہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 293 حاشیہ)

ایمان کا زمانہ آئے۔ ایمان دلوں میں مضبوط ہو۔ تقویٰ پیدا ہو۔ اور فرمایا یہی میری بعثت کا مقصد ہے۔ یہی  میرے آنے کامقصد ہے۔  پس آپ نے ایک احمدی کے لئے آپؑ کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے جو شرائط بیعت رکھی ہیں، اُن کا مقصدانہی باتوں کا حصول ہے۔

 ہماری عورتیں بھی اور مرد بھی بہت سے ایسے ہیں جو احمدی ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس جائزہ کی ضرورت ہے کہ ایمان کی ترقی اور سچائی کے قیام کے لئے ہم کیا کوشش کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی ہستی کو تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہم نے کس حد تک تسلیم کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر ہم کس حد تک عمل کرتے ہیں؟ تقویٰ کے حصول کے لئے ہمارے قدم کس تیزی سے بڑھ رہے ہیں؟ پس یہ جائزے ہمیں ہماری حقیقی تصویر دکھائیں گے۔ یہ جائزے ہمیں ہمارا حقیقی احمدی ہونا یا نہ ہونا بتائیں گے۔ جوں جوں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے دور جا رہے ہیں، ہمیں اس مقصد کے حصول کے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے، پہلے سے زیادہ کوشش کی ضرورت ہے۔ پس ہمیں ایک مرتبہ احمدی ہو کر یا احمدیوں کے گھر میں پیدا ہو کر، ان کی اولاد ہو کر پھر بے فکر نہیں ہوجانا چاہئے بلکہ شرائط بیعت کو وقتاً فوقتاً سامنے رکھتے رہنا چاہئے۔ اس بات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے شرائطِ بیعت کی چھٹی شرط کا شروع میں ذکر کیا ہے اور اپنے الفاظ میں مختصر بتایا ہے ۔ اس وقت مَیں اس حوالے سے ہی بات کروں گا۔ خاص طور پر مَیں آپ کے سامنے اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ اس شرط بیعت کا جو پہلا حصہ ہے یعنی رسوم ،بدعات اور ہوا وہوس ،عموماً عورتوں کی زیادہ تعداد اپنے طبعی میلان کی وجہ سے ان دو باتوں کی طرف زیادہ جھکتی ہے یا زیادہ رجحان رکھتی ہے جن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں روکا ہے۔ اور وہ جیسا کہ مَیں نے کہا رسموں کے پیچھے چلنا، خواہشات کا شدت سے بڑھنا اور دنیا داری  کی شدت ہے۔ دنیا داری میں بہت سی چیزیں آ جاتی ہیں۔ فیشن کی طرف رجحان ہے اور مقابلے کی وجہ سے پھر خواہشات بھی بڑھتی ہیں جن کی وجہ سے وہ مرد جو گھریلو زندگی میں بدمزگی سے بچنے کے لئے کمزوری دکھاتے ہیں وہ پھر قرضوں میں ڈوب جاتے ہیں اور یوں ایک برائی کے نتیجے میں برائیوں کا اور مشکلات کا ایک سلسلہ گھروں میں شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سے مرد یہ مطلب بھی نہ لیں اور نہ عورتیں پریشان ہوں کہ یہ کمزوری صرف عورتوں میں ہے۔ مَردوں کی ترجیحات ذرا مختلف ہیں ورنہ یہ کمزوریاں مَردوں میں بھی ہیں اور خاص طور پر ہوا و ہوس میں مردوں کی بھی ایک تعداد مبتلا ہے۔ ہواوہوس کا مطلب ہے حرص اور لالچ اور اسی طرح عیاشی جس میں ہر طرح کی عیاشی شامل ہے۔

 کل مَیں نے خطبہ میں اس برائی کا ذکر بھی کیا تھا۔ ننگ دیکھ کر انسان پھر غلاظتوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ بہر حال یہ برائیاں بھی ایسی ہیں جوچاہے مردوں میں ہوں یا عورتوں میں، احمدی معاشرے میں یہ برداشت نہیں ہونی چاہئیں۔ عیاشی کی انتہا نہ بھی ہو تب بھی جہاں تک رسوم و بدعات کا اور حرص اور لالچ کا سوال ہے، یہ ایسی برائیاں ہیں جو گھروں کے سکون کو بھی برباد کرتی ہیں اور معاشرہ کے سکون کو بھی برباد کرتی ہیں۔ پس ایک احمدی عورت کو ان سے بچنا چاہئے۔  رسوم میں آجکل ایک بہت بڑی رسم جس نے بدعت کی شکل اختیار کر لی ہے شادی بیاہ پر بے جا اسراف اور بے انتہا خرچ ہے۔ بعض دفعہ فضول خرچی کی حد تک خرچ ہو جاتے ہیں۔ دلہن کے جوڑوں پر بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں مَیں پہلے بھی اپنے پرانے خطبات میں بڑی تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔مَیں نے سنا ہے کہ تین تین ،چارچار یا پانچ پانچ لاکھ کے جوڑے بنائے جاتے ہیں اور جو بہت کم خرچ کرتے ہیں وہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ کے جوڑے بناتے ہیں جو شاید دلہن ایک یا دو مرتبہ زندگی میں پہنتی ہے۔ مَیں نے لندن میں بھی معلومات لی ہیں۔ وہاں ایک جگہ ساؤتھ آل(Southall) میں دیسی کپڑے بھی ملتے ہیں،مَیں خاص طور پر پاکستانیوں کو مخاطب ہوں تو وہاں بھی دلہن کا  بہت اچھا قیمتی جوڑا چار پانچ سو پاؤنڈ میں مل جاتا ہے جو تب بھی ایک لاکھ تک نہیں جاتا۔ پس اس طرف بھی عورتوں کو توجہ کرنی چاہئے۔ خاص طور پر اُن عورتوں کو، لڑکیوں کو جو زیادہ قیمتی جوڑے بنانے کی بے جا خواہش کرتی ہیں ۔ پھر جب پاکستان سے آئے ہوئے پاکستان جا کر اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں تو بعض خاندان دکھاوے اور فضول خرچی کی انتہا کر دیتے ہیں۔ بَری اور جہیز کا دکھایا جانا بھی ایک رسم بن چکی ہے حالانکہ یہ قطعاً اسلام میں جائز نہیں۔ ہندوستان کے دوسرے مذاہب کے معاشرے کی جو روایتیں تھیں اُن بیہودہ روایتوں کو مسلمانوں نے بھی اپنا لیا ہے۔ اور احمدیوں کو جن سے بچنا چاہئے تھا، احمدی بھی اسی میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ پھر کھانے کھلائے جاتے ہیں تو اس میں بھی کئی کئی قسم کے کھانے پکوا لئے جاتے ہیں جو آدھے سے زیادہ ضائع جاتے ہیں اور فخر یہ ہوتا ہے کہ ہم نے چھ ڈش بنائے، سات ڈش بنائے۔ حالانکہ اسلام میں شادی کا حکم ہے اور دعوت کے لئے دعوت ولیمہ کا حکم ہے۔ لیکن اس سے پہلے مہندی کی رسموں میں بے جا خرچ کیا جاتا ہے۔ کئی کئی دن مہندی کی دعوتیں کی جاتی ہیں۔صرف رشتے دار یا لڑکی کی سہیلیاں اکٹھی نہیں ہوتیں بلکہ باقاعدہ کارڈ چھاپے جاتے ہیں، دوسروں کو دعوت نامے دئیے جاتے ہیں۔ اس قسم کی جو بیہودہ اور بے جا رسمیں ہیں اُن سے ایک احمدی کو، ایک احمدی عورت کو، ایک احمدی خاندان کو، ایک احمدی گھر کو بہر حال بچنا چاہئے کیونکہ یہ سب دکھاوا اور فضول خرچی ہے۔ اس سے صرف خرچ کرنے والوں کی فضول خرچی ہی ثابت نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ یہ بات اُنہیں اس الزام کے نیچے بھی لا رہی ہوتی ہے کہ انہوں نے رسوم و رواج کے طوق اپنی گردنوں میں ڈالے ہوئے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ان رسوم و رواج کے طوق سے آزاد کرنے کے لئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ اور اس زمانے میں اسی کو نئے سرے سے قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ اگر وہی طوق گردنوں میں ڈالنے ہیں تو پھر احمدی ہونے کا کیافائدہ ہے؟ صرف اس لئے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے کہ اپنے ماحول میں، اپنے رشتہ داروں میں، اپنے مقابلے کے لوگوں میں ہماری گردن اونچی رہے۔ یہ نام رہے کہ فلاں کے بڑے اچھے جوڑے تھے۔ اتنا زیور دیا۔ جہیز ایسا تھا۔ بَری ایسی تھی۔ کھانے پر فلاں فلاں ڈش تھے۔ ایسی اچھی اور اعلیٰ دعوتیں ہوئیں۔ تو یہ چیزیں اُن کم توفیق رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں بھی بے چینیاں پیدا کرتی ہیں جو اس حد تک نہیں پہنچ سکتے اورجو اتنے زیادہ اخراجات نہیں کر سکتے۔ گو کہ اُن لوگوں کی، جن کو توفیق نہیں ہے،یہ با ت بھی غلط ہے اور رسم و رواج کی بیجا پیروی ہے جس کے لئے وہ قرض بھی لے لیتے ہیں اور مقروض ہو جاتے ہیں۔ پھر گھروں میں نئے فتنے اور بے چینیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ جس کو جتنی توفیق ہے اُتنا خرچ کرے۔ جس کی توفیق نہیں ہے وہ اپنے سے زیادہ امیر کو نہ دیکھے۔ دکھاوے پر نہ چلے بلکہ اپنے سے کم تر کو دیکھے۔ اور یہی ہمیں اسلام کی تعلیم ہے۔یہی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے کہ نیکیوں میں اپنے سے آگے بڑھے ہوؤں کو دیکھو۔ اگر مقابلہ کرنا ہے تو نیکیوں میں مقابلہ کرو اور نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرو۔اور دنیاوی معاملات میں اپنے سے کم تر یا کم حیثیت کے لوگوں کو دیکھو۔ کم تر تو نہیں کہہ سکتے، مالی لحاظ سے کم حیثیت کے لوگوں کو دیکھو اور پھر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنو کہ جتنا بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اُس کا احسان اور اُس کا فضل ہے۔ اور سب سے بڑا فضل تو اس کا یہی ہے کہ اس زمانے میں، اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے جس نے ہمیں ان بدعتوں اور رسموں سے آزاد کرایا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم پھر اُنہیں میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ بہر حال یہ برائی معاشرے میں ہے کہ ان بے جا خرچ کرنے والوں اور دکھاوا کرنے والوں کو دیکھا جاتا ہے بجائے اس کے کہ اپنے سے کم مالی حیثیت کے لوگوں کو دیکھا جائے۔ اور خاص طور پر وہ جو عزیز رشتے دار بھی ہیں، وہ جب اپنے سے کم مالی حیثیت رکھنے والے عزیزوں کے سامنے دکھاوا کرتے ہیں تو پھر معاشرے میں اور زیادہ بے چینیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بہر حال یہ فضول خرچی کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہئے۔ ایک ایسا شیطانی چکر ہے جو بڑھتا چلا جاتا ہے اور معاشرے کی بے چینیوں کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ بلکہ بعض خاندانوں میں مَیں نے دیکھا ہے اسی دکھاوے اور فضول خرچیوں کی وجہ سے آپس میں رنجشیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان فضول خرچی کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ نہ صرف وہ فضول خرچی کر کے خود اپنے آپ کو اپنی خواہشات کا غلام بنا رہی ہیں یا مرد ہیں تو بنا رہے ہیں بلکہ ایک طبقہ کے لئے بے چینیوں کے سامان بھی کر رہے ہیں۔  جو لوگ صاحب حیثیت ہیں ،جو لاکھوں روپیہ یا ہزاروں ڈالر اپنی یا اپنے بچوں کی شادیوں پر خرچ کرتے ہیں، اگر وہ اتنے کشائش رکھنے والے ہیںاور اگر اتنا خرچ کرنا ہے تو پھر جماعت میں جو غریبوں کا حق قائم کیا گیا ہے اس کو بھی ادا کریں۔ مریم شادی فنڈ ہے، اُس کے نام سے غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے جو مدد دی جاتی ہے پھر اُس میں بھی کھل کر دیں ۔مَیں جانتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کی شادیوں پر اگر بے تحاشا خرچ کر رہے ہیں، انہیںکُھل ہے، کشائش ہے تو دو تین غریب بچیوں کی شادیوں کا بھی خرچ دے دیتے ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ آپ میں سے بہت سی ایسی بھی ہیں جو جماعتی اخراجات کے لئے کوئی بھی تحریک کی جائے تو کھل کر چندے دینے والی ہیں، اپنے زیور تک دے دیتی ہیں، ایک رَتی بھی زیور اپنے پاس نہیں رکھتیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ذاتی خواہشات کی تکمیل اور مقابلہ کرنے والی بھی بہت سی ہیں۔ مَردوں میںبھی ہیں، عورتوں میں بھی ہیں جو اپنے اوپر تو خرچ کرتی ہیں یا کرتے ہیں، جو بھی صورت ہو لیکن دوسرے کا خیال نہیں ہے۔

پس اگر آپ میں سے ہر ایک اپنی شادیوں پر اخراجات کا 1/10 غریبوں کی شادیوں کے لئے دیں تو پھر یقینا آپ اُن لوگوں کی فہرست میں آ جائیںگی جو رسم اور دکھاوے کے پیچھے چلنے والی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعام  کا شکر ادا کرنے والی ہوں گی جو کشائش کی صورت میں آپ کو ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے انعام سے فائدہ اُٹھاناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جو میں نے تمہیں دیا ہے اُس کا اظہار بھی ہونا چاہئے لیکن اظہار اُس حد تک ہونا چاہئے جو اعتدال کے اندر ہو۔ اظہار اُس حد تک ہونا چاہئے جہاں آپ کو اپنے غریب بھائیوں کا بھی خیال رہے، بہنوں کا بھی خیال رہے۔ شادی کے ان موقعوں پر اُن غریب دلہنوں کا بھی خیال رہے جن کو مثلاً رخصتی کے وقت مشکل سے دو جوڑے ملتے ہیںیا جن کو رخصتی کے وقت شاید ایک تولہ سونے کا زیور بھی میسر نہیں آتا۔ جن کو پھر انہی باتوں سے سسرال میں جا کے جہیز کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ پس اگر آپ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے کشائش دی ہے، اُن کا خیال رکھیں گی تو یہی کشائش آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کا مورد بنائے گی۔ پس اس طرف بھی ہر ایک کو خیال رکھنا چاہئے۔ اگر احمدی عورتیں چاہیں تو مردوں کو قائل کر سکتی ہیں کہ ہمیں خدا کی رضا کے حصول کے لئے غریبوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ اس لئے کسی عورت کایہ عذر نہ ہو کہ ہمارے مرد نہیں مانتے۔ یقینا بعض ایسے مرد ہیں جو سخت دل ہیں، جو صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا جانتے ہیں، جو اپنی بیویوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے لیکن اکثریت ایسی نہیں ہے۔ اگر عورتیں چاہیں تو مردوں کو قائل کر سکتی ہیں۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کا یہاں آنا اور مالی لحاظ سے بہتر ہونا، کشائش پیدا ہونا، آپ کی کسی خوبی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ احمدیت کی وجہ سے ہے۔ آپ پر جو مظالم ہوئے اور پھرایک بہت بڑی تعداد اس لئے یہاں آئی کہ اُن پر پاکستان میں مظالم ہوئے، یا وہ اُن ظلموں کے خوف سے یہاں آ گئے تو یہ احسان جو مالی کشائش کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر کیا ہے یہ احمدیت کی وجہ سے ہے۔ اس کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ پس یہ احسان اگر آپ یاد رکھیں گی تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزار بندی بھی بنی رہیں گی۔ بہت سوں کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہی نواز دیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنیں۔ رسم و رواج اور ہواوہوس کے پیچھے چلنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کریں۔ یہ رسم و رواج میں سے ایک مثال ہے جو مَیں نے دی ہے۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں اگر آپ خود غور کریں تو آپ کو نظر آئیں گی کہ آپ لوگ بعض رسموں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اگر آپ جائزے لیں تو یہ جائزے لے کر آپ اپنی زندگیوں میں خود ہی بہتری پیدا کر سکتی ہیں۔ نوجوان بچیوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ آپ بھی اپنے جائزے لیں۔ دیکھیں کہ کون کون سی باتیں ہیں جو آپ نے معاشرے کے زیرِ اثر یہاںاپنا لی ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہر قوم اور ملک کی اچھی باتیں ہوتی ہیں اور بری باتیں بھی ہوتی ہیں۔ ایک مومن اور مومنہ وہ ہے جو ہر ایک اچھی بات کو اپنائے اور جو برائیاں ہیں اُنہیں ردّ کر دے۔

 پس ان ملکوں میں آ کر یہ نہ سمجھیں کہ یہ ترقی یافتہ ملک ہے اور ان کی ہر بات اچھی ہے یا اس ملک کے پاس  ایسے رسم و رواج ہیں جنہیں اپنانا ہمیں ضروری ہے۔ ایک اصول یاد رکھیں کہ کسی بھی بات کو اپنانے سے پہلے یہ دیکھیں کہ کسی احمدی لڑکی اور عورت کے تقدس پر حرف نہ آتا ہو، اُس کی عزت و عصمت پر حرف نہ آتا ہو۔ اُس کی ایک احمدی ہونے کی جو پہچان ہے اُس پر حرف نہ آتا ہو۔ ایک احمدی عورت کو، ایک احمدی بچی کو، ایک احمدی لڑکی کو بہر حال دوسروں سے مختلف ہونا چاہئے تاکہ آپ دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکیں۔ اس لحاظ سے کہ آپ کی نیکیاں مشہور ہوں۔ اس لحاظ سے کہ آپ احمدیت کا پیغام پہنچانے والی بن سکیں۔ پس اس معاشرے کی ہر بات اپنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو اچھائیاں ہیں وہ لیں اور جو برائیاں ہیں اُن کو سختی سے ردّ کریں۔ ہمیشہ یہ خیال رکھیںکہ اسلام کی واضح تعلیم سے کسی بھی قسم کی رسم یا روایت نہ ٹکراتی ہو۔ اور آپ نے جو عہدِ بیعت باندھا ہے، اس پر حرف نہ آتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا عہدوں کے بارے میں بڑا واضح ارشاد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۔ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل:35)  ۔اور اپنے عہد کو پورا کرو۔ ہر عہد کے بارے میں یقینا جواب طلبی ہو گی۔

پس ہر احمدی عورت ، مرد، جوان اور بوڑھے کا یہ عہد ہے کہ وہ شرائطِ بیعت کو پورا کرنے کا عہد کرتا ہے۔ پس اپنے عہد کو پورا نہ کرنے والے یا حتی المقدور اُس کوپورا کرنے کی کوشش نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ہاں جوابدہ ٹھہر سکتے ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت بے پایاں ہے۔ اُس کی کوئی حد نہیں ہے اور اس نے ہر چیز کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔  اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع تر ہے۔ وہ مالک ہے، گنہگار سے گنہگار کو بھی بخش سکتا ہے۔ لیکن ہمیشہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بے نیاز بھی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش انتہائی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہی بھٹکے ہوئے کوسیدھا راستہ دکھانا اور سیدھا راستہ دکھا کر خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کروانا تھا۔ اگر دنیا کی چکا چوند اور رسوم، اسلام کی تعلیم سے دور کرنے والی روایات، ہواوہوس ہمیں اس مقصد کے حصول میں کامیاب نہ ہونے دیں بلکہ اس سے دور کرتی چلی جائیں تو یہ اپنے عہدوں کو توڑنے والی بات ہے، اپنے عہدوں کو پورا نہ کرنے والی بات ہے۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ رسموں کے پیچھے چلنے سے بچنے اور ہواوہوس سے باز رہنے کے لئے جو معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پیروی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی پیروی ہے اور اس حد تک پیروی ہے کہ ہر عمل اس کے تابع کرنے اور اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی جائے۔ خواہشات کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوٰہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہِ ( القصص:51) اور اُس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو نظر انداز کر کے اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو گمراہوں میں شمار کرتا ہے جو اپنی خواہشات کی پیروی کر کے گمراہی کی انتہا تک پہنچنے والے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ گمراہی کی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔

میں آپ کو یہاں یہ یاددہانی بھی کروانا چاہتا ہوں کہ پردہ اسلامی حکموں میں سے ایک حکم ہے۔یہاں جو انگریزی دان بچیاں اور عورتیں ہیں اُن کو اگر اُردو میں وضاحت نہیں ہوتی تو گزشتہ ہفتہ ہی مَیں نے لجنہ اماء اللہ امریکہ کو یا امریکہ کے جلسہ میں خواتین کے حصے میں انگریزی میں مخاطب کر کے جو پیغام دیا ہے، اُسے سن لیں۔ آج کل تو ہر انگریزی دان کے پاس انٹرنیٹ موجود ہے بلکہ ایم ٹی اے کی سہولتیںبھی اب تو ہر جگہ مہیا ہو گئی ہیں، فون پر بھی آپ سن سکتے ہیں۔ اس لئے عذر نہیں ہونا چاہئے کہ مشکل ہے، سنا نہیں گیا، وقت نہیں تھا۔ کسی وقت بھی آپ سن سکتی ہیں اور لجنہ کینیڈا کی جو انتظامیہ ہے اُن کو بھی مَیں کہتاہوں کہ اُسے لکھوا کر، ٹرانسکرائب کروا کر انگریزی پڑھنے والی ممبرات تک پہنچائیں۔ بہر حال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ پردہ ایک ایسا اسلامی حکم ہے جس کی وضاحت قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ اس لئے یہاں کے ماحول کے زیرِ اثر اپنے حجاب اور کوٹ نہ اتار دیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض خواتین صرف پتلا دوپٹہ لے کر سڑکوں پر آ جاتی ہیں۔ یہ پردے کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے۔ بعضوں کے بازو ننگے ہوتے ہیں۔  اکثر کے کوٹ جو ہیں گھٹنوں سے اوپر ہوتے ہیں۔ فیشن کی طرف رجحان زیادہ ہے اور پردہ کی طرف کم۔ پردہ کریں تو اس سوچ کے ساتھ کریں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حیا اسلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب الحیاء من الایمان حدیث 24)

عورت کی حیا، اُس کا وقار، اُس کا تقدس ، اُس کا رکھ رکھاؤ ہے۔اس چیز کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ اور یہ پردہ کی طرف بے اعتنائی یا توجہ نہ دینا ہی ہے کہ اس وقت بھی مَیں نے دیکھا ہے کہ ہال میں بہت ساری خواتین داخل ہوئی ہیں جن کے سر ننگے تھے۔ جلسے کے لئے آ رہی ہیں۔ جلسے کے ماحول کے لئے آ رہی ہیں۔ جلسہ سننے کے لئے آ رہی ہیں۔ ذہنوں میں یہ رکھ کر آ رہی ہیں کہ ایک پاکیزہ ماحول میں ہم جا رہی ہیں اور وہاں بھی بال کھلے ہیں اور بالوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ایک طریقہ ہے کہ سر پر دوپٹہ نہ لیا جائے، چادر نہ لی جائے اور ننگے سر رہیں۔ اگر یہ ننگے سر رکھنے ہیں تو پھر جلسے پر آنے کا مقصد کیا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ گھر بیٹھی رہیں اور اپنے گردجو دوسری اکثریت ان عورتوں کی ہے جن کے سر ڈھکے ہوئے ہیں اُن کو بھی بے حجاب نہ کریں۔

               پس اس طرف ضرور توجہ دیں کہ اپنی حیا کی آپ نے حفاظت کرنی ہے۔حیا ہی ایک عورت کا زیور اور سنگھار ہے۔ آپ کے میک اَپ سے زیادہ آپ کی حیا آپ کا زیور ہے، آپ کا سنگھار ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ اگر ہم پردہ میں رہیں گی تو اس معاشرہ میں ہم گھل مل نہیں سکتیں۔ یہ بالکل غلط چیز ہے۔ بہت ساری ایسی ہیں بلکہ اچھے پروفیشن میں ہیں جن کو مَیں جانتا ہوں کہ وہ اپنے کاموں کے دوران بھی لمبے کوٹ پہن کے اور حجاب پہن کے جاتی ہیں۔ کم از کم کوٹ کے ساتھ حجاب کے ذریعہ اپنا سر، اپنے سر کے بال اور ٹھوڑی ڈھانکنا ضروری ہے بشرطیکہ میک اَپ نہ ہو۔ اور اگر میک اَپ کے ساتھ باہر نکلنا چاہتی ہیں تو پھر منہ ڈھانکا ہونا چاہئے۔ اسی طرح بلا وجہ مَردوں کے ساتھ میل جول، غیر ضروری باتیں کرنا یہ بھی اسلام نے منع کیا ہے۔اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف ابھی توجہ نہ رہی تو پھر یہ بڑھتی چلی جائیں گی اور پھر وہی معاشرہ قائم ہو جائے گا جومغرب میں اس وقت بے حیائی کا معاشرہ قائم ہے۔

پس قرآنِ کریم کے کسی بھی حکم کو کم نظر سے نہ دیکھیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ پرانے وقتوں کا حکم ہے یا صرف پاکستان اور ایشیاء کے ممالک کے لئے حکم ہے۔ یہ اسلام کا حکم ہے اور ہر زمانے کے لئے ہے، ہر ملک کے لئے ہے، ہر ملک کی احمدی مسلمان عورت کے لئے ہے۔ میں بار بار مختلف جگہوں پر اس کی طرف توجہ اس لئے دلاتا ہوں کہ یہ کمزوری بڑھتی جا رہی ہے اور اگر یہی حال رہا تو پھر آئندہ جو ہماری نسلیں ہیں ان کی حیا کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔وہ پھر اسی طرح کھلے بال اور جین بلاؤز پہن کے، منی سکرٹیں پہن کر باہر جائیں گی اور پھر وہ احمدی نہیں کہلا سکتیں۔ پھر وہ احمدیت سے بھی باہر جائیں گی۔

 پس اس بات کا احساس کریں اور بے حجابیوں میں اور ہواوہوس میں ڈوبنے سے بچیں ورنہ آئندہ نسلوں کی، حیا کے تقدس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خیر چاہتی ہیں تو حیا کی بہت حفاظت کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایاکہ حیا سب کی سب خیر ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان عدد شعب الایمان… حدیث157)

 پس اپنے ہر عمل میں خیر تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ اُس نے اس زمانہ میں آپ کو زمانہ کے امام کے ساتھ جوڑا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے راستے ہمیں کھول کر بتائے ہیں۔ اپنی ہر حرکت، قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کا خوف ہر ذاتی خواہش پر حاوی کریں۔ اگر یہ ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بھی وارث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کے مزید راستے آپ کے لئے کھلیں گے اور کھلتے چلے جائیں گے۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے ہر عمل کو ڈھالیں گی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت دوڑ کر آپ کو گلے لگائے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنی طرف ایک قدم چل کر آنے والے کی طرف دو قدم بڑھتا ہے اور چل کر آنے والے کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء… باب الحث علیٰ ذکر اللہ تعالیٰ حدیث 6805)

بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی طرف آنے والے شخص کی طرف دیکھ کر اُس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جو ایک ماں کو اپنا گمشدہ بچہ ملنے کی خوشی ہوتی ہے۔ (سنن الترمذی۔ کتاب ا لدعوات۔ صحیح مسلم کتاب التوبۃ باب فی سعۃرحمۃ اللہ)

 پس ہماری کتنی بدقسمتی ہو گی اگر ہم ایسے پیار کرنے والے خدا کو بھول جائیں، اُس کی باتوں پر کان نہ دھریں اور دنیا کی خواہشات کے پیچھے پڑے رہیں یا دنیا کے اس خوف سے کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے کہ اس کا لباس کیسا ہے؟ یا اس کا لباس ہمارے مطابق نہیں ہے یا اتنی بَیک ورڈ (Backward)ہے کہ پردہ کرتی ہے، حجاب لیا ہوا ہے، بڑی جاہل ہے، لڑکوں سے دوستی نہیں کرتی یا ایسے پرانے زمانے کی دقیانوسی ہے کہ اُس نے فلاں فلاں فلم بھی نہیں دیکھی۔  پس دنیا کو جو دنیا چاہتی ہے کرنے دیں اور کہنے دیں۔ آپ اپنے پیار کرنے والے خدا کی تلاش کریں۔ اور جو خالص ہو کر اُس کی تلاش کرتا اور اُس کی طرف جھکتا ہے پھر وہ ایسے شخص کو جنت کے انعامات سے نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی ۔فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی (النٰزعٰت:42-41) اور وہ جس نے اپنے ربّ کی شان سے خوف کیا اور اپنے نفس کو گری ہوئی خواہشات سے روکا، یقینا جنت ہی اُس کا ٹھکانہ ہے۔ پس یہ ہے ہمارا خدا جو اپنے بندے کو اس قدر نوازتا ہے کہ جنت واجب کر دیتا ہے اور پھر یہی نہیں کہ مرنے کے بعد ہی جنت ہو گی بلکہ دوسری جگہ فرمایا کہ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(الرحمن : 47)۔ اور جو شخص اپنے ربّ کی شان سے ڈرتا ہے اُس کے لئے اس دنیا میں بھی اور اخروی بھی دو جنتیں مقرر ہیں۔ پس کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس دنیا کی دلچسپیاں، فیشن، خواہشات کا پورا کرنا ہی اصل زندگی ہے۔ نہیں ،یہ اصل زندگی نہیں ہے۔نہ ہی یہ باتیں اطمینانِ قلب کا باعث بنتی ہیں۔ کئی لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو ان دنیاوی باتوں کی تلاش میں اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں، ضائع کر چکے ہیں لیکن اُن کو سکونِ دل حاصل نہیں ہوا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو میرے سے ڈرتے ہیں، میرے حکموں پر عمل کرتے ہیں، برائیوں اور بدخواہشات کو چھوڑتے ہیں، نیکیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہ صرف اخروی زندگی میں جنت پائیں گے بلکہ اس دنیا میں بھی اُن کے لئے سکونِ دل کے سامان مقرر ہو ںگے۔ اُن کی زندگی اس دنیامیں بھی جنت بن جائے گی۔ اُن کے گھروں میں سکون ہو گا۔ اُن کے بچے اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائیں گے اور اگر مائیں خود غرض نہ ہوں توبچوں کا آنکھوں کی ٹھنڈک بننا ایک ماں کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اُس کے واسطے دو بہشت ہیں‘‘۔( دو جنّتیں ہیں)’’یعنی ایک بہشت تو اسی دنیا میں مل جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اُس کو برائیوں سے روکتا ہے اور بدیوں کی طرف دوڑنا دل میں ایک اضطراب اور قلق پیدا کرتا ہے جو بجائے خود ایک خطرناک جہنّم ہے۔ لیکن جو شخص خدا کا خوف کھاتا ہے تو وہ بدیوں سے پرہیز کرکے اس عذاب اور درد سے تودم ِ نقد بچ جاتا ہے‘‘ (یعنی فوری طور پر بچ جاتا ہے) ’’جو شہوات اور جذباتِ نفسانی کی غلامی اور اسیری سے پیدا ہوتا ہے اور وہ وفاداری اور خدا کی طرف جھکنے میں ترقی کرتا ہے جس سے ایک لذّت اور سرور اُسے دیا جاتا ہے اور یوں بہشتی زندگی اِسی دنیا سے اُس کے لیے شروع ہو جاتی ہے اور اسی طرح پر اس کے خلاف کرنے سے جہنّمی زندگی شروع ہو جاتی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 114۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

               نیکیاں کرو گے تو بہشتی زندگی ہے۔ نہیں کرو گے تو جہنمی زندگی۔

  پس وہ کتنے خوش قسمت ہیں جو ہوا و ہوس کو چھوڑ دیں اور خدا تعالیٰ کے مقام کی پہچان کر کے اپنی زندگیوں کو اس دنیا میں ہی جنت بنا لیں۔ یقینا ہم میں سے ہر ایک یہ چاہے گا کہ وہ دنیا و آخرت دونوں کی جنت کا وارث بنے۔ جب یہ خواہش ہے تو پھر دنیاوی خواہشات، رسوم اور بدعات کو چھوڑ کر ہی یہ مقام مل سکتا ہے۔ اس کے لئے ایک مجاہدہ اور کوشش کی ضرورت ہے جو ہر احمدی کو کرنی چاہئے۔ اطاعت کے کامل نمونے دکھانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر باوجود خواہش کے آپ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل نہیں کر سکتے، اور کوئی شخص بھی حاصل نہیں کر سکتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ :’’جب تک انسان سچا مجاہدہ اور محنت نہیں کرتا وہ معرفت کا خزانہ جو اسلام میں رکھا ہوا ہے اور جس کے حاصل ہونے پر گناہ آلود زندگی پر موت وارد ہوتی ہے ،انسان خد ا تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور اس کی آوازیں سنتا ہے، اُسے نہیں مل سکتا……‘‘۔ فرمایا ’’یہ تو سہل بات ہے کہ ایک شخص متکبرانہ طور پر کہہ دے کہ مَیں اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہوں اور باوجود اس دعوی کے، اس ایمان کے آثار اور ثمرات کچھ بھی پیدا نہ ہوں‘‘۔ اگر ایمان ہے تو اُس کے آثار نظر آنے چاہئیں۔ پاک تبدیلیاں نظر آنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق نظر آنا چاہئے۔ پھر فرمایا’’ یہ نری لاف زنی ہوگی‘‘۔ صرف منہ کی باتیں ہیں۔ صرف بڑھ بڑھ کر بولنا ہے۔ یہ ایمان نہیں ہے۔ فرمایا’’ ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ کی کچھ پرواہ نہیں کرتے اور اﷲ تعالیٰ بھی ان کی پرواہ نہیں کرتا‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 344-345 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

 پس اگر ایمان کا دعوی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے حقیقت میں عہدِ بیعت باندھا ہے تو ہماری حالتوں میں ایک پاک تبدیلی نظر آنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے جب احکامات بتائے جائیں تو اُن کو سن کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے، نہ کہ اندھوں اور بہروں کی طرح سنا اور دیکھا اور چلے گئے۔ اطاعت کا وہ مقام اختیار کیا جائے جہاں مکمل طور پر اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے تابع کر دیا جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے‘‘۔ (الحکم مؤرخہ 10فروری 1901ء جلد 5نمبر 5 صفحہ 1)

بلکہ آپ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر اطاعت اعلیٰ درجہ کی ہو تو پھر مجاہدات کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ اطاعت ہی انسان کو اُس مقام تک لے جاتی ہے جہاں بہت سے مجاہدات لے کر جاتے ہیں۔

(ماخوذ از الحکم مؤرخہ 10فروری 1901ء جلد 5نمبر 5 صفحہ 1)

جب عہدِ بیعت باندھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت سے بھی اطاعت کا عہد کیا ہے تو پھر خلیفہ وقت کی باتیں سن کر اُن پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، نہ کہ بہروں کی طرح بات سنی اور چلے گئے جس طرح کہ سنی ہی نہ ہو۔ اور یہی سچی اطاعت ہے جو ہر احمدی کے لئے کرنی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ’’ سچی اطاعت بہت مشکل کام ہے، کیونکہ اپنے نفس کی تمام خواہشات کو ذبح کرنا پڑتا ہے‘‘۔

(ماخوذ از الحکم مؤرخہ 10فروری 1901ء جلد 5نمبر 5 صفحہ 1)

پس اگر آپ نے سچی بیعت کی ہے تو اپنی تمام خواہشات کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں کے تابع کریں اور خلافت سے وفا اور اطاعت بھی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ پس جب بھی خلیفۂ وقت کسی امر کی طرف توجہ دلائے تو اس کی پابندی کرنے کی کوشش کریں۔ جب یہ حالت ہو گی تو نہ صرف ذاتی فائدے آپ حاصل کرنے والی ہوں گی بلکہ جماعتی ترقی میں بھی آپ حصے دار بن جائیں گی۔

بعض اور امور کی طرف بھی توجہ دلا دیتا ہوں۔ ہر احمدی مسلمان کے لئے دو مزید باتیں ہیں جن کا حکم قرآنِ کریم میں بھی ہے ۔ ایک تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف اس ماحول میں بہت زیادہ توجہ دیں۔ صرف یہ نہ سمجھیں کہ جماعتی نظام یا ذیلی تنظیمیں جو ہیں اس بات کی ذمہ دار ہیں۔ سب سے زیادہ آپ ذمہ دار ہیں۔ جماعت کی اور قوم کی امانت آپ کے سپرد کی گئی ہے اور اس امانت کا حق اُس کی نیک تربیت اور نگرانی کر کے ہی ادا ہو سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ  کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ   کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تمہارے سپرد ذمہ داریاں کی گئی ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن حدیث 893)

تم میں سے ہر ایک اپنی نگرانی کے دائرے کے بارے میں اور اس ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس عورت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کی نگرانی کرے۔ بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دے۔ یہ نہیں کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے، پیسے کمانے کے لئے سارا دن گھر سے باہر رہے اور جب بچے شام کو سکول سے گھر واپس آئیں تو اُنہیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔ گھر میں جب اُن کو ماں کی توجہ کی ضرورت ہو تو مائیں یا گھر میں نہ ہوں یا اپنے کام سے تھکی ہوئی آئیں اور بچوں پر توجہ نہ دیں۔ تو ایک طرف تو یہ بچوں کی صحیح نگرانی نہ کرنا ہے، اُن کی تربیت کا خیال نہ رکھنا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَقْتُلُوۡٓا اَوۡلَادَکُم خَشۡیَۃَ اِمۡلَا قٍ (بنی اسرائیل:32)   کہ مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ پھر آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اُنہیں بھی رزق دیتا ہوںاور تمہیں بھی رزق دیتا ہوں۔ اب مفلسی تو ایک طرف رہی، یہ تو بہت دور کی بات ہے، بعض عورتیں صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے نوکری کرتی ہیں کہ ہمارے خاوند ہماری جو ضرورتیں ہیں، جو خرچے ہیں وہ پورے نہیں کرتے۔ اگر تو خاوند جائز ضرورتیں پوری نہیں کرتے تو خاوند گنہگار ہیں۔وہ بہر حال اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے۔ اور اگر ناجائز ضرورتیں ہیں تو ایسی عورتوں کو اُن کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے اور پھر زائد پیسے کمانے کی خواہش نہیں کرنی چاہئے۔ بعض عورتیں صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے نوکری کرتی ہیں اور پھر بچوں پر توجہ نہیں دیتیں۔ بعض گھروں کے بچے اس لئے بگڑے کہ ماؤں کی توجہ نہیں تھی جس کا احساس پھر بعد میں اُن کو ہوتا ہے۔ بعض عورتوں کی مجبوری ہے اُن کو کام کرنا پڑتا ہے وہ بالکل اور چیز ہے لیکن صرف زیادہ پیسہ کمانے کی لالچ میں عورتیں بھی کام کرتی ہیں اورمَرد بھی اُنہیں مجبور کرتے ہیں۔ بعض مرد ایسے ہیں۔ اس قسم کے مَرد بھی غلطی خوردہ ہیں۔ گھر کا نظام چلانا، گھر کے اخراجات پورے کرنا ،  بیوی کے بھی اخراجات پورے کرنا اور بچوں کے بھی اخراجات پورے کرنا یہ مَردوں کا کام ہے۔ وہ اگر نگرانی کا حق ادا نہیں کر رہے تو وہ بھی پوچھے جائیں گے، وہ اس سے خالی نہیں۔لیکن اگر عورتیں صرف مفلسی کے نام نہاد خوف اور خواہشات کی تکمیل کے لئے گھروں سے باہر رہ رہی ہیں اور بچوں کا حق ادا نہیں کر رہیں تو وہ اپنے بچوں کو قتل کر رہی ہیں۔ پس اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جب بچے جوان ہوتے ہیں گو وہ گھر سے باہر رہتے ہوں لیکن جب گھر میں آتے ہیں تب بھی اُن کی حرکات و سکنات کو دیکھنا ماؤں کا کام ہے۔ اور پھر وہ باپوں کو بھی بتائیں، کیونکہ اکثر باپ جو ہیں وہ توکام کی وجہ سے گھروں سے باہر رہتے ہیں۔ جن ماؤں کو مجبوری سے کام کرنا پڑے، اُنہیں بھی اس طرح کام کرنا چاہئے کہ بچوں کے سکول سے آنے سے پہلے گھر میں ہوں اور پھر بچوں کو بھی وقت دیں۔  اسی طرح بچوں کی دینی تربیت کی طرف بھی توجہ دیں۔ یہ دیکھیں کہ بچے نمازیں پڑھ رہے ہیں کہ نہیں۔ یہ دیکھیں کہ بچے قرآنِ کریم پڑھ رہے ہیں کہ نہیں؟ اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ماں اور باپ دونوں نمازوں اور قرآنِ کریم پڑھنے میں باقاعدہ نہیں ہوں گے۔ آپ کی نصیحت کا اثر اُسی وقت ہو گا جب آپ کے عمل اُس کے مطابق ہوں گے۔ اگر آپ کے عمل اُس کے مطابق نہیں تو آپ لاکھ نصیحتیں کرتی چلی جائیں ، اُس کا کوئی رتّی بھر بھی اثر نہیں ہوگا۔

 پھر بچوں کو جماعت سے، خلافت سے اس طرح منسلک کریں،کہ اُن کے نزدیک سب سے زیادہ اہم چیز خلافت سے وابستگی ہو جائے۔ اور جب یہ ہو گا تو آپ یقین رکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی آئندہ نسلوں کی دین پر قائم رہنے کی اور دنیا میں ڈوب کر تباہ و برباد ہونے سے بچنے کی ضمانت آپ کو مل جائے گی۔ اس ضمن میں پھر ایک دوسری ا ہم بات جو آج مَیں عورتوں کو کہنی چاہتا ہوں وہ تبلیغ کی طرف توجہ دینے کی ہے ۔ تبلیغِ دین کا کام بھی عورتوں کو کرنا چاہئے۔ یہ نہ سمجھیں کہ صرف مردوں کا کام ہے۔ اس کے لئے پہلے اپنا دینی علم بڑھائیں۔ اگر آپ کو اپنا علم نہیں ہو گا تو دوسروں کو کیا دیں گی۔ قرآنِ کریم سے سیکھیں ۔جماعت کالٹریچر پڑھیں۔ لجنہ کی چند ایک ممبرات کی تبلیغ سے یا بڑی جماعتوں میں سودو سو لجنہ کی ممبرات سے تبلیغ کے کام نہیں انجام دئیے جائیں گے۔ ہر ممبر کو اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہر ایک کو اپنا علم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہاں رہنے والی تمام احمدی خواتین کو کسی نہ کسی رنگ میں اپنے آپ کوتبلیغی سرگرمیوں میں شامل کرنا چاہئے۔ چاہے وہ لٹریچر کی تقسیم ہے، لیف لیٹنگ ہے۔ ذاتی رابطے ہیں۔ عورتوں سے لڑکیوں سے رابطے کریں، مردوں سے نہیں۔ اُن تک پیغام پہنچائیں اور بعض دفعہ بعض گھر ایسے ہیں مَیں جانتا ہوں، کئی عورتیںنئی احمدی ہوئی ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ عورتوں کے ذریعے سے، اپنی سہیلیوں کی وجہ سے اُن کو احمدیت کا پتہ لگا اور انہوں نے احمدیت قبول کی۔ گھروںمیں اُن کے خاوندوں نے یا اُن کے والدین نے مخالفت کی لیکن وہ بڑی ثابت قدمی سے قائم رہیں اور آہستہ آہستہ اپنے خاندان والوں کو بھی جماعت میں شامل کر لیا۔

آپ لوگ واقعات پڑھتی ہیں، تقریریں سنتی ہیں کہ عورتوں نے یہ کام کیا، اسلام کی قرونِ اولیٰ میں یہ کام کیا یا اس زمانے میں عورتوں نے فلاں کام کیا ۔لیکن یہ باتیں صرف دلچسپی لینے کے لئے نہیں ہیں بلکہ آپ کو اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں کہ آپ میں سے بھی ہر عورت کو یہ کام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ واقعات میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ سے ایک وفد یہ کہنے کے لئے حاضر ہوا تھا کہ آپؐ مدینہ ہجرت کر جائیں تو اس میں ایک عورت بھی شامل تھی اور اس نے بڑی شدت سے اس بات پر زور دیا اور بعد میں جو اسلام کی جنگیں ہوئیں یا جب بھی ضرورت پڑی تو وہ عورت ہمیشہ اپنی خدمات پیش کرتی رہی۔ اپنے بچے اُس نے اسلام کے جہاد کے لئے پیش کئے اور اُن کو قربان کیا۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 8صفحہ 441-442 ’’ام عمارۃ‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)

تو عورتیں بہت بڑے بڑے کام کرتی رہی ہیں اور اب بھی کرتی ہیں۔ لیکن اُن کے قصے سن کر ہمیں صرف اسی بات پر اکتفا نہیں کر لینا چاہئے بلکہ خود بھی اس سوچ کے ساتھ اپنے منصوبے اور پروگرام بنانے چاہئیں کہ ہمارا بھی کام ہے کہ ہم جو ادھر اُدھر وقت ضائع کرتی ہیں، اپنے وقت کو اس طرح سنبھالیں، اس طرح ترتیب دیں کہ ہمارے وقت میں سے ہفتہ میں کچھ نہ کچھ، کوئی نہ کوئی وقت تبلیغ کے لئے ضرور نکلے اور ذاتی رابطے کریں، دوستیاں کریں۔لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا عورتوں کا یہی کام ہے کہ عورتوں میں تبلیغ کریں۔ اللہ کرے کہ آپ میں سے ہر ایک حقیقی اور سچی روح کے ساتھ قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والی بن جائے۔ ایک احمدی عورت کا تقدس اور وقار آپ کی ہر خواہش پر حاوی ہو جائے۔آپ کی گود سے احمدیت کے وہ فدائی نکلیں جو ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں اور دنیا میں ایک انقلاب لانے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں